میری ایک کینیڈین مریضہ سنتھیا جو POST TRAUMATIC STRESS DISORDER…PTSD کا شکار ہیں پچھلے دو سال سے تھراپی کروا رہی ہیں۔ وہ بچپن میں ایک شام اپنی سہیلی کے ساتھ ایک پارک میں سیر کرنے گئی تھیں اور وہاں انہیں نے سفید فام نسل پرست لوگوں کے ایک گروہ کو ایک کالے بچے کو مارتے پیٹتے قتل کرتے اور جلاتے دیکھا تھا۔ یہ سانحہ انہوں نے اپنے لاشعور میں دھکیل کر بھلا دیا تھا لیکن دو سال پیشتر ایک ٹی وی پروگرام کو دیکھتے ہوئے ان کے پرانے زخم تازہ ہو گئے اور سب تکلیف دہ یادیں لاشعور سے دوبارہ شعور میں آ گئیں اور انہیں اپنا علاج کروانا پڑا۔ علاج سے اب وہ کافی بہتر ہیں۔ سنتھیا کو بعد میں پتہ چلا کہ وہ سفید فام نسل پرست کو کلکس کلین کے ممبر تھے جو کالے بچوں عورتوں اور مردوں کو لنچنگ سے مارتے اور قتل کرتے تھے۔
جب کسی میدان ’پارک یا شاہراہ پر ایک ہجوم مشتعل ہو کر کسی بے گناہ اور معصوم کو‘ جو کسی مخصوص گروہ سے تعلق رکھتا ہو ’قتل کر دے تو ہم اسے لنچنگ کہتے ہیں۔ لنچنگ کا جارحانہ اور ظالمانہ عمل اس ہجوم کی دیوانگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
اس دیوانگی کا شکار ایک ایسا معصوم انسان ہوتا ہے ’چاہے وہ کالا ہو عورت ہو یا کسی مذہبی یا سیاسی اقلیت کا فرد‘ جسے عدالت یا قانون نے کوئی سزا نہیں دی ہوتی لیکن ہجوم غصے ’تعصب اور نفرت سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور تشدد کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ تشدد اجتماعی نفرت اور تعصب کی عکاسی کرتا ہے۔ اس عمل سے وہ اکثریت کسی اقلیت کے فرد کی تذلیل کرتی ہے ہتک کرتی ہے اور اس سے زندگی کا حق چھین لیتی ہے۔
جب ہم امریکہ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس سفید فام ملک میں سیاہ فام لوگوں کے خلاف نفرت پائی جاتی تھی جس کا اجتماعی اظہار لنچنگ سے ہوتا تھا۔ کالوں کو سرعام قتل کر کے لاشوں کو درختوں کی شاخوں سے لٹکا دیا جاتا تھا تا کہ چاروں طرف خوف و ہراس پھیل جائے۔
امریکہ میں ایک وہ دور بھی تھا جب کالوں کے خلاف قانون بنائے گئے ’انہیں دوسرے درجے کا شہری جانا گیا اور انہیں ان کے حقوق و مراعات سے محروم کیا گیا۔ ایسے قوانین JIM CROW LAWSکے نام سے جانے جاتے ہیں۔ 1880 سے 1960 کی دہائیوں کے دوران پانچ ہزار کے قریب کالوں کو لنچ کیا گیا۔ کالوں کو سر عام قتل کرنے والوں میں KKK۔ KU KLUX KLAN کے ممبر سر فہرست تھے۔
لنچنگ نے سیاہ فام لوگوں کو اپنے حقوق و مراعات حاصل کرنے کی تحریک دی۔ امریکہ کی تاریخ میں نسل پرست سفید فام لوگوں کے تعصب کا باب جس قدر تاریک ہے اتنا ہی سیاہ فام لوگوں کی جدوجہد کا باب روشن ہے۔
یکم دسمبر 1955 میں ایک سیاہ فام عورت روزا پارکس نے ایک سفید فام مرد کو بس میں اپنی سیٹ دینے سے انکار کیا اور کالوں کے خلاف متعصب قوانین کے خلاف احتجاج کا پہلا قدم اٹھایا۔ اس واقعہ کے بعد کالوں نے احتجاج کے طور پر ایک سال تک بسوں میں سفر کرنے سے انکار کر دیا۔
