حضرت عمر کے دور میں چھ سو اڑتیس عیسوی میں طاعون کی وبا پھیلی۔ یہ وبا شام ،عراق اور فلسطین کے علاقوں میں پھیل گئی۔ پچیس ہزار سے زائد مسلمان اس کا شکار ہوگئے جس میں ابو عبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل اور سہیل بن ہشام جیسے جید صحابہ شامل تھے۔ حضرت عمر اس کی اطلاع پا کر روانہ ہوئے لیکن انھیں مشورے کے بعد واپس بھجوا دیا گیا۔ اس پر ابو عبیدہ اور حضرت عمر سے ناراض ہوئے اور دونوں میں مشہور مکالمہ ہوا۔ ابو عبیدہ نے فرمایا کہ عمر ، تقدیر الہیٰ سے بھاگتے ہو؟ آپ نے فرمایا ،ہاں ، تقدیر الہیٰ سے تقدیر الہیٰ کی طرف بھاگتا ہوں۔ عمر واپس ہوئے اور مدینے آکر ابو عبیدہ بن جراح کو خط لکھا کہ مدینے واپس آئین ۔ لیکن وہ سمجھ گئے کہ عمر نے انھیں وبا سے بچانے کے لیے حکم دیا۔ اس لیے انکار کر دیا اور وجہ یہ بتائی کہ بطور سپہ سالار فوج کو نہیں چھوڑ سکتا۔ ادھر حضرت عمر اللہ کے رسول کے اس حکم کے مطابق کہ وبا والے علاقے سے متاثرہ افراد وہاں سے نہ نکلیں اور صحت مند ، متاثرہ علاقے میں نہ جائیں ، اس زمانے کے حالات کے مطابق آپ نے لاک اپ کا حکم دیا ۔ حالات کچھ بہتر ہوئے تو دوبارہ دورہ کیا۔ وبا کا شکار افراد کے ورثاء کے مسائل کو حل کیا۔ قحط اور وبا کے دنوں صرف جو کی روٹی کھائی ، گھی کے بجائے زیتون کا استعمال کیا ، گوشت اور مہنگا کھانا کھانے سے اجتناب کیا۔
میں نے اس دور کے حالات کا وہ خلاصہ پیش کیا ہے جو مکمل طور پر متفق علیہ ہے ۔ چنانچہ آج کے دور میں ہم اس سے یہ نکات اخذ کر سکتے ہیں :
وبا کوئی عذاب نہیں ہے ۔ ورنہ دنیا کے سب سے عادل حکمران کا دور اس سے ضرور محفوظ رہتا ۔ جن کو حضرت عمر پر اعتراض ہیں وہ سیدنا یوسف کا سات برسوں کا قحظ ذہن میں رکھیں۔
اس کا شکار اچھے برے سب بلا امتیاز ہو سکتے ہیں ورنہ معاذ بن جبل اور ابو عبیدہ جیسے ہیرے اس کا شکار نہ ہوتے ۔
وبا سے بچنا ، اس کے لیے حفاظتی اقدامات کرنا اللہ کے رسول کے حکم کے عین مطابق ہیں ۔
تقدیر کا ایک مفہوم وہ ہے جس کے ابو عبیدہ قائل تھے اور ایک وہ جسے عمر درست سمجھتے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے جب گواہی دے دی کہ حضور نے وبا پر اس سے بچائو کا حکم دیا تھا تو حضرت عمر کی تفہیم ثابت ہو گئی اور اپنی رائے پر عمل کیا مگر حضرت ابوعبیدہ کے اختلاف کو قبول کیا۔ ان پر کوئی فتویٰ صادر نہیں فرمایا۔ ان کے انتقال پر بہت غم زدہ ہوئے اور انھیں شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔
حکمران کا فرض ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے متاثرہ لوگوں سے رابطہ کرے ۔ وزیر اعظم اور دوسرے اہم احکومتی افراد کو اس موقع پر ڈاکٹروں کی طرح مکمل احتیاط کے ساتھ قرنطینی سنٹرز کا دورہ کرنا چاہیے اور ہم وطن لوگوں کا حوصلہ بڑھانا چاہیے ۔
چین کے کامیاب ماڈل پر عمل کرتے ہوئے متاثر علاقوں کر مکمل لوک ڈائون کرنا چاہیے ۔ جہاں ضروری ہو کرفیو لگائیں ۔ حضرت عمر نے ٹیکس معطل کر دیے تھے ، حکومت کو لاک دائون والے علاقوں کے بجلی ، گیس یا پانی کے بلوں میں رعایت کرنی چاہیے۔
علاج کا فول پروف انتظام کرنا چاہیے ۔ ڈینگی کی وبا کے دوران سری لنکا سے مدد لی گئی تھِی۔ حکومت کو چین سے مدد لینی چاہیے۔ مثلاً چالیس یا اس سے کم عمر مریضوں کو ممکن ہو تو چین علاج کے لیے بھیجنا چاہیے۔ یا وہاں سے پلازمہ منگوا کر ان کا یقینی علاج کیا جائے ۔
اختلاف رائے کو برداشت کرتے ہوئےصرف اور صرف اتفاق رائے اور اتحاد کو فروغ دینے والی باتِیں اور بیان دینے چاہیں ۔ حکومتی بل ڈاگز کو شٹ اپ کال دینی چاہیے ۔
اس بات کو فوج اور پولیس کی انتہائی سخت نگرانی میں ممکن بنائیں کہ متاثرہ افراد اپنے قرنطینہ مراکز سے باہر نہ آئیں اور ان مراکز میں سہولتوں کو یقینی بنایا جائے۔