جب میں پہلی دفعہ ملحد ہوا
بدھ کے روز قاری صاحب عین اس وقت آتے تھے جب ٹیلی ویژن پر بچوں کا پسندیدہ پروگرام ٹک ٹک کمپنی لگتا تھا۔ ان کے آنے سے پہلے میں اور میرے بھائی با جماعت یہ دعا کرتے کہ ان کی سائیکل پنکچر ہو جائے، انہیں ہیضہ ہو جائے یا پھر وہ فوت ہی ہو جائیں تاکہ اس دفعہ کی قسط تو پوری دیکھ سکیں پر قاری صاحب بددعا پروف نکلے۔ میں پڑھنے میں تیز تھا اس لیے پھر کوشش یہ ہوتی کہ جتنی تیزی سے سبق سنایا جا سکے، سنا دیا جائے تاکہ جان چھوٹے اور ٹی وی کے آگے ڈیرہ لگایا جا سکے۔ قرآن کی ابتدائی تعلیم میرے لیے مشقت اور ایک سزا سے کم نہیں تھی۔ میں پڑھنے میں تیز تھا۔ دماغ کچھ کام بھی کرتا تھا گرچہ اب اس کا یقیں مشکل ہے، اس لیے مدارج بڑی تیزی سے طے ہوتے گئے۔ نورانی قاعدہ ختم ہوا۔ چھوٹی سورتوں سے شروع ہو کر پورا قرآن ختم ہوا تو میری عمر بمشکل پانچ برس کی تھی۔ خاندان میں یہ ایک ریکارڈ تھا اس لیے آمین کی ایک شاندار تقریب ہوئی۔ قاری صاحب کو پھولوں کے ہار ڈالے گئے اور میرے گلے میں نوٹوں کا ہار پہنایا گیا جس پر تقریب کے بعد امی نے قبضہ کر لیا۔ بہت سارے لوگ آئے، خوب واہ واہ ہوئی۔ تحفے ملے، پیار، داد اور مبارکباد۔ اس کے بعد زندگی کے کئی برس اسی طرح ناظرہ قرآن پڑھتا رہا۔ رفتار اتنی تھی کہ جتنی دیر میں دوسرے ایک سپارہ پڑھتے اتنی دیر میں میں چار سپارے ختم کر دیتا۔ محلے میں جب بھی ختم قرآن ہوتا تو میری ڈھنڈیا ضرور پڑتی۔ اب قرآن پڑھنا گویا انا کی تسکین تھی۔ سمجھ اس وقت بھی ذرا نہیں تھی جب ناظرہ ختم ہوا تھا اور اس وقت بھی نہیں جب ختم قرآن کی محافل میں ملنے والے شربت اور مٹھائی کا لالچ دامنگیر ہوتا تھا۔ پر سب یہ بتاتے تھے کہ روز کا پہاڑ جتنا ثواب میرے کھاتے میں درج ہو رہا تھا۔
جس سال آمین ہوئی۔ اسی سال روزہ کشائی بھی ہو گئی۔ کچھ دن پہلے فیصلہ ہو گیا تھا کہ جمعے کے مبارک دن ہمیں سحر سے غروب تک بھوکا رکھا جائے گا۔ سحری میں جھنجوڑ جھنجوڑ کر اٹھایا گیا۔ معدے میں جتنی گنجائش تھی اس سے دو گنا ٹھونس دیا گیا۔ پھر دن بھر کبھی امی، کبھی پھپھو، کبھی خالہ پہریدار بنے ساتھ ساتھ لگے رہے کہ کہیں میں آنکھ بچا کر کچھ کھا نہ لوں ۔ کسی کو یہ اعتبار نہ تھا کہ مجھے خدا سے ڈرا کر کھانے سے باز رکھا جا سکتا ہے اس لیے زمینی وسائل پر بھروسہ رکھا گیا۔ شام تک بھوک سے برا حال ہو گیا پر پہرہ بہت سخت تھا۔ خیر افطار کا وقت آ ہی گیا۔ پھر نوٹوں کے ہار گلے میں ڈالے گئے۔ باقاعدہ اسٹیج سجا۔ قاری صاحب پھر موجود تھے۔ افطار سے پہلے انہوں نے ایک مختصر تقریر بھی کی جس کا ایک لفظ میرے پلے نہ پڑا کیونکہ میری ساری توجہ ان کھانوں پر مرکوز تھی جو ایک ایک کر کے میزوں پر سجائے جا رہے تھے۔ ہاں یہ یاد ہے کہ اجر، ثواب، صبر اور جنت جیسے لفظوں کی بار بار تکرار ہو رہی تھی۔ تقریب کے ختم ہونے تک روزے کے جو فوائد مجھے سمجھ آئے تھے وہ مرکز توجہ بننا، نوٹوں کے ہار، نئے کپڑے اور ان گنت تحائف کی شکل میں تھے۔ اس کے بعد روزے رکھے جاتے، دوستوں اور ہم عمروں سے مقابلہ کیا جاتا اور جب میرے روزے باقی ہم عمروں سے زیادہ نکلتے تو انا کو یک گونہ اطمینان ہوتا۔
آیت کریمہ کا سوا لاکھ ختم وقتا فوقتاً ہوتا رہتا ۔ یہ خصوصی طور پر خواتین کا اجتماع ہوتا پر ہم بچے ہونے کے ناطے اس میں شریک کر لیے جاتے۔ گھر میں گٹھلیوں کی بھری ہوئی بوریاں تھیں۔ سفید چاندی بچھا کر گٹھلیاں ڈھیر کی جاتیں پھر سب آیت کریمہ پڑھنے میں مگن ہو جاتے۔ گٹھلیاں گنی ہوئی ہوتیں اور اس حساب سے اتنی دفعہ ایک ڈھیر کو پڑھا جاتا کہ سوالاکھ کا ہدف پورا ہو جائے۔ شروع شروع میں یہ ایک پرلطف مشق تھی کہ تیز پڑھنے کی وجہ سے میرے آگے لگا گٹھلیوں کا ڈھیر نسبتا زیادہ ہوتا جس سے مجھے ایک فتح کا سا احساس ہوتا مگر کچھ عرصے بعد یہ اندازہ ہوا کہ کسی کو اس سے غرض نہیں ہے کہ میرا ڈھیر ان کے مقابلے میں کتنا اونچا ہے۔ اللہ کی خوشنودی، مصیبتوں سے بچاؤ اور شکرانے والی توجیہات سنتے تھے پر پلے نہ پڑتا کہ گٹھلیوں کا ان امور سے کیا ناطہ ہے۔ اس تمام کا نتیجہ یہ نکلا کہ آیت کریمہ کے ختم میں میری دلچسپی مفقود ہو گئی۔ کچھ عرصہ یہ نیم مردنی چلتی رہی پھر میں نے ایک حل ڈھونڈ لیا۔ گٹھلیاں دو طرح کی تھیں۔ کھجور کی اور املی کی۔ املی کی گٹھلیاں کھجور کے مقابلے میں زیادہ خوشنما تھیں۔ اس وقت تک یہ پتہ لگ گیا تھا کہ کافر برے لوگ ہوتے تھے اور مسلمانوں سے بلاوجہ جنگیں لڑا کرتے تھے۔ چاندنی پر میں ایک خیالی میدان جنگ کی تشکیل کرتا جس میں کھجور کی گٹھلیاں کافر اور املی کی گٹھلیاں مسلمان لشکر میں شامل ہوتیں۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے سپاہی میرے ہاتھ سے ہوتے ہوئے جنگ کے میدان میں کودتے ۔ کبھی مسلمان کافروں کے نیچے دب جاتے کبھی کافروں کی برسات سے مسلمانوں کے لشکر میں دراڑیں پڑ جاتیں۔ جنگ کے اختتام میں ڈنڈی مار کر میں ہمیشہ املی کی گٹھلیوں کو فاتحانہ پوزیشن میں لے آتا۔ کچھ گٹھلیاں جو اور پھلوں کی تھیں، کمیاب تھیں، انہیں میں نے پہلوان، جرنیل اور کشتوں کے پشتے لگانے والے جنگجو بنا دیا۔ ہزاروں گٹھلیوں کے ڈھیر کو کرید کر یہ جنگجو برآمد کرنا بھی ایک کار خاص ٹھہرا۔ باقیوں کو یہی لگتا کہ میں زیرلب آیت کریمہ کا ورد کر رہا ہوں جبکہ میں ایک فرضی میدان جنگ میں کبھی تقریر کر رہا ہوتا کبھی دعوت مبازرت دے رہا ہوتا اور کبھی کبھی تو حریف کو محض مغلظات سنا رہا ہوتا۔ ظاہر ہے اس وجہ سے کبھی بھی آیت کریمہ کی سوا لاکھ گنتی پوری نہ ہوتی لیکن یہ ایک غیر ضروری تفصیل تھی جسے میں نے کبھی امی اور باقی جملہ منتظمین سے بانٹنا مناسب نہیں سمجھا۔
نماز دیکھ دیکھ پڑھنا شروع کر دی تھی کہ اس پر بھی بہت شاباش ملا کرتی۔ قاری صاحب نے نماز کے تمام وظائف اور قرآن کی چھوٹی چھوٹی سورتیں رٹوا دی تھیں۔ ہاں دعائے قنوت یاد کرانے سے وہ چوک گئے۔ عجب یہ ہوا کہ آج بھی مجھے دعائے قنوت نہیں آتی۔ خیر روزے سال میں ایک دفعہ آتے تھے اس کے ساتھ ساتھ ایک اہتمام الگ تھا پھر دوسروں کے ساتھ تقابل کا ایک اپنا مزہ تھا۔ قرآن کے ختم میں بھی بہت سے لوگ پیٹھ تھپکاتے تھے۔ جب ختم کے وقت میں باقیوں سے تین گنا زیادہ پڑھ کر اپنے سامنے پڑھے ہوئے سپارے ڈھیر کرتا تھا تو ہیرو ہیرو محسوس کرتا تھا۔ آیت کریمہ کا ختم بھی مہینوں میں ایک بار ہوتا تھا اور میری جنگی تربیت کا ایک وہی راستہ تھا اس لیے اس میں دل چسپی برقرار رہی۔ ایک کم عمر بچے کے لیے مذہبی فلسفے اور توجیہات بالکل بے معنی تھیں۔ لیکن وہ ان مذہبی رسوم سے جڑا رہا کہ اس میں اس کی اںا کی تسکین اور دلچسپی کا سامان موجود تھا۔ پر نماز کا معاملہ مختلف ثابت ہوا۔ چند دن تو شاباش ملتی رہی پھر یہ روزمرہ کا معمول ٹھہرا۔ پڑھنے پر شاباش موقوف ہو گئی پر نہ پڑھنے پر ڈانٹ اور تادیب فرض تھی۔ میرے والدین بھی اسی مذہبی تربیت کے پروردہ تھے جس میں ایک کم عمر بچے کو مار مار کر نماز پڑھانے کا حکم ہے۔ نماز میں مجھے کوئی کشش کا سامان نہیں ملا لیکن بار بار کی تاکید سے یہ بات ذہن میں بٹھا دی گئی کہ نماز نہ پڑھنے والا ابدی جہنم کی آگ میں جلے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ جہنم کی آگ سے کہیں زیادہ ڈر ابو کے تھپڑ کا تھا سو نماز پڑھتا رہا۔
نماز پڑھنا ایک عادت سی تھی۔ خشوع کیا ہوتا ہے، خضوع کس چڑیا کا نام ہے، حضوری کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ اس سے مجھے اس عمر میں کوئی سروکار نہیں تھا۔ ایک میکانی روٹین تھی۔ کوشش یہ ہوتی کہ جتنی تیز نماز پڑھی جا سکے اتنی تیزی سے پڑھ لی جائے تاکہ سر سے ایک بوجھ اتارا جا سکے۔ جس دن امی ابو ادھر ادھر ہوتے تھے اس دن نماز کا بھی ناغہ کر لیا جاتا۔ سب سے مشکل نماز فجر کی ہوتی اور سردیوں میں یہ مشکل کئی گنا محسوس ہوتی۔ سحردم نیند گہری ہوتی۔ اس سے اٹھنا، گرم بستر کو ترک کرنا، پھر ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا۔ جب تک نماز پڑھی جاتی، نیند اڑ جاتی۔ بستر پر واپس آکر کروٹیں بدلتے رہتے تاوقتیکہ سکول کا وقت نہ ہو جاتا کیونکہ کسی انتہائی پراسرار وجہ سے عین اس وقت روٹھی ہوئی نیند واپس لوٹ آتی۔ اب پھر اسے ترک کر کے اٹھنا گویا پہاڑ کا سا تھا۔
انہی دنوں ضیاء صاحب کو بھی اسلام بذریعہ دھونس نافذ کرنے کا سودا ہوا تو سکول میں نظام صلوٰۃ نافذ ہو گیا۔ ظہر کی نماز کے وقت کچھ صالح ٹیچر باقاعدہ ڈنڈے سے ہانک کر طلباء کو مسجد میں جمع کرتے اور پھر نماز با جماعت کا اہتمام ہوتا۔ نماز کے دوران دو اساتذہ کی یہ زمہ داری تھی کہ باجماعت نماز پڑھنے کے بجائے وہ ہاتھوں میں ڈنڈے سنبھالے پورے سکول کو طواف کریں گے اور نماز سے مفرور بچوں کو ڈھونڈیں گے تاکہ ان پر باجماعت کفش کاری کی جا سکے۔ زبردستی کی اس ڈنڈا گیری سے نماز سے مزید دل اُچاٹ ہوتا گیا پر کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی تھی۔ سردیوں کے دن تھے۔ ایک دن صبح صبح جب بستر سے دیر سے برآمد ہونے پر ابو کی ڈانٹ سننی پڑی تو گویا اونٹ کی کمر پر آخری تنکا بھی وارد ہو گیا۔ نماز پڑھی پر اس کے بعد سونے کے بجائے کھانے کے کمرے کا رخ کیا اور ابو کے مقابل ایک کرسی پر براجمان ہو گیا۔ ابو کی عادت تھی کہ صبح کی نماز کے بعد کچھ دیر وہیں بیٹھ کر مطالعہ کرتے تھے۔
اس سے پہلے کہ آگے کی کہانی سناؤں، امی اور ابو کے بارے میں بتاتا چلوں۔ دونوں مذہب کے معاملے میں قدامت پرست سوچ رکھتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دونوں اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ ادبی اور شعری روایت سے جڑے ہوئے تھے۔ دونوں کا مطالعہ وسیع تھا۔ ابو حقیقتا ہفت زبان تھے۔ اردو، انگریزی، پنجابی، ہندی، سنسکرت، بنگلہ، فارسی اور عربی کے شناور تھے۔ دو تین زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ سیاست اور صحافت دونوں سے ایک گہرا ناطہ تھا۔ امی اور ابو دونوں کی کوشش سے مجھے بھی بہت چھوٹی عمر میں پڑھنے کی چاٹ لگ گئی۔ ابو جہاں بہت سخت گیر تھے وہیں وہ میرے لیے ایک مشفق معلم بھی تھے۔ مجھے بے شمار باتوں پر ڈانٹ پڑتی تھی۔ ان گنت موقعوں پر ابو سے مار بھی کھائی لیکن جب بات سیکھنے اور سکھانے کی آتی تو ان کا رویہ بالکل بدل جاتا۔ تشکیک کا بیج کہیں اندر بہت کم عمری میں پھوٹ گیا تھا اس لیے میں ان سے بہت سے ایسے سوال کرتا جو آج بھی ایک روایتی مذہبی گھرانے میں پوچھنا ممکن نہیں ہے۔ ابو میرے سوالوں کا جواب انتہائی خندہ پیشانی سے دیتے بلکہ سوال کرنے کے لیے میری حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ امی بہرحال ان میں سے بہت سے سوالوں پر بالکل خوش نہیں ہوتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ ایسی باتیں کر کے میں اپنے بگاڑ کا سامان کر رہا ہوں۔ بہرحال امی سراپا محبت تھیں اس لیے ان کی بات سن کر دوسرے کان سے نکال دینا کوئی مشکل نہیں تھا۔ لہذا ابو سے مکالمہ چلتا رہتا تھا اور میری عمر کے لحاظ سے تشفی بخش جواب بھی مل ہی جاتے تھے۔
اس دن میرے بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد ابو کو احساس ہوا کہ میں کمرے میں موجود ہوں۔ انہوں نے عینک تھوڑا نیچے سرکا کر ناک کی پھننگ پر ٹکائی، کچھ حیرانی سے میری جانب دیکھا پر بولے
“کوئی بات کرنی ہے"
“جی۔ کرنی تو ہے"
ابو نے کتاب بند کی اور اپنے مخصوص انداز میں بولے
"فرمائیے"
“میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ آپ مجھے نماز پڑھنے کو کیوں کہتے ہیں"
ابو کی آنکھوں میں اب تھوڑا سا استعجاب تھا
“یہ کیا سوال ہوا۔ نماز کیوں پڑھنی چاہیے یہ بات تو ہم کئی دفعہ پہلے کر چکے ہیں"
یاد رکھیے کہ یہ مکالمہ ایک سخت گیر مذہبی تشریح رکھنے والے مقلد اور ایک بارہ تیرہ سالہ بچے کے بیچ تھا۔ میرے پاس کوئی علمی بنیاد نہیں تھی، محض میرا تجسس اور نماز سے میری بڑھتی ہوئی اکتاہٹ تھی
“وہ مجھے پتہ ہے۔ میرا سوال مختلف ہے ۔ میں یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ آپ مجھے نماز پڑھنے کا کیوں کہتے ہیں"
پوچھنا تو میں یہ بھی چاہ رہا تھا کہ ملک کے صدر اور انسانوں کو مرغا بنے دیکھنے کے شوقین میرے اساتذہ کو بھی میری نماز سے کیا غرض ہے۔ پر پھر بات فلسفے پر آجاتی کیونکہ ابو کا بس نہ ضیاء الحق پر چلتا تھا نہ میرے اساتذہ پر۔اس لیے میں نے سوال یک رخی اور مختصر رکھا