جنوری 1957 میں ساٹھ سیاہ فام پادری جیورجیا میں جمع ہوئے اور کالوں کے خلاف متعصبانہ قوانین کے خلاف آواز بلند کی۔ اس گروہ نے مارٹن لوتھر کنگ جونیر کو اپنا رہنما چنا۔
ستمبر 1957 میں امریکی صدر آئیزن ہاور نے CIVIL RIGHTS ACTپر دستخط کیے اور امریکہ سے متعصب قوانین ختم کیے تا کہ کالوں کو گوروں کے برابر حقوق و مراعات حاصل ہوں۔ اس تحریک کی کامیابی کی وجہ سے مارٹن لوتھر کنگ کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ مارٹن لوتھر کنگ موہن داس گاندھی کے پیروکار تھا۔ وہ احتجاج میں بھی تشدد کے حق میں نہ تھے اس لیے ان کے سب جلسے اور جلوس پر امن تھے۔ انہوں نے واشنگٹن کے لاکھ لوگوں کے پرامن جلسے کی تاریخ ساز تقریر میں فرمایا تھا۔
’میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن مسی سیپی میں جہاں ظلم اور نا انصافی کی گہری رات ہے آزادی اور انصاف کا سورج طلوع ہوگا۔ میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن میرے چاروں بیٹے ایسے ماحول میں جوان ہوں گے جہاں ان کا کردار ان کی جلد کے رنگ سے زیادہ اہم ہوگا‘
مارٹن لوتھر کنگ نے ثابت کیا کہ اگر قوم کو پرامن سیاسی رہنما مل جائیں تو وہ تعصب کے خلاف اور انصاف کے حق میں پر امن جلسے اور جلوس بھی کر سکتے ہیں۔
جہاں امریکہ میں کالوں کے خلاف لنچنگ کے دردناک واقعات پیش آئے وہیں افغانستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال 19 مارچ 2015 کا سانحہ ہے جب کابل میں ایک ہجوم نے اپنے سماجی ’مذہبی اور سیاسی تعصبات کی وجہ سے فرخندہ نامی عورت کو مار مار کر مار ڈالا اور پھر اس کی لاش کو جلا ڈالا۔
سماجی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہجوم کی دیوانگی لوگوں کے لاشعور میں چھپے تعصب ’غصے اور نفرت کو سطح پر لے آتی ہے۔ جب ایک فرد کسی پر تشدد ہجوم کا حصہ بنتا ہے تو وہ انفرادی شناخت۔ میں۔ کھو کر اجتماعی شناخت۔ ہم۔ کا حصہ بن جاتا ہے۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے اپنے اعمال کے نتائج سے بے نیاز ہو کر اپنے ڈھکے چھپے تعصبات پر عمل پیرا ہو جاتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ قانون کے محافظ اس گروہ کو نہ پکڑ سکیں گے اور وہ ہجوم کی اوٹ میں قانون کی گرفت سے بچ جائے گا۔
بعض دفعہ ہجوم کو ایسے سیاسی اور مذہبی رہنما بھی مل جاتے ہیں جو عوام کو تشدد کی ترغیب دیتے ہیں اور جلسوں جلوسوں اور ریڈیو ٹی وی اور سوشل میڈیا پر اپنے قارئین ناظرین اور سامعین کو جارحیت پر اکساتے ہیں ایسے رہنما سماج کے امن کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ بعض سوشل میڈیا کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مظلوم کو ہی سانحے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
خوش قسمت ہیں وہ عوام جنہیں مارٹن لوتھر کنگ جیسے دانا اور پرامن رہنما ملتے ہیں جو انہیں انسانیت کی عزت اور پر امن معاشرے کی تعمیر و تشکیل سکھاتے ہیں۔
****
تحریر: ڈاکٹر خالد سہیل
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...