شفیق الرحمن نے ”دجلہ“ میں کہ اردو ادب کا مینار ہے، تین دریاﺅں کا ذکر کیا ہے۔ دجلہ، نیل اور ڈینیوب۔ اور سبحان اللہ کس جادو کے قلم سے ذکر کیا ہے۔ جہاں جہاں سے یہ دریا گزرتے ہیں، پڑھنے والے کو بھی وہیں وہیں ساتھ رکھا ہے۔ ہو سکتا ہے شفیق الرحمن ”مسجدِ قرطبہ“ سے انسپائر ہوئے ہوں۔ ع
تیرے سمندر کی موج دجلہ و دینوب و نیل
لیکن اپنے قیام بغداد کا ذکر انہوں نے بہرطور کرنا تھا۔ ”دجلہ“ نہ لکھتے تو اردو ادب کو کوئی اور شہکار دے جاتے۔
تین دریاﺅں کا تذکرہ مجھے یوں یاد آیا کہ دو دن پہلے میں سکردو ایئرپورٹ پر اتر کر شنگریلا جا رہا تھا۔ دائیں طرف دریائے سندھ ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ خوب چوڑا پاٹ، سکردو کی وادی میں سے خراماں خراماں گزرتا درمیان میں غائب ہو گیا۔ لیکن جب حوتو کا گاﺅں آیا اور شاہراہ کے کنارے پھیلے ہوئے پھلوں کے باغ نظروں کو بھانے لگے تو دریا پھر نمودار ہو گیا۔ شاہانہ تمکنت، وقار اور متانت۔ کاش شفیق الرحمن سندھ کے دریا پر بھی لکھتے۔ وجدان کہتا ہے کہ وہ دجلہ، ڈینیوب اور نیل کو پیچھے چھوڑ جاتے۔ لد ّاخ سے شروع ہونے والا دریائے سندھ پاکستان کے سارے علاقوں سے گزرتا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ لیکن اس کی تفصیل تو پاکستان کی تاریخ ہے اور جغرافیہ بھی، معیشت بھی ہے اور سیاست بھی۔ اور اسے ہر قلم کار نہیں لکھ سکتا۔ اس کے لئے شفیق الرحمن کا سحر درکار ہے۔ جس پر بھی لکھا اسے امر کر دیا۔
سترہ سال بعد بلتستان آنا ہوا ہے۔ سکردو کو چھوٹا تبت بھی کہا جاتا تھا۔ شاہ جہان اور اورنگ زیب کے دربار میں بارہ سال حاضر رہنے والے فرانسیسی ڈاکٹر برنیئر نے شاہ فرانس کو خطوط کے ذریعے برصغیر کے حالات لکھ کر بھیجے تو سکردو کو چھوٹا تبت ہی کہا۔ خپلو کے نور بخشی فرقے کے ارکان اپنی تاریخ بتاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ان کے اجداد لداخ سے آئے تھے۔ کیا خبر یہ فرقہ وہاں اکثریت میں ہو۔ بہرحال گرما کا موسم ہو، پورا چاند ہو اور رات خپلو کے قریب سے گزرنے والے دریا کے کنارے بتائی جائے جس کے اردگرد فلک بوس پہاڑ ہیں تو یہ ایک ایسا تجربہ ہے‘ جس کا مثیل کوئی نہیں۔ کہتے ہیں پورے چاند کی رات میں تاج محل کا دیدار ناقابل بیان ہے۔ لیکن خپلو کی رات اس سے کسی درجہ کم نہ ہوگی۔ ہم نے دنیا کو بتایا ہی کہاں ہے کہ ہمارے پاس کیا کیا ہے اور یہاں سے میں ماتم کا آغاز کرتا ہوں۔
دنیا کی تاریخ میں پاکستان جیسی نعمت کم ہی کسی کو ملی ہوگی اور کم ہی ایسا ہوا ہوگا جیسا اہل پاکستان نے اس نعمت کی ناشکری کی ہے۔ طویل ساحل، بلوچستان کے قدرتی وسائل، سندھ کا صحرا اور پنجاب کے سونا اگلتے میدانوں کو تو الگ رکھیں، صرف شمالی علاقہ جات ہی پاکستان کو اوجِ ثریا تک لے جانے کے لئے کافی تھے۔ دو عشرے پہلے کی وہ رات نہیں بھولتی جب گلگت کے ایک ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے ایک امریکی نے پوچھا تھا ”کیا تم نے سوئٹزر لینڈ دیکھا ہے؟“۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو اس نے بتایا کہ اس نے دیکھا ہے اور ہُنزہ کسی شک اور شائبہ کے بغیر، سوئٹزر لینڈ سے زیادہ خوبصورت ہے۔
