ستاروں بھری رات میں آسمان کا نظارہ ہمارے چھوٹے پن کا احساس دلانے کو کافی ہے۔ ہم کون ہیں؟ یہ کائنات کیا ہے؟ ان سوالوں کے ملتے جواب انسانی انا پر مسلسل ضربیں لگاتے آئے ہیں۔
ہم اس سے چھوٹے ہیں جتنا ہمارا خیال ہے۔ قدیم یونان میں ایراتوستھینس نے بتایا کہ یہ زمین کئی ملین انسانوں سے بڑی ہے اور اس کے دوسرے ساتھیوں کو پتہ لگا کہ نظامِ شمسی تو اس سے بھی ہزاروں گنا بڑا ہے۔ اور پھر اپنی بڑائی کے باوجود سورج ایک کہکشاں کے کھربوں ستاروں میں سے بس ایک عام سا ستارہ نکلا۔ یہ پوری کہکشاں قابلِ مشاہدہ کائنات کی اربوں کہکشاوٗں میں سے بس ایک اور یہ قابلِ مشاہدہ کائنات بھی بس ایک سفئیر ہے جہاں سے روشنی کو زمین تک پہنچنے کا وقت ملا ہے۔
وقت کے سکیل پر بھی ہم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک وقت میں ہم سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ ہزاروں سال پرانا ہے، پھر ہم زیادہ جانتے گئے اور وقت کے چودہ ارب پرانے آغاز کو پا لیا۔ اگر اس تمام آفاقی تاریخ کو ایک سال کے سکیل پر لایا جائے تو جدید انسان کی ایک لاکھ سال کی تاریخ بس آخری چار منٹ ہوں گے اور ایک شخص کے سو سالہ زندگی ایک سیکنڈ کا پانچواں حصہ۔ انسان کی وقت میں حیثیت بس اتنی ہی ہے۔
ہم اس کائنات کا مرکز نہیں، ہم اس کائنات میں بے حیثیت اور بے وقعت ہیں لیکن ہماری انا پر ایک اور بڑی ضرب اس وقت لگی جب ہمیں پتہ لگا کہ ہم زمین پر بھی کچھ سپیشل نہیں۔
ڈارون سے ہمیں پتہ لگا کہ ہم اس زمینی زندگی کی زنجیر کا اسی طرح حصہ ہیں جس طرح کوئی اور جاندار۔ بائیولوجی کو پڑھتے ہوئے ہم جانتے گئے کہ ہمارا ڈی این اے، زندگی کا پروگرام مختلف ہے اور نہ ہی ہماری تاریخ۔ ہمارے خاص ہونے کے خیالات ایک ایک کر کے ٹوٹتے گئے۔ نہ ہمارا ڈی این اے سب سے پیچیدہ ہے، نہ دماغ سب سے بڑا ہے۔ ہمارا یہ زعم بھی ختم ہو گیا کہ دماغ کے کنکشن سب سے کثیف ہیں، کلچر بھی دوسرے جانداروں کے اسی طرح پیچہدہ ہوتے ہیں، ایجادات کرنے اور دوسرے جانداروں کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کرنا بھی دوسرے کر لیتے ہیں۔ آگ کا استعمال تک ہمارے علاوہ دوسرے جاندار کر لیتے ہیں۔ کشتیاں بنانے والے اور آرٹ کرنے والے اور زبان رکھنے والے بھی پہلے ہم نہ تھے۔
فرائیڈ نے ہمیں بتایا کہ ہم خاصے نامعقول ