میری ٹوٹی پھوٹی یادداشت کے مطابق غالباً 1987 کو جب میری عمر سات سال تھی، میرے والد نے مجھے عربی تلفظ اور تلاوتِ قرآن سیکھنے مدرسے کے حوالے کیا ـ کراچی لیاری کے علاقے بکراپیڑی میں واقع مدرسہ “دارالعلوم انوارالاسلام” اس زمانے میں لیاری کا سب سے بڑا مدرسہ سمجھا جاتا تھا ـ یہ مدرسہ دارالعلوم دیوبند سے منسلک تھا ـ
مدرسے کے سربراہ ضعیف العمر مولانا عبدالباقی بلوچ تھے ـ جب میں مدرسے کا حصہ بنا اس وقت مولانا، صاحبِ فراش تھے اور غالباً اسی سال یا اگلے سال وہ فوت ہوگئے ـ ان کے بعد ان کے پانچ بیٹوں قاری عبدالہادی بلوچ، مولانا عبدالباری بلوچ، کریم بلوچ، مولوی عبدالحفیظ بلوچ اور حافظ عبدالرحمان بلوچ نے مدرسے کا انتظام سنبھالا ـ
مدرسے کا محلِ وقوع بھی دلچسپ ہے ـ مدرسے کے جنوب میں نورانی کالونی کا بلوچ محلہ ہے اسی محلے کے نوجوان شاہ جہان بلوچ گزشتہ انتخابات میں گینگسٹرز کی حمایت سے پیپلزپارٹی کے ایم این اے منتخب ہوئے ـ شاہ جہان بلوچ بھی مدرسے کے طالب علم ہوا کرتے تھے ـ شمال میں وسیع و عریض بکراپیڑی تھی ـ بکراپیڑی کو بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں ختم کردیا گیا ـ اب وہاں پارک اور ہال بنائے گئے ہیں ـ بکراپیڑی کے ساتھ ساتھ میانوالیوں کا علاقہ ہے ـ میانوالی کٹر بھٹو مخالف اور ضیا الحق و نواز شریف کے حامی تھے ـ مشرق میں بھی بلوچ محلہ ہے، اس محلے کے پیچھے صابن کی ملیں اور گودام ہیں ـ ان ملوں کی بدبو اور آلودگی نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے ـ مغرب کی جانب پولیس لائن ہے ـ پولیس لائن کے رہائشی تقریباً پنجابی ہی تھے (آج بھی ہیں) بس چند ایک کا تعلق ہزارہ وال سے تھا ـ پولیس لائن کے بغل میں کچھی کمہاروں کا علاقہ کمہارواڑہ ہے ـ
مدرسہ دو حصوں میں منقسم تھا ـ ایک حصہ ہم جیسوں سے منسلک تھا جو صبح ناظرہ قرآن پڑھتے، دوپہر کو مدرسے کے زیرِ انتظام چلنے والے پرائمری اسکول میں جاتے اور شام کو مدرسے میں ہی ٹیوشن پڑھتے ـ یوں صبح سات سے لے کر شام سات بجے تک میں مدرسے کا ہو رہتا ـ دوسرا حصہ افغان طلبا کے لئے یہ مختص تھا ـ یہ طلبا مدرسے میں بنے کوارٹر میں ہی رہتے تھے ـ ان میں سے بعض طلبا زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے ، کچھ کے پیروں میں بیڑیاں ہوتی تھیں، انہیں دیکھ کر مجھے ہمیشہ نامعلوم ڈر کا سامنا رہتا تھا ـ ہمیں سختی سے منع کیا جاتا تھا کہ ان سے بات نہ کی جائے ـ ان طلبا کے الگ حصے کی طرف ویسے تو میں خود بھی ڈر کے مارے نہیں جاتا تھا لیکن اگر اتفاقاً کسی کام سے چلا جاتا تو وہ رات میرے لئے خوف ناک بن جاتی ـ ان طلبا کو انتہائی سخت سزائیں دی جاتیں ـ الٹا لٹکانا، بید سے مارنا، ننگا کرکے پشت پر ڈنڈے برسانا جیسی سزائیں ہمیں بھی ملتی تھیں مگر ان طلبا کے ساتھ یہ عمل ہم سے بھی زیادہ بے رحمی سے کیا جاتا تھا ـ
مدرسے کے بڑے لڑکوں کی معنی خیز باتوں سے پتہ چلتا تھا کہ ان کے ساتھ نہ صرف جنسی زیادتی کی جاتی تھی بلکہ وہ خود بھی آپس میں جنسی تعلق بناتے تھے ـ جنسی زیادتی کے خوف کی وجہ سے بھی میں ہمیشہ ان سے دور رہنے کی کوشش کرتا تھا ـ
میرے والد کے پھوپھی زاد بھائی ملا عبدالحق بلوچ بھی مدرسے سے وابستہ تھے ـ وہ چونکہ سرکاری اسکول ٹیچر تھے اس لئے صرف شام کی شفٹ میں بڑی جماعت والوں (میرے لئے اس وقت پانچویں جماعت بڑی ہوتی تھی) کو ٹیوشن دینے آتے تھے ـ مجھے بعد میں پتہ چلا مدرسے کا حساب کتاب بھی وہی دیکھتے ہیں ـ میں چونکہ ان کے توسط سے مدرسے میں آیا تھا اس لئے اوائل میں میرے ساتھ نسبتاً نرم رویہ رکھا گیا ـ
ہنی مون پیریڈ گزرنے کے بعد مجھے بھی تھپڑوں اور ڈنڈوں سے آشنا کردیا گیا ـ پہلے سال مجھے “نورانی قاعدہ” دیا گیا ـ حروف کی شناخت اور درست تلفظ کے پُل صراط پر میرا پہلا قدم ـ بلوچی زبان میں “ح ، خ، ذ، ص، ض، ط، ظ، ع، غ، ف، ق ” کی آوازیں نہیں ہوتیں ـ مجھ سمیت تمام بلوچ بچوں کے لئے ان حروف کی آواز نکالنا سوہان روح تھا ـ
شروعات میں عربی تلفظ کی درست ادائیگی کے معاملے پر مجھ سے نرمی کا برتاؤ رکھا گیا مگر یہ دور مختصر رہا ـ اس کے بعد تشدد کا لامختتم سلسلہ شروع ہوگیا ـ اس دوران ہمیں وضو اور نماز سکھانے کی کوششوں کا بھی آغاز کردیا گیا ـ وضو سکھانے کے لئے ہمیں دو صفحات پر مشتمل کتابچہ دیا گیا ـ یہاں ایک لطیفہ بھی ہوا ـ وضو کے حوالے سے ہم بچوں کی دلچسپی کی چیز “وضو کن چیزوں سے ٹوٹتی ہے” بنی ـ حیض اور نفاس سے اس وقت ہم لاعلم تھے البتہ دیگر چیزیں ہمیں ہنسنے کے سامان فراہم کرتیں ـ
جلد ہی تشدد نے ہمیں سمجھا دیا ہم لاکھ غیر سنجیدہ رہیں، استاد کافی سنجیدہ ہیں ـ ہمیں ایک چھوٹی سی جیبی ڈائری خریدنے کی ہدایت دی گئی ـ حکم ملا ڈائری میں ہر نماز کے بعد متعلقہ مسجد کے پیش امام سے تصدیقی دستخط کرواؤ ـ دوسرے دن مدرسے میں ڈائری چیک کی جاتی تھی ـ مرتا کیا نہ کرتا، پنج وقتہ نمازی بننے کی سعیِ لاحاصل میں جت گیا ـ باقی سب ٹھیک تھا بس فجر اور عشا میں جان جاتی تھی ـ میں ہمیشہ ان دو نمازوں کی وجہ سے پٹنے لگا ـ
ہمیں بتایا گیا ٹخنے چھپانا غرور کی علامت ہے، پائنچے اوپر چڑھ گئے ـ بتایا گیا ننگا سر دعوتِ گناہ ہوتا ہے، سفید ٹوپی سر پر سج گئی ـ بتایا گیا سلام دینے پر دس نیکیاں ملتی ہیں، ہر راہ چلتے کو سلام دینا فرض بن گیا ـ سلام دینے پر بھی میں ہمیشہ مار کھاتا تھا ـ وجہ وہی کہ لاکھ کوشش کے باوجود میں “ع” کی درست آواز نکالنے میں ناکام ہوجاتا تھا ـ
استادوں کے پاس سزاؤں کا وسیع زخیرہ تھا ـ گھنٹوں مرغا بنانا، کرسی بننا، ہاتھ اٹھا کر کھڑے رہنا ، دو انگلیوں کے درمیان پینسل رکھ کر دونوں انگلیوں کو دبانا، ناخنوں پر ڈنڈے برسانا ، ایک ٹانگ پر سیدھا کھڑے رہنا، سر کے بل ایستادہ ہونا وغیرہ ـ ایک سزا کافی معروف تھی جسے اصطلاحاً “لٹاس” کہا جاتا تھا ـ مثلاً طالب علم دیر سے آیا اور دعا میں شریک نہ ہوسکا، بنا بتائے چھٹی کرلی یا سبق یاد نہ کیا تو استاد گرج دار آواز میں کہتے “چار لمبے چوڑے ، موٹے تازے لڑکے کھڑے ہوجائیں” ـ یہ چار لڑکے ہم سے عمر میں بڑے اور استاد کے منظورِ نظر ہوتے تھے ـ یہ ہمیں الٹا لٹا کر ہمارے ہاتھ پیر سختی سے پکڑ لیتے پھر بس استاد کا ڈنڈا یا بید ہوتا اور ہماری نازک پشت ـ اگر غلطی بار بار ہو یا استاد کا موڈ کچھ زیادہ خراب ہو تو الٹا لٹانے کے بعد شلوار بھی نیچی کردی جاتی تھی ـ ننگے چوتڑوں پر پڑتے ڈنڈوں کو یاد کرکے میں آج بھی کانپ اٹھتا ہوں ـ مدرسے کی زندگی میں سینکڑوں دفعہ میں “لٹاس” کا سامنا کرچکا ہوں ـ ہماری نسبت افغان طلبا کو ہمیشہ ننگا کرکے ہی لٹاس کیا جاتا تھا ـ مجھے لٹاس سے زیادہ اس بات کی تکلیف ہوتی تھی کہ لڑکیاں ہم سے زیادہ دور نہ تھیں، وہ باآسانی ہماری درگت بنتے دیکھتی تھیں ـ
مجھے مدرسے میں غالباً ایک سال ہی ہوا تھا جب جنرل ضیا الحق فضائی حادثے میں مارے گئے ـ مجھے ضیاالحق میں دلچسپی نہیں تھی، خوشی اس بات کی تھی مدرسہ تین دن بند رہے گا ـ مجھے شدید حیرت ہوئی جب دیکھا لیاری میں جگہ جگہ ضیاالحق کی موت پر جشن منایا جارہا ہے، مٹھائیاں بانٹی جارہی ہیں ـ میں نے سوچا شاید “کانا” (لیاری میں جنرل ضیاالحق کو کانا یا دجال کے نام سے پکارا جاتا تھا) تھا ہی اسی قابل مگر دوسرا حیرت کا جھٹکا تب لگا جب مدرسے میں جنرل کے ایصالِ ثواب کے لئے اجتماعی قرآن خوانی اور دعا کا اہتمام کیا گیا ـ استادوں نے کہا بچوں کی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں لہذا ہمیں ان کے لئے اللہ کے حضور خشوع خضوع کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے ـ باہر کی دنیا اور مدرسے کی دنیا کے درمیان یہ میرا پہلا پر تضاد تجربہ تھا جو آخری نہ رہا ـ
مدرسے کے احاطے میں ہر دو دن بعد بکرا زبح کیا جاتا تھا ـ قصائی عموماً مولانا عبدالباقی بلوچ کے تیسرے فرزند کریم بلوچ ہوتے تھے ـ کریم بلوچ دیگر بھائیوں کی نسبت مولوی نہیں تھے ـ وہ سارا دن مدرسے کے دفتر میں بیٹھ کر مختلف فائلیں دیکھتے، پان کھاتے اور ہم بچوں کے ساتھ آتے جاتے مذاق کرتے ـ وہ تھوڑے سے موٹے تھے اس لئے ہم نے ان کا نام “استاد ببلو” رکھا تھا ـ واضح رہے ان کے سامنے ہم ان کو استاد ہی کہتے تھے ـ یہ مدرسے کے واحد فرد تھے جن سے مجھے ڈر نہیں لگتا تھا ـ ان کا رویہ بھی دوستانہ تھا ـ
مجھے آج تک علم نہیں ہوسکا مدرسے کا انتظام کیسے چلتا تھا ـ ہم مدرسے کو ماہوار پانچ روپیہ دیتے تھے، اسکول فری تھا جبکہ ٹیوشن فیس تین روپے تھی ـ لیاری کے طلبا قریب تین سے چار سو ہوتے تھے جبکہ افغان طلبا سو سے ڈیڑھ سو ہوں گے ـ سو، ڈیڑھ سو طلبا کو روزانہ کھانا دینا وہ بھی بکرے کا گوشت پھر استادوں کے اخراجات وغیرہ یہ سب کچھ کم از کم ہماری فیسوں سے ممکن نہ تھا ـ ملا عبدالحق چونکہ حساب کتاب دیکھتے تھے اس لئے یقینی طور پر انہیں ہر چیز کا علم تھا ـ بعد کے سالوں میں جب میں نے ان سے یہی سوال کیا تو انہوں نے صرف اتنا کہا ، اللہ والے مخیر حضرات بہت ہیں ـ اللہ والے مخیر حضرات ہوسکتا ہے بہت ہوں مگر لیاری میں شاید ہی کوئی ایسا ملے ـ
مدرسے میں ہر چھ سات مہینے بعد کچھ نہ کچھ تعمیر ہوتا رہتا تھا ـ کبھی واش روم کی جگہ بدل جاتی تو کبھی سیڑھیوں کی ـ مدرسہ، مسجد کا ہی حصہ تھا ـ مسجد کا ڈیزائن بھی ہر چھ سات مہینے بعد بدل جاتا ـ دیواروں کے رنگ ، دروازوں اور کھڑکیوں کا بھی یہی حال تھا ـ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی آخر استاد ہر چھ سات مہینے بعد توڑ پھوڑ اور تعمیرات میں اتنا فضول خرچہ کیوں کرتے تھے ـ ایک دفعہ سوچ سمجھ کر ڈیزائن بناتے، تعمیر کرتے ، قصہ ختم ـ شاید اس کے پیچھے بھی کوئی راز ہو ـ
مدرسے کی سب سے خوف ناک شخصیت استاد عبدالہادی بلوچ کی تھی ـ وہ ہمارے حصے کے سربراہ تھے ـ ان کے سامنے سب کی گھگھی بند ہوجاتی تھی ـ وہ بڑے لڑکوں کو قرات پڑھاتے تھے اس لئے ان سے میرا واسطہ کم پڑتا تھا مگر جمعرات کا دن عذابِ عبدالہادی ہوتا تھا ـ
جمعرات چھ کلمے مع ترجمہ، نماز مع ترجمہ، نمازِ جنازہ مع ترجمہ، ایمانِ مفصل و مجمل مع ترجمہ، چالیس مسنون دعائیں مع ترجمہ سنانے کے لئے مختص تھا ـ میں ابھی قاعدے میں تھا اس لئے مجھے صرف کلمہ ہی سنانا ہوتا تھا ـ مختلف گروپ بنائے جاتے، ایک گھنٹہ یاد دہانی کے لئے ملتا پھر ترجمہ کے ساتھ سنانا پڑتا ـ ہر بچے کا سبق مختلف ہوتا تھا ـ
میں اس وقت دوسرے کلمے تک پہنچ چکا تھا ـ مجھ سے عموماً استاد عبدالوحید نام کا نوجوان کلمہ سنتے تھے ـ عبدالوحید ایک اسمارٹ اور مہربان استاد تھے ـ وہ بلوچ نہیں تھے ـ کیا تھے، نہ میں جانتا تھا نہ جاننے کی کبھی کوشش کی مگر وہ اچھے استاد تھے ـ اچھا ان معنوں میں وہ “لٹاس” نہیں کرتے تھے ـ ایک جمعرات کو میری شامت آگئی ـ
مجھے تیسرا کلمہ “تمجید” ترجمے کے ساتھ سنانا تھا ـ بدقسمتی سے استاد عبدالہادی بلوچ کی نظر مجھ پر پڑی ـ انہوں نے مجھے بلایا ـ میں ڈرتے ڈرتے ان کے سامنے سر جھکا کر دوزانوں بیٹھ گیا ـ یہاں بتاتا چلوں مدرسے میں دوزانوں بیٹھنے کی سخت ہدایت تھی اور اتنی ہی سختی سے اس پر عمل بھی کیا جاتا ـ مجھ پر دوزانوں بیٹھنے کا اتنا نفسیاتی دباؤ تھا میں گھر پر بھی دوزانوں بیٹھنے لگا ـ خیر، استاد عبدالہادی نے عبدالوحید سے پوچھا اس کا سبق کیا ہے؟ ـ عبدالوحید نے کہا تیسرا کلمہ ـ استاد عبدالہادی بلوچ نے اپنے مخصوص غصیلے انداز میں کہا “دوسرا کلمہ سناؤ” ـ میں گزشتہ ہفتے دوسرا کلمہ “شہادت” سنا چکا تھا مگر استاد کے خوف کی وجہ سے میرے ذہن نے کام کرنا بند کردیا ـ ساری چیزیں گڈمڈ ہوگئیں ـ مستقبل کے خدشات الگ ستا رہے تھے ـ اسی اثنا میں ایک زناٹے دار تھپڑ میرے چہرے پر پڑا ـ مجھے لگا جیسے سب کچھ گھوم کر الٹے ہوگئے ہیں ـ کان سے سائیں سائیں کی آوازیں آرہی تھیں ـ درد کی شدت سے میں نے چیخ چیخ کر رونا شروع کردیا ـ استاد کو شاید میرے رونے کی آواز اچھی نہیں لگی ـ انہوں نے مجھے بید سے مارنا شروع کردیا ـ میں مزید رونے لگا ـ نجانے میں نے کہاں سے ہمت جمع کرکے کہا “جاؤ اڑے ہم نہیں پڑھتا ہے” ـ بس جناب ـ یہ تو گویا ہیروشیما ناگاساکی ہوگیا ـ
استاد کے حکم پر چار لڑکے مجھے پکڑ کر نیچے لے گئے ـ نیچے ایک زمین دوز پانی کی خشک ٹینکی تھی ـ مجھے اس ٹینکی میں ڈال کر ڈھکنا آدھا بند کردیا گیا ـ اس ٹینکی میں ہمیشہ افغان طلبا کو ڈالا جاتا تھا ـ خوف کی وجہ سے میں کبھی بھی اس ٹینکی کے قریب نہ گیا لیکن اس دن میں خود اس ٹینکی کا مہمان بن چکا تھا ـ
تاریکی، تنہائی اور گہرائی کے خوف نے مجھے سرتاپا لرزا دیا ـ میں چیخ چیخ کر مدد کو پکارتا رہا مگر سب اوپر تھے اس لئے چاروں طرف خاموشی تھی ـ رو رو کر میرا برا حال ہوگیا ـ میں نے با آوازِ بلند دوسرا کلمہ پڑھا، ترجمہ پڑھا، پھر تیسرا کلمہ بھی ترجمے کے ساتھ پڑھا ـ چلا چلا کر کہتا رہا استاد دیکھو مجھے سب یاد ہے، مجھے باہر نکالو، میں مرجاؤں گا ، مگر بے سود ـ کوئی نہ آیا ـ میں ٹینکی کی دیواروں کو زور زور سے ہاتھ مارتا رہا ـ بچہ تھا، بچے کی ہمت ہی کتنی ہوتی ہے؟ ـ میری ہمت بھی جواب دے گئی ـ
