جب ہم انجانے خداؤں کو یاد کرتے ہیں ، لوگ مر رہے ہیں
میں خوف و دہشت کے ویرانے میں خوشیوں کے چراغ روشن نہیں کر سکتا .– میں آہ و فغاں کی دردناک آوازوں کو سن کر خود کو فریب نہیں دے سکتا .میں موت کی آہٹوں کو سن کر بے نیازی کا نغمہ گنگنانے کو فرار کا نام دیتا ہوں .وہ دستکیں قریب آتی جا رہی ہیں ،جہاں ہلاکت کے ہر عالمی فرمان پر ہمارا نام لکھا ہے .روہنگیا ،شام ،فلسطین ،عراق ،افغانستان ہو یا ہندوستان یا پاکستان – میں ان لہو لہان وادیوں میں اذیت ،جبر ،دہشت اور ظلم کے گھنے سایے میں کسی عید ،کسی دیوالی ،کسی ہولی کا خیر مقدم نہیں کر سکتا . .ان سلگتی وادیوں میں ایک آگ ہے جو مجھے جلا رہی ہے .ایک خوفناک آندھی ہمکلام ہے کہ تم زندگی کی پر فریب حقیقتوں کے قیدی بن کر قاتل اور دشمنوں کے سر میں سر ملا رہے ہو . ، جوزف برا ڈسکی کی نظم یاد آ رہی ہے …
جب تم انجانے خداؤں کو یاد کرتے ہو ، لوگ مر رہے ہیں
جب تم ٹائی کی ناٹ باندھتے ہو ،لوگ مر رہے ہیں /
جب تم اپنے گلاسوں میں وھسکی انڈیلتے ہو ،لوگ مر رہے ہیں /
یہ ہم کہاں آ گئے کہ موت نے ہمارے ہی گھر کا راستہ دیکھ لیا ؟ عالمی سطح پر ہونے والی سازشوں نے ہمیں ہی آسان شکار سمجھ کر ہمارا خون بہانا شروع کر دیا ؟ اور … حیرتی ہے یہ آئینہ کسکا … شکار بھی ہم .اور حیلے بہانوں سے ہمیں ہی دہشت گرد بنا دیا .شکار بھی ہم ہوئے اور شکاری بھی ہم کہلاے — پوری دنیا میں سیاست کا ننگا ناچ صرف مسلمانوں کو برباد کرنے کے لئے ہوا — امریکا ،روس ،اسرائیل ، چین ، فرانس ..مسلمانوں کو دہشت گرد ٹھہرانے اور مسلمانوں پر پابندی لگانے میں کویی ملک پیچھے نہیں رہا .ایک رقص پڑوسی ملک میں ہوا تو مذھب مذھب کا یہی کھیل ہندوستان میں شروع ہو گیا .جہاں آٹھ فی صد ہندو عورتیں علیحدگی اور طلاق کی شکار ہوں ،وہاں حکومت ہماری عورتوں کو آلۂ کار بنانے لگی .جہاں آشرم گندے اور گھنونے کھیل اور دہشت گردی کا اڈہ ہوں ،وہاں ہمارے مدرسوں کی تفتیش شروع ہوئی –آسا رام سے گرمیت رام رحیم ،رام پال کے آگے گھٹنے ٹیکنے والے یہی سیاسی لیڈر تھے ،اٹل بھاری باجپیی ،لال کرشن اڈوانی ،مرلی منوہر جوشی سے لے کر وزیر ا عظم مودی تک ..انکے وزیر ،انکی کابینہ ،انکا محکمہ ان باباؤں کے اشاروں پر کام کرتا تھا .لیکن ان باباؤں کی حقیقت کیا تھی ؟ انکے آشرم سے ہتھیار برآمد ہوئے .خفیہ سرنگیں ملیں . موت کا بھیانک کاروبار سامنے آیا .لیکن کیا وقت یہ فراموش کر سکتا ہے کہ ایک وقت یہ تمام سیاسی ہیرو انکے قدموں پر گرے ہوتے تھے .یہ کیسی سیاست ہے کہ سو سے زیادہ بچوں کے قتل پر ایک وزیر ا علیٰ مسکراتا ہے ،اناپ شناپ بیانات دیتا ہے اور کیرل میں اپنی پسند کا مذھب اختیار کرنے والی ہادیہ کو ان آی اے سلاخوں میں گھسیٹتی ہے–کیا مسلم تنظیمیں ایک سر میں یہ نہیں کہہ سکتیں کہ ہندوتو کی غلامی قبول نہیں ؟.طلاق کے بعد حکومت اور میڈیا قربانی کو لے کر اپنے فتوے لے آتی ہے .بھاجپا اور آر ایس ایس کا مسلم ونگ مذھب مذھب کا کھیل اس معصومیت سے کھیلتا ہے کہ ہالی ووڈ فلم کے اس جوکر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جسے انسانی لہو کا زایقۂ پسند تھا –آگے اور بھی فرمان آہیں گے .ہندوستانی مسلمانوں کی تربیت اب زعفرانی رنگ میں ہوگی .اس زعفرانی سیاست میں ہمیں قدم قدم پر شکست اس لئے ملے گی کہ ہمارے ہی کچھ لوگ اس خوفناک سازش اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں انکا ساتھ دے رہے ہیں ..تیس کروڑ کی آبادی پر ہندوتو کے درشن اور فلسفے خاموشی سے اور اب کھلے طور پر مسلط کئے جا رہے ہیں اور ہمارے علما ،دانشور حضرات سب خاموش ہیں .
مجھے معاف کیجئےگا ،عید الأضحى کے اس مبارک موقع پر میں آپ کو مبارکباد دینے کا حوصلہ نہیں رکھتا ، جہاں نام نہاد امن پسند مذھب برما میں معصوم مسلمانوں کا خون بھا رہا ہو ،جہاں پوری دنیا اس سازش میں مصروف ہو کہ مسلمانوں کا قتل بھی کرو اور مسلمانوں کو دہشت گرد بھی قرار دو ،جہاں ہندوستان میں میڈیا مسلمانوں کو قربانی کے طریقے سکھانے پر آمادہ ہو ،میں سیاست کے اس خونی اور تپتے موسم میں بارود اور نفرت کی اس زمین پر کسی کو بھی مبارکباد دینے کا حوصلہ پیدا نہیں کر سکا …یہ حوصلہ بھی کیسے ہو …جب ہم انجانے خداؤں کو یاد کرتے ہیں ، لوگ مر رہے ہیں ….مسلمان مر رہے ہیں .نفرت کی تاریک سرنگوں میں پھینکے جا رہے ہیں …..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“