یہ بات پرانی ہے ۔۔اس وقت بیسویں صدی اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی۔۔۱۹ اکتوبر ۱۹۹۹ کی صبح تک میں ایسا ہی محسوس کرتا رہا کیونکہ میری ماں زندہ تھی اور میں اس کے سامنے جاتا تھا تو بچہ بن جاتا تھا۔۔میری خواہش ہوتی تھی کہ وہ میرے سر پر ہاتھ رکھے۔۔دعا دے ۔۔یا خفا ہو تو مجھے وہی گالیاں دے جو میں ہوش سنبھالنے سے سنتا ایا تھا۔چند ۔بےضرر الفاظ یا جملے جن کامجھ پر کبھی کویؑ خاص اثرنہیں ہوا بلکہ ایک وقت ایا جب ان پر یہ جتانے کیلؑے میں دانستہ نظرملا کے ڈھٹایؑ سے مسکرانے لگا۔۔ لیکن پھر وہ وقت بھی ٓیا جب میں انہی الفاظ کیلےؑ ترس گیا،،ماں نے از خود یہ مان لیا کہ میں بچوں والا ہوں تو بڑا ہوگیا ہوں۔۔ حالانکہ ماں کے سامنے بچہ بڑا ہو جاےؑ۔۔ یہ ایک ناقابل تصورسی بات ہے۔۔ سب مانتے ہیں ۔۔جو بڑے۔۔یا بہت بڑے ہو گؑےؑ ہیں وہ بھی جانتے ہیں۔۔۔
لیکن 19اکتوبر 1999 کی ایک سہ پہر ضیاالدین ہسپتال میں اچانک میں بچے سے بوڑھا ہوگیا جب وہ انکھیں بند ہوگییؑں جو مامتا کی امین تھیں اور وہ لب خاموش ہوگےؑ جن کی ناخوشی میں بھی میری خوشی کی دایمی ارزو بولتی تھی ۔۔۔ اور اب میرے یقین میں ایمان کی استقامت ہے کہ خدا نے ان کے ہر خاموش حرف دعا کوغیر مشروط قبولیت عطا نہ کی ہوتی تو اج 80 سال کی عمر میں یہ کیسے ممکن ہوتا کہ میرے لےؑ کچھ بھی نہیں جو میں خدا سے دعامیں کہوں۔ ۔ ۔اپنے لےؑ ۔۔۔ خوش بختی کا ہردروازہ از خود مجھ پر کیسے وا ہوتا چلا گیا۔۔ اور کویؑ وجہ میری سمجھ میں تو ٓاتی نہیں۔۔ پھر یہ بھی ہے کہ انم ہی اس کا رحمت تھا۔۔رحمت ارا خانم۔
وہ ایک معمولی سے سرحد پاررہ جانے والے دور افتادہ اور غیر معروف گاوں کی ایک ان پڑھ سی لڑکی تھی جو اخبار بھی نہیں پڑھ سکتی تھی۔۔ جسے میں نے -44 یا1943 میں خود اپنی انکھوں سے نانی کے گھر میں صبح کے اجالے سے بھی پہلے فرش پردونو ہیر پیچھے سمیٹ کر بیٹھے ایک ہاتھ سے چکی گھماتے اور دوسرے سے بیچ کے سوراخ میں مٹھی بھر بھر گندم ڈالتے دیکھا ۔۔میری انکھ بھاری پتھر کے پاٹ کی گھرر گھر سے کھلی تھی،اس نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور زیر لب کویؑ راجستھانی گانا جاری رکھا اور میں دہلی سے جانے والا لڑکا حیرانی سے چکی کے چارون طرف گرتے گرم گرم سفید ا ٓٹے کا دایرہ سا بنتا دیکھتا رہا