“ کیونکہ نماز فرض ہے" ابو نے انتہائی مختصر جواب دیا گویا یہ بات پوچھنے والی ہی نہیں تھی پر اس دن میں آسانی سے ہار ماننے کے موڈ میں نہیں تھا اور ابھی صبح کی ڈانٹ کی وجہ سے پڑی گرہ بھی نہیں کھلی تھی
“ٹھیک ہے۔ لیکن آپ پر آپکی نماز فرض ہے۔ یہ پوچھنا آپ پر کیوں فرض ہے کہ میں نے نماز پڑھی یا نہیں"
“کیونکہ اسلام باپ کی حیثیت سے یہ ذمہ داری مجھ پر عائد کرتا ہے اس لیے یہ بھی میرا فرض ہے" ابو کے جواب ابھی بھی مختصر تھے۔
“لیکن آپ پر عائد کیا گیا فرض آپکی ذات سے متعلق رہنا چاہیے ۔ آپ اس میں مجھے کیسے شامل کر سکتے ہیں۔ میری مرضی کے بغیر"
ابو نے عینک اتار کر میز پر رکھی ۔ کچھ دیر سوچتے رہے پھر بولے
“چلو، میں تمہیں مثال دے کر سمجھاتا ہوں۔ ایک شخص جو فوج میں بھرتی ہوتا ہے۔ وہ اپنی تربیت کا آغاز فوجی اکیڈیمی سے کرتا ہے۔ اکیڈیمی کا ایک اپنا ڈسپلن ہوتا ہے۔ اسے صبح اٹھنا پڑتا ہے۔ بے داغ وردی پہن کر پریڈ گراؤنڈ میں پہنچنا ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے صبح اٹھنا پسند نہیں ہے یا یہ کہ مجھے پریڈ کرنے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اس طرح تو تمام ادارے کا نظم وضبط تباہ ہو جائے گا۔ اس لیے جو شخص اس اکیڈیمی میں ایک دفعہ داخل ہو گیا اسے ہر حال میں اس کے قواعد اور ضوابط کی پابندی کرنی ہے۔ اسی طرح جب تم اسلام میں داخل ہوتے ہو تو تمہیں بھی اسلام کے عاید کیے گئے تمام فرائض کی پابندی کرنی ہے۔"
ابو نے بات ختم کی اور دوبارہ کتاب اٹھا لی۔ یہ گویا اعلان تھا کہ اتمام حجت ہوگئی تھی۔ تاہم میرا مسئلہ یہ تھا کہ اس سال لاہور میں سخت سردی پڑ رہی تھی اور صبح ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کے تصور سے میری روح ابھی بھی جھرجھرا رہی تھی اس لیے میں نے اگلا سوال داغ دیا
“ میں آپ کی بات مان لیتا ہوں لیکن فوج میں شامل ہونے کا فیصلہ تو انسان کا اپنا ہو گا۔ آپ سڑک پر چلتے ہر شخص کو تو اکیڈیمی میں پکڑ کر نہیں لائیں گے کہ اب وہ وردی پہنے اور صبح صبح پریڈ شروع کر دے"
ابو کو کتاب پھر نیچے رکھنی پڑی
“ظاہر ہے ۔ اسی لیے نماز کی پابندی بھی صرف مسلمان پر ہی فرض ہو گی۔ اس میں مسئلہ کیا ہے ۔ تم مسلمان ہو اور تم پر نماز فرض ہے"
“لیکن یہ فیصلہ کس نے کیا کہ میں مسلمان ہوں" اب میں کڑیاں ملا سکتا تھا " یہ فیصلہ اگر میں خود کروں گا تو پھر مجھ پر اسلام کی پابندیاں لگ سکتی ہیں"
ابو کے ماتھے پر کچھ شکنیں آ گئی تھیں
“تم یہ کہہ رہے ہو کہ تم مسلمان نہیں ہو"
“نہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا۔ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ میں اسلام میں داخل ہوتا ہوں یا نہیں یہ میرا سوچا سمجھا فیصلہ ہونا چاہیے۔ فوج میں داخل ہونے والے شخص کے پاس یہ انتخاب ہوتا ہے کہ وہ کوئی اور پیشہ اپنا لے۔ وہ اچھی طرح سوچتا ہے۔ سارے پیشوں کا نفع نقصان پرکھتا ہے پھر فوج میں داخل ہوتا ہے۔ فیصلے تو اسی طرح ہوتے ہیں میں نے تو اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔ اب سوچوں گا۔ جب میں نے سوچا ہی نہیں تو فیصلہ بھی نہیں کیا اور یہ فیصلہ میرا ہونا چاہیے۔ فوجی اکیڈیمی کے ہیڈ ماسٹر کا نہیں۔" میر اشارہ ظاہر ہے ابو کی طرف تھا اس لیے آخری جملہ میں نے ان کی طرف دیکھے بغیر ادا کیا
“ اور یہ فیصلہ کرنے کے لیے تمہیں کتنا وقت چاہیے؟" ابو نے کوئی خاص ردعمل ظاہر کیے بغیر پوچھا
“پتہ نہیں۔ ابھی ایک منٹ پہلے تو میں نے اس بارے میں سوچنا شروع کیا ہے۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ کیا ضروری ہے کہ اس کے لیے ایک خاص وقت کی پابندی ہو"
“نہیں، ضروری تو نہیں لیکن یہ فیصلے جتنی جلدی ہوں، اتنا اچھا ہے"
“چاہے ہمارے پاس پوری معلومات ہوں یا نہ ہوں؟" میرے سوال ابھی ختم نہیں ہوئے تھے
“ میں یہ نہیں کہہ رہا لیکن زندگی گزارنے کے کسی اسلوب اور طریقِ کا تعین اہم ہے۔ اس کے بغیر زندگی بے معنی ہو جاتی ہے"
“ آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن زندگی گزارنے کے بہت سے طریقے موجود ہیں۔ یہ انتخاب میرا ہونا چاہیے کہ مجھے کون سا طریقہ چننا ہے۔ اگر سوچنے سمجھنے کے بعد میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ مجھے مسلمان بننا ہے تو پھر ظاہر ہے میں اسلام کے ہر اصول کی پابندی کرنے لیے تیار ہوں گا"
“ یہ کیا بکواس ہو رہی ہے" امی نجانے کب پیچھے آ کر کھڑی ہو گئی تھیں۔
“آپ اسے اتنا سر پر نہ چڑھائیں۔ یہ کس قسم کی باتیں کر رہا ہے" امی اب ابو سے مخاطب تھیں لیکن ابو کسی گہری سوچ میں تھے۔ انہوں نے امی کی طرف دیکھا مگر کوئی جواب نہ دیا۔
“امی۔ آپ کو پوری بات پتہ نہیں ہے۔ آپ مجھے بات مکمل کرنے دیں " امی کی مداخلت سے مجھے اپنا منصوبہ چوپٹ ہوتا نظر آ رہا تھا ۔
“ مجھے اچھی طرح پتہ ہے کیا بات ہو رہی ہے ۔ غضب خدا کا۔ تم کس خاندان کے بچے ہو یہ پتہ ہے تمہیں ۔ مسلمان نہیں ہو تو اور کیا ہو" امی مذہب کے معاملے میں رو رعایت کی قائل نہیں تھیں لیکن وہ زیادہ سے زیادہ تھوڑی خفگی ہی دکھا سکتی تھیں۔ اصل مسئلہ ابو کو قائل کرنا تھا کہ ڈر انہی سے لگتا تھا اس لیے میں نے امی کو جواب نہیں دیا۔ میری ساری توجہ ابو پر مرکوز تھی۔ ابو اس وقت بھی اپنی داڑھی کریدتے کچھ سوچ رہے تھے۔ شاید تیس سیکنڈ اسی طرح گزرے یا ایک منٹ لیکن اس وقت یوں لگا کہ ایک عرصہ بیت گیا ہے۔
اب ابو براہ راست مجھے دیکھ رہے تھے اور میں ان کے چہرے کو دیکھ کر بتا سکتا تھا کہ فیصلہ صادر ہونے کو ہے۔
“ تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔ تمہیں سوچ سمجھ کر اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق ہے اور جب تک یہ فیصلہ تم نہ کرو، یہ مناسب نہیں ہے کہ میں اس حوالے سے تم پر کوئی پابندی عائد کروں یا تمہیں کسی بات پر مجبور کروں۔ لیکن تمہاری رہنمائی کرنا میرا فرض رہے گا۔ میں تمہیں کچھ کتابیں دوں گا۔ تم وہ پڑھو۔ جہاں سمجھ نہ آئے۔ وہاں مجھ سے پوچھو۔ تم خود بھی اپنے لیے کتابیں ڈھونڈ سکتے ہو ۔ پڑھ سکتے ہو۔ اور پھر جس دن تم یہ سمجھو کہ تم اپنے لیے ایک فیصلہ کرنے کے قابل ہو۔ یہ فیصلہ تمہارا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ تم سوچ سکتے ہو ۔ بحث کر سکتے ہو۔ دلیل دے سکتے ہو اور مجھے قائل کر سکتے ہو۔ آج کے بعد سے تم نے نماز پڑھنی ہے یا نہیں ، روزہ رکھنا ہے یا نہیں۔ یہ تمہارے فیصلے ہیں" ابو نے عینک آنکھوں پر چڑھائی اور کتاب دوبارہ کھول لی۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ مکالمہ ختم ہوا۔
امی اب بڑبڑا رہی تھیں۔ اس بڑبراہٹ میں مجھے ایک جملہ ہی سنائی دیا
“ لو ۔ اب اپنی اولاد اتنی سی عمر میں ملحد ہوگئی ہے"
مجھے ملحد کے معنی پتہ نہیں تھے لیکن امی کے لہجے سے اندازہ ہو گیا کہ یہ کوئی انتہائی بے ہودہ اور نامعقول چیز ہو گی۔ لیکن اس وقت احساس فتح میں سرشار میں کسی نئی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا تھا اس لیے سوچا ملحد تو ملحد ہی سہی ۔ اب کم ازکم صبح دم اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو تو نہیں کرنا پڑے گا۔ اس لیے اٹھا اور کمرے سے تقریبا رقص کرتا ہوا رخصت ہو گیا۔
اسی دن شام کو ابو نے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کی چھ جلدیں میرے حوالےکیں۔ مذہبی فلسفے سے یہ میرا پہلا باقاعدہ تعارف تھا اس کے بعد چل سو چل۔ تفسیر، فقہہ، حدیث، تاریخ جو کچھ مجھے مل سکا میں پڑھتا چلا گیا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کی کتب بھی چاٹ ڈالیں۔ یہ سفر آج بھی جاری ہے۔
ابو نے اپنا وعدہ نبھایا ۔ اس دن کے بعد سے مرتے دم تک کبھی انہوں نے مجھے نماز پڑھنے کا نہیں کہا۔ جس دن ابو اس دنیا سے گئے اس سے ایک دن پہلے وہ کئی گھنٹے میرے برادر نسبتی سے باتیں کرتے رہے۔ یہ بات مجھے بعد میں اس نے بتائی کہ ابو نے خاص طور پر اسی واقعے کا ذکر کر کے کہا کہ اس دن کے بعد سے میں کبھی حاشر کے لیے فکر مند نہیں رہا۔ اگر وہ بارہ تیرہ سال کی عمر اپنی زندگی کی راہ کا تعین خود سے کرنے کی دلیل ڈھونڈ سکتا تھا تو پھر اسے اب کسی سہارے، کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں تھی۔ اس دن مجھے یقین ہو گیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کی زمہ داریاں خود سے نبھا لے گا اور احسن طریقے سے نبھائے گا۔ اب میرے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت ہے اور میرا یقین اسی طرح قائم ہے۔ ابو چلے گئے۔ ان کا یقین مجھ تک پہنچ گیا تھا اور میں آج بھی اس کوشش میں ہوں کہ اس پر پورا اتروں۔
