تارکینِ وطن ایک زرخیز زمین پر پہنچے تھے۔ یہاں پر سب کچھ تھا۔ کچھ خام مال کی کمی تھی، جو یہ اپنے غریب ہمسائیوں سے درآمد کر لیا کرتے تھے جہاں یہ آسانی سے مل جایا کرتا۔ خوشحالی کا دور تھا۔ آبادی بڑھتی رہی۔ وہ وقت بھی آ گیا جب یہ زمین اتنی بڑی آبادی کا ساتھ نہیں دے سکتی تھی۔ جنگل ختم ہو رہے تھے۔ زراعت سے اضافی آمدنی اتنی نہ رہی تھی کہ خام مال درآمد کیا جا سکے۔ اس کی کمی ہونے لگی تھی۔ زندگی مشکل ہونا شروع ہوئی تو خانہ جنگی چھڑ گئی۔ سیاسی اداروں کو اکھاڑ پھینکا گیا۔ فوجی حکمرانوں نے ان کی جگہ سنبھال لی۔ ایک کے بعد اگلا۔ فاقہ زدگی شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ وہ وقت آن پہنچا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو کھانا شروع کر دیا۔ ان سے تجارتی تعلقات رکھنے والے ہمسائیوں کے ساتھ اس سے بھی برا ہوا۔ وہ ان کے ساتھ تجارت نہ کر سکنے کی سبب اپنا ہی ماحول بگاڑنے لگے یہاں تک کہ ان سب میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔
یہ افسانہ نہیں، پٹسیرن جزیرے، منگاریوا اور ہنڈرسن کی اصل داستان ہے۔
ایک جنت نظیر جزیرہ تھا۔ اونچے درخت، خوشگوار موسم۔ یہاں رہنے والوں کے پاس اضافی آمدنی اتنی تھی کہ انہوں نے تعمیراتی شاہکار بنانا شروع کئے۔ ایک کے بعد دوسرا جو پہلے سے بھی شاندار ہو۔ اس قدر شاندار کہ جو دیکھتا، دنگ رہ جاتا۔ یہ بارہ قبائل میں بٹ چکے تھے۔ یہ دوڑ شروع ہو چکی تھی کہ کونسا ان شاہکاروں کو بنانے میں دوسرے سے بھی آگے نکلتا ہے۔ پہلے تعاون رہا جو ختم ہوتا گیا۔ یہاں آنے والے پرندے ختم ہو رہے تھے، درخت باقی نہ بچے۔ جن کشتیوں پر یہ ادھر پہنچے تھے، اب یہ ویسی کشتیاں بھی نہیں بنا سکتے تھے۔ خوراک ختم ہو جانے کے بعد ہونے والی چھڑ جانے والی خانہ جنگی میں انہوں نے ان پرانی رسوم سے بغاوت کر دی۔ وہ شاہکار جو صدیوں میں اپنے خون پسینے سے بنائے تھے، الٹا دئے گئے۔ خالی احتجاج بھی کبھی کچھ ٹھیک کرتے ہیں؟ ان کی نوے فیصد آبادی کا خاتمہ ہو چکا تھا جب دوسرے یہاں پر پہنچ گئے۔ اس وقت تک یہ جنت نظیر جزیرہ اجاڑ بیابان کی شکل میں تھا۔ ان اونچے درختوں میں سے ایک بھی نہیں بچا تھا۔ معاشرے میں جو بچ گیا تھا، وہ ان آنے والوں نے مٹا دیا۔ ان کو غلام بنا لیا۔ سب رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔
یہ افسانہ نہیں، ایسٹر آئی لینڈ کی اصل کہانی ہے۔
ایسی درجنوں کہانیاں دنیا میں بکھری پڑی ہیں۔ یورپ، ایشیا، امریکہ، افریقہ، ہر جگہ۔ تیرہویں صدی کا خمیر دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ یہ لندن سے بیس گنا بڑا تھا۔ کھنڈر ہو گیا۔
ایک وقت میں جنوبی امریکہ تہذیبوں کا گڑھ تھا۔ مایا ان میں سے ایک تھی۔ جب تک یورپی جنوبی امریکہ پہنچے، مایا تہذیب انحطاط کا شکار ہو چکی تھی۔ اس کی ننانوے فیصد آبادی اندرونی عوامل کی وجہ سے ختم ہو گئی تھی۔
آئس لینڈ تباہی کے دہانے پر تھا۔ بچ گیا اور آج یورپ کے امیر ترین ممالک میں ہے۔ ان کے ہمسائے گرین لینڈ کے نورس مٹ گئے۔ (تفصیل نیچے لنک میں)
جاپان سے بحرالکاہل تک کامیابیوں اور ناکامیوں کی ان کہانیوں کو ہم آرکیالوجی میں پڑھتے ہیں۔ ہر معاشرے کی ناکامی کی اپنی کہانی ہے۔ آج کے دور میں سے ایک سبق روانڈا کا۔