ہم نااہل نہ ہوتے تو سیاحت سے کروڑوں کیا اربوں کما سکتے تھے اور ہمارے ملک کا ذکر بالی، سوئٹزر لینڈ اور ان یونانی اور ہسپانوی جزیروں کے ساتھ ہوتا‘ جہاں سال کے بارہ ماہ‘ سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ لیکن سیاحت ایک انڈسٹری ہے اور انڈسٹری، سہولیات مانگتی ہے۔ یہ انفراسٹرکچر کا کھیل ہے۔ ہمیں چینیوں نے شاہراہ قراقرم بنا کر دی۔ ہم اسے بھی عملی طور پر کھو بیٹھے ہیں۔ سکردو اور گلگت سے ایبٹ آباد تک تیس گھنٹے لگتے ہیں۔ جس شاہراہ کے ہر کلومیٹر پر پاکستانی فوجیوں اور چینی کاریگروں نے جان کی قربانی دی تھی‘وہ ناقابل بیان حد تک آج شکستگی کا شکار ہے۔ پورے راستے میں کوئی معیاری ہوٹل، کوئی ڈھنگ کا ریستوران نہیں۔ یہاں تک کہ قضائے حاجت کے لئے صاف ستھرے واش روم ناپید ہیں۔ پھر اگر سیاح سکردو، گلگت اور ہنزہ پہنچ بھی جائے تو انٹرنیٹ کی سروس دستیاب ہے نہ دیگر جدید سہولیات۔ پی آئی اے سکردو اور گلگت تک ناقابل اعتبار پروازیں مہیا کر رہا ہے لیکن وہ خود ایک جاں بلب ادارہ ہے۔ اور بہت سے دوسرے قومی اداروں کی طرح اکھڑے اکھڑے سانس لے رہا ہے۔ فرقہ وارانہ حوالے سے‘ جس طرح مسافروں کو بسوں سے اتار اتار کر موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے، اس پس منظر میں سیاحت کا کیا سوال اور سیاحت کو انڈسٹری بنانے کا کیا امکان! نااہلی، اقربا پروری، سفارش اور سیاسی آلودگی کی بدترین مثال دیکھنا ہو تو شمالی علاقوں میں سیاحت کی ناکامی سے بڑی مثال شاید ہی کوئی ہو، سیاحت کا وفاقی ادارہ (پاکستان ٹور ازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن) یا تو سیاسی یتیم خانہ بنا رہا یا سفارشی ٹٹوﺅں کا اجڑا ہوا اصطبل۔ تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ ایک مشہور سیاسی مولانا کے بھائی سیاحت کے وزیر بنے۔ انہیں ٹور ازم کارپوریشن کے سربراہ کی پجارو پسند آ گئی۔ سربراہ نے پجارو کو وزیر صاحب کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ ہوائی اڈے پر وزیر صاحب کے ”بندوں“ نے پجارو پر زبردستی قبضہ کیا اور یوں وزیر صاحب کا مشن کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
طویل داستان ہے۔ تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم۔ نوے کی دہائی میں، معروف شاعرہ فاطمہ حسن غریب خانے پر تشریف لائیں۔ ان کے ساتھ ان کے کچھ احباب تھے جو پاکستانی نژاد تھے اور کینیڈا کے شہری۔ وہ سرمایہ کاری کے متمنی تھے۔ شمالی علاقوں میں پھلوں کو محفوظ کرنے کا کارخانہ لگانا چاہتے تھے اور وفاقی حکومت سے منظوری لینا چاہتے تھے۔ جو ٹوٹی پھوٹی مدد ہو سکتی تھی، کی۔ لیکن وہ کچھ بتائے بغیر واپس چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ متعلقہ اہلکاروں نے اپنا ”حصہ“ مانگا تھا۔ یہ انڈسٹری انہوں نے بھارت کے شمالی علاقوں میں لگائی! پاکستانیوں کی اکثریت کو اندازہ ہی نہیں کہ شمالی علاقہ جات میں کثرت سے پیدا ہونے والے پھلوں کا بڑا حصہ ضائع ہو رہا ہے۔ آپ بلتستان، ہنزہ اور چترال کی سڑکوں پر چلیں تو کوسوں تک سڑک پر نہیں، خوبانیوں پر چلتے ہیں۔ سکردو اور کافرستان کی وادیوں خاص طور پر بمبریٹ میں پیدا ہونے والا آلو بخارا، مٹھاس میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ انگور اور آڑو کی پروسیسنگ اور محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں۔ چند کلومیٹر دور، ازبکستان اور تاجکستان میں یہی لینڈ سکیپ ہے اور اسی کے ساتھ کا علاقہ ہے لیکن ایک آڑو، ایک خوبانی اور ایک چیری بھی ضائع نہیں ہونے دی جا رہی۔ جو پھل محفوظ (TIN) ہونے سے بچ جاتے ہیں ان کا رس اور مربہ بنا دیا جاتا ہے جو پورے وسط ایشیا میں فروخت اور استعمال ہوتا ہے۔
آج چترال کے حسن کی ملکہ کافرستان پر افغانوں کے رات دن حملے ہو رہے ہیں۔ ہمارے چرواہے محفوظ ہیں نہ کسان۔ سوات کے ساتھ جو کچھ ہوا، عشروں تک سیاحت متاثر رہے گی اور ابھی یہ کہانی انجام تک نہیں پہنچی! بلتستان اور ہنزہ امن کے گہوارے تھے لیکن فرقہ وارانہ آگ کے شعلے یہاں پہنچ چکے ہیں۔ تو کیا نااہلی اور ناکامی کا احساس ہمیں اس وقت ہوگا جب پانی بھڑک اٹھے گا اور پتھر بول پڑیں گے؟