میری شلوار گندی ہوگئی ـ قمیض بھی گند میں لتھڑ گیا ـ صرف پیشاب ہی خطا نہ ہوا سب کچھ خطا ہوگیا ـ میں پاگلوں کی طرح چلاتے چلاتے نڈھال ہوگیا ـ نجانے کتنا وقت گزرگیا ـ پھر دو لڑکے آئے ـ میری جان میں جان آئی لیکن رونا بدستور جاری رہا ـ ایک نے ہاتھ بڑھا کر کہا اوپر آؤ ـ جب میں کسی نہ کسی طرح اوپر پہنچا تب ان پر کھلا میں تو ایک بدبودار جسم ہوں ـ انہوں نے میرے سر پر چپت مار کر کہا جاؤ گھر جاؤ ـ
میں اسی حالت میں روتا دھوتا بھاگا بھاگا گھر گیا ـ سارے راستے مجھے یہی لگ رہا تھا جیسے سب میرا مذاق اڑا رہے ہیں ـ شرمندگی کے احساس نے مجھے مزید رلایا ـ گھر پہنچ کر میں سیدھا واش روم گھس گیا ـ نہا دھو کر باہر نکلا ـ سامنے امی کھڑی تھی، سیدھا ان کے گلے لگا اور بلک بلک کر رونے لگ گیا ـ روتے روتے میں نے ماجرا سنایا ـ امی نے کہا اپنے ابا سے ذکر مت کرو، وہ تم پر غصہ کریں گے کہ تم نے استاد سے بدتمیزی کی ہے ـ لو جی! اور سنو ـ
میرے والد اصغر علی آزگ مولوی نہیں ہیں ـ ان کو معروف معنوں میں سیکولر کہا جاسکتا ہے ـ آج ان کا شمار بلوچی زبان کے سینئر ترین ادبا میں کیا جاتا ہے ـ اس زمانے میں میرے والد کتابوں کی دوکان چلاتے تھے ـ “شرف کتاب جاہ” یعنی “شرف کتابوں کا مرکز” اس زمانے میں بلوچی کتابوں کے حوالے سے کراچی کی سب سے بڑی دوکان تھی ـ دوکان میں بلوچ ادبا کا آنا جانا لگا رہتا تھا ـ میں شام کو مدرسے سے فارغ ہوکر دوکان جاکر بیٹھتا تھا ـ وہاں بچوں کی کہانیاں ہوتی تھیں جیسے عمرو عیار، ٹارزن، سند باد جہازی، امیر حمزہ اور انسپکٹر جمشید وغیرہ ـ پھر بچوں کے رسائل “نونہال” ، “ٹوٹ بٹوٹ” ، “تعلیم و تربیت” وغیرہ میں یہ سب پڑھنے کے لالچ میں دوکان جاتا تھا ـ والد صاحب بھی حوصلہ افزائی کرتے تھے ـ
دوکان میں بلوچی ادب کے بڑے بڑے نام آتے تھے جیسے رحیم بخش آزاد، پروفیسر صبا دشتیاری، مبارک قاضی، غنی پرواز، عباس زیمی، ،جی آر ملا، مراد ساحر، بیگ محمد بیگل، تاج محمد طائر اور دیگر اصحاب ـ دوکان کے سامنے سڑک پار ڈاکٹر سمیع بلوچ کے نام سے معروف کلینک تھی، اس کلینک میں کامریڈ واحد بلوچ (وہی کامریڈ واحد بلوچ جو گزشتہ سال لاپتہ ہوئے اور ان کی قابلِ فخر بیٹی ہانی بلوچ نے بازیابی کی متاثر کن تحریک چلائی) کمپاؤنڈر تھے ـ کامریڈ کا تقریباً روز آنا جانا ہوتا تھا ـ ان اصحاب کے درمیان مختلف موضوعات پر بحث مباحثے ہوتے تھے ـ یہ ایک بالکل ہی الگ دنیا تھی، مدرسے سے متضاد دنیا ـ
ایک دفعہ پروفیسر صبا دشتیاری نے میری سفید ٹوپی کی طرف اشارہ کرکے میرے والد سے کہا “تم ہمارے لئے دشمن پیدا کررہے ہو” ـ میرے والد نے مسکرا کر کہا “گھبرائیں مت یہ دشمن نہیں بنے گا، مدرسہ اس کو سنوار دے گا” ـ دشتیاری صاحب نے طنزاً کہا ” جیسے مولوی ” ـ اتفاق دیکھئے میٹرک کے بعد میں صبا دشتیاری کا غیر نصابی شاگرد بن گیا ـ ہمارا تعلق کوئٹہ میں ان کے بہیمانہ قتل تک برقرار رہا ـ
میرے والد صاحب مجھے ادبی نشستوں میں بھی لے کر جاتے تھے ـ کبھی کبھار ادیب مجھے صدرِ محفل بنا دیتے تھے ـ ہر دو ہفتے بعد میں اپنے والد کے ساتھ نامور موسیقار استاد عبدالستار بلوچ کے کلب بھی جاتا تھا ـ عارف بلوچ اور شوکت مراد آج صفِ اول کے گلوکار مانے جاتے ہیں ، اس زمانے میں یہ صاحبان وہاں موسیقی کی تعلیم لیتے تھے ـ میں مدرسہ اور ان کے درمیان معلق ہوگیا ـ یہ دو الگ دنیائیں تھیں ـ ایک طرف شعر و شاعری اور موسیقی دوسری طرف سخت مذہبی تعلیمات جہاں شاعری اور موسیقی کو حرام سمجھنے کی تعلیم دی جاتی تھی ـ
مجھے شاید ہی کبھی اس سوال کا جواب ملے آخر میرے والد نے کیا سوچ کر مجھے مدرسے کے حوالے کیا ـ اس معاملے میں میرے مرحوم دادا کامریڈ جمعہ بلوچ کلیئر تھےـ
دادا کو مدرسے کے نام سے ہی چڑ تھی ـ میں دادا کا پسندیدہ پوتا تھا ـ میرا فارغ وقت انہی کے ساتھ گزرتا تھا ـ وہ بالکل ہی الگ انسان تھے ـ وہ نماز روزے کے قائل نہ تھے ـ دادا کو مدرسے پر اعتراض تھا مگر نامعلوم کیوں انہوں نے کبھی بھی مجھے وہاں سے نکلوانے کی عملی کوشش نہیں کی ـ شاید وہ میرے والد سے الجھنا نہیں چاہتے تھے ـ
1988 کو جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد انتخابات کا اعلان ہوا ـ مجھے انتخابات کی سمجھ نہیں تھی مگر وہ میری زندگی کا یادگار ترین دور ثابت ہوا ـ لیاری میں جگہ جگہ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے پوسٹر لگائے گئے ـ میرے والد کے قریبی دوست اور ہمارے پیارے چچا لالا حضرت شاہ نے پیپلز پارٹی کا ترانہ “دل ءَ تیر بجاں” لکھا ـ یہ نغمہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر دلعزیز ہوگیا ـ
لالا حضرت شاہ نسلاً پشتون تھے مگر ان کو دیکھ کر یہی لگتا تھا وہ کامل بلوچ ہیں ـ انہیں بلوچی زبان کا سب سے بڑا نغمہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے ـ وہ کسی ٹرانسپورٹ کمپنی میں ملازم تھے ـ غریب تھے مگر دل کے امیر تھے ـ ان کا یہ نغمہ 1988 کے انتخابات کا اہم جزو بن گیا غالباً آج بھی پیپلز پارٹی کا مقبول ترانہ یہی ہے ـ لیاری میں جشن کا سماں تھا ـ ہر طرف ناچ گانا تھا ـ
مدرسے کی خشک اور بے رنگ زندگی میں انتخابات نے رنگ بھر دیے تھے ـ بے نظیر بھٹو لیاری آئیں، انہوں نے گبول پارک میں جلسہ کیا ـ میں اپنے بچپن کے دوست کالو (کالو میرے محلے میں ہی رہتا ہے ـ ان کا اصل نام مجھے آج بھی پتہ نہیں ہے، سنا ہے آج کل دبئی میں ہیں) کے ساتھ مل کر کسی نہ کسی طرح ہزار جتن کرکے اسٹیج پر پہنچا ـ محافظوں نے ہمیں بھگانے کی کوشش کی مگر اسٹیج پر بیٹھے میرے دادا نے ان کو روک دیا ـ ہم دونوں نے وہاں رقص کرنا شروع کردیا ـ تھوڑی دیر بعد ایک صاحب نے ہم سے کہا چلو بی بی بلا رہی ہیں ـ مجھے سالوں بعد پتہ چلا وہ صاحب پیپلز پارٹی کے رہنما پروفیسر این ڈی خان تھے ـ
بے نظیر بھٹو نے ہم سے ہمارا نام پوچھا ـ میں نے سینہ پھلا کر کہا “ذوالفقار علی بھٹو” ـ انہوں نے مسکرا کر مادرانہ شفقت سے ہمارے سر پر ہاتھ پھیرا اور پیشانی پر بوسہ دیا ـ ہم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے ـ
دوسرے دن مدرسے میں ، میں نے ساتھی طلبا کو یہ واقعہ سنایا ـ ہر کوئی تفصیل سے سننا چاہتا تھا ـ کالو مدرسے میں نہیں تھا اس لئے میں نے موقع غنیمت جان کر خود کو قائدانہ منصب پر سرفراز کردیا ـ
ہم بچے، بے نظیر بھٹو کے معاملے میں کافی پرجوش تھے ـ اس حوالے سے بلوچ اور کچھی طلبا کے درمیان اتحاد تھا ـ میانوالی اور پولیس لائن کے پنجابی چونکہ بے نظیر مخالف تھے اس لئے ان کا بھی آپس میں ایکا تھا ـ ہمیں سیاست کی سمجھ نہیں تھی، نہ ہی ہم نواز شریف کو جانتے تھے ـ ہم صرف ایک ہی نام کی مالا جپتے تھے “بھٹو” ـ میانوالی اور پنجابی طلبا سے لڑائیاں بھی ہوتی تھیں اور پھر ہم سب باجماعت استادوں سے پٹتے بھی تھے ـ استاد کسی اور جماعت کے حامی تھے جس کا نشان “کتاب” تھا ـ اب یہ کتاب والے کون ہیں؟ ـ مجھے مدت تک ان “کتاب” والوں کا پتہ نہ چلا ـ
عمرو عیار، ٹارزن اور خاص طور پر انسپکٹر جمشید کی کہانیوں نے مجھ میں خیالی پلاؤ پکانے کی عادت ڈال دی ـ میں کہانیاں سوچتا رہتا تھا ـ ان کہانیوں کا ہیرو یقیناً میں ہی ہوتا تھا ـ ان فرضی کہانیوں میں مدرسے کے طلبا مظلوم ہوتے تھے جنہیں ظالم استادوں سے چھڑانا میرا مشن ہوتا تھا ـ ایک فرض شناس ہیرو کی حیثیت سے میں ان کہانیوں میں استادوں سے لڑتا رہتا تھا ـ میں نے ایک ہٹ لسٹ بھی بنا رکھی تھی جس میں استادوں کے ساتھ ساتھ مدرسے کے سینئر طلبا بھی شامل تھے ـ میرا پہلا شکار شکیل مراد نامی لڑکا ہوتا تھا ـ
شکیل مراد استاد عبدالہادی بلوچ کے منظورِ نظر تھے ـ استاد کے حکم پر وہ ہمیں سبق یاد کراتے اور بات بات پر تشدد کا نشانہ بناتے تھے ـ جب میں بڑا ہوا تو شکیل مراد استاد سے لڑ جھگڑ کر مدرسہ چھوڑ گئے ـ آج وہ بلوچی ویڈیو فلموں کے فن کار ہیں ـ وہ بچپن میں میری ہٹ لسٹ میں تھے مگر آج وہ میرے لئے ایک قابلِ احترام انسان ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی سرمائے سے بلوچی فلموں میں گراں قدر اضافہ کیا ـ شکیل مراد چونکہ مجھے پڑھاتے رہے ہیں اس لئے آج بھی میں انہیں نام سے مخاطب کرنے کی بجائے “استاد” کہہ کر پکارتا ہوں ـ
میری ہٹ لسٹ تو خیر اب ویسے بھی نہ رہی ـ ہاں ، مدرسے کا ایک طالب علم جو کبھی بھی میری ہٹ لسٹ میں شامل نہ رہا ایامِ جوانی میں مجھے انہوں نے اپنی ہٹ لسٹ میں شامل کردیا ـ انہوں نے مجھے قتل کروانے کے لئے مجھ پر حملہ بھی کروایا مگر میں خوش قسمتی سے بچ گیا ـ وہ تھے “سردار عزیر بلوچ” ـ
میں صبح سات سے لے کر شام سات بجے تک جسمانی طور پر جبکہ باقی اوقات میں نفسیاتی طور پر مدرسے میں ہی رہتا تھا ـ مدرسہ دہشت کا مرکز تھا ـ کب، کس بات پر پٹائی ہوجائے پتہ نہیں چلتا تھا ـ مدرسہ بالکل فوجی انداز میں چلایا جاتا تھا ـ رفع حاجت اور پانی پینے کی اجازت لینے کے لئے کھڑے ہوکر انگلی کے مخصوص اشارے دینے ہوتے تھے ـ استاد بے نیاز رہتے تھے ـ کبھی کبھار گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد استاد سر کی جنبش سے انکار کردیتے تھے ـ ایسے موقعوں پر مثانے سے ناقابلِ برداشت درد کی ٹھیس اٹھتی اور جی چاہتا آگے بڑھ کر ان کا گلا دبوچ لوں ـ میرے ساتھ طیب نام کا ایک پنجابی لڑکا پڑھتا تھا ـ اس بیچارے کا متعدد دفعہ اسی وجہ سے پیشاب خطا ہوتا رہتا تھا ـ شلوار میں پیشاب کرنے کے جرم میں پھر اسے سخت سزائیں بھی ملتی تھیں ـ
سردیوں کا موسم زیادہ تکلیف دہ ہوتا تھا ـ آج کل تو کراچی میں سردی محض منہ دکھانے آتی ہے ـ میرے بچپن میں کراچی میں واقعی سردی پڑتی تھی ـ سردیوں میں صبح سات بجے مدرسہ پہنچنا دشوار ہوتا تھا ـ دیر سے آنے کا انعام بید سے پٹائی ـ سرد موسم میں سرعت سے جسم پر پڑتی بید دن میں بھی تارے دکھا دیتی تھی ـ
مدرسے کے دہشت ناک ماحول نے مجھے نفسیاتی شکست و ریخت کا شکار بنا دیا ـ میری خود اعتمادی ختم ہوگئی ـ میں ہمہ وقت ڈرا سہما رہتا تھا ـ دوسری جانب بڑے لڑکے استادوں کے جھوٹے سچے جنسی قصے سنایا کرتے تھے ـ ان قصوں نے مجھے مزید خوف زدہ کردیا ـ عدم تحفظ کا احساس اس قدر بڑھ گیا میں راہ چلتے بھی اچانک چونک کر پیچھے دیکھتا پھر خوامخواہ کسی اندھے خوف کے باعث بھاگ کھڑا ہوتا ـ
مجھے جنس کے بارے میں زیادہ علم نہ تھا ـ میں پیچھے سے چپکنے کو ہی جنسی عمل سمجھتا تھا ـ چھٹی کے وقت جب ہم بچے سیڑھیوں سے اترتے تو میں اپنی دونوں ہتھیلیاں پشت پر رکھ دیتا تھا تاکہ کوئی مجھے ……… ـ بعض بدمعاش ٹائپ بڑے لڑکے ہم بچوں کو پیچھے سے انگلیاں کرتے تھے ـ مجھے لڑکے اور لڑکی میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا تھا ـ
لڑکیوں کے استاد ایک کچھڑی داڑھی والے پختہ عمر سرائیکی تھے ـ وہ ایک ٹانگ سے لنگڑا کر چلتے تھے ـ وہ استاد ایک دن اچانک غائب ہوگئے اور ان کی جگہ لڑکیوں کو استاد حسن بلوچ نامی مولوی پڑھانے لگے ـ بعد میں عقدہ کھلا ایک بڑی عمر کی لڑکی کے والدین نے شکایت کی تھی کہ استاد ہمارے جسم کے حساس حصوں کو چھوتے اور کھینچتے ہیں ـ اس شکایت کی وجہ سے کچھڑی داڑھی والے استاد کو نکال دیا گیا ـ استاد غلام محمد بلوچ کو بھی میں نے بعض دفعہ بچوں کی چھاتیاں کھینچتے دیکھا تھا اس لئے میرے لئے دو انگلیوں سے چھاتی کے نپل پکڑ کر کھینچنا معمول کی سزا تھی ـ میں یہ سن کر حیران رہ گیا کہ لڑکیوں کے نپل کھینچنا بری بات ہوتی ہے ـ
پر تشدد ماحول اور عدم تحفظ کے احساس نے آگے چل کر مجھ پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ـ صاف طور پر کہا جائے تو میں بلا کا بزدل بن چکا تھا ـ
ایک تو انسانوں کے ڈر نے جان عذاب میں ڈال رکھی تھی اوپر سے استاد ہر جمعرات کو دوزخ اور قبر کے عذاب سے ڈراتے تھے ـ میں کبھی کبھار راتوں کو اٹھ کر صحن میں نکلتا اور رو رو کر خدا سے بخشش کی دعا مانگتا ـ
1990 کو میں “عم پارہ” پہنچ گیا ـ یہ قرآن کا آخری پارہ ہے جسے مدرسے میں قاعدے کی مکمل تعلیم کے بعد دیا جاتا تھا ـ تین سال مسلسل “نورانی قاعدہ” پڑھنے کے باوجود عربی الفاظ کا تلفظ میرے لئے ناممکن رہا ـ استادوں نے تھک ہار کر فیصلہ کرلیا کہ اس کند ذہن پر مزید وقت برباد کرنا بیکار ہے ـ
اسی سال میرے والدین مغربی بلوچستان (ایران) شفٹ ہوگئے ـ میری پڑھائی کو جواز بنا کر مجھے دادی اور تایا کے پاس چھوڑ دیا گیا ـ یہ میری زندگی کے سخت ترین لمحات تھے ـ
دادی اندھی تھیں جبکہ تایا کو مجھ میں دلچسپی ہی نہیں تھی ـ والدین کے چلے جانے کے بعد میں نے خود کو یکہ و تنہا محسوس کیا ـ میری رہی سہی خود اعتمادی بھی ختم ہوگئی ـ میں سہما سہما رہتا تھا ، میری اس حالت کا ساتھی طلبا نے کافی فائدہ اٹھایا ـ مجھ پر رعب جھاڑا جاتا، بلاوجہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ـ میں اپنے خول میں بند ہوتا گیا ـ مجھے سب سے زیادہ جنسی زیادتی کا ڈر ہوتا تھا ـ ایک دن بالآخر میرے بدترین خدشات درست ثابت ہوگئے ـ
میرے تایا اکبر علی بلوچ اپنے زمانے کے معروف فٹبالر رہے ہیں ـ وہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی فٹبال ٹیم کے لئے کھیلتے تھے ـ جب میں ان کی پرورش میں آیا اس وقت وہ فٹبال سے ریٹائرمنٹ لے کر کے پی ٹی فٹبال ٹیم کے اہم عہدے پر فائز تھے ـ تایا کے گھر میں صبح شام وی سی آر پر فلمیں دیکھی جاتی تھیں ـ میرے کزنز بھی فٹبال کے کھلاڑی تھے ـ تایا کے گھر پر تعلیم ایک جزوی چیز تھی، وہاں صرف دو چیزوں پر توجہ دی جاتی تھی، فٹبال اور فلم ـ والدین کے جانے کے بعد بلوچی ادب و موسیقی سے میرا تعلق ٹوٹ چکا تھا ـ تایا کے گھر کے ماحول کی وجہ سے مجھے بھی فٹبال اور فلم میں دلچسپی پیدا ہونے لگی ـ
میں صبح سے شام ڈھلنے تک مدرسے سے وابستہ رہتا تھا اس لئے مجھے کھیلنے اور فلم دیکھنے کے مواقع کم ہی ملتے تھے ـ باہر کی دنیا سے میرا رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا ـ مدرسہ ہی میری دنیا تھی ـ فلم اور فٹبال میں دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ مجھے یہ خوف بھی تھا کہ یہ دونوں چیزیں شیطانی آلہ ہیں ـ استادوں کے مطابق روزِ حشر فلم دیکھنے والی آنکھیں اللہ سے شکایت کرتی ہیں ـ سزا کے طور پر آنکھوں میں لوہے کی گرم سلاخیں داغی جائیں گی ـ جب بھی فلم دیکھنے کا خیال آتا گرم سلاخوں کا تصور جسم میں جھرجھری پیدا کرتا اور میں کان پکڑ کر توبہ توبہ کرنے لگتا ـ
خوف اور تصورِ گناہ کے باوجود جمعرات کو میں تایا کے ساتھ بیٹھ کر ایک آدھ پرانی انڈین فلم دیکھ ہی لیتا تھا ـ فلم دیکھنے کے بعد میں ہوتا اور لمبے لمبے سجدے ہوتے، گریہ زاری ہوتی ، آئندہ کوئی فلم نہ دیکھنے کا وعدہ ہوتا مگر وعدے دوسرے ہفتے پھر ٹوٹ جاتے ـ
میرے کزنز کو پتنگ بازی کا بھی شوق تھا ـ جمعہ کے دن میں ان کے ساتھ مل کر پتنگ بازی اور فٹبال سے لطف لینے کی کوشش کرتا مگر کم بخت دیگر دنوں کی نسبت جمعہ جلدی گزر جاتا ـ دوسرے دن پھر میں ہوتا اور مدرسہ ہوتا ـ ایک دفعہ میرے کزنز پتنگ اور مانجا لینے صدر ایمپریس مارکیٹ گئے ـ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ صدر دیکھا تھا ـ مزہ بھی آیا اور ڈر بھی لگا ـ اتنے سارے لوگوں کے درمیان مجھے سخت خوف محسوس ہورہا تھا ـ بار بار پشت پر ہاتھ رکھ لیتا ـ میری حالت پر میرے کزنز میرا مذاق اڑاتے رہے، ستاتے رہے ـ
جنسی استحصال کا خوف میری رگ رگ میں اتر چکا تھا ـ ایک دن بالآخر اس خوف کی بھیانک شکل میرے سامنے آ ہی گئی ـ
وہ سردیوں کی صبح تھی ـ استاد سے اجازت لے کر میں نیچے واش روم چلا گیا ـ میں جیسے ہی واش روم گھسا میرے پیچھے پیچھے ایک اور شخص بھی اندر گھس گیا ـ میں ایک دم سے ڈر گیا ـ جب تک میرے اوسان بحال ہوتے، اس نے دروازے کو اندر سے کنڈی لگا دی ـ وہ مجھ سے عمر میں بڑا ایک افغان طالب علم تھا ـ خود کو تنگ واش روم میں ایک افغان کے ساتھ پاکر میں تھر تھر کانپنے لگا ـ میں نے رونی آواز میں اس سے کہا مجھے باہر جانے دو ـ اس نے جیب سے چاقو نکال کر آہستہ سے کہا خاموش ہوجاؤ ورنہ گردن کاٹ دوں گا ـ خوف کی ایک سرد لہر میرے بدن میں دوڑ گئی ـ
اس نے اپنی شلوار نیچے کرکے قمیض اٹھا دی ـ حکم ملا میرا آلہِ تناسل چوسو ـ میری حالت ایسی ہوگئی جیسے کاٹو تو لہو نہیں ـ مجھے گم صم دیکھ کر اس نے میری آنکھوں کے سامنے چاقو لہرایا اور اپنا حکم پھر دہرایا ـ میں رونے لگ گیا ـ روتے روتے میری ہچکی بندھ گئی ـ
وہ شاید میرے رونے کی آواز سے گھبرا گیا ـ اس نے میرے گال پر ایک طمانچہ مارا اور جلدی جلدی شلوار پکڑ کر، کنڈی کھول کر بھاگ گیا ـ خوف کی وجہ سے میرا پیشاب خطا ہوچکا تھا ـ شلوار گیلی ہونے کی وجہ سے میں مزید ڈر گیا ـ واش روم سے نکل کر میں گھر کی طرف بھاگنے کی نیت سے مدرسے کے دروازے کی طرف بھاگا ـ دروازے پر “جان” بیٹھا تھا ـ
جان ایک مسیحی خاکروب تھا ـ مسجد و مدرسے سمیت واش روم کی صفائی اس کی ذمہ داری تھی ـ اس کا مگر اہم کام دروازے پر بیٹھ کر پہرے داری کرنا تھا ـ پہرے دار نے مجھے پکڑ لیا ـ میں نے بھاگنے کی حتی المقدور کوشش کی، ناکام رہا ـ اس نے مجھے اوپر لے جاکر استاد عبدالحفیظ کے سامنے پیش کردیا ـ میرے دو جرائم تھے، شلوار گیلا کرنا اور بھاگنے کی کوشش کرنا ـ میرے ساتھ کیا واردات ہوگئی تھی، وہ بتانے کا مجھے موقع ہی نہ ملا ـ استاد نے میری پٹائی شروع کردی ـ میں روتے روتے ٹوٹی پھوٹی زبان میں واقعہ بھی بتاتا گیا ـ
میرے لئے تکلیف دہ امر یہ تھا کہ میری کہانی پر استاد مسکرانے لگے ـ پھر پوچھا کون تھا؟ ـ میرے لئے سارے افغان ایک جیسے تھے ـ چاہ کر بھی نہ بتا سکا ـ استاد نے سخاوت کا مظاہرہ کرکے مجھے گھر جانے کی اجازت دے دی ـ
میں روتا ہوا گھر پہنچا ـ وہاں کسی نے بھی میرا نوٹس نہ لیا ـ نہا دھو کر لباس بدل کر میں دوبارہ اسکول پہنچا ـ اسکول میں بات پھیل چکی تھی ـ لڑکے میرا مذاق اڑانے لگے ـ کچھ بڑے لڑکوں نے کہا “ہم پر بھی مہربانی کرو” ـ یہ گھٹیا جملے بازی اس واقعے سے بھی زیادہ اذیت ناک تھی ـ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا میں کس سے مدد مانگوں ـ
اسکول اور ٹیوشن سے فارغ ہوکر میں گھر پہنچا ـ ہمیشہ کی طرح میرا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ـ اس رات میں اپنی بے بسی اور تنہائی پر پھوٹ پھوٹ رویا ـ
مدرسے میں ایک اور دہشت انگیز شخصیت استاد عبدالباری بلوچ تھے ـ عبدالباری، استاد عبدالہادی بلوچ سے چھوٹے اور دیگر بھائیوں سے بڑے تھے ـ افغان طلبا کے حصے کے سربراہ وہی تھے ـ ان سے ہمارا واسطہ کم ہی پڑتا تھا ـ وہ انتہائی سنجیدہ شخصیت اور بھاری آواز کے مالک تھے ـ اپنی کم گوئی کی وجہ سے کافی پراسرار تھے ـ ہم افغان طلبا کے ساتھ ان کا خوف ناک سلوک دیکھتے رہتے تھے اس لئے شاید ہی کوئی ایسا طالب علم ہو جسے ان سے خوف محسوس نہ ہوتا ہو ـ
عبدالہادی بلوچ تو پھر بھی کبھی کبھار خوش گوار موڈ میں نظر آجاتے تھے مگر عبدالباری کو میں نے اپنی پوری تعلیمی زندگی میں کبھی مسکراتے بھی نہ دیکھا ـ اس زمانے میں خبر گرم تھی عبدالباری بلوچ کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک بہت بڑا مدرسہ تعمیر کررہے ہیں ـ یہ مدرسہ تعمیر ہوا یا نہیں، مجھے علم نہ ہوسکا ـ
بلوچستان کے معروف سیاسی رہنما حافظ حسین احمد کا بھی مدرسے میں کافی آنا جانا تھا ـ میں اس زمانے میں حافظ سے واقف نہ تھا ـ پرویز مشرف کے دور میں انہیں ٹی وی پر دیکھ کر یاد آیا کہ یہ صاحب تو ہمارے استادوں کے اہم مہمانوں میں رہے ہیں ـ
مدرسے کے طلبا کی معاشی حیثیت اور لسانی شناخت پر تھوڑی بحث شاید کارآمد ثابت ہو ـ ہوسکتا ہے یہ پسِ منظر مدرسے کی اہمیت کو اجاگر کرسکے ـ
ہمارے مدرسے میں طلبا کی اکثریت محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی تھی ـ سب سے بڑی لسانی اکثریت بلوچوں پر مشتمل تھی اس کے بعد پنجابی (میانوالی اور چھاچی برادریوں کو بھی پنجابی گنا جائے) تھے پھر کچھی، ہزارے وال اور پشتون ـ پشتون سب سے کم تھے ـ افغان طلبا کے حصے پر یقیناً پشتونوں کا غلبہ تھا ـ
بلوچوں کی اکثریت غریب گھروں سے متعلق تھی ـ بعض بلوچ ہنرمند طبقے مثلاً بڑھئی اور لوہار سے تعلق رکھتے تھے ـ بڑھئی اور لوہاروں کی آبادی مدرسے سے ہی متصل تھی ـ یہ آبادی گندگی اور تنگدستی کی آماجگاہ ہے ـ بلوچ سماجی تقسیم میں ہنرپیشہ کو “لوڑی” کہا جاتا ہے ـ یہ طبقہ نہ صرف معاشی بلکہ سماجی لحاظ سے بھی معاشرے کا سب سے نچلا طبقہ ہے ـ
پنجابیوں میں میانوالیوں کی حالت سب سے بہتر تھی ـ میانوالی ٹرانسپورٹ اور دیگر کاروبار سے وابستہ ہیں اس لئے میانوالی علاقے کو لیاری کا پوش علاقہ سمجھنا چاہیے ـ میانوالی طلبا تعداد میں کم تھے ـ
پولیس لائن کے پنجابی زیادہ تر کانسٹیبل ، ہیڈکانسٹیبل یا محرر وغیرہ کی اولادیں تھیں ـ وہ بھی غریب طبقے میں ہی شمار ہوتے تھے البتہ بلوچوں کے مقابلے میں ان کی مالی حالت نسبتاً بہتر تھی ـ پنجابیوں کا نچلا طبقہ چھاچیوں اور علامہ اقبال کالونی کے بچوں پر مشتمل تھا ـ بلوچوں کے بعد یہ دوسری بڑی آبادی تھی ـ
تیسری قابلِ ذکر تعداد کچھیوں کی تھی ـ کچھی ، مٹی کے برتن بنانے کے پیشے سے وابستہ تھے ـ ان کے مرد و زن مٹکے، صراحی، گلاس اور دیگر اسی قسم کے سامان بناتے تھے ـ مرورِ زمانہ اب یہ فن تقریباً ختم ہوچکا ہے ـ نئی نسل کے کچھی اپنے آبائی پیشے کو خیر باد کہہ چکے ہیں ـ کچھی زیادہ تر بریلوی مسلک سے منسلک تھے ـ عاشورہِ محرم کو کچھی علاقہ کمہار واڑہ شیعہ علاقے کا منظر پیش کرتا ـ وہاں سے عاشورہ کا جلوس بھی برآمد ہوتا تھا ـ لکڑی کے سفید گھوڑے (ذوالجناح) کے ساتھ سیاہ لباس میں ملبوس کچھیوں کو دیکھنا میرے لئے دلچسپ تجربہ ہوتا ـ ربیع الاول کو بھی کمہارواڑہ عید جیسا منظر پیش کرتا ـ وہاں سبز گنبد کے ماڈل رکھے جاتے تھے، گنبد کے سامنے کبوتر ہوتے ـ ساری رات چہل پہل رہتی ـ ہم بچے رات کو کمہار واڑہ جاکر خوب ہلا گلا کرتے ـ مدرسے میں استاد بتایا کرتے تھے یہ سب بدعت ہیں ـ اس کے باوجود یہ بدعت اچھی لگتی تھی ـ اب تو لگتا ہے وہ سب خواب تھا جو ٹوٹ گیا ـ
میرا مشاہدہ ہے اکثر و بیشتر بچوں کے والدین اپنے بچوں کو تین وجوہات کی بنا پر مدرسہ بھیجتے تھے ـ ایک: بچہ قرآن اور نماز وغیرہ سیکھ کر مذہبی فرائض کی بجا آوری کرسکے ـ دوم: بچے کی شرارتوں اور ہر وقت کے شور شرابے سے کچھ دیر تک سکون مل سکے (استاد کی مار کٹائی کو نظر انداز کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی، ان کے مطابق پٹنے کا ڈر انہیں شرارت سے باز رکھ سکے گا) ـ سوم: مدرسے کی تعلیم محنت کش طبقے کو سستا پڑتا تھا ـ تیسری وجہ ہی وہ سبب ہے جو مدرسے کے بچوں کی اکثریت کو محنت کش طبقے سے منسلک کرتی تھی ـ
نامساعد معاشی حالات کی وجہ سے بچوں کے گھر بھی فرسٹریشن سے متاثر رہتے تھے ـ پھر لیاری کی پسماندگی، سہولیات کی عدم دستیابی، پارک اور کھیل کے میدان سے محرومی بھی ان کے نفسیات پر منفی اثرات مرتب کرتے تھے ـ ان سب کے بعد مدرسے کا پرتشدد، خشک اور غیر صحت مند ماحول ـ یہ سب عوامل مل کر بچے کو جارحیت کی جانب مائل کرتے تھے ـ مدرسے کی تعلیم نے جہاں مجھ میں بزدلی کے جراثیم پیدا کئے وہاں میری شخصیت میں جارحیت بھی شامل ہوگئی تھی ـ
کالج کے زمانے میں مجھے اپنے علاقے میں فری ٹیوشن دینے کا موقع ملا ـ میں کوچنگ سینٹر میں جلاد سمجھا جاتا تھا ـ بچوں کو مارنے اور جلاد لقب سے مجھے نفسیاتی تسکین ملتی تھی ـ شاید میں اپنا بدلہ لے رہا تھا ـ چند دنوں قبل کامریڈ واحد بلوچ کی بیٹی ہانی بلوچ نے مجھے یاد دلایا کہ انہی دنوں میں نے ہانی بلوچ پر بھی بلاوجہ ہاتھ اٹھا دیا تھا ـ خیر، جہدِ مسلسل کے بعد میں اپنی فطرت بدل چکا ہوں مگر ایک عرصے تک میں ایک بدفطرت انسان رہا ہوں ـ
1991 کو میں چھٹی کلاس پہنچا ـ مدرسے کے اسکول سے جان چھوٹ گئی اور اس کے ساتھ ساتھ مدرسے کے ٹیوشن سے بھی میری جان بخشی ہوگئی ـ دادی کے کہنے پر دادا نے مجھے نوالین میں واقع سیکنڈری اسکول “بلوچ اسکول” میں داخل کروادیا ـ بلوچ اسکول پچاس کی دہائی میں بابائے بلوچی جناب خیر محمد ندوی نے لیاری کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے تعمیر کیا تھا ـ ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے نیشنلائزیشن کی پالیسی کے تحت 70 کی دہائی کو اسکول قومیا لیا ـ اسکول کے مرکزی گیٹ پر جلی حروفوں میں لکھا تھا “بلوچی مئے وتی شہدیں زبان انت” ـ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے اردو کے استاد محمد اسلام نے مجھ سے اس جملے کا مطلب پوچھا تھا اور میں جواب میں بغلیں جھانکتا رہ گیا ـ میرے خیال سے اسکول کے بیشتر بلوچ بچے اس جملے کے مفہوم سے نابلد تھے ـ ہائے بلوچی کی بے توقیری !!!!!! ـ
میں ٹیوشن پڑھنے قاری اللہ وسایا اور ان کے ہونہار شاگرد اختر ایوب کے پاس چلا گیا ـ اللہ وسایا، سرائیکی جبکہ اختر ایوب، ہزارے وال تھے ـ ان کا ٹیوشن سینٹر مدرسے کے بالمقابل قاری اللہ وسایا کے گھر پر تھا ـ دونوں چونکہ میرے والد کے قریبی دوست تھے اس لئے دونوں نے میری تعلیم پر خوب خوب توجہ دی ـ اس زمانے میں اللہ وسایا سندھی روزنامے “عوامی آواز” میں کاتب تھے ـ یہ “عوامی آواز” کی اشاعت کا اوائل تھا، اخبار کا دفتر بھی لیاری کے علاقے لی مارکیٹ میں تھا ـ پڑھائی کے معاملے میں یہ بھی تشدد کو ضروری گردانتے تھے مگر یہاں پرتشدد ماحول نہ تھا ـ ڈرپوک ہونے کی وجہ سے بہرحال میں جب تک وہاں رہا ان سے بھی ڈرتا رہا ـ مگر یہ طے ہے کہ میری تعلیمی زندگی ہمیشہ اپنے ان دو قابلِ احترام استادوں کی احسان مند رہے گی ـ
اختر ایوب پہاڑوں کے معاملے میں کافی سخت تھے ـ پہاڑے رٹنے میں بھی مجھے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا، نتیجتہً پٹائی ہوجاتی ـ انہیں کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق تھا ـ پہاڑے سنانے والے دن میں دعا کرتا وہ بیمار ہوجائیں یا ان کا کرکٹ میچ ہوجائے ـ میری پہلی دعا تو قبول نہ ہوتی دوسری البتہ کبھی کبھار پوری ہوجاتی تھی ـ
سیکنڈری اسکول جانے کے بعد ایک اچھی تبدیلی بھی آئی ـ وہ تھی “لڑکی” ـ
سیکنڈری اسکول پہنچنے کے بعد مدرسے میں بھی میری ترقی ہوگئی ـ مجھے قرآن کی تلاوت سیکھنے کی اجازت مل گئی ـ میرے نئے استاد ایک نابینا حافظ تھے ـ افسوس استاد کا نام حافظے سے مٹ چکا ہے ـ استاد کے ہاتھ میں لوہے کے دانوں سے بنی تسبیح ہوتی تھی ـ غلطی کی صورت میں وہ تسبیح سے پٹائی کرتے تھے ـ
استاد عبدالہادی بلوچ کی جانب سے سخت ہدایت تھی کہ تسبیح سے پٹنے کی صورت میں ادھر ادھر ہٹنے سے اجتناب برتا جائے تاکہ نابینا استاد کو دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے ـ حافظ صاحب زَبر زیر کی غلطی پر بھی بری طرح تشدد کرتے تھے ـ ایک دفعہ ان کی آہنی تسبیح میری آنکھ پر لگ گئی ـ پوری آنکھ سوج گئی ـ گھر پر کسی کو بتانے کا فائدہ نہ تھا سو خاموش رہا ـ میری بڑی تایا زاد بہن نے آنکھ دیکھ کر ہمدردانہ و مادرانہ سوال کیا تو میں پھوٹ پھوٹ رویا ـ روتے روتے قصہ بتا دیا ـ میری دادی قریب بیٹھی تھی، دادی نے کہا تم خوش قسمت ہو یہ آنکھ جہنم کی آگ سے بچ گئی ـ
میری دادی بھی نابینا تھی ـ پنج وقتہ نمازی دادی کو کسی کم بخت نے بتا رکھا تھا ایک حافظ قرآن دس افراد کو جنت لے جاسکتا ہے ـ دادی نے مجھے حافظ بنانے کا مشن اپنے سر اٹھا لیا ـ وہ ہمیشہ کہتی تھی روزِ حشر مجھے بھول نہ جانا ـ میں سینہ پھلا کر کہتا آپ کو سب سے پہلے جنت لے جاؤں گا ـ میں نے دادا کو بھی جنت لے جانے کی خوش خبری دی، انہوں نے یہ کہہ کر مجھے مایوس کردیا کہ مجھے جنت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ـ ان پڑھ اور سادہ مزاج بلوچ خاتون ہونے کے باوجود دادی شاید دنیا کی واحد شخصیت تھیں جو میری پڑھائی لکھائی میں بہت زیادہ دلچسپی لیتی تھیں ـ وہ مجھے باقاعدگی سے اسکول، مدرسہ اور ٹیوشن بھیجتی تھیں ـ آج اگر میں تھوڑا بہت لکھ پڑھ لیتا ہوں تو اس کے پیچھے بلاشبہ میری دادی ہیں ـ
اپنے پھوپھی زاد بھائی مظفر علی بلوچ کے توسط سے مجھے مظہر کلیم ایم اے کے “عمران سیریز” اور محی الدین نواب کے “دیوتا” تک رسائی ملی ـ یہ میرے لئے ایک نئی دنیا تھی ـ سحر انگیز دنیا ـ عمران، تن تنہا پاکیشیا کی حفاظت کرتا تھا جبکہ “دیوتا” کا فرہاد علی تیمور ٹیلی پیتھی کے ذریعے بڑے بڑے ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتا تھا ـ میرے خیالی پلاؤ میں بھی نکھار آگیا ـ رگِ جاسوسی کا بھی اضافہ ہوگیا ـ
جاسوسی کے چکر میں ایک دفعہ میری شامت آگئی ـ دراصل مدرسے میں ایک لڑکے کے متعلق مشہور تھا اس کے ایک استاد کے ساتھ “تعلقات” ہیں ـ پھر افواہ پھیلی مزکورہ لڑکے کی والدہ بھی استاد کی “دوست” ہیں ـ وہ لڑکا آج کل عزیر بلوچ کے گینگ کا مفرور رکن ہے ـ میرے بہت سے ساتھی طلبا مستقبل میں گینگسٹر بنے جیسے ارشد پپو اور اس کا بھائی عرفات بلوچ ، عزیر بلوچ ، ایک باسط نام کا لڑکا تھا جو پہلے انور بھائی جان کے “بلوچ اتحاد” کا غنڈہ بنا پھر عزیر گینگ میں باسط موت کے نام سے معروف ہوا وغیرہ وغیرہ ـ خیر، میں نے اس معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ـ
ایک دن مزکورہ لڑکے کی والدہ برقعے میں ملبوس آئی اور دفتر چلی گئی ـ استاد بھی دفتر چلے گئے ـ میں دبے پاؤں چلتا ہوا دفتر کے دروازے پر پہنچا اور کان لگا کر کھڑا ہوگیا ـ ابھی چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے کہ مجھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا ـ پیچھے مڑ کر دیکھا تو جان مسیح کھڑا تھا ـ
جان مسیح ایک پنجابی خاکروب تھا جس کی ذمہ داریوں میں مدرسے کے دروازے پر چوکیداری بھی شامل تھی ـ ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کوئی طالب مدرسے سے بھاگنے کی کوشش میں جان سے بچ جائے ـ اسے دیکھ کر میری سٹی گم ہوگئی ـ
اس نے مجھے کالر سے پکڑ کر استاد عبدالحفیظ بلوچ کے روبرو پیش کردیا ـ استاد عبدالحفیظ بلوچ متضاد شخصیت کے مالک تھے ـ جہاں وہ سخت دل نوجوان استاد تھے وہاں وہ تھوڑے سے رنگین مزاج بھی تھے ـ زندگی میں پہلی دفعہ “بی پی فلم” کا نام میں نے انہی سے سنا ـ وہ کبھی کبھار ترنگ میں آکر فحش لطیفے بھی سناتے تھے ـ ان کی ہر آن بدلتی طبعیت کے باعث ان کے متعلق پیشن گوئی کرنا تقریباً ناممکن تھا ـ
جان نے استاد کو میرا جرم بتا دیا ـ استاد نے ذومعنی مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے کارگزاری مانگی ـ میں نے کچھ سنا ہوتا تو ضرور بتاتا نمک مرچ لگا کر سناتا مگر افسوس کچھ سنا ہی نہیں ـ اس دور میں مجھے جھوٹ بولنے کا کوئی تجربہ نہ تھا یا شاید میں جھوٹ بولنا جانتا ہی نہ تھا ـ تایا کے گھر میں مجھے راست گو بلایا جاتا تھا ـ استاد نے میری لاعلمی کو ہٹ دھرمی پر محمول کیا ـ پہلے تو بید سے میری جم کر پٹائی کی، اس کے بعد مجھے کھڑکی سے باندھ کر الٹا لٹکا دیا گیا ـ انہوں نے ایک طالب کو بھیج کر مدرسےسے متصل اپنے گھر سے کیمرہ منگوایا ـ مختلف زاویوں سے میری تصویریں کھینچی گئیں ـ تصویروں کا مصرف میں سمجھ نہ سکا ـ
اس دہشت انگیز سزا کے بعد میں نے استاد عبدالحفیظ بلوچ کو بھی اپنی “ہٹ لسٹ” میں شامل کردیا ـ
میری فرضی کہانیوں کا مظلوم ترین کردار نوید بلوچ نامی ایک خوب صورت لڑکا ہوتا تھا ـ نوید بلوچ مدرسے کے قریب واقع جاکی محلے کا رہائشی اور میرا پکا دوست تھا ـ تقریباً تمام استاد اور اکثر بڑے لڑکے اس پر ٹھرک جھاڑا کرتے تھے ـ مجھے ہمیشہ اس کی عزت لٹنے کی فکر رہتی تھی ـ ایک دن باتوں باتوں میں استاد عبدالہادی بلوچ نے اس کے گالوں کو چوما اس رات سونے سے پہلے میں نے ایک فرضی کہانی میں استاد کو زندہ دفنا دیا ـ آج نوید بلوچ ایک پرائیوٹ اسکول میں ٹیچر ہیں ـ
قرآن تک رسائی پانے کے بعض فوائد بھی ملے ـ اب میرا شمار مدرسے کے سینئر طلبا میں ہوتا تھا ـ یعنی اب میں قاعدہ پڑھنے والے بچوں سے اپنا “بدلہ” لینے پر قادر تھا ـ سب سے بڑا فائدہ قرآن خوانیوں میں شرکت کا تھا ـ لیاری سمیت کراچی بھر سے لوگ اپنے مکان و دوکان میں قرآن خوانی کروانے کے لئے مدرسے سے رابطہ کرتے تھے ـ حیثیت کے مطابق استاد کو فیس ادا کی جاتی جسے “ہدیہ” کہنے اور ماننے پر زور دیا جاتا تھا ـ پندرہ لڑکوں کی ٹولی ایک سینئر ترین طالب علم کی سربراہی میں مزکورہ جگہ قرآن کی تلاوت کرنے جاتی ـ کلفٹن اور ڈیفنس جیسے پوش علاقوں میں عموماً استاد حسن بلوچ سربراہ بنائے جاتے تھے ـ استاد حسن بلوچ کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا ـ قرآن خوانی کے بعد حسبِ استطاعت ہماری چائے بسکٹ، شربت اور بعض اوقات بریانی سے خاطر تواضع کی جاتی تھی ـ
قرآن خوانی ایک مقدس مذہبی سرگرمی ہے مگر (مذہبی احباب سے معذرت) ہم جیسے خشک زندگی بسر کرنے والے لڑکوں کے لئے یہ تفریح کا ذریعہ تھا ـ باہر کی مفت میں سیر ہوجاتی تھی ـ بیشتر طلبا تلاوت کرنے کی بجائے صفحات پلٹتے تھے ـ بعض شریر طالب علم مزکورہ گھروں کی لڑکیوں کو تاڑتے تھے اور کچھ تو چائے وغیرہ لینے کی آڑ میں انہیں چھونے کی بھی کوشش کرتے تھے ـ چونکہ سر پر سفید ٹوپی سجائے ہم مدرسے کے طلبا ڈیل ڈول سے فرشتے لگتے تھے اس لئے خواتین ہم سے لاپرواہ رہتی تھیں ـ اس لاپرواہی کا پورا پورا فائدہ اٹھایا جاتا تھا ـ کبھی کبھار ہمیں لفافوں میں بند نقد روپے بھی ملتے تھے ـ ہم ہمیشہ دعا کرتے تھے کہ قرآن خوانی کی دعوت آئے اور ٹولی میں ہمیں بھی شامل کیا جائے ـ
ترقی کے نقصانات بھی تھے ـ سب سے بڑا نقصان تھا “موت کا منظر مع مرنے کے بعد کیا ہوگا” ـ یہ ایک دہشت ناک کتاب ہے جو قرآن پڑھنے والے طلبا کو پڑھائی جاتی تھی ـ اس میں عذابِ قبر اور جہنم کے خوف ناک قصے ہوتے تھے ـ ان قصوں نے میری نفسیاتی زندگی پر دور رس اثرات مرتب کئے ـ ایک اور دہشت کا مجموعہ بھی تھی “جہنم کا منظر” ـ عمران سیریز، ڈائجسٹ اور یہ کتابیں میرے ذہن میں گڈمڈ ہوتی تھیں ـ
تایا کے گھر میں وی سی آر پر صبح شام فلمیں دیکھی جاتی تھیں ـ استاد کے بقول قیامت کے دن آنکھیں گواہی دیں گی اس خبیث نے مجھے فلم دیکھنے کے لئے استعمال کیا ـ اللہ کے حکم پر آنکھوں کو گرم سلاخوں سے داغا جائے گا ـ میں حتی الامکان خود کو فلم سے دور رکھنے کی کوشش کرتا تھا ـ اس کے باوجود رات کو تایا کے ساتھ بیٹھ کر ایک آدھ بلیک اینڈ وائٹ فلم دیکھ لیتا تھا ـ ایسی ہی ایک رات “مغلِ اعظم” دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا بڑا ہوکر مدھو بالا سے شادی کروں گا ـ میرے فیصلے کا جب تایا کو پتہ چلا تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا “بے وقوف! اس لڑکی کو تو مرے ہوئے بھی کئی سال گزر چکے ہیں” ـ میں حیران رہ گیا ایسا کیسے ہوسکتا ہے ابھی چند روز قبل ہی تو “پیار کیا تو ڈرنا کیا” پر ناچ رہی تھی ـ میرے اندر کے “عمران” نے کہا لگتا ہے تایا اپنے چکر میں ہیں ـ
میں قرآن کے پانچویں پارے کا سبق لے رہا تھا کہ مدرسے میں دو تنازعے پیدا ہوگئے ـ دونوں کا الگ الگ ذکر مناسب رہے گا ـ
پہلا تنازعہ شکیل مراد بلوچ اور استاد عبدالہادی بلوچ کے درمیان اٹھا ـ شکیل مراد بلوچ (موصوف آج کل بلوچی فلموں کے نامور مزاحیہ اداکار اور ہدایت کار ہیں) مدرسے کے سینئر ترین طلبا میں سے تھے ـ وہ چھوٹی کلاس کے بچوں کو پڑھاتے بھی تھے اور اس زمانے میں میری “ہٹ لسٹ” میں بھی تھے ـ ان کے اور استاد کے درمیان نجانے کس بات پر جھگڑا ہوا، وہ مدرسہ چھوڑ گئے ـ استاد نے دیگر سینئر طلبا کے ذریعے انہیں متعدد پیغامات بھیجے مگر صاحب کو نہ آنا تھا، نہ آئے ـ ایک دن استاد زچ ہوکر بلوچی میں بڑبڑانے لگے “ابھی میں ہاتھ لگانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ بھاگ گیا، بچ گیا …….” ـ
استاد کے جملے میں چھپے معنویت کو پاکر میرا دماغ بھک سے اڑ گیا ـ میری فطری بزدلی حواس پر چھا گئی ـ خود کو شدید غیر محفوظ محسوس کیا ـ میں ٹکٹکی باندھے استاد کو دیکھ رہا تھا ـ انہوں نے مجھے اپنی طرف دیکھتا پاکر غصے سے کہا “تم کیا دیکھ رہے ہو سبق یاد کرو” ـ میں جلدی جلدی آگے پیچھے ڈول کر پڑھنے لگا لیکن میرا دماغ کہیں اور تھا ـ میں کن اکھیوں سے اپنے دوستوں ارشاد بلوچ اور عبدالملک جدگال کی جانب دیکھنے لگا ـ نجانے کیوں انہیں ساتھ دیکھ کر ڈھارس بندھ رہی تھی ـ
ارشاد بلوچ مدرسے کا شریر ترین طالب علم تھا ـ اسے سوائے فٹبال کے اور کچھ نہ سوجھتا ـ اپنی حرکتوں کے باعث اسے درجنوں دفعہ کربناک تشدد کا سامنا کرنا پڑا ـ ایک دفعہ استاد عبدالحفیظ بلوچ نے اس کے اوپری دھڑ کو ننگا کرکے اسے وحشیانہ طریقے سے پیٹا ، پھر کھڑکی سے الٹا لٹکا کر دوبارہ اس کی پیٹھ پر بید برسائے ـ اس کی درگت بنتے دیکھ کر میں چیخ چیخ کر رو پڑا تھا مگر ارشاد ، وہ دوسرے دن دوبارہ اسی مست ملنگ اسٹائل میں مدرسے پہنچ گیا ـ جس دن اس کا میچ ہوتا وہ بلا خوف و خطر چھٹی کرتا اور دوسرے دن بے رحمی سے پٹتا لیکن مجال ہے جو باز آئے ـ استادوں کے مطابق اس کے ابا نے صاف صاف کہا ہے کہ “اس کا گوشت و پوست تمہارا ہڈیاں میری” ـ جناب آج کل دبئی میں کسی اچھی نوکری پر ہے ـ
عبدالملک جدگال مدرسے کے قریب ہی رہتا تھا ـ کافی سادہ مزاج تھا، اسے بھی فٹبال سے محبت تھی مگر ارشاد کے برخلاف وہ کافی محتاط رہتا تھا ـ وہ بھی جوانی میں مسقط سدھار گیا ـ
چھٹی کے بعد میں نے اپنے ان دونوں دوستوں کو استاد کے جملے اور اپنے بدترین خدشات سے آگاہ کیا ـ حیرت انگیز طور پر دونوں نے میری حالت کو سنجیدہ نہ لیا بلکہ الٹا میرا مذاق اڑانے لگے ـ یہاں سے مایوس ہوکر میں شاہد کے گھر کی جانب چل پڑا ـ
شاہد پنجابی ہے اور میانوالیوں کے محلے میں رہتا تھا ـ وہ میرے لئے ہمیشہ لڑنے مرنے پر آمادہ رہتا تھا ـ ایک دفعہ میری خاطر ایک افغان طالب علم سے اس نے اپنا منہ بھی تڑوا دیا تھا ـ وہ آج کل کراچی پولیس میں ہے ـ کہتے ہیں پولیس کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی مگر شاہد کے معاملے میں یہ مقولہ فٹ نہیں بیٹھتا ـ ابھی چند سال قبل اس نے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرکے مجھے مرتے مرتے بچایا ـ یہاں مجھے ایک اور قصہ یاد آگیا ـ
عید کا دن تھا ـ میں نے شاہد اور ماجد بلوچ کے ساتھ مل کر سائیکل پرکلفٹن جانے کا پروگرام بنایا ـ راستہ ہم تینوں کو پتہ نہ تھا ـ نتیجہ؛ گھوم پھر کر جناح کے مزار پہنچ گئے ـ تھک ہار کر ایک ٹیکسی پکڑی ـ ماجد سائیکل پر پیچھے، ہم ٹیکسی میں آگے ـ کلفٹن پہنچ کر ہلا گلا کیا، سورج ڈھل گیا ـ راستہ پھر نامعلوم ـ مختلف سڑکیں ناپتے ناپتے صدر پہنچے ـ صدر اور لیاری پڑوسی ہیں ـ پھر بھی گھر پہنچتے پہنچتے رات ہوگئی ـ سوچا اب تایا سے پٹائی پکی ہے، مگر دریائے حیرت منتظر نکلا ـ گھر پر کسی نے میرا نوٹس ہی نہ لیا ـ بظاہر معاملہ میرے حق میں تھا مگر عدم توجہی کے احساس نے مجھے زخم زخم کردیا ـ
خیر؛ کہاں کی بات کہاں نکل گئی ـ میں شاہد کے گھر پہنچا ـ وہ کرکٹ کھیلنے نکل رہا تھا ـ اسے اپنی پریشانی بتائی ـ اس نے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہوگا اگر کچھ ہوا تو ہم بھی بھول جائیں گے کونسا استاد، کہاں کا استاد ـ اس کی باتوں نے تھوڑا حوصلہ تو دیا مگر ڈر اپنی جگہ برقرار رہا ـ
میرا یہ ڈر نویں جماعت تک میرے حواس پر چھایا رہا ـ مدرسہ ایک خشک اور بنجر جگہ ہے ـ جہاں ایک اجنبی زبان کو بنا سمجھے رٹا لگانے کی تعلیم دی جاتی ہے ـ یہ تعلیم سوال کی حوصلہ شکنی کرتی ہے اور جامد تصورات پر آنکھ بند کرکے یقین دلانے کی مشق کرواتی ہے ـ بچے کی ذہنی نشونما رک جاتی ہے ـ قبر و جہنم میں دی جانے والی سزاؤں کے قصے معصوم اذہان کی نفسیاتی شکست و ریخت کا سبب بنتے ہیں ـ اس کے دو عمومی نتائج میرے مشاہدے میں آئے ـ مسلسل تشدد کا سامنا اور عذابِ الہی کے داستان یا تو بچے سے خوداعتمادی چھین کر اسے ذہنی لحاظ سے پست کردیتے ہیں یا دوسری صورت میں وہ تشدد پسند بن جاتا ہے جس کا لامحالہ نتیجہ مذہبی یا دیگر اقسام کی دہشتگردی کی صورت برآمد ہوتا ہے ـ میرے بیشتر ساتھی طلبا آج معاشرے کے بیکار ترین افراد بن چکے ہیں ـ چند ایک نے اگر کوئی مثبت راستہ چنا بھی ، تب بھی وہ مدرسے کی ابتدائی تعلیمات سے پیچھا چھڑانے میں ناکام رہے ـ جیسے میرے کلاس فیلو عمران بلوچ ـ آج عمران بلوچ ایک پرائیوٹ اسکول کے پرنسپل ہیں اور رات کے اوقات میں انگلش لینگویج بھی پڑھاتے ہیں ـ علم کی زبان ، انگریزی پر دسترس رکھنے کے باوجود وہ مولوی عبدالعزیز اور ممتاز قادری جیسے انسان دشمن افراد کا پرجوش حامی ہے ـ یہاں تک جب میں نے مدرسے کی یاد داشتوں کا سلسلہ شروع کیا تو اس نے پہلی قسط کی اشاعت پر مجھے میسج کرکے یہ سلسلہ بند کرنے کی درخواست کی ـ
مدرسے کی ابتدائی تعلیم مستقبل میں بچے کو ایک پرتضاد شخصیت بنا دیتی ہے ـ وہ اپنے ازکارِ رفتہ تصورات پر اٹل رہتا ہے ـ مدرسہ شخصیت کی تعمیر پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے ـ لیاری کے معروف گینگسٹر عزیر بلوچ کی مثال لے لیں ـ وہ ایک جانب ایک سفاک قاتل ہے تو دوسری جانب مولانا طارق جمیل کی دعوت کرکے پرہجوم وعظ بھی کرواتا ہے ـ ہر سال گینگ کے خرچے پر رائیونڈ اجتماع کے لئے فری بس بھی چلاتا ہے ـ
ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ میں کیسے بچ گیا؟ ـ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے لگتا ہے میں مدرسے کے منفی اثرات کا مکمل خاتمہ کرنے میں ناکام رہا ہوں ـ مجھ میں آج بھی اذیت پسندی کے جراثیم موجود ہیں ـ میرے قریبی جانتے ہوں گے بعض اوقات میں بلاوجہ انہیں دکھ پہنچاتا ہوں ـ قریبی افراد کو دکھ دینے سے مجھے جو تسکین ملتی ہے اس کا تعلق یقیناً میرے مدرسے کی زندگی اور والدین کے بغیر پرورش پانے سے ہے ـ درست تشخیص بہرحال ایک نفسیاتی معالج ہی کرسکتا ہے ، جس کی مجھے اشد ضرورت ہے ـ
دوسرا تنازعہ استاد عبدالہادی بلوچ اور استاد حسن بلوچ کے درمیان پیش آیا ـ استاد حسن بلوچ، لیاری ندی کے پار، شیرشاہ کباڑی مارکیٹ سے متصل جہان آباد نامی محلے کے رہائشی تھے ـ یہ وہی جہان آباد ہے جہاں حاجی لعل محمد لالو اور ان کے گینگسٹر بیٹے و میرے مدرسہ فیلو ارشد پپو نے عرصے تک ظلم کی حکومت چلائی ـ ماضیِ قریب کے ہیبت ناک نام عبدالرحمن بلوچ المعروف رحمان ڈکیت کی ساخت و پرداخت کا سہرا بھی حاجی لالو کے سر جاتا ہے ـ
گوکہ عبدالرحمن بلوچ کے والد حاجی داد محمد بلوچ عرف دادل اور چچا شیر محمد بلوچ عرف شیرل و بیک محمد بلوچ عرف بیکل کا شمار لیاری کے قدیم غنڈوں میں ہوتا ہے ـ مگر ان کی دادا گیری محدود تھی ـ ذوالفقار علی بھٹو غالباً وہ پہلی طاقت ور شخصیت ہیں جنہوں نے ان بھائیوں کو سیاسی چھتری فراہم کی اور انہوں نے ریکسر لائن، لیاری میں واقع سرکاری اسکول “پاک بلوچ” کو سندھ بھر میں پیپلزپارٹی مخالفین کے لئے دہشت کا استعارہ بنایا ـ اس کے باوجود ان بھائیوں کا لیاری کی سیاسی ثقافت میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا ـ عبدالرحمن بلوچ نے حاجی لالو سے تربیت حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی عسکری قوتوں کی آشیر باد اور پیپلز پارٹی کی ہلہ شیری کی وجہ سے لیاری کی سیاست کا رنگ ہی بدل دیا ـ
بہر کیف، استاد حسن بلوچ نے تمام بچوں کے سامنے استاد عبدالہادی بلوچ کو کھری کھری سنائی اور مدرسہ چھوڑ دیا ـ مجھے درست طور پر یاد نہیں ان کے جھگڑے کی وجہ کیا تھی ـ مدرسہ چھوڑنے کے بعد استاد نے قریب ہی اپنا شخصی مدرسہ شروع کردیا ـ قریب دو سال بعد استاد حسن بلوچ میری زندگی بدلتے بدلتے رہ گئے اور میں جہادِ کشمیر کی طرف رخ کرتے کرتے رہ گیا ـ
سچ تو یہ ہے مدرسے کے کسی استاد سے میں نے جہاد وغیرہ کا ذکر نہیں سنا ـ نوے کی دہائی میں لیاری کا سماج ویسے بھی جہاد آشنا نہ تھا ـ عموماً جنرل ضیاالحق کو جہاد کلچر کا بانی سمجھا جاتا ہے کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے لیکن جنرل ضیا الحق یہ کلچر بوجوہ لیاری پر مسلط کرنے میں کلی طور پر ناکام رہے ـ لیاری کا انتخابی شعور پیپلز پارٹی اور سیاسی شعور بلوچستان کے قوم پرستوں کے ساتھ وابستہ رہا ہے ـ یہ دونوں قوتیں سیکولر اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے مخالف رہے ہیں ـ جنرل ضیا کا دور میں نے نہیں دیکھا مگر بزرگوں سے معلومات ملتی ہیں وہ ایک مزاحمتی دور تھا ـ کرفیو، آنسو گیس اور شہادتوں سے عبارت ـ دلچسپ بات یہ ہے لیاری کی تاریخ میں متعدد ایسے علما گزرے ہیں جنہوں نے سیکولر انداز میں معاشرے کی ترقی میں متاثر کن کردار ادا کیا ـ
لیاری میں جہاد اور گینگ کلچر جنرل پرویز مشرف نے متعارف کروائے ـ پرویز مشرف کے دور میں درجنوں جہادی تنظیموں کے برانچ آفس کھلنے لگے ـ وہ کھلے عام جہاد کی تبلیغ کرتے تھے ـ میرے ایک ہم عمر ماموں بھی ان کے ہتھے چڑھے ـ وہ انگلش لینگویج پڑھاتے تھے، جینز اور ٹی شرٹ میں گھومتے تھے ـ پھر اچانک بدل گئے ـ انہوں نے سخت گیر ملا کا روپ دھار لیا ـ ایک دن غائب ہوگئے ـ ان کے بڑے بھائیوں نے ہفتوں تلاش بسیار کے بعد انہیں مانسہرہ کے جہادی کیمپ سے دریافت کیا ـ منت سماجت اور ہزاروں واسطے دے کر انہیں جہاد سے باز رکھا جاسکا ـ آج وہ مولوی تو ہیں مگر سعودی عرب میں کسی اچھی پوسٹ پر کام کرکے خوش گوار عائلی زندگی گزار رہے ہیں ـ
مشرف کا جہاد کلچر البتہ میرے ایک خالہ زاد بھائی کو کھا گئی ـ میرا یہ کم عمر خالہ زاد اپنے ایک جہادی چچا زاد بھائی سے متاثر ہوا ـ تعلیم چھوڑ کر جہاد جہاد کھیلنے لگا ـ ریاست آنکھ بند کرکے سوتی رہی ـ نیشنل ایکشن پلان کے بعد اچانک ریاست کو خیال آیا یہ تو دہشت گرد ہے مگر تب تک دیر ہوچکی تھی ـ موصوف آج کہاں اور کس حال میں ہیں کوئی نہیں جانتا ـ رینجرز البتہ ہر دو ہفتے بعد خالہ کے گھر گھس کر ان کے دیگر بیٹوں کو ہراساں کرتی رہتی ہے ـ خالہ بیچاری بیوگی کے غم کے ساتھ ساتھ بیٹے اور رینجرز کے سلوک کے باعث سوکھ کر کانٹا بن چکی ہیں ـ یہی سب کچھ گینگ میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے ساتھ بھی ہوا ـ
قیامِ پاکستان سے قبل بھی لیاری میں رابن ہُڈ جیسے غنڈے ہوتے تھے ـ پاکستان بننے کے بعد بھی غنڈوں کی پیدائش کا سلسلہ برقرار رہا ـ کلاسیک غنڈوں میں کالا ناگ کافی معروف رہے ہیں ـ پرویز مشرف کے دور میں جہاں بلوچستان کے حالات نے کروٹ بدلی وہاں لیاری میں بھی منظم جرائم کا ظہور ہوا ـ عبدالرحمن بلوچ نے لیاری سمیت کراچی کے تقریباً تمام بلوچ علاقوں کو ایک منظم جرائم پیشہ تنظیم کی لڑی میں پرو دیا ـ چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ انہوں نے اپنے گھر کے سامنے، رینجرز کی چوکی کے برابر میں چودہ اگست کی تقریب منعقد کی اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے بطورِ مہمان خصوصی اس تقریب کو رونق بخشی ـ لیاری کی تاریخ میں پہلی دفعہ جرائم پیشہ عناصر نے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تعلیمی شعبوں میں فیصلہ کن پوزیشن حاصل کی ـ زمانے نے سپاہ صحابہ کے بدنام زمانہ دہشت گرد گل حسن بلوچ اور سفاک گینگسٹر نور محمد بلوچ عرف بابا لاڈلا کو یکجا دیکھا ـ یہ لیاری کی تاریخ کا تاریک ترین دور تھا ـ
اس پسِ منظر اور اپنے مشاہدات کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں “دارلعلوم انوار الاسلام” کم از کم نوے کی دہائی میں جہاد کو فروغ نہیں دے رہی تھی ـ تاہم یہ بھی میرا محتاط اندازہ ہے کیونکہ افغان طلبا کا حصہ مخفی اور پراسرار تھا اس لئے وہاں کے متعلق میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنے سے قاصر ہوں ـ افغان طلبا کی ذمہ داری مولانا عبدالباری بلوچ کے کندھوں پر تھی ـ قاری عبدالہادی بلوچ سے چھوٹے ہونے کے باوجود مدرسے میں ان کا انتظامی عمل دخل زیادہ تھا ـ باہر سے باریش مہمان بھی زیادہ تر انہی سے ملتے تھے ـ اگر افغان طالب علموں کو ایسا کچھ سکھایا یا پڑھایا جاتا تھا تو میں اس سے یکسر لاعلم ہوں ـ
مدرسے کے استاد عموماً سیاست پر رائے دینے سے گریز کرتے تھے البتہ 1993 کے انتخابات میں تھوڑی بہت سیاسی گفتگو ہوتی رہی ہے ـ
استاد عبدالہادی بلوچ، بے نظیر بھٹو کی مخالفت اور مولانا فضل الرحمن کی حمایت کرتے تھے ـ لیاری میں ایک نعرہ مشہور تھا :
“یا اللہ، یا رسول …. بے نظیر بے قصور” ـ
انتخابی مہم کے دوران استاد روز چھٹی کے وقت ہم سے نعرہ لگواتے :
“یا اللہ ، یا رسول ….. بے نظیر ناقبول” ـ
انتخابی مہم کے دوران ہی ایک جمعرات کو استاد نے تقریر کرکے ہمیں بتایا، پاکستان پر جلد اللہ کا عذاب نازل ہونے والا ہے کیونکہ ہم نے بے نظیر کو وزیر اعظم بنایا، اسلام میں عورت کی حکمرانی حرام ہے ـ انہوں نے ہم پر زور دیا کہ ہم اپنے “سیدھے سادھے” والدین کو بھی یہ بات سمجھادیں ـ
میں نے یہ بات اپنے دادا کو بتائی ـ دادا نے مسکرا کر کہا تمہارا استاد “پوک” ہے ـ “پوک” کے لغوی معنی “احمق” کے ہیں اور لفظی معنی نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے ـ
استاد حسن بلوچ، جماعتِ اسلامی کی حمایت کرتے تھے ـ میرے لئے مولانا اور جماعت اسلامی اجنبی تھے ـ اس وقت ہم بے نظیر بھٹو ، الطاف حسین اور نواز شریف سے ہی واقف تھے ـ الطاف حسین سے واقفیت کی وجہ کراچی آپریشن تھا ـ کبھی کبھار مدرسے کے پنجابی طلبا سے نواز شریف کا ذکر سننے کو ملتا تھا ـ لیاری میں نواز شریف کو جنرل ضیا الحق کا بندہ سمجھا جاتا تھا ـ جنرل ضیا ایک قابلِ نفرت شخصیت کے طور پر معروف تھے اس لئے نواز شریف سے نفرت بھی بن جاتی تھی ـ لیاری میں نعرہ مشہور تھا “ہو، ہا شیر آیا …… شیر آیا، آٹا کھایا” ـ
لیاری کے معروف سماجی رہنما ماما یونس بلوچ نے جب اپنے ایامِ کونسلری میں میرے علاقے میں ایک چوک پر تین مصنوعی پہاڑیاں بنا کر اس کا نام بزنجو چوک رکھا تب مجھے یاد آیا بزنجو نام کا بندہ چند سال قبل میرے ننھیالی علاقے گل محمد لائن کے فٹبال گراؤنڈ مولوی عثمان پارک المعروف بھیّا باغ میں ایک جلسہ بھی منعقد کرچکے ہیں ـ
میرے دادا نے مجھے بتایا تھا بزنجو بلوچوں کے سب سے بڑے رہنما ہیں ـ مگر ان بڑے رہنما کا دوبارہ ذکر سننے کو نہ ملا ـ بس وہ چوک ہی ان کی یاد دلاتا رہا، جو آج بھی قائم ہے ـ
انتخابات کے چند مہینے بعد لیاری میں فسادات شروع ہوگئے ـ یہ میری زندگی کا پہلا فساد تھا ـ لیاری میں اکلوتی مہاجر آبادی “عثمان آباد” پر پیپلز پارٹی کی آشیرباد سے حملہ کیا گیا ـ اس لڑائی کے کمانڈر بدنام زمانہ منشیات فروش اقبال بلوچ عرف بابو ڈکیت تھے ـ نوجوان عبدالرحمن بلوچ بھی اسی لڑائی کے دوران “ریمبو” کے نام سے معروف ہوئے ـ بعد کے سالوں میں عبدالرحمن بلوچ کو پولیس اور کراچی کی میڈیا نے ” رحمان ڈکیت” ، عوام نے “خان بھائی” اور اس نے خود کو سردار عبدالرحمن بلوچ کا نام دیا ـ پرویز مشرف کے دور میں ادھیڑ عمر اقبال بلوچ عرف بابو ڈکیت اپنے ہی چیلے نوجوان عبدالرحمن بلوچ کے ہاتھوں قتل ہوئے ـ
اس لڑائی کے دوران ہی نواب اکبر خان بگٹی، سردار عطااللہ مینگل اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے مجھے واقفیت ملی ـ اس لڑائی میں لیاری نشین بی ایس او کے طلبا نے بھی مسلح حصہ لیا ـ کہا گیا نواب اکبر خان بگٹی نے بگٹی فورس اور سردار عطااللہ مینگل نے مینگل لشکر بھیجے ہیں ـ تاہم یہ اطلاع بعد میں یکسر غلط ثابت ہوئی ـ
یہ لڑائی دراصل اورنگی ٹاؤن سے شروع ہوئی تھی ـ اورنگی ٹاؤن میں ایم کیو ایم کے مسلح کارکنوں نے پیپلز پارٹی کو نکالنے کے لئے بلوچ محلے پر حملہ کردیا تھا ـ متعدد بلوچ خواتین و بچے راتوں رات ہجرت کرکے لیاری پہنچے ـ جواب میں عثمان آباد پر حملہ کردیا گیا ـ
دو دنوں میں عثمان آباد خالی کروادی گئی ـ لوٹ مار کا بازار بھی گرم ہوا ـ ایم کیو ایم کے سرگرم کارکن فاروق پٹنی المعروف فاروق دادا کا نام بھی اس دوران سامنے آیا ـ خبر گرم تھی ایم کیو ایم کی جانب سے عثمان آباد کے کمانڈر فاروق دادا ہیں ـ غالباً 1995 کو کراچی پولیس نے ان کا ماورائے عدالت قتل کردیا ـ پولیس کے مطابق وہ راکٹ لانچر سے لیس ہوکر کراچی ایئر پورٹ اڑانے جارہے تھے ـ اس فساد کے باوجود شہر میں کسی بھی جگہ بلوچ مہاجر تصادم نہیں ہوا ـ البتہ سابقہ زرداری دورِ حکومت میں ایم کیو ایم نے بلوچ محنت کشوں اور ذوالفقار مرزا کی تخلیق پیپلز امن کمیٹی نے مہاجر محنت کشوں کی لاشوں کا گھناؤنا بازار گرم کیا ـ