اس واقعے کو بہت مدت گزر گئی ہے۔ وہ میرا آغاز سفر تھا اب اختتامی لکیر واضح نظر آتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں نے کبھی اس کے بعد نماز پڑھی ہی نہیں۔ میری زندگی میں ہر طرح کے دور گزرے۔ میں نے مساجد میں جھاڑو بھی لگائی۔ مؤذن بن کر اذانیں بھی دیں۔ نماز خود ہی نہیں پڑھی بلکہ امامت بھی کرائی۔ پھر وہ دور بھی گزرے جب میں نے ان میں سے کچھ بھی نہیں کیا۔ لیکن جو کیا ، جب کیا۔ اس وقت کیا جب دل اور دماغ نے اس پر صاد کیا۔ میرے لیے یہ کبھی روایت کی پابندی نہیں تھی۔ کوئی برین واشنگ نہیں تھی۔ میرے لیے یہ ذاتی انتخاب تھا۔ بارہ تیرہ سال کی عمر میں بھی انسانی ذہن کی نفسیاتی تشکیل بڑی حد تک ہو جاتی ہے اس لیے اس سے آزاد ہو کر سوچنا کوئی کار آسان نہیں ہے۔ میرے لیے بھی یہ قصہ نماز کا نہیں ہے۔ یہ قصہ پنجرے سے نکلے ہوئے پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنے کا ہے۔
یہ بات سمجھنے میں بہت وقت لگا کہ مذاہب عالم میں کوئی خاص جوہری فرق نہیں ہے۔ اس حقیقت کا ادراک کرتے کرتے بالوں میں سفیدی اتر آئی کہ وہم ، عقیدہ اور خواہش انفرادی ہوتی ہے۔ اس سفر میں جہاں اور بہت سے لوگوں کے پیر انجانی زنجیر سے بندھے رہتے ہیں وہاں یہ میرے باپ کا احسان تھا کہ میری بیڑیاں بہت کم عمری میں کھول دی گئی تھیں۔ میں نے یہی سبق اپنی اگلی نسل کو منتقل کیا۔ احسان کا بدلہ ایسے ہی اتارنا ممکن تھا۔ میرے باپ نے مجھے میرے لیے سوچنا سکھایا۔ میری آزادی فکر کا احترام کیا۔ میں نے یہی احترام اپنے بچوں کے لیے روا رکھا۔
عقیدہ جبر نہیں، انتخاب ہے۔ یہ بات کہنے میں جتنی آسان ہے، کرنے میں اتنی ہی مشکل ہے۔ ہزار سوالوں کا یہ سوال ہے کہ کیا بچوں کی کم عمری میں عقائد کے حوالے سے تربیت نفسیاتی جبر ہے یا نہیں۔ کیا آپ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ فلسفہ حیات کا انتخاب ایک بالغ ذہن کے لیے ہی ممکن ہے۔ کیا آپ اپنے بچوں کو اس کی آزادی دینے کو تیار ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ آپ کا ایمان ان کے ایقان کا تعین کرے۔ سوال مشکل ہیں اور ہم ان پر سوچنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم حقائق اور عقائد میں فرق روا نہیں رکھتے اور ایک ہی لاٹھی سے بچوں کے دماغ میں ہر بات گھسانا چاہتے ہیں۔
یہ قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ میں سوال چھوڑے جا رہا ہوں۔ ابھی اس سے بہت سے اور مضمون نکلنے ہیں۔ مجھے بہت کچھ اور کہنا ہے ۔ بہت کچھ اور سمجھانا ہے پر اس کے لیے ضروری تھا کہ میں اپنی داستان سے آغاز کروں۔ سو وہ میں نے کر دیا ہے۔ بہت دوست ہیں جو اب بھی میرے عقیدے کے بارے میں متجسس رہتے ہیں ۔ انہیں بھی یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ ان کا مقام نہیں ہے۔ یہ ہم میں سے کسی کا مقام نہیں ہے۔ کسی کے دل میں جھانکنا ممکن نہیں ہے تو کیا ضرورت ہے۔ کیا کہا جا رہا ہے وہ اہم ہے۔ کون کہہ رہا ہے وہ اہم نہیں ہے۔ جو کچھ ہے یہ اپنی ہی ذات کا وہم ہے۔ اس میں کیا کسی پر فتوے دھرنے، کیا کسی کے ایمان تولنے۔ اپنے اندر اتر لیں تو بھید پا لیں گے، نہیں تو منزل بھی سراب ہے، سفر بھی سراب ہے۔
اول آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا ہور پچھاناں
میتھوں ہور نہ کوئی سیانا
او کھڑا ہے کون ! بلھا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“