وہ سرحد پاررہ جانے والے دور افتادہ اور غیر معروف گاوں کی ایک ان پڑھ سی معمولی لڑکی تھی جو اخبار بھی نہیں پڑھ سکتی تھی۔۔ جسے میں نے -44 یا1943 میں خود اپنی انکھوں سے نانی کے گھر میں صبح کے اجالے سے بھی پہلے فرش پردونو ہیر پیچھے سمیٹ کر بیٹھے ایک ہاتھ سے چکی گھماتے اور دوسرے سے بیچ کے سوراخ میں مٹھی بھر بھر گندم ڈالتے دیکھا ۔۔میری انکھ بھاری پتھر کے پاٹ کی گھرر گھر سے کھلی تھی،اس نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور زیر لب کویؑ راجستھانی گیت گنگنانا جاری رکھا اور میں دہلی سے جانے والا لڑکا حیرانی سے چکی کے چارون طرف گرتے گرم گرم سفید ا ٓٹے کا دایرہ سا بنتا دیکھتا رہا
اب کرنا خدا کا یوں ہوا کہ اس کا بیاہ ایک ایسے شخص چشتی احمد خاں سے ہو گیؑا جو کچھ عرصے بعد قریب ترین قصبے میں ہیڈ ماسٹر بن گیا،،شاعر اسے قدرت کے دست کرشمہ ساز نے بنایا تھا چنانچہ اس نے اپنی فارسی اردو شاعری سے خاصا نام کمایا۔۔صرف نام۔۔ ۔۔ ۔۔وہ خداوند مجازی کے دامن سے بندھی پہلے سرحد پار کے قصبوں شہروں جبلپور۔۔ دوحد (گجرات) مرادنگر میں پھرتی رہی۔پھر دہلی سے چل کر تین دن میں کٹی لٹی ٹرین سے خالی ہاتھ اسلامی مملکت پاکستان پہنچی تو پندرہ دن لاہور کے پلیٹ فارم پر پڑی رہی ۔پھر تیں ماہ گڑھی شاہو کے ایک کمرے میں ـپناہ گیروں کو دی جانے والی امداد پر گذر بسر کی یہاں تک کہ شاعر شوہر نے ملٹری اکاونٹ میں نوکری سے دس روپے ماہانہ پر پرانی انارکلی میں گھر حاصل کیا۔۔شوہرساری شاعری بھول گیا تھا۔۔ جیسے دمشق کیلےؑ فارسی کی کہاوت ہےکہ ایسا قحط پڑا کہ لوگ عشق تک بھول گےؑ۔۔۔ حواس باختہ بحالیات والوں کے پیچھے پھرتا تھا کہ کویؑ گوشہؑ عافیت مل جاےؑ ۔۔مگر ؎ خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری۔۔ کی تصویر بنا۔۔۔ایک دن ساےؑ کی طرح پیچھے رہنے والے شاعر سے جان چھڑانے کیلےؑ کسی افسرنے پوچھا کہ مکان چاہےؑ؟ بتاو کون سا؟ وہ شاہ عالمی کے نیم سوختہ علاقے کے جس گھر کے سامنے کھڑا تھا اسی کی طرف اشارہ کردیا اور بحالیات والے افسر نے الاٹمنٹ دے کر جان چھڑایؑ
شوہراور دو بچون کے ساتھ وہ چار منزلہ ویران عمارت میں پہنچی جس کی نچلی دو منزلیں تاریک تھیں مگر سابق سکھ مالک کے سازو سامان سے بھری ہویؑ تھیں ۔ چوتھی منزل البتہ قابل رہایش تھی مگر اس نے دہشت زدہ ہو کے رونا دھونا مچایا کہ ہم چار کیا ایک ایک منزل پر رہیں گے ،چلو واپس وہیں ۔۔تو گھنٹہ بھر بعد۔۔لوٹ کے بدھو گھر کو اےؑ ۔۔وہ علاقہ اج لاہور کا سب سے مصروف کاروباری علاقہ ہے جہان بات لاکھ کی نہیں کروڑ کی ہوتی ہے۔۔۔۔ ملازم سرکار لاہور سے پنڈی۔۔پھر پشاور۔۔واپس پنڈی۔۔لاہور اور بالاخر کراچی پہنچا ۔ دم ٓخر تک ہر جگہ وہی پیلے رنگ والا دو کمروں کا سرکاری کوارٹر۔۔ کھاں کا شاعر اور کیسی شاعری۔۔ ۔۔ہجرت کے غم اور مسلسل مسافرت سے گھبرا کے ریٹایر ہونے سے قبل ہی رخت سفر باندھا اور گیا
اب دیکھو کہ اس ان پڑھ دیہاتی عورت کیسے اس دعوے کی نفی بنی کہ تعلیم یافتہ ماییؑں ہی بچوں کی صحیح پرورش کر سکتی ہیں۔۔بڑا بیٹا تو راقم الحروف اقبال احمد خان معشیات میں ایم اے کرکے احمد اقبال بنا۔۔۔،ٓپ جانتے ہیں نا اسے؟ دوسرا انوار احمد خاں ڈبل میتھ میں ایم اے کرکے انجیننرہوا اور منگلا تربیلا اور چشمہ ڈیم بناتا رہا۔۔سب سے چھوٹا جرنلزم میں ایم اے کرکے اخبار جہاں کا سب سے کامیاب ایڈیٹر ہوا اور اب ایک ایڈورٹایزنگ ایجنسی کا ایم ڈی ہے لیکن اس کی اصل وجہ شہرت افسانوں کے چار مجموعے ہیں۔۔پانچواں زیر طبع۔۔علاوہ شاعری کے ایک مجموعے کے۔۔اور اس کی شہرت سرھد کے دونو طرف ہے
گاوں کی اس بے مایہ لڑکی نے کیا عروج پایا ۔۔ تین بیٹوں پر وہ ناز کر سکتی تھی۔۔پھر اسے ان کے بیٹوں کی دادی کے غرور کا سرمایہ ملا۔۔یہاں تک کہ وہ پردادی کے منصب پر فایزہویؑ ۔ اس کی شفیق ابرو کا ایک اشارہ بھی ایک مکمل خاندان پرکسی ملکہ کے حکم کی طرح چلتا تھا۔ٓٓاخری سال تک تو وہ جوانوں سے قدم ملا کے سیدھا چلتی تھی۔۔تقریبا بیاسی سال میں جب وہ بیمار ہویؑ تو ضیاالدین ہسپتال کے وی ای۔پی روم میں تھی جب عید ایؑ۔۔اور حسب روایت اس کا تین نسلوں پر مشتمل خاندان عید کے زرق برق کپڑوں میں تمام دن فرش پر دری چاندنی بچھاے حاضر رہا اور ان کی گاڑیاں نیچے موجود رہیں۔۔اور وہان مین نے اس دیہاتی لڑکی کو یاد کیا جسے میں نے زمین پر بیٹھ کر چکی چلاتے دیکھا تھا مگر جو اب اسی تمکنت کے ساتھ بیڈ پر بیٹھی تھی جیسے نورجہاں یا ملکہ وکٹوریا تخت شاہی پر فرو کش ہوتی ہوگی
صرف چن دن بعد جب میں نے اس کے تن کاکی کو چھ جوان پوتوں کے عاتھوں میں ہسپتال کی چوتھی منزل سے رخصت ہوتا دیکھا تومیرا ۔۔جو اس کے سامنے بچہ تھا خود کو اچانک بوڑھا محسوس کرنا تو فطری تھا۔۔اگرچہ اس کے مدفن خاک کا نشان چند زمین بلکہ ضمیر فروش گورکنوں نے باقی نہ رہنے دیا لیکن جیسی وہ اس تصویر میں زندہ ہے اس سے زیادہ اس کے لگاے باغ جیسے خاندان کے دلوں میں زندہ ہے
رفتید ولے نہ از دل ما
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1135917486490268