انیسویں صدی کا وسط کالونیل دور کا وقت تھا۔ یورپ سے نکلنے والے ملاحوں نے اپنے ہتھیاروں اور تنظیم کی برتری سے دنیا بھر پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس معاملے میں یورپ سے کچھ الگ ایک جزیرہ برطانیہ سب سے زیادہ کامیاب رہا تھا۔ اس کا سب سے بڑا پرائز برِصغیر تھا۔ کالونیل دور کا سب سے بڑا مالِ غنیمت کپاس تھی۔ انڈیا اور مصر سے کپاس کی گانٹھیں برطانوی بندرگاہوں پر پہنچتی تھیں۔ کپڑے کی ملوں کا کام مانچسٹر، گلاسگو، لنکاشائیر میں چمک اٹھا تھا۔ ٹیکسٹائیل کی برآمدات برطانیہ کی معیشت کا پاورہاوٗس تھیں۔ 1784 میں برطانیہ کی برآمدات کا چھ فیصد حصہ ٹیکسٹائل تھی جو 1850 کی دہائی میں پچاس فیصد تک جا پہنچا تھا۔
ایک طرف کپڑے کی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ دوسری طرف رنگسازی کی صنعت اس کا ساتھ نہیں دے پا رہی تھی۔ یہ پرانے طریقوں پر چل رہی تھی۔ پودوں سے رنگوں کو حاصل کیا جاتا۔ مجیٹھ کی جڑ سے سرخ رنگ کو یا انڈیگو کے پودے سے نیلے رنگ کو۔ اس کو بنانے کے صبرآزما عمل جو مہارت اور مستقل نگرانی مانگتے تھے۔ ان رنگوں کو ٹیکسٹائل پر پرنٹ کرنا مزید مشکل تھا۔ ان کو گاڑھا کرنے، تیز کرنے اور محلل بنانے کے کئی سٹیپ تھے اور یہ سب ہفتوں کا کام تھا۔ ٹیکسٹائیل کی صنعت میں پروفیشنل کیمسٹ ہوا کرتے جو بلیچ اور کلینزر کو حل کریں، رنگوں کے نکالنے کی نگرانی کریں اور ان کو کپڑوں پر لگانے کے طریقے دیکھیں۔
اس نے برطانیہ میں ایک نئے شعبے کو جنم دیا جو “عملی کیمسٹری” تھا۔ اس کا کام کپڑوں کی رنگسازی کی پراڈکٹس بنانا تھا۔ اس کے ادارے اور پولی ٹیکنیکس لندن میں کھلنا شروع ہو گئے۔
انہی اداروں میں سے ایک کے طالب علم اٹھارہ سالہ ولیم پرکن نے 1856 میں ایک تجربہ کرتے ہوئے نیا کیمیکل بنا لیا جس نے یہ صنعت بدل ڈالی۔ یہ ایک سستا کیمیکل رنگ تھا جو پودوں سے حاصل کردہ اجزاء کے بغیر صرف کیمیائی طریقے سے بنایا گیا تھا۔ پرکن نے بینزین اور نائیٹرک ایسڈ کو ابالا اور اس سے غیرمتوقع طور پر ٹیوب میں جامنی رنگ کا کرش اکٹھا ہو گیا۔ رنگوں کے جنون کے اس دور میں ہر رنگدار کیمیکل کو ڈائی کے طور پر چیک کیا جاتا تھا۔ پرکن نے فلاسک میں کپڑے کا ٹکڑا ڈالا۔ یہ رنگ کاٹن پر چڑھ گیا۔ نہ ہی یہ اترتا تھا اور نہ بلیچ ہوتا تھا۔ اس کو پرکن نے انالین ماو کا نام دیا۔
ٹیکسٹائل کی دنیا میں یہ ایک انقلابی دریافت تھی۔ سستا اور پکا رنگ، جسے بنانا اور سٹور کرنا آسان تھا۔ پرکن نے یہ بھی دریافت کر لیا تھا کہ اس کے پیرنٹ کمپاوٗنڈ سے دوسری ڈائی اور دوسرے رنگ بنائے جا سکتے ہیں۔ 1865 تک رنگوں کے کئی شیڈ یورپ میں کپڑے کی صنعت تک پہنچنا شروع ہو گئے۔ پرکن کو صرف انیس سال کی عمر میں لندن کیمیکل سوسائٹی کی بھی مکمل ممبرشپ مل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگوں کی یہ صنعت برطانیہ میں شروع ہوئی لیکن اس میں مہارت حاصل کرنے والا ملک جرمنی تھا۔ کالونیل دوڑ میں جرمنی پیچھے رہ گیا تھا اور علاقوں پر قبضے کے اعتبار سے اس کے ہاتھ خالی تھے۔ لیکن یہاں پر صنعتکاری تیزی سے ہو رہی تھی۔ اسے کپڑے کی صنعت میں امریکہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کا مقابلہ کرنا تھا۔ دوسرے ممالک کے برعکس اس کو کسی بھی قدرتی ڈائی تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ جرمن کپڑا بنانے والوں نے اپنے آپ کو رنگ بنانے میں جھونک دیا تا کہ وہ کپڑے کی صنعت میں مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔
جرمنی 1883 میں رنگسازی کا سب سے بڑا مرکز بن چکا تھا۔ ایلیزارین، جو چمکدار سرخ رنگ تھا اور پہلے مجھیٹھ کی جڑ سے حاصل کیا جاتا تھا، صرف اسی کیمیکل کی سالانہ بارہ ہزار ٹن کی پیداوار کی جا رہی تھی۔ کیمیکلز کے دوڑ میں جرمنی نے سب کو پچھاڑ دیا۔ نہ صرف ڈائی اور محلل بلکہ جرمنی کے کیمسٹ فینول، الکوحل، برومائیڈ، الکلائیڈ، ایمائیڈ بنانے لگے۔ یہ سب وہ کیمیکل تھے جو قدرتی نہیں تھے۔
سنتھیٹک کیمسٹری، جب ایک بار شروع ہو گئی تو “عملی کیمسٹری” میں عملی خود بے کار لفظ رہ گیا۔ اس بُوم سے پہلے کیمیکل کسی عملی مقصد کے لئے بنائے جاتے تھے۔ اب یہ الٹ گیا۔ کیمیکل کی ایجاد کے بعد اب ان کا علمی استعمال ڈھونڈا جاتا تھا۔
ان نت نئے کیمیکلز کے عملی استعمال تلاش کرنے میں دوڑ میں ہونے والی اگلی پیشرفت بڑی غیرمتوقع تھی۔ یہ ادویات کی صنعت کا آغاز تھا۔
ساتھ لگی تصویر اس کپڑے کی جس کو پرکن نے پہلی بار مصنوعی ڈائی سے رنگا تھا۔