پہلے ایک تجربہ۔ آپ اسی کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہے ہیں۔ آپ نے بائیں لین سے گاڑی کو دائیں لین میں لے کر آنا ہے۔ اپنے ہاتھ اپنے سامنے یوں پھیلا لیں جیسے سٹیرنگ کو پکڑا ہو۔ اب آنکھ بند کر کے لین کو بدلیں۔ اپنے ہاتھ کی حرکت کو نوٹ کریں۔
کر لیا؟ نہیں، تو پھر رکیں اور یہ تجربہ کریں۔
کیا آپ نے اپنے ہاتھوں سے پہلے سٹیرنگ کو بائیں طرف موڑا تھا؟ اس کے بعد سٹیرنگ کو سیدھا کر لیا تھا؟ اگر ہاں تو پھر آپ گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھا چکے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اس تجربے میں ایسے ہی کرتے ہیں لیکن گاڑی چلاتے وقت نہیں۔
لین بدلتے وقت پہلے سٹیرنگ کو بائیں طرف گھمایا جاتا ہے۔ لین بدلتے کے بعد اتنا ہی اس کے مخالف یعنی دائیں طرف اور پھر سیدھا کیا جاتا ہے۔ آپ کا دماغ اس کو جانتا ہے لیکن آپ نہیں۔ دماغ کا یہ حصہ پروسیجرل میموری ہے۔
اس پر بچوں کیلئے ایک حکایت جو اسے درست طریقے سے بیان کرتی ہے۔
“ایک کنکھجورا چلا جا رہا تھا۔ ایک مینڈک کو شرارت سوجھی۔ اس نے کنکھجورے سے پوچھا کہ یہ بتاوٗ کہ پہلے کونسا پیر اٹھاتے ہو، اس کے بعد کونسا، اس کے بعد کونسا؟ اب سوچ میں پڑا کنکھجورا ایک گڑھے میں الٹا پڑا ہے۔ وہ چلنا ہی بھول گیا ہے”
ومبلڈن ٹینس کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ ہے۔ فرض کیجئے کہ آپ اس کے لئے کوالیفائی کر گئے ہیں۔ آپ کا پہلا میچ ایک روبوٹ سے ہے۔ ایک ایسا روبوٹ جس کے پارٹس انتہائی چھوٹے ہیں لیکن بہت ہی زبردست تال میل سے کام کرتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو خود مرمت بھی کر لیتا ہے۔ یہ توانائی کا اس قدر کم استعمال کرتا ہے کہ صرف تین سو ملی گرام ہائیڈروکاربن کے ایندھن پر یہ کسی پہاڑی بکرے کی طرح پورا میچ کورٹ میں اچھلتا کودتا رہتا ہے۔ یہ روبوٹ ایک سخت حریف ہے کیونکہ ومبلڈن میں یہی روبوٹ کھیلتے ہیں۔ آپ کا مقابلہ ایک انسان سے ہے۔ نوے میل فی گھنٹہ سے آتی گیند تک لپک کر پہنچ جاتا ہے اور ایک چھوٹی سی تاروں والی سطح سے اس کو ضرب لگا کر ٹھیک رفتار اور زاویے سے اس کو کورٹ کی دوسری طرف پہنچا دیتا ہے۔ یہ سب گاڑی چلاتے وقت لین بدلنے والے خودکار سرکٹس کی طرح ہو رہا ہے۔ ان کھلاڑیوں کو خود اس کا علم نہیں۔ عملی طور پر یہ روبوٹ ہی ہیں۔
اس کھلاڑی کا اپنا اس میں کیا حصہ ہے؟ یہ اپنے ان سرکٹس کی ٹریننگ کروا سکتے ہیں۔ ایک نئے کھلاڑی کو اپنی اس روبوٹکس کو جاننے کی ضرورت نہیں۔ اس کو پروگرام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مشینری کے لچکدار حصے میں وہ پروگرام ڈالنے کی ضرورت ہے جو اس پیلی گیند کو ٹھیک طریقے سے ضرب لگا سکے۔ اس جگہ پر اس کھلاڑی کا اہم کردار ہے۔ ٹریننگ کے دوران اپنے کوچ کی بات سنے۔ اس حساب سے اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرے کہ سروس کرتے وقت گیند کچھ آگے اچھالنی ہے، شاٹ کھیلتے وقت ریکٹ کو نیچا رکھنا ہے۔ کلائی سیدھی رکھنی ہے۔ قدم شاٹ کے قریب رکھنا ہے۔ اس کو ہزاروں بار دہرا کر یہ ہدایات روبوٹ کے پروگرام کا حصہ بنتی جائیں گی اور اس حصے میں جاتی جائیں گی جہاں تک ان تک رسائی بھی نہ رہے گی۔
اس سب میں شعور لمبی مدت کا پلان بنانے والا ہے۔ ایک کمپنی کا چیف ایگزیکٹو جس نے طویل مدتی پروگرام بنانے ہیں۔ کمپنی کو وژن دینا ہے، ایسا جسے اس کمپنی کے وسائل اور صلاحیت حاصل کر سکیں۔ پالیسی بنانی ہے۔ باقی سسٹم کو سکھانا ہے کہ یہ طے شدہ مقاصد حاصل کیسے کئے جائیں۔
جب ایک اچھا کھلاڑی اپنے زون اور اپنی فارم میں ہو تو اس کا یہ مطلب کہ اس کے سسٹم مکمل خودکار ہیں اور وہ اپنی کھیل کے بارے میں سوچ نہیں رہا۔ اگر کوئی باہر سے اسے مشورہ دے کہ ذرا عقل استعمال کرو اور سوچ سمجھ کر کھیلو تو یہ اس کی گیم کو خراب کر دے گا۔ اگر اپنے مخالف کی گیم خراب کرنی ہو تو اس کی شاٹ کی تعریف کرتے ہوئے اسے یہ بتا دیں کہ جب وہ شاٹ کھیلتا ہے تو اپنی کلائی کا اینگل بہت ہی اچھے طریقے سے سیٹ کر رہا ہے اور شاٹ کھیلنے کے بعد ریکٹ کو فالو تھرو اس جیسا کوئی نہیں دیتا۔ اگر آپ کے مخالف نے اس پر سوچنا شروع کر دیا تو اس کے ساتھ وہی ہو گا جو کنکھجورے کے ساتھ ہوا تھا۔
شاید آپ ٹینس کے پروفیشنل کھلاڑی نہ ہوں لیکن سائیکل چلانے، تسمہ باندھنے، بولنے، لکھنے اور پڑھنے کے پیچھے یہی طریقہ ہے۔ ان لچکدار سرکٹس کا فائدہ یہ ہے کہ اسی روبوٹ کو ٹینس کھیلنے کے علاوہ تلوار بازی یا ہل چلانے کے لئے بھی پروگرام کیا جا سکتا ہے۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کے والد کی ناک، ان کی آواز اور ان کی چال کیسی ہے؟ کیا آپ کسی کو دیکھ کر یہ بتا سکتے ہیں کہ اس کی ناک، آواز اور چال آپ کے والد سے کتنی مشابہہ ہے؟ کیسے؟