رچرڈ ڈاکنز لِکھتا ہے کہ جب لوگ کہتے ہیں ،
“ میں مذہب پر یقین تو نہیں رکھتا لیکن ، جب لوگ کہتے ہیں میں تو ملحد ہُوں لیکن ، جب لوگ کہتے ہیں میں تو دُعا پر یقین نہیں رکھتا لیکن ۔۔۔ “
اِن سب جُملوں کے بعد ڈاکنز لِکھتا ہے کہ یہ لوگ اندر سے درحقیقت مذہبی ہوتے ہیں ، ملحد نہیں ہوتے ، سماج کے خوف میں مُبتلا ہوتے ہیں ، یہ بطور فیشن اپنے آپ کو الحادی ظاہر کرتے ہیں ، وُہ یہ بھی لِکھتا ہے ،
“ میں پہلے مُلحد تھا ، اب میں مُسلمان ہوگیا ہُوں ، عیسائی ہوگیا ہُوں وغیرہ وغیرہ “
یہ جُملے بھی بس کہانی کو دِلچسپ بنانے کے لئے ہیں درحقیقت ایسے جُملے کہنے والا کبھی مذہب سے دُور تھا ہی نہیں ، مذہب اُس کے اندر ہی تھا بس اُس نے مذہب سے ذرا دُوسری اختیار کی تو سمجھ لِیا کہ میں تو مُلحد ہوگیا ۔ وُہ کبھی مُلحد نہیں تھا سب رنگ بازی ہے ۔
رچرڈ ڈاکنز کی باتیں لِکھتا رہوں گا تو کہانی لمبی ہو جائے گی سیدھا موضوع پر آتا ہُوں ۔ مان لیتے ہیں میں یا آپ میں سے کوئی دُعا پر ، مذہب پر حتیٰ کہ خُدا پر بھی یقین نہیں رکھتا تو کیا کِیا جائے ؟ میں یا آپ یہی کرسکتے ہیں کہ دُعا نہ مانگیں ۔ مذہب کا بلکہ خُدا کا بھی اِنکار کردیں ، اِس سے اگلا مرحلہ الحاد کی تبلیغ کا بچتا ہے کہ اِس کا پرچار شُروع کردِیا جائے کہ بھئی مذہب کُچھ نہیں ہوتا ، خُدا کا وُجود بس وہم ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ہر نظریے یا عقیدے کو اپنے پرچار کا حق حاصِل ہے اور ہونا بھی چاہئیے لیکن ناچیز ڈاکنز سے یہاں اِختلاف کی جسارت کرتے ہُوئے یہی کہے گا کہ الحاد کا پرچار ہی کرنا پڑے تو اِس میں اور مذہبی تبلیغ میں کیا فرق باقی رِہ گیا ؟ جہاں مذہب کِسی عقیدے کا نام ہے تو وہیں الحاد ہر مذہبی عقیدے کا بالخصوص تصورِ خُدا کا اِنکار ہے اور اِس اِنکار تک آنے میں جستجو درکار ہے ، تحقیق درکار ہے ، تحقیق کا غلط یا صحیح ہونا ایک الگ موضوع ہے گو ہونا تو ہر مذہب کے لئے بھی یہی چاہئیے کہ بس خالی مذہب کا اقرار کرلینا وُہ بھی بغیر کِسی تحقیق یا شک کی نِگاہ ڈالے بغیر کِسی مذہب کا پیروکار بن جانا بھی ایک پرلے درجے کی حماقت ہے ۔ ہم سے میں نوے فیصد بلکہ اُس سے بھی زائد کا مذہب اِسلام ، عیسائیت ، ہندومَت یا کِسی اور مذہب سے واسطہ یا اُس کی پیروی اختیاری نہیں بلکہ حادثاتی یا پیدائشی ہے ۔ ہم نے کبھی مذہب کو شک کی نِگاہ سے نہیں دیکھا ، کبھی سوال نہیں کِیا ، سوال کا گلا بھی دبانا ہماری فطرت میں ہے اور ہم جواب میں خُود کو یہ طفل تسلی دیتے ہیں کہ ہم مذہب پر اور خُدا پر اندھا یقین کرتے ہیں ۔ صاحب یہ نِرا جُھوٹ اور خُود کو دھوکا ہے کیونکہ ہم اگر مذہب ، خُدا یا روزِ جزا و سزا پر مکمل یقین رکھتے تو ہم سے کوئی جُھوٹ نہ بولتا ، دھوکا دہی نہ کرتا ، مِلاوٹ نہ کرتا ۔ کہنے دیجئیے کہ صاحب بُہت سارے مُلحدین اور مذہبی حضرات درحقیقت ایک ہی سِکے کے دو رُخ ہیں بغیر سوچے سمجھے پیروکار اور اندھے مقلد ۔
یہ سب “ فُضول باتیں “ لِکھنے کا مقصد کیا ہے ؟ الحاد کی دعوت ؟ مذہب کی حقانیت ؟ اپنی واہ واہ ؟
سرکار یہ سب اِس لئے لِکھا ہے کہ کل سے مُلک میں لوگ وائرس ، بِیماری یا خوف کی وجہ سے اذانیں دے رہے ہیں ٹھیک ویسے ہی جیسے بارش کے لئے نمازِ استسقاء پڑھی جاتی ہے ۔ کوئی مذہبی عالم یا مذہب کو سمجھنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ مذہب میں بارش کی نماز تو سُنت ہے لیکن اذانیں نہیں ۔ ٹھیک ہی کہے گا لیکن ناچیز اِس سے دو قدم آگے جانے کی جِسارت کرتے ہُوئے کہتا ہے کہ دونوں اقدامات دِل کی تسلی کے لئے ہی ہیں ۔
دِل کی تسلی بڑی زبردست شے ہے ؛ آپ دُعا یا مذہب اُمید ، وِل پاوا will power سے جوڑ کر سمجھنے کی کوشش کریں نہیں تو اِس کو پلاسِیبو placebo ایفیکٹ سمجھ لیں ۔ ایک بندہ جو بِیمار ہے جِس کی نفسیات اُس کو یہ سمجھا رہی ہے کہ وُہ مرنے والا ہے اُس کے لئے دُعا کا سہارا کُچھ کم نہیں ۔ ڈُوبتے کو تِنکے کا سہارا کہہ لیں یا مُختصر انگریزی کہانی “ دی لاسٹ لِیف “ جو او ہینری O Henry نے لِکھی ہے اُس میں بِیمار لڑکی ، گِرتے ہُوئے پتے اور عُمررسیدہ مصور کا قِصہ پڑھ لیں شاید اِنسانی نفسیات کی پیچیدہ گُتھیوں کو سُلجھانے میں معاون ثابت ہو ۔ ( اِس لاسٹ لیف پر کافی عرصہ پہلے الگ سے پوسٹ لِکھی تھی جِس کا لِنک آپ پہلے کوومنٹ میں دیکھ سکتے ہیں )
جناب کِسی بھی عقیدے کا ، مذہب کا یا specifically کورونا وائرس کے خوف میں دی گئی وقت بے وقت اذانوں کا مذاق اُڑانا “ کِسی حد “ جائز سہی کہ چند دوستوں کے اِس مذاق پر میرے جیسا کٹھور حد تک سنجیدہ بندہ بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکا لیکن مُسلسل مذہبی عقائد اور دُعا پر اعتراضات کِسی بھی لِبرل رویے کے مُنافی ہیں ۔ جیسا پہلے عرض کر چُکا ہُوں کہ اِنسانی نفسیات بڑا گُنجلک موضوع ہے اور میں ، آپ یا کوئی بھی بڑے سے بڑا سائنسدان ، عالم یا فلاسفر جو اپنے کِسی بھی سبجیکٹ پر اتھارٹی ہو وُہ کماحقہ طور پر ہر پہلو کا احاطہ نہیں کرسکتا ۔ اِس لئے ہنسی مذاق بھی جاری رکھیں لیکن اِس مثبت خیال اور احساس کے ساتھ کہ دُعا ، مذہب اور خُدا بُہت سارے انسانوں کا جذباتی ہی سہی لیکن ایک بڑا کارگر سہارا ہیں ۔ بھلے آپ اِس کو نفسیاتی سہارا کہہ لیں ، اُمید کہہ لیں ، وِل پاوا یا پلاسِیبو ایفیکٹ کہہ لیں ؛ کُچھ بھی کہہ لیں لیکن اُمید کی یہ نازک ڈور بھی اُن کے کمزور ہاتھوں سے چھیننے کی کوشش نہ کریں کہ یہ ڈور بھی چُھوٹ گئی یا ٹُوٹ گئی تو لاسٹ لِیف کی طرح بُہت کُچھ بِکھر جائے گا ۔ ابھی چلنے دیں کہ دُنیا کو خُدا ، مذہب اور دُعا کے تصور کی مزید ضُرورت ہے جب اِنسانی ترقی کی اُس معراج پر پُہنچ جائے گا جہاں سب اُس کے بس میں ہوگا تو یقین کریں مذہب کا تصور بھی ناپید ہوجائے گا لیکن ابھی نہیں ۔۔۔۔
پسِ تحریر : ناچیز ایک اگنوسٹک سا بندہ ہے جِس کو نہ مذہب اور خُدا کا مکمل اِنکار ہے اور نہ ہی میں اِن تصورات کا اندھا پیروکار ہُوں ، مُجھے کراس روڈ پر سمجھ لیں جہاں دونوں طرف راستے جاتے ہیں ؛ ابھی میں خُود اُمید کا دامن تھامے ہُوں کہ اُس راستے پر چل سکوں جو دُرست ہو بھلے مذہب کا ہو یا مذہب سے دُوری کا ۔ مزید یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ یہ سب عُمومی باتیں ہیں اور کِسی بھی ایک خاص شخص یا اشخاص کو ذِہن میں رکھ نہیں لِکھا گیا اور مذہبی دوستوں سے بھی گُزارش ہے کہ محض دُعاؤں اور ٹوٹکوں پر تکیہ کرنے کے بجائے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور طبی ماہرین کے مشوروں پر کان دھریں ؛ زیادہ مسئلہ ہونے کی صُورت میں فوری طور پر قریبی ہسپتال کا رُخ کریں لیکن خواہ مخواہ ہسپتالوں پر بوجھ بھی نہ بنیں کہ پہلے سے کمزور ہمارا صحت کا نِظام کہیں مکمل collapse ہی نہ کر جائے ۔ اپنا ، اپنے پیاروں کا اور دُوسروں کا خیال رکھیں ۔