آبادی کے تناسب کے حساب سے سب سے بڑا قتلِ عام 1994 کے روانڈا میں ہوا۔ ٹوٹسی اور ہوٹو قبائل پر مشتمل روانڈا مشرقی افریقہ میں آبادی کے انتہائی تیزرفتار اضافے کا شکار تھا۔ یہاں پر نہ ملیریا تھا، نہ زی زی مکھی۔ پاپولیشن ڈینیسٹی افریقہ میں سب سے زیادہ اور اپنے ہمسائیوں سے دس گنا ہو چکی تھی۔ آبادی پھیلنے کے لئے زمین نہیں رہی تھی۔ زرخیز ترین علاقہ کمانا اس قدر گنجان آباد ہو چکا تھا کہ اس کی پاپولیشن ڈینسیٹی بنگلہ دیش سے زیادہ تھی۔ نئی نسل کو زمین میسر نہ تھی۔ خوراک کی کمی پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ پھر خشک سالی نے آ لیا اور روانڈا کی بڑی برآمدی جنس، کافی، کی قیمت بھی عالمی منڈی میں گر گئی۔ ٹوٹسی اور ہوٹو قبائل کی کشیدگی پرانی تھی۔ حکومت نے اکثریتی ہوٹو کو متحد کرنے کے لئے نفرت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ٹوٹسیوں کے خلاف نفرت بھڑکائی گئی۔ آگ سے کھیلنے والے خود کو جلا لیتے ہیں۔ اس کشیدگی کے ماحول نے آگے اس وقت پکڑی جب ہوٹو کے صدر کا جہاز گر گیا۔ اس کے بعد یہ قتلِ عام سرکاری طور پر شروع ہو گیا۔ اس نے آبادی میں سے تین چوتھائی ٹوٹسیوں کا صفایا کر دیا۔ تشدد کے اس چکر میں ہوٹو خود بھی محفوظ نہیں رہے۔ پرانے جھگڑے، وراثت کی لڑائیاں، زمینوں پر قبضے نمٹائے گئے۔ ڈاکٹروں نے اپنے مریضوں کو قتل کیا، مریضوں نے ڈاکٹروں کو، اساتذہ نے طلباء کو، طلباء نے اساتذہ کو، ہمسائیوں نے ہمسائیوں کو، شوہروں نے بیویوں کو۔ زیادہ عمر کے لوگ جو امیر تھے، وہ نشانہ بنے، کئی جگہ اپنی اولاد کے ہاتھوں، اکیلی خواتین، غریب اور بچے جنہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا۔ ٹوٹسی اور ہوٹو کے علاوہ تیسرا گروپ باتوا کا تھا جن کی آبادی ایک فیصد تھی۔ ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں بچا۔ زیادہ قتل کیل والے ڈنڈوں، بھالوں اور سلاخوں سے ہوئے۔
روانڈا کے قتلِ عام میں صرف آبادی کا زیادہ ہونا نہیں تھا لیکن یہ بھی ایک فیکٹر تھا۔ خشک سالی بھی ایک فیکٹر تھا، کافی کی قیمت کا کم ہو جانا بھی۔ حکومت کی نسلی منافرت کی پالیسی بھی اور یہاں کی تاریخ اور جغرافیہ بھی۔ سو روز تک جاری رہنے والا قتلِ عام لاکھوں جانیں لے گیا اور معاشرے کو الٹا دیا۔
آج کا صومالیہ ہو یا وینیزویلا یا دوسرے ناکام ہونے والے معاشرے۔ جب گرتے ہیں تو بہت کچھ ساتھ لے جاتے ہیں۔ معاشرے کامیاب بھی ہوتے ہیں، ناکام بھی۔ ہر ایک کی ناکامی اپنی طرح ہوتی ہے۔ گرتے معاشرے سنبھل بھی جاتے ہیں۔ ہم آرکیالوجی اس لئے پڑھتے ہیں تا کہ مستقل کے آرکیولوجسٹ ہمیں دیکھ کر یہ نہ لکھیں کہ جب آخری درخت کٹ رہا تھا تو یہ کیا سوچ رہے تھے؟ جب وسائل ختم ہو رہے تھے تو کیا ان کو امید تھی کہ کیا ان کو کوئی باہر سے بچانے آئے گا؟ جب یہ آپس میں ایک دوسرے لڑ رہے تھے تو کیا یہ سمجھتے تھے کہ خود بچ جائیں گے؟ یا پھر ہمارے پاس ابھی بہت وقت ہے؟ گرتے معاشروں میں موت کا رقص ایک بار شروع ہو جائے تو سب کچھ نگل لیتا ہے۔ ان درجنوں کہانیوں کی مدد سے ہم دوسروں سے سبق سیکھ سکھتے ہیں۔ کیا ہم سیکھنا چاہیں گے؟
ساتھ لگی تصویر روانڈا کی ایک اجتماعی قبر سے جو اس قتلِ عام کے چھ سال بعد کھودی گئی۔
پرانے معاشروں کی کہانی تشکیل دینے کے لئے سائنس کے کئی شعبے مل کر کام کرتے ہیں۔ کچرے میں پھینکی گئی ہڈیوں سے، پولن سے، درختوں کے رنگز سے، برف کے پیٹرن سے، چوہوں کے فضلے سے، عمارات، ہتھیاروں، اوزاروں اور سامان کے تجزیے سے، مر جانے والوں کی باقیات سے، ایکوپلیینکٹولوجی سے۔ تحریروں، تصویروں یا جہاں پر بھی، جیسے بھی سراغ ملیں، ہمیں ان کھنڈر شہروں کو جاننے میں مدد کرتے ہیں۔
قدیم اور جدید معاشروں کی کامیابی اور ناکامی کی کہاںیوں کو تفصیل سے جاننے کے لئے یہ کتاب
Collapse by Jared Diamond
آج کے وینیزیویلا کے گرنے پر
https://waharaposts.blogspot.com/2018/10/blog-post_39.html
گرین لینڈ کے نورس کے معاشرے کے گرنے پر
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_372.html