مدرسے میں مہاجر طلبا نہیں تھے اس لئے وہاں فساد تو نہ ہوا البتہ بلوچ، پنجابی، کچھی اور پشتون طلبا مل کر الطاف حسین کو برا بھلا کہتے تھے ـ دلچسپ بات یہ تھی ہم میں سے کوئی بھی الطاف حسین سے کماحقہُ واقف نہ تھا ـ
قریب ایک سال کے طویل عرصے بعد میں قرآن ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا ـ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کرلیا ہو ـ “نورانی قاعدہ” ، “عم پارہ” اور اب “قرآن” ختم کرنے میں مجھے سالوں لگ گئے تھے ـ اس پورے دورانیے نے مجھے مکمل طور پر نہ سہی مگر کسی حد تک مولوی بنا دیا تھا ـ
“ختمِ قرآن” کی سب سے زیادہ خوشی میری دادی کو ہوئی ـ انہوں نے عزیز و اقارب میں مٹھائی تقسیم کی ـ مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں ـ میں بھی اپنے سارے دکھ اور تلخ ایام بھول کر خوشی سے جھوم اٹھا ـ
پکچر لیکن ابھی باقی تھی ـ نہ مدرسہ مجھے چھوڑنے کو تیار تھا اور نہ ہی دادی اجازت دینے پر راضی ـ استاد عبدالہادی بلوچ نے میرے سامنے دو آپشنز اور ایک آفر رکھی ـ پہلا آپشن یہ تھا میں حفظِ قرآن کی تیاری پکڑوں ـ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فرمایا حافظ قرآن بننے کے بعد وہ مجھے مدرسے میں استاد مقرر کر لیں گے ـ دوسرا آپشن علمِ تجوید کا تھا البتہ اس کے ساتھ کوئی آفر نہیں تھی ـ
مجھے کسی چیز کو رٹ کر یاد کرنے سے ہمیشہ الجھن رہی ہے ـ استاد کی آفر سے مجھے بے انتہا خوشی ہوئی مگر جس شرط پر وہ استاد کا منصب دینے کی پیشکش کررہے تھے وہ میرے لئے سخت تھا ـ سوچ بچار کے بعد میں نے تجوید سیکھنے کا بہ نسبت آسان راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ـ اس فیصلے نے میرے مستقبل پر کوئی اہم اثر مرتب نہ کیا ـ
اب مجھے حافظ عبدالرحمن بلوچ کے حوالے کیا گیا ـ حافظ صاحب تمام بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں ـ ان کا اخلاق، بات کرنے کا انداز اور سب سے بڑھ کر شیریں لہجے میں تلاوتِ قرآن مجھے ہمیشہ سے پسند تھے ـ حافظ صاحب نے پہلے ہی دن میرے تلفظ پر سوال اٹھا دیا ـ اس سے پہلے کہ وہ عربی تلفظ کی درستگی کا پیش گفتہ ناکام منصوبہ شروع کرتے انہیں احساس ہوگیا یہ محض وقت کا ضیاع ہوگا ـ
انہوں نے صرف یہ سکھانے پر اکتفا کیا کہ کہاں سانس روکنی ہے ، کس علامت کو لمبا کھینچنا ہے ، کسے کم کھینچنا ہے ، وہ کونسی علامات ہیں جہاں آواز اوپر اٹھانی ہے ، کس کس جگہ آواز نیچی کرنی ہے ـ کس علامت کا مطلب یہاں سانس روک کر مختصر توقف کرنا ہے اور کس علامت پر سانس چھوڑ کر فل اسٹاپ کرنا ہے ـ “و” کی مختلف آوازیں جان کر میں سٹپٹا گیا ـ پہلی دفعہ مجھے پتہ چل رہا تھا تلاوتِ قرآن اور عام کتاب کی قرات میں زمین آسمان کا فرق ہے ـ
حافظ صاحب کی ایک اچھی عادت یہ تھی وہ ملائمت سے پڑھاتے تھے ـ تقریباً ایک سال ان کی شاگردی میں رہنے کے باوجود مجھے صرف تین دفعہ مار سے سابقہ پڑا ـ یہ ایک ریکارڈ تھا ـ خوش گوار تبدیلی بھی کہہ سکتے ہیں ـ
تجوید کے دوران مجھے مدرسے میں پڑھنے والی ایک لڑکی سے فلمی قسم کی محبت ہوگئی ـ وہ لڑکی میرے ساتھ ٹیوشن میں بھی پڑھتی تھی اور خوش قسمتی سے ہمارے اسکول بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے ـ اس وقت تک جنس کے متعلق میری معلومات نہ ہونے کے برابر تھی ـ میں محلے میں لڑکیوں کے ساتھ کھیلتا رہا ہوں اس لئے یہ محبت جزوی طور پر فطری میلان ہی تھا ـ جزوی اس لئے کیونکہ اس کے پیچھے بھارتی فلموں، گانوں اور ڈائجسٹوں کی کہانیوں کی سازش بھی شامل تھی ـ بہرکیف وہ شعوری اور منصوبہ بند چیز نہیں تھی ـ
لڑکی، ہزارے وال تھی اور میانوالیوں کے علاقے میں رہتی تھی ـ اس کا بڑا بھائی بھی ساتھ پڑھتا تھا اور باڈی بلڈنگ و ریسلنگ کا شوق رکھتا تھا ـ سو میرا محتاط ہونا تو طے ہی تھا ـ نوخیز لڑکی نے میری پیش قدمی کا خیر مقدم کیا ـ ہم کتابوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ انڈین گانوں کا تبادلہ کرنے لگے ـ میں ڈائجسٹوں سے جملے مستعار لے کر اسے رومانٹک خطوط لکھتا تھا ـ میرے الفاظ اسے مسحور کرتے تھے ـ محبت نے مجھے بدل دیا ـ گھنٹوں آئینے کے سامنے بال سنوارتا، باقاعدگی کے ساتھ دانت صاف کرتا، بڑے اہتمام کے ساتھ کپڑے استری کرتا ـ سب سے اہم چیز مجھے دلیپ کمار کی فلموں کی لت لگ گئی ـ
معصوم محبت اور تجوید ساتھ ساتھ چلتی ـ رنگیں سہارا مل جائے تو خارستاں بھی گلستان لگتا ہے ـ میرے ساتھ بھی یہی ہوا ـ مجھے مدرسے سے از خود محبت ہوگئی ـ بیزاری ختم ہوچکی تھی ـ مذہبی آحباب کی دل آزاری سے پھر معذرت، انسان کی محبت نے مجھے خدا سے محبت کرنے پر اکسایا ـ محض اس لڑکی کو خوش رکھنے کے لئے میں فجر کی نماز بھی باقاعدگی سے پڑھنے لگا ـ خدا سے اب جہنم کی آگ سے بچنے کی دعا کرنے کے بجائے محبت برقرار رہنے کی دعائیں مانگنے لگا ـ محبت نے زندگی کے زہر کو امرت سمجھ کر پی لیا ـ
اسی دوران ایک بالکل ہی انوکھا واقعہ پیش آیا ـ اس دن حافظ صاحب نے مجھ سے کہا نیچے سے جان (مسیح) کو بلا کر لاؤ ـ میں گیا، جان نہیں تھا جبکہ گیٹ پر تالا لگا تھا ـ میں کچھ دیر انتظار کرتا رہا ، جان نہ آیا ـ سوچا شاید افغان حصے کی طرف گیا ہوگا ـ وہاں گیا تو میرے چھکے چھوٹ گئے ـ دو افغان طلبا، زنجیروں سے بندھے، الف ننگے، ڈنڈوں سے پیٹے جارہے تھے ـ میرے قدم جیسے زمین پر جم گئے ، میں بت بنا دیکھتا رہا ـ اچانک مجھے دھکا لگا، وہ جان تھا ـ ہوش میں آتے ہی بھاگا بھاگا اوپر گیا ـ اس دھماچوکڑی میں سیڑھیوں سے گرگیا ـ چوٹ تو شاید معمولی آئی تھی مگر خوف زدہ ہونے کی وجہ سے مجھے محسوس ہوا جیسے بس جان نکل ہی رہی ہے ـ ہمت مجتمع کرکے دوبارہ اٹھا اور کسی نادیدہ خوف کے سائے میں پھر بھاگا بھاگا اوپر پہنچا ـ میری سانس پھولی ہوئی تھی ـ حافظ صاحب نے نرمی سے پوچھا، کیا ہوا؟ ـ ذہن نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، الفاظ بے ربط ہوگئے تھے ـ ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، نرمی سے بیٹھنے کا کہا ـ دیگر طلبا بھی مجھے گھور رہے تھے ـ
چھٹی تک میں لرزتا رہا ـ نیچے جاتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا ـ ارشاد بلوچ کا ہاتھ پکڑ کر نیچے پہنچا، باہر نکلتے ہی میں نے دوڑ لگا دی ـ ارشاد پیچھے سے آوازیں دیتا رہ گیا ـ میں سیدھا گبول پارک جاکر لیٹ گیا ـ کافی دیر بعد اوسان بحال ہوئے تو گھر چلا گیا ـ اس رات دیر تک مجھے نیند نہیں آئی، وہ منظر بار بار آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ـ صبح تک بخار مجھ پر حملہ کرچکا تھا ـ دادی کی منتیں کرکے میں نے بخار کی اطلاع حافظ صاحب تک پہنچا دی ـ بنا بتائے چھٹی کی سزا بھی خوف ناک ہوتی تھی ـ
دو دن بعد صحت بہتر ہوگئی ـ مدرسہ پہنچا، طلبا کی زبانی علم ہوا مار کھانے والے طلبا ہم جنسی کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے ـ دروغ بر گردنِ راوی، ایک طالب کے مطابق جنسی کھیل میں ایک استاد بھی شامل تھا مگر اسے صرف تنبیہ کرکے چھوڑ دیا گیا ـ کیا سچ، کیا جھوٹ، نہ میں نے جاننے کی کوشش کی اور نہ مجھے کہیں سے پکی خبر ملی ـ
اس ایک واقعے کے علاوہ دورانِ تجوید کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا ـ ہلکی پھلکی (اتنے سال گزارنے کے بعد سزائیں معمول بن چکی تھیں) سزائیں بدستور جاری رہیں ـ پہلی محبت کے سہانے موسم کی وجہ سے میں اس واقعے کے کرب سے بھی جلد نکل آیا ـ
صورتحال یہی رہتی تو شاید بہتر ہوتا ـ مدرسہ ایسی جگہ ہرگز ہرگز نہیں ہے جہاں سے آپ بہتری کی امید لگا سکیں ـ میرے حالات بھی پلٹا کھا گئے ـ قریب ایک سال بعد استاد عبدالرحمن بلوچ نے مجھ سمیت چند دیگر طلبا کے متعلق اعلان کردیا ان کی تجوید کی تعلیم مکمل ہوچکی ہے ـ میرے متعلق یہ ضمنی رپورٹ بھی تھی کہ طالب علم ہزار کوششوں کے باوجود درست مخرج ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم رہا ـ تاہم اس اعلان کو پروانہِ آزادی کا درجہ حاصل نہ ہوسکا ـ
سب سے پہلے دادی ـ دادی نے تو جیسے قسم کھا رکھی تھی مجھے حافظ بنا کر ہی چھوڑیں گی ـ میرے ذریعے استاد کا اعلان جب ان کے کانوں تک پہنچا ان کا پہلا جملہ تھا: “بس اب اللہ تمہیں جلدی سے حافظ قرآن بننے کی سعادت نصیب کرے” ـ حالات کچھ اور ہوتے تو شاید میں منہ بناتا یا کوئی سخت قسم کا احتجاج کرتا ـ میرے حواس پر لڑکی چھائی ہوئی تھی ـ لڑکی مطلب مدرسہ ـ میں نے ہاں کردی ـ
استاد عبدالہادی بلوچ نے بھی میرے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ـ مجھے پتہ ہی نہ تھا یہ فیصلہ مجھے ایک اور بھٹی کی جانب جھونک رہا ہے ـ پر ہونی کو کون ٹال سکا ہے ــ
کسی چیز کو جانے اور سمجھے بنا رٹ کر یاد کرنا کم از کم میرے لئے ناممکنات میں سے ہے ـ اسکول میں سوالوں کے جوابات بھی رٹ کر یاد کرنے پر زور دیا جاتا تھا ـ مجھے اس میں بھی ہمیشہ ناکامی کا سامنا رہتا تھا ـ میں سمجھتا تھا (آج بھی یقین ہے) کسی چیز کو سمجھ کر اپنے الفاظ میں بیان کرنا ہی بہترین طریقہ ہے ـ قرآن کے معاملے میں تاہم ایسا کرنا ممکن نہیں اس لئے حفظ قرآن کے درس میں بیٹھتے ہی کلامِ الہی کی ضخامت دیکھ کر میرا دل ڈولنے لگا ـ مجھے اپنی ناکامی کا پہلے سے ہی اندازہ ہوچکا تھا ـ
مجھے حافظ بنانے کی ذمہ داری استاد عبدالہادی بلوچ کے سر تھی ـ یہ بذاتِ خود ایک مسئلہ تھا ـ استاد کا خوف میری نس نس میں اتر چکا تھا ـ میرے خوف کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے مدرسہ چھوڑنے کے کئی سال بعد اتفاقاً سرِ راہ میرا استاد سے سامنا ہوا، ان کو دیکھ کر میرے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی ـ میں نے گھبرا کر انہیں سلام کیا ـ انہوں نے مسکراتے ہوئے سلام کا جواب دے کر حال احوال پوچھا ـ وہ کافی ضعیف ہوچکے تھے مگر آواز میں گرج برقرار تھی ـ انہوں نے میرے کلین شیو چہرے پر طنز کرکے کہا ” میری ساری محنت اکارت گئی، تمہاری شکل تو بالکل نومولود بچوں کے پچھواڑے جیسی ہے” ـ میں ادب سے خاموش کھڑا رہا ـ چند سالوں بعد اطلاع ملی استاد عبدالہادی بلوچ اس جہاں سے گزر چکے ہیں ـ
قاری عبدالہادی بلوچ کے پڑھانے کا طریقہ یقیناً درست نہ تھا ـ یہ طریقہ انہیں شاید ورثے میں ملا تھا ـ کہا جاتا ہے ان کے والد اور “دارلعلوم انوارلاسلام” کے بانی مولانا عبدالباقی بلوچ بھی کافی سخت مزاج معلم تھے ـ یقیناً استاد نے بھی تشدد سہہ سہہ کر تعلیم مکمل کی ہوگی ـ اس کے باوجود قاری عبدالہادی بلوچ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے لیاری میں مفت تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھایا ـ ان میں بعض بشری کمزوریاں بھی تھیں، وہ باریش مولوی ہونے کی وجہ سے کھل کر اپنے فطری جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر تھے ـ سماجی بندشوں اور اپنے شعبے کے گرد بنائی گئیں مقدس دیواروں کے پیچھے مقید ان کے اندر کا انسان اخراجِ جذبات کے لئے چور راستوں کے انتخاب پر جتنا مختار تھا، اتنا ہی مجبور بھی ـ ان کا ذہن ایک مخصوص سانچے میں ڈھلا تھا، وہ ایک ایسے کمرے کی مانند تھے جس کے دروازے اور کھڑکیاں سالوں سے بند ہوں، جہاں تازہ ہوا، افکارِ تازہ کا کوئی گزر نہیں ـ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، آج میں ان کے قبیلے کا رکن بھی نہ رہا، پھر بھی زندگی کے جن تلخ و ترش تجربات سے انہوں نے مجھے گزارا اس کے لئے ان کا تہہ دل سے شکریہ …….. ـ
استاد کے سب سے بڑے فرزند “گُلّو” بھی میرے کلاس فیلو تھے ـ ان کا نام غالباً غلام حیدر بلوچ تھا مگر ہم بچپن سے انہیں گلو ہی پکارتے تھے ـ آج یقیناً وہ مدرسے کے منتظم اور نامی گرامی مولویوں میں شمار ہوتے ہوں گے ـ
حفظ قرآن کا سفر دونوں قسم کے “الم” سے ہوا ـ میں سارا دن دیے گئے سبق اور پچھلے اسباق کا رٹا لگاتا ـ گھر میں، اسکول، ٹیوشن، سڑکوں پر، گلیوں میں الغرض ہر جگہ، ہر وقت میرے لب ہلتے رہتے ـ کبھی کبھار راہ چلتے افراد مجھے پاگل سمجھ کر حیرت سے گھورتے ـ ان کو دیکھتا پاکر جھینپ کر خاموش ہوجاتا مگر تھوڑی دیر بعد دھاگے کا سِرا پھر سے پکڑ لیتا ـ مسلسل رٹنے کے باعث میرے اعصاب پر کافی منفی اثر پڑھنے لگا ـ زود رنج تو میں پہلے سے تھا اب چڑچڑا بھی بن گیا ـ چڑچڑے پن کا پہلا نقصان، لڑکی کی مفارقت بنا ـ
لڑکی مجھ سے دور دور رہنے لگی ـ میں اسے ناکام عاشقوں کی مانند انتہائی غم ناک خطوط لکھتا جن کے جواب کبھی نہ ملے ـ میں دن میں درجنوں دفعہ اس کی گلی سے گزرتا، حسرت سے گھر کے دروازے کو دیکھتا ـ کبھی دیدارِ یار ہوجاتا، کبھی نہیں ـ حالانکہ وہ مدرسے اور ٹیوشن میں میرے ساتھ پڑھتی تھی اس کے باوجود خوامخواہ اس کی گلی کا طواف کرنا مجھے اچھا لگتا تھا ـ سالوں بعد جب اس کی شادی ہوگئی تب بھی میں پہلی معصوم محبت کی گلی میں جانے کا بہانہ ڈھونڈھ ہی لیتا تھا، سلسلہ اب بھی برقرار ہے ـ کوئی ماہرِ نفسیات ہی اس حماقت کا سبب بتا سکتا ہے ـ فرائیڈین ماہرین تو شاید حسبِ معمول دور کی کوڑی اٹھا لائیں گے ـ
