لڑھکتی ہوئی گیند کتنی دور تک جائے گی؟
راکٹ کو کب، کہاں اور کس رفتار سے خلا بھیجا جائے؟
سورج میں کتنا ایندھن باقی ہے؟
یہ گلیشئیر کب بنا اور کس رفتار سے سرک رہا ہے؟
ان سوالات کے جواب میں ایک چیز مشترک ہے کہ ان سب کے جوابات ریاضی سے نکالے جا سکتے ہیں لیکن کئی اس طرح کے سوالات ہیں جہاں پر ریاضی ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ یہ سوالات ریاضیاتی سنگولیریٹی کہلاتے ہیں اور فزکس کی ریاضی سے ان کے جواب نہیں ملتے۔ کسی چیز کی حالت اچانک بدلے تو ایسا ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں تصاویر میں
1۔ پیالی کا چٹخنا
2۔ مائع کا اچانک گر جانا
3۔ بارود کا دھماکا
4۔ سورج کا فلئیر
یہ سب کس شکل میں ہوں گے، یہ شروع کے سوالات کی طرح ماڈل نہیں کیا جا سکتا تو پھر اس قسم کی ریاضیاتی سنگولیریٹی کی ماڈلنگ کیسے کی جائے؟ یہاں پر ہم فطرت کا ایک بنیادی اصول استعمال کرتے ہیں اور وہ یہ کہ حالت کی تبدیلی توانائی کے کم سے کم استعمال سے ہو گی اور یہاں پر ہماری مدد کرتا ہے عام صابن کا بلبلہ اور تیز رفتار فوٹوگرافی۔
یہ بلبلہ فزکس کے قوانین کے مطابق ہمشہ وہ شکل اختیار کرے گا جو اس سطح کا رقبہ کم سے کم رکھے اور جب حالت بدلے گا تو اس طریقے سے کہ اس میں جانے کے لئے کم سے کم توانائی درکار ہو۔ تیز رفتار فوٹوگرافی سے ہم اس کی ایک حالت سے دوسری میں منتقلی کا پورا طریقہ بہت اچھے طریقے سے دیکھ سکتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ سمجھ سکتے ہیں جہاں کمپیوٹر میں کی جانے والی سمولیشن ہمارے مدد نہیں کرتی۔
پانچویں تصویر یہ دکھاتی ہے کہ بلبلے مختلف حالتوں میں اپنی شکل کیسے بناتے ہیں اور چھٹی تصویر اس کی حالت بدلنے کے دوران لیا گیا ایک فریم۔
بلبلوں کی فزکس کا سب سے اہم شعبہ ببل اکاؤسٹکس ہے جس میں مائع کے اندر بننے والوں بلبلوں کا مطالعہ ان کی آوازوں سے کیا جاتا ہے۔ ساتویں تصویر اس کی ایک ڈیوائس کی جس کے ذریعے سمندر کا اس تکنیک کی مدد سے مطالعہ کیا جا رہا ہے۔