ہر طرف درخت پھیلے ہیں۔ میملز ہر طرف پھر رہے ہیں۔ جاتی بہار کے ایک عام سے دن میں کسی پہاڑی علاقے کی ایک خاموش جھیل کے پانی میں کچھوے تیر رہے ہیں، اس کے اوپر اڑتے پرندے اور پھر چرندے جو اس جھیل سے پانی پی رہے ہیں۔ پھر ایک دھماکہ اور اس جھیل کے آس پاس کوئی زندہ نہ رہا۔ یہ سب اس جھیل کی تہہ میں اپنی آخری آرامگاہ میں پہنچ گئے۔ یہ کوئی فکشن کہانی نہیں، آج سے پونے پانچ کروڑ سال قبل کی دنیا میں ہونے والا ایک واقعہ ہے۔
یہی واقعہ اگلے ہزاروں سال میں کئی بار دہرایا گیا۔ جھیل کی تہہ ان سب کی لاشوں سے بھرتی گئی۔ اس کی دریافت تیل نکالنے کے لئے کی گئی کھدائی کے دوران ہوئی اور ہمیں کروڑوں سال پہلے ہوئی اس قتل و غارت کی داستان پہلی بار پتہ لگی۔ یہ موجودہ جرمنی میں میسل شہر کے قریب کا علاقہ ہے۔ یہاں سے تیل کے ساتھ ایوسین دور کی اس زندگی کے فاسلز کا خزانہ ملا جو 47 ملین سال پہلے کا ہے۔ نہ صرف تعداد میں زیادہ بلکہ انتہائی خوبصورتی سے محفوظ۔
ان کے ساتھ آخر ہوا کیا؟ بڑے عرصے تک یہ ایک معمہ رہا۔
یہ جگہ فوسلز ملنے والے بہترین مقامات سے ہے۔ اس طرح کے علاقوں کو لیگرسٹیٹ کہتے ہیں۔ یہاں پر ہمیں ڈاروینس ملے جو پرائمیٹ کے آباء ہیں اور لیمور کی طرح کے تھے۔ ان کی نہ صرف مکمل ہڈیاں بلکہ پورے بال محفوظ ہیں۔ گھوڑے کے آباء یورو ہِپس جس کے پیٹ میں پتے تک محفوظ تھے اور ان میں سے آٹھ ایسے ملے جو حاملہ تھے اور حمل کی باقیات بھی پوری طرح محفوظ تھیں۔ پھر مختلف اور جانور جن کے پیٹ، بڑے کان اور جسم کی آؤٹ لائن اس طرح محفوظ جیسے دنیا میں کم ہی کسی اور جگہ پر ملتے ہیں۔ چمگاڑوں کی نو الگ اقسام جو پورے ڈھانچوں کے ساتھ تھیں۔ جس سے پتہ لگا کہ ایکولوکیشن کا آغاز دنیا میں جلد ہو گیا تھا۔ پھر وہ پرندے جن کے پگمنٹ تک محفوظ تھے۔ ان کی ابھی تک 70 انواع مل چکیں ہیں۔ کچھووں کے نو ایسے جوڑے جو اپنی افزائشِ نسل کے لئے ذرا مصروف تھے اور اسی عمل کے دوران چٹانوں کا حصہ بن گئے۔ ان کو آخر ہوا کیا اور یہ پرندے اس جھیل میں کیسے گر گئے؟ سراغ یہ بتاتے تھے کہ جو کچھ بھی ہوا، وہ نہ صرف اچانک ہوا بلکہ شدت سے ہوا۔ کئی بار جھیلوں میں سائنوبیکٹیریا تیزی سے پھیل کر پانی زہریلا کر دیتے ہیں لیکن اگر ایسا ہوتا تو اس وجہ سے کچھووں کا مرنا سمجھ نہیں آتا تھا۔
پھر مغربی افریقہ کے ملک کیمرون میں 1986 میں ایک روز نایوس جھیل میں اچانک زبردست دھماکہ ہوا۔ اس سے نہ صرف جھیل کی زندگی ختم ہو گئی بلکہ اس کے آس پاس رہنے والے 1700 لوگ ہلاک ہو گئے۔ اس سے دو سال قبل اس کے بالکل ساتھ والی جھیل میں ہونے والے دھماکے سے 37 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ یہ قدرتی عمل لِمنک ارپشن کہلاتا ہے اور انسانی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا ریکارڈ نہیں ہوا تھا۔ اگر جھیل کسی ایسی جگہ پر ہو جہاں پر آتش فشانی عمل تہہ کے نیچے کسی حد تک جاری ہو تو اس قسم کی جھیل میں تہہ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اکٹھی ہوتی جاتی ہے اور اس کا پریشر مسلسل بڑھتا جاتا ہے۔ اگر کہیں زلزلہ آئے یا لینڈ سلائیڈ یا پانی کی بڑی مقدار جھیل میں داخل ہو تو یہ اس میں ایک بڑا دھماکہ کر دیتا ہے، ویسا ہی جیسے کوئی سافٹ ڈرنک کی بوتل ہلا کر کھولی جائے تو اچانک باہر ابل پڑتی ہے۔ یہاں پر ہونے والی تحقیق اور میسل میں اس جگہ کے مطالعے سے پتہ لگا کہ میسل کا علاقہ بھی ماعر پر بنا تھا یعنی یہاں پر بھی وہی حالات تھے جو کیمرون کی اس جھیل کے۔
اس جھیل کی تہہ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہونے کا مطلب یہ نکلا کہ تہہ میں جمع ہونے والی باقیات ان کو ڈی کمپوز کرنے والے بیکٹیریا سے محفوظ رہیں۔ صرف این ایوروبک بیکٹیریا جو یہاں پر تھے انہوں نے سو سال میں ایک ملی میٹر کی رفتار سے سڈرائیٹ نامی میٹیرئیل کی لئیر بنانا شروع کر دی۔ اس جھیل میں یہ دھماکے ہزاروں برس کے دوران کئی بار ہوئے۔ ہر بار اس نے اپنے اندر پائے جانے والی آبی زندگی، اپنے اوپر اڑتے پرندوں اور ان پانی پیتے جانوروں کو اپنی تہہ میں محفوظ کر لیا۔ آج اس لائیبریری کی طرح سجی ان باقیات سے ہم 47 ملین سال پہلے کی زندگی کو اپنی اصل شکل میں اس کی تہہ میں محفوظ دیکھتے ہیں۔ یہ اس جھیل کی اس وقت کی زندگی کی کھینچی تصویریں ہیں جو ہمیں ان کی شکل و صورت، رہن سہن اور خوراک تک کا بتاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس چیز کا بھی کہ ایسا سب سے جان لیوا واقعہ جاتی بہار کے دن ہوا تھا۔ یہ ہمیں ان گھوڑوں کے حمل کی سٹیج سے پتہ لگ جاتا ہے۔
اس جگہ پر تیل نکالنے پر جرمن حکومت نے 1974 میں پابندی لگا دی تھی۔ اب یہ یونیسکو کی عالمی ورثے کی سائٹ ہے۔