استاد کی پرتشدد شاگردی میں چند مہینے بعد میں ایک پارہ حفظ کرنے میں کامیاب ہوگیا ـ سوچا اب جب اس راستے کا انتخاب کر ہی لیا ہے تو کیوں نہ اسلام کے دائرے میں مکمل طور پر داخل ہوجاؤں ـ چاکیواڑہ میں برطانیہ کے زمانے سے قائم کتابخانہ “لیاری لائبریری” کا رخ کیا ـ لائبریری کے اوپر “ملا فاضل” کے نام سے ایک ہال ہے ـ میں عرصے تک یہی سمجھتا رہا لائبریری اور ہال کسی نامی گرامی مولوی ، ملا فاضل، کے نام سے بنے ہوں گے ـ
عرصے بعد کامریڈ واحد بلوچ نے جب مجھے بلوچی زبان میں شائع ہونے والے ماہنامہ رسالے “بلوچی لبزانک” کی مفت ترسیل شروع کی تب مجھ پر کھلا کون ہے یہ “ملا فاضل” ـ
کامریڈ واحد بلوچ کو چلتا پھرتا پبلشنگ ہاؤس سمجھ لیجئے ـ بلوچی رسالے کی اشاعت و تقسیم کے مختلف مراحل میں سے بیشتر انہی کے کندھوں پر تھے ـ بلوچی زبان میں شائع ہونے والی بیشتر کتابوں کے ناشر بھی وہی تھے ـ وہ میرے لئے اس وجہ سے بھی عجوبہ تھے ان کی شادی کے کارڈز لیاری سمیت بلوچستان بھر کی روایت کے برخلاف بلوچی زبان میں بانٹے گئے ـ ان کی شادی کی تقریب بھی خالصتاً قدیم بلوچ روایات سے مشتق تھی ـ وہ شام کو محلے کی انجمن میں بچوں کو مفت تعلیم بھی دیتے تھے ـ
ملا فاضل، بلوچی شاعری کے دوسرے کلاسیک عہد کے عظیم ترین شعرا میں سے ایک ہیں ـ بعض بلوچ ادبا بالخصوص جدید بلوچی ادب کے معماروں میں سے ایک جناب سید ظہور شاہ ہاشمی انہیں ملک الشعرا قرار دیتے ہیں ـ وہ بلوچستان کے ضلع کیچ (تربت) کی تحصیل مند سے تعلق رکھتے ہیں ـ بلاشبہ ان کی شاعری اور اس میں استعمال کیے گئے تشبیہات و استعارات اپنی مثال آپ ہیں ـ
میں لائبریری میں مولوی بننے گیا تھا مگر 1996 تک پہنچتے پہنچتے میری فکری زندگی میں انقلاب آگیا اور میں ایک ایسے راستے پر چل پڑا جس کا اختتام ہنوز دور دور تک نظر نہیں آرہا ـ اس پر تفصیلی بحث آگے چل کر کی جائے گی ـ
لائبریری سے سب سے پہلے میں نے حدیثوں کی کتابیں ایشو کروائیں ـ وہاں احادیث کا پورا سیٹ موجود تھا ـ احادیث کے بعد سیرت ، شریعت، فقہی مسائل اور دیگر کی جانب یکے بعد دیگرے بڑھنے لگا ـ حفظِ قرآن کا سلسلہ بھی برقرار تھا ـ یہ 1994 کا اواخر تھا ـ
ایک دن وہ ہوا جس کی توقع کم از کم مجھ سے نہیں تھی ـ میں اس وقت دو پارے حفظ کرچکا تھا تیسرا جاری تھا ـ استاد کسی وجہ سے غیر حاضر تھے ـ قائم مقام استاد کے منصب پر ان کے فرزند گلو براجمان تھے ـ میں حسبِ معمول انگلیوں اور انگھوٹے کی مدد سے گلاس کی علامت بنا کر کھڑا ہوگیا ـ یعنی پانی پینے کی اجازت مانگنے لگا ـ قائم مقام استاد بے اعتنائی برتتے رہے ـ کافی دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے پیر دکھنے لگے اوپر سے گلا بھی خشک ہورہا تھا ـ کچھ دیر بعد ہم عمر استاد نے سخاوت کا مظاہرہ کرکے سر کی جنبش سے اجازت دے دی ـ میں نے موقع غنیمت جان کر واش روم بھی استعمال کرلیا ـ تازہ دم ہوکر اوپر پہنچا، استاد نے غصے سے دیر کرنے کی وجہ دریافت کی ـ میں نے لاپرواہی سے کہا واش روم گیا تھا ـ زیرِ تربیت استاد مجھے ڈنڈا مار کر چلائے تم نے واش روم جانے کی اجازت کس سے لی ـ میرا دماغ گھوم گیا ـ ان کے ہاتھ سے ڈنڈا چھین کر میں نے ان پر برسانا شروع کردیا ـ دوسرے کلاس سے ارشاد بلوچ دوڑتا آیا اور اس نے لاتوں سے میرا ساتھ دیا ـ یہ بمشکل ایک یا ڈیڑھ منٹ کی کارروائی تھی ـ ارشاد نے چلا کر کہا بھاگو ـ استاد کے فرزند پر ہاتھ اٹھانے کا مطلب ….. نائن الیون ـ
اس سے پہلے کہ دیگر استاد سنبھلتے ہم نے سیڑھیوں کی جانب دوڑ لگا دی ـ پیچھے سے پکڑو پکڑو کی صدائیں آنے لگیں ـ خارجی دروازے پر جان مسیح دیوارِ چین بن کر بانہیں پھیلائے کھڑا تھا ـ ایک خوف زدہ انسان اپنے بچاؤ کی خاطر جنگ آمد ہوجاتا ہے ـ جان مسیح کے ہاتھوں پکڑے جانے کا مفہوم عبرت ناک سزا …… ـ میں نے جان کے سینے پر زور دار لات مار دی، غیر متوقع صورتحال کے باعث وہ توازن برقرار نہ رکھ پایا، لڑکھڑانے لگا ـ لڑکھڑاتے جان پر ارشاد کی لات نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ـ ہم مدرسے سے باہر آگئے مگر خطرہ ٹلا نہ تھا ـ
افغان طلبا شکاری کتوں کی طرح ہمارے پیچھے تھے ـ اس معاملے میں ان کا سابقہ ریکارڈ شاندار رہا ہے، وہ بھاگتے طالب علم کو پکڑنے میں یدِ طولی رکھتے تھے ـ سڑک پر خالی سوزوکی جارہی تھی ـ ہم بچپن کی مہارت کا استعمال کرکے اس کے پیچھے لٹک گئے ـ ہم نوالین چوک (آج کل چیل چوک) پر اتر گئے ـ ہم افغان طلبا کو بھی شکست دے چکے تھے ـ خطرہ مگر اب بھی برقرار تھا، گھر کیا بتائیں گے؟ ـ کل کیا کریں گے؟ ـ اگر مدرسے سے کوئی گھر پہنچ گیا تو؟ ـ یہ تو طے تھا مدرسہ جانا اب کسی بھی صورت ممکن نہیں لیکن کریں گے کیا؟ ـ ان تمام سوالات کے ایک جواب نے ہمیں آسمان سے گرا کر کھجور میں اٹکا دیا ـ
معمول کے مطابق مدرسے کی چھٹی کے مطابق گھر پہنچا ـ دل انجانے خدشات سے دھڑک رہا تھا ـ میں نے ٹوہ لگانے کی کوشش کی کہ کیا گھر پر کسی کو میرے فرار ہونے کی خبر ہے ، ایسا کوئی سراغ نہ ملا ـ میرے اندر کا چور مجھے دادی سے زیادہ بات کرنے سے روک رہا تھا ، ہر آن یہی احساس ہورہا تھا جیسے کوئی بہت بڑا جرم کرکے بھاگا ہوں ـ مدرسے سے فرار ضمیر پر بوجھ بن چکا تھا ـ
دوسرے دن حسبِ معمول مدرسے کے وقت گھر سے نکلا ، سیدھا ارشاد کے گھر پہنچا ـ وہ بھی پریشان تھا ـ وہ بیچارہ صرف میری دوستی کی وجہ سے اس صورتحال میں پھنسا ہوا تھا ـ اس کی حالت دیکھ شدید شرمندگی کا احساس ہوا ـ ہم وقت گزاری کے لئے میوہ شاہ قبرستان چلے گئے ـ
میوہ شاہ، سادات ہیں ـ کہا جاتا ہے ان کے اجداد اموی خلفا کے مظالم سے تنگ آکر براستہ افغانستان کراچی ، لیاری آکر آباد ہوئے ـ پیپلز پارٹی کے مقبولِ عام ترانے “دل ءَ تیر بجاں” کے خالق ، لالا حضرت شاہ انہی کے پوتے ہیں ـ لیاری ندی کے پار ان کے نام سے موسوم میلوں تک محیط قبرستان کو کراچی کا سب سے بڑا قبرستان سمجھا جاتا ہے ـ
میوہ شاہ قبرستان اور اس سے جڑے گٹر باغیچہ کی زمین لینڈ مافیا کے حملوں کے باعث مسلسل سکڑ رہی ہے ـ قبرستان کے اطراف میں پنجاب بالخصوص میانوالی سے آنے والے افراد کا ناجائز قبضہ ہے ـ شہر کے وسط میں واقع گٹر باغیچہ کی وسیع و عریض سرزمین پر کراچی کے مختلف طاقت ور گروہوں کی للچائی نظریں گڑی ہیں ـ باغیچہ کے سامنے کراچی کی قدیم بلوچ آبادی پرانا گولیمار واقع ہے ـ بلوچوں کو خدشہ ہے پارک اور فٹبال گراؤنڈ چھن جانے کی صورت میں وہ تفریح کے اہم ترین ذریعے سے محروم ہوجائیں گے ـ بلوچ آبادی اور لینڈ مافیا (جس میں ایم کیو ایم بھی شامل ہے) کے درمیان مسلح لڑائیاں بھی ہوچکی ہیں ـ کراچی کے معروف سماجی رہنما اور غیر سرکاری تنظیم “شہری” کے سرگرم کارکن نثار بلوچ نے گٹر باغیچہ کی زمین بچانے کے لئے طویل جدوجہد کی ـ وہ پرانا گولیمار کے ہی رہائشی تھے ـ 2009 کو انہیں گھر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر “نامعلوم” افراد نے قتل کردیا ـ اپنے قتل سے چند دن قبل انہوں نے لینڈ مافیا کے خلاف پریس کانفرنس کے دوران جان کو لاحق خطرات کی نشاندہی بھی کی تھی ـ افسوس ، گٹر باغیچہ کے سکڑنے کا عمل اب بھی جاری ہے ـ
بہرحال آمدم بر سرِ مطلب ، قبرستان پہنچنے کے بعد ہم قبروں پر بیٹھ کر بظاہر سنگین نظر آنے والے معاملے کے حل پر سوچ بچار اور مباحثے میں مصروف ہوگئے ـ میری نظریں جہان آباد کی طرف اٹھ گئیں ـ اسی اثنا مجھے استاد حسن بلوچ یاد آگئے ـ ” کیوں نہ ہم استاد حسن بلوچ کے مدرسے میں داخلہ لے لیں؟” ـ میں نے فوراً اپنا خیال ارشاد تک پہنچا دیا ـ ارشاد نے اتفاق کرلیا ـ کچھ دیر تک ہم اس فیصلے کے نتائج و عواقب پر غور کرتے رہے ـ اہم مسئلہ یہ تھا اگر مدرسے نے بات گھر تک پہنچا دی تو؟ ـ اس خدشے کا سب سے زیادہ ڈر مجھے تھا کیونکہ میرے والد کے پھوپھی زاد بھائی حافظ عبدالحق بلوچ مدرسے سے وابستہ تھے پھر محلے کے بھی متعدد لڑکے وہاں زیرِ تعلیم تھے ـ ہم نے سوچا ہم بہانہ بنائیں گے وہاں درست تعلیم نہیں ملتی تھی جبکہ استاد حسن بلوچ نسبتاً بہتر استاد ہیں ـ پھر یہ اطمینان بھی تھا کہ ہم درس سے نہیں درسگاہ سے فراری ہیں ـ
حتمی فیصلہ کرنے کے بعد ہم دوسرے دن حافظ حسن بلوچ صاحب کے ہاں پہنچ گئے ـ حافظ صاحب چھوٹی سی کچھڑی داڑھی رکھنے والے سانولی رنگت کے ہنس مکھ انسان تھے ـ بے تحاشہ پان کھاتے ـ ان کی توند بھی باہر نکلی ہوئی تھی ـ وہ جماعتِ اسلامی لیاری کے امیر یا شاید کسی دوسرے اہم عہدے پر فائز تھے ـ اس زمانے میں مجھے جماعتِ اسلامی کے متعلق کچھ علم نہ تھا ـ لائبریری جانے کی وجہ سے جب مولانا مودودی کی کتابوں تک رسائی ملی اور اخبار کی خبروں کا پسِ منظر سمجھنے کے قابل ہوا تب جماعتِ اسلامی کی حقیقت سامنے آئی ـ میرے اسکول فیلو اور آج کے صحافی ابوبکر بلوچ (غالباً معروف محقق اختر بلوچ کے بھانجے اور قابلِ فخر خاتون پروین بلوچ کے کزن) جب پرویز مشرف دور میں جماعت کی حمایت سے کونسلر منتخب ہوئے اور انہوں نے سب سے پہلے استاد کی قدم بوسی کی تب مجھے احساس ہوا حافظ صاحب تو پہنچی ہوئی شخصیت ہیں ـ
حافظ صاحب نے بنا کسی چوں چرا کے ہمیں یہ کہہ کر اپنے پاس رکھ لیا کہ تم لوگ درست جگہ پہنچے ہو ـ انہوں نے میری سابقہ تعلیم پر خطِ تنسیخ پھیر دی ـ ان کے مطابق میرا عربی لہجہ درست نہیں ہے لہذا حافظ بننے سے پہلے درست لب و لہجے کے ساتھ تلاوت سیکھنا ضروری ہے ـ انہوں نے اپنے طریقے سے پڑھانا شروع کردیا ـ مثلاً: ان کے مطابق جہاں “ق” آئے مجھے منہ کو گول کرکے آواز نکالنی چاہیے، ضاد کا تلفظ “دواد” کے اریب قریب ہونی ضروری ہے وغیرہ وغیرہ ـ یہ ایک نئی مصیبت گلے پڑ گئی ـ
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی آخر قرآن کو خالص سعودی تلفظ و روایت کے ساتھ پڑھنا کیوں ضروری ہے؟ ـ جب اللہ دلوں کے حال بہتر جانتا ہے تو وہ یقیناً یہ بھی جانتے ہوں گے ایک غیر عرب قرآن کی اس طرح تلاوت نہیں کرسکتا جو اہلِ زبان کا خاصہ ہے ـ تلفظ وغیرہ پر وقت ضائع کرنے کی بجائے قرآن سمجھنے سمجھانے پر توانائی خرچ کی جائے تو زیادہ بہتر نہ ہوگا؟ ـ میں اپنی مادری زبان کو پسِ پشت ڈال کر اردو اور عربی جیسی اجنبی زبانوں کے تلفظ میں مہارت حاصل کرنے کی سعیِ لاحاصل کے باعث اپنی بھی بھول گیا ـ نتیجہ یہ نکلا نہ عربی و اردو تلفظ پر گرفت حاصل ہوئی اور نہ بلوچی میرے پاس بچی ـ یعنی نہ تین میں رہا نہ تیرہ میں ـ اس پورے دورانیے میں جو علم میں حاصل کرسکتا تھا وہ بھی نہ کرپایا ـ
دوسرا سوال یہ بھی کیا والدین کو یہ حق پہنچتا ہے وہ اپنے قبول کردہ عقائد ، تصورات و خیالات کو بچے کے خالی ذہن پر ڈالنے کی زبردستی کوشـش کریں؟ ـ مجھے انسان بنانے کی کوشش کی جاتی ، جو ان کا فرض ہے اس کے بجائے انہوں نے مجھے زبردستی مسلمان بنانے کا بیڑہ اٹھا کر میری زندگی کے ابتدائی برس جہنم بنا دیے ـ مجھے دس افراد کی آخرت سنوارنے کا ذریعہ بنانے کا کسی کو بھی حق نہ تھا مگر سب بشمول سماج و ریاست اسی میں جتے ہوئے تھے ـ میری کمزوری کا ناجائز بلکہ مجرمانہ فائدہ اٹھایا جارہا تھا ـ ڈھٹائی ملاحظہ کیجئے اسے مقدس مذہبی فریضہ جیسے اضافی تصور کے غلاف میں لپیٹ کر میری فیصلہ سازی کے حق کو سماجی بلیک میلنگ سے پامال بھی کررہے تھے اور دعوی یہ تھا جی بچہ ماشااللہ پڑھ رہا ہے ـ
ایک ہفتے کے اندر اندر عبدالملک جدگال، ماجد بلوچ اور شاہد بھی ہماری دیکھا دیکھی حافظ صاحب کے مدرسے منتقل ہوگئے ـ پرانے دوستوں کی آمد نے دل خوش کردیا ـ مدرسہ چھوڑنے کی اطلاع دادی تک بھی پہنچ گئی ـ وہ بیچاری دہل گئیں ـ میں نے انہیں اطمینان دلایا پڑھائی جاری ہے بس مدرسہ بدل گیا ہے ـ انہوں نے کسی اور کے ذریعے پتہ چلوایا پھر تھوڑی مطمئن ہوگئیں ـ
حافظ نے یکسر مختلف طریقہ اختیار کیا ـ وہ ہمیں “ساتھی” نام کا رسالہ دیا کرتے اور کہتے اس میں چھپی کہانیاں ہماری ذہنی تربیت کریں گی ـ “ساتھی” بچوں کا رسالہ تھا ـ اس میں جہادِ کشمیر سے متعلق بچوں کی کہانیاں و نظمیں ہوتی تھیں ـ شہدائے کشمیر کے بچوں کے احوال ، بھارتی فوج کے مظالم ، جذبہِ جہاد ، جہاد کی اہمیت و فضیلت وغیرہ میں گندھی ان کہانیوں سے میرا متاثر ہونا عبث تھا ـ وجہ یہ کہ میں بچوں کے رسالے کسی زمانے میں پڑھتا تھا اب ڈائجسٹ پڑھتا تھا اس لئے بچکانہ باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا ـ رسالوں کے ساتھ استاد نے ہمیں آڈیو کیسٹس بھی دینے شروع کردیے ـ ان کیسیٹوں میں بظاہر کشمیری بچے اپنی اندوہناک کہانیاں شیئر کرتے تھے ـ بعض کیسیٹوں میں دلوں کو گرمانے والی جہادی نظمیں بھی ہوتی تھیں ـ ان کیسیٹوں نے رفتہ رفتہ میری سوچ پر اثر انداز ہونا شروع کردیا ـ
تعجب خیز بات یہ ہے حافظ صاحب نے ایک دفعہ بھی ہم سے کشمیر پر بات نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی غلطی کی صورت ہم پر ہاتھ اٹھایا ـ آج سوچتا ہوں حافظ حسن بلوچ میرے سابقہ مدرسے کے استادوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین اور ان کی نسبت بچوں کی نفسیات بہتر طور پر سمجھتے تھے ـ “کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے” جیسا معاملہ تھا ـ
اسکول میں ہندو بنیے کی سازشوں اور پاکستان کو دل سے قبول نہ کرکے ریشہ دوانیاں کرنے کے حوالے سے کافی کچھ پڑھایا جاتا رہا ہے ـ کشمیر پر بھارت کے مظالم کی داستانیں تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئیں ـ مجھے بھارت سے شدید نفرت ہوگئی بلکہ میں ہندوؤں سے ہی متنفر ہوگیا ـ میرے محلے میں برٹش دور کا ایک ہسپتال ہے ، ہسپتال کے احاطے میں ہندو رہتے ہیں ـ ان کے بچے ہمارے ساتھ کھیلتے کھیلتے بڑے ہوئے ـ مجھے وہ سارے ایک نمبر کے مسلم دشمن اور پاکستان مخالف سازشی لگنے لگے ـ روز سوچتا تھا جہاد کے لئے کشمیر جانے کی کیا ضرورت اس ہسپتال کے سازشی ہندوؤں کا صفایا کردیا جائے تو بہتر نہ ہوگا؟ ـ خاص طور پر منوج نام کا ایک لڑکا مجھے سخت کھٹکتا تھا ـ نیرنگیِ دوراں دیکھئے سالوں بعد اسی منوج کی شادی میں دھوم دھام سے حصہ لیا ، مجھ سمیت محلے کے متعدد لڑکے اس کی بارات کو لیاری کے روایتی بلوچ انداز سے “لیوا” کی تھاپ پر گزری لے کر گئے ـ سائیں بابا کے مندر میں اس کی شادی کی مختلف ہندوانہ رسموں میں شرکت کی ـ منوج کے سسرالیوں نے اتنے مسلمان بلوچ دیکھ کر کہا منوج تو بلوچ بن چکا ہے ـ تاہم یہ بعد کے قصے ہیں ، اس وقت تو میرا دل کرتا تھا سارے ہندوؤں کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا جائے ـ
ہندوؤں کے خلاف نفرت کی وجہ سے 14 اگست 1995 کو میں نے اپنی نئی سائیکل کو پاکستانی پرچموں سے سجایا اور بانیِ پاکستان کے مزار جاکر وہاں سے نکلنے والی ایک ریلی کا حصہ بنا ـ محمد علی جناح کی قبر کے سامنے ہاتھ باندھ کر عہد کیا کہ ان کے بنائے ہوئے پاکستان کی نہ صرف حفاظت کروں گا بلکہ مقبوضہ کشمیر کو حاصل کرنے کے لئے جان تک دے دوں گا ـ مجھے اس راستے پر لے جانے کا سہرا حافظ حسن بلوچ کو جاتا ہے ـ
شاید میں مزید آگے بڑھتا مگر کامریڈ واحد بلوچ آڑے آئے اور انہوں نے مجھے ایک کتاب دی ـ جسے پڑھ کر میرے ” اٹل ” نظریات ریت کے گھروندوں کی طرح ڈھے گئے ـ
1995 کا ہی سال تھا ـ میں گھر جارہا تھا گلی میں کامریڈ واحد بلوچ مل گئے ـ حسبِ عادت انہوں نے حال احوال پوچھنے کے ساتھ ساتھ اپنا پرانا سوال بھی دہرایا “ابا کیسے ہیں؟” ـ ان کے ہاتھوں میں کتابوں کا بنڈل تھا ـ میں نے ازراہِ مذاق کہا “چاچا کبھی کبھی کوئی کتاب مجھے بھی پڑھنے کے لئے دیں” ـ کتابوں کے معاملے میں واحد بلوچ کی کنجوسی مشہور ہے مگر نجانے اس وقت ان کے دل میں کیا آیا انہوں نے ایک کتاب مجھے واپس کرنے کی تاکید کے ساتھ تھما دیا ـ وہ کسی سبطِ حسن نامی مصنف کی کتاب “ماضی کے مزار” تھی ـ کتاب کے متعلق میرا پہلا تاثر یہی تھا یہ بریلوی مکتبہِ فکر کی پیروں مزاروں سے متعلق کتاب ہے ـ بے دلی سے کتاب لے کر گھر آگیا ـ بریلوی مکتبہِ فکر کو مدرسے کی تعلیمات کی وجہ سے میں مشرک سمجھتا تھا ـ اسکول میں ایک دفعہ عید میلادالنبی کی تقریب میں مقابلہِ نعت خوانی میں حصہ لینے کی پاداش میں استاد عبدالہادی بلوچ نے میری پٹائی بھی کردی تھی ـ ان کے مطابق لہک لہک کر نعت پڑھنے سے موسیقیت پیدا ہوتی ہے جو حرام ہے ـ میں نے یہ نکتہ گرہ میں باندھ لی ـ
واحد بلوچ کی دی ہوئی کتاب رات کو بے دلی سے کھول کر بیٹھ گیا ـ دیباچہ پڑھتے ہی دلچسپی پیدا ہوگئی ـ وہ قدیم مشرقی تہذیبوں کی داستان تھی ـ یہ میرے لئے بالکل ہی نیا موضوع تھا ـ صفحات پلٹتے گئے، میری پریشانی بڑھتی گئی ـ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا ـ آدھی کتاب چاٹنے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے میرا سر گھوم رہا ہے ـ اس کے مندرجات میرے بتوں پر پے در پے وار کررہے تھے ـ کتاب کے مطابق قصص الانبیا، مدرسے کے وعظ اور قرآنی حکایات ہزاروں سال قبل عراقی تہذیب میں اساطیر کی صورت موجود تھے ـ خاص طور پر “گِل گامش” کی داستان نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ـ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ ـ مصنف جھوٹا ہے؟ ـ سچ کیا ہے؟ ـ میں ایک چیستان میں پھنس چکا تھا ـ سوچتے سوچتے سوگیا ـ
دوسرے دن پھر میں تھا اور اس “شیطانی” کتاب میں درج اساطیر تھے ـ سبطِ حسن صاحب کا انداز سادہ اور دلنشین تھا ـ کتاب ختم ہوگئی، مزید جاننے کی تشنگی بڑھ گئی ـ بھاگا بھاگا کامریڈ کے پاس پہنچا اس موضوع پر ایک اور کتاب مانگی ـ وہ شاید سمجھے نہیں ، انہوں نے “پاکستان میں تہذیب کا ارتقا” تھما دی ـ یہ موہن جو دڑو اور دیگر قدیم مقامی تہذیبوں کا جائزہ تھا ـ قدیم تہذیبوں کے قصوں نے میرے اندر ہلچل پیدا کردی ـ مجھ پر جاننے کا جنون سوار ہوگیا ـ “مصر کا قدیم ادب” ، “دنیا کی مختصر ترین تاریخ” ، “تاریخِ پاکستان: قدیم دور” ، “انسانی تہذیب کا ارتقا” ………. کتابوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا ـ
ان کتابوں نے مجھے قریب قریب پاگل کردیا تھا ـ میں کسی سے ان موضوعات پر بات کرنا چاہتا تھا ـ ارشاد، ملک اور شاہد سے بات کی تو وہ مجھ پر ہنسنے لگے اور کہا چھوڑو یار تم بھی کیا خرافات لے کر بیٹھ گئے ـ
اسکول میں بھی کوئی اس قابل نہ تھا کہ اس سے بحث کرسکوں ـ میں تقریباً پھٹ رہا تھا ـ ایک دادا ہی تھے جن سے بات کی جاسکتی تھی مگر جنوری 1995 کو وہ بھی دنیا چھوڑ کر جاچکے تھے ـ کامریڈ واحد مجھے بچہ سمجھ کر لفٹ ہی نہیں کرواتے تھے ـ عجیب سی صورتحال تھی ـ
میری خواہش تھی میں لائبریری میں بیٹھ کر کتابوں کا مطالعہ کروں مگر یہ ممکن نہ تھا ـ صبح سات سے دن کے بارہ بجے تک اسکول، ڈیڑھ سے ساڑھے تین تک مدرسہ پھر شام پانچ بجے سے رات آٹھ بجے تک ٹیوشن ـ غیر نصابی کتابوں کے لئے بمشکل رات کو ہی ایک آدھ گھنٹہ ملتا تھا ـ کافی سوچ بچار کے بعد مدرسہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ـ اس فیصلے کے پیچھے متعدد وجوہات تھیں ـ پہلی: حالیہ مطالعے نے مدرسے سے میری دلچسپی ختم کردی تھی ـ
دوسری: مجھے مطالعے کی اشد ضرورت تھی مدرسہ اس کے آڑے آرہا تھا ـ
تیسری : مجھے اب احساس ہونے لگا تھا کہ میں اپنا وقت برباد کررہا ہوں ـ
مدرسہ چھوڑنے کے بعد میں نے خود کو لائبریری کے لئے وقف کردیا ـ کتابوں کے جنگل میں گھسنا تھا کہ میں اسی کا ہوکر رہ گیا ـ مختلف موضوعات، گوں نا گوں خیالات، نئے نئے تفکرات یہ عجائب و غرائب تھا ـ ڈارون کے نظریہ ارتقا نے میرے چودہ طبق روشن کردیے ـ سبطِ حسن کی “نویدِ فکر” تشکیک کا اہم ترین سبب بنا ـ علی عباس جلالپوری نے دیگر موضوعات تک پہنچنے کا راستہ سجھا دیا ـ ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ کا دوسرا پہلو دکھایا ـ
مدرسہ چھوڑنے کی اطلاع دادی پر بجلی بن کر گری ـ انہوں نے جی بھر کر کوسنے دیے ـ انہیں سب سے زیادہ اس کا غم تھا اب میں حافظ بن کر ان کا نجات دہندہ کبھی نہ بن پاؤں گا ـ یہ صدمہ انہیں بے چین رکھتا تھا ـ دادی سے مجھے محبت تھی، وہ میری زندگی میں ریڑھ کی ہڈی جیسی تھیں لیکن میں “شیطانی” کتابوں کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا ـ
میٹرک کے بعد میں نے خود کو مکمل طور پر لائبریری کے حوالے کردیا ـ صبح جاتا اور لائبریری بند ہونے تک بیٹھا رہتا ـ لنچ کرتا ہی نہ تھا بس وقتاً فوقتاً قریبی چائے خانے جاکر چائے پی کر آجاتا ـ مجھے کتابوں سے عشق ہوگیا (یہ عشق اب بھی برقرار ہے) ـ مسلسل کتاب بینی نے آنکھوں پر چشمہ لگوا دیا ـ
ایک اور لڑکا بھی میری طرح روز لائبریری آیا کرتا تھا ـ وہ بھی میری طرح عینک لگاتا تھا ـ ایک دن اس نے مجھ سے حال احوال کیا ـ اس بات چیت نے ہمیں دوست بنا دیا ـ وہ امان عبداللہ تھا ـ
امان عبداللہ لیاری کے ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ـ ان کے والد عبداللہ شاداللہ معروف شخصیت ہیں ـ بلوچ سیاست سے بھی ان کا قریبی تعلق رہا ہے ـ امان عبداللہ کے بڑے و چھوٹے بھائیوں کو بھی سیاست و کتابوں سے کافی شغف ہے ـ امان کی دوستی نے مجھے سیاست کے خارزار میں اتارا ـ بلوچ سیاست اور مارکسزم سے آگاہی مجھے امان کے ہی گھر سے ملی ـ امان نے مجھے فلسفے کی جانب راغب کیا ـ ان کے مطابق فلسفے کا مطالعہ کئے بغیر “انسان” بننا ممکن ہی نہیں ہے ـ
چند سالوں بعد امان عبداللہ حصولِ علم کی خاطر جرمنی چلے گئے ـ وہ آج بھی جرمنی میں مقیم ہیں ـ وہ عمر میں مجھ سے ایک دو سال ہی بڑے ہوں گے ـ ان کا شکریہ ، نئے راستے دکھائے ـ
امان سے دوستانہ پھر اس کے ذریعے عارف بارکزئی سے یاری مجھے مدرسے کی دنیا سے بہت دور لے گئی ـ عارف بارکزئی انتہائی باعلم نوجوان تھا ـ ہم تینوں رات دیر تک مختلف موضوعات پر بحث مباحثے کرنے لگے ـ امان کے جرمنی جانے کے کچھ عرصے بعد وہ بھی یورپ سدھار گئے ـ وہاں انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی مگر افسوس ایک دن وہ یورپ میں ہی پراسرار موت کا شکار بن گئے ـ
دونوں دوستوں کی وجہ سے پروفیسر صبا دشتیاری پھر میری زندگی میں آئے ـ پروفیسر نے فلسفے کے مختلف موضوعات کو سمجھنے میں میری بے لوث مدد کی ـ نیشنل عوامی پارٹی کے بزرگ اراکین لالا لعل بخش رند اور یوسف نسکندی کی مجلسوں تک بھی مجھے انہی دوستوں نے پہنچایا ـ ایک اہم جست استاد رحیم بخش آزاد تھے ـ رحیم بخش آزاد کا گھر خود ایک لائبریری اور ان کی شخصیت علم کا سمندر ہے ـ انہوں نے “مادام بوواری” دے کر مجھے عالمی ادب سے روشناس ہونے کا راستہ دکھایا ـ انہوں نے روسی، فرانسیسی اور دیگر مغربی زبانوں کے ادبی خزانوں کے در وا کئے ـ آزاد صاحب نے فہمیدہ ریاض، پروفیسر توصیف احمد، پرویز ہود بھائی ، اجمل کمال، ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر حمزہ علوی جیسے نابغہ روزگاروں سے بھی متعارف کروایا ـ
دوسری جانب میٹرک میں میرے اردو کے استاد رہ چکے جناب ماسٹر محمد اسلام نے مجھے اردو ادب کی دنیا سے آشنا کیا ان سے میرا باپ بیٹے جیسا رشتہ بن گیا تھا ـ میں جمعے کا دن ان کے گھر لالو کھیت گزارنے لگا ـ وہ مجھے حمایت علی شاعر، ڈاکٹر جمیل جالبی اور جون ایلیا جیسی ہستیوں سے ملانے اور ان سے فیض حاصل کروانے کا سبب بنے ـ
1998 آتے آتے مدرسہ اور اس کی تعلیمات دور بہت دور پیچھے رہ گئے ـ میری فکری زندگی بدل گئی ـ صرف فلم اور کتاب سے ہی میرا رشتہ رہ گیا ـ دادی میرے خیالات سے پریشان ہوگئیں ـ تایا کے گھر والوں نے مجھے پاگل کا خطاب دیا ـ میرے والد کو فون کرکے بلایا گیا ـ والد صاحب نے مجھے دوبارہ راہِ راست پر لانے کی حتی المقدور کوشش کی مگر جو راستہ میں چن چکا تھا اس سے کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہ ہوا ـ یہ میرا اپنا انتخاب تھا ـ میرا پہلا آزاد فیصلہ ـ میری مزاحمت نے مجھے گھر میں اجنبی بنا دیا ـ میں اپنے والد کا نالائق ترین بیٹا بن گیا ـ آج بھی ہوں مگر کوئی افسوس نہیں ـ مدرسہ ان کا فیصلہ تھا، یہ میرا ہے ـ اچھا برا جو بھی ہے میرا ہے ـ کتابوں سے جاننے کا سفر جاری ہے ـ کب تک رہے گی معلوم نہیں، شاید آخری سانس تک ـ علم کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ـ
آخری بات:
میرا تجربہ کم اور مشاہدہ محدود ہے ـ پھر بھی اس کم تجربے و مشاہدے کے باوجود میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں بچے کو اچھا انسان بنانے کی تربیت دینا ضروری ہے ـ مسلمان وہ خود بھی بن سکتا ہے ـ انسان اور مسلمان اگر متضاد نہ بھی ہوں تب بھی مختلف ضرور ہیں ـ اچھا انسان بننا اکتسابی اور مسلمان انتخابی ہونے چاہئیں ـ بچے کو مسلمان بنانے کے چکر میں اسے مدرسے کے حوالے کرنا صریح جرم ہے ـ مدرسہ اسے نفسیاتی طور پر توڑ دیتا ہے ـ اس کی سوچ جامد اور افکار بدبو دار ہوجاتے ہیں ـ ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے بچے کو کسی روک ٹوک کا سامنا نہ ہو ـ کسی غلط کام سے اسے باز رکھنے کے ہزار بے ضرر طریقے موجود ہیں جن کے استعمال سے اس کے اعتمادِ نفس کو ٹھیس نہیں پہنچتی ـ بچہ کسی بالغ فرد کی طرح صحیح غلط کی تفریق نہیں جانتا ، اس کی لاعلمی شرارت نہیں معصومیت ہوتی ہے ـ سخت تنبیہ اسے حکم کا غلام بنا دیتا ہے ـ باپ کے حکم کا غلام فرمانبردار نہیں غبی اور کمزور ہوتا ہے ـ وہ مستقبل میں کسی طاقت ور اتھارٹی کے سامنے مزاحمت کی ہمت نہیں رکھ پاتا ـ بچپن سے ہی اسے مطالعے کی عادت دینی چاہیے ـ یہ پڑھو، وہ نہ پڑھو بھی کوئی درست طریقہ نہیں ہے ـ اسے پڑھنے دیں، سوچنے کی آزادی دیں، مسلسل مطالعہ اسے شاید پیسے کمانے والی مشین نہ بنائیں مگر اسے وہ ذہنی خوبیاں ضرور عطا کرے گا جو انمول ہیں ـ حاصل کلام یہ کہ اگر کسی کو اپنے بچے سے نفرت ہے تو اسے مدرسے کے حوالے کرے ـ
(ختم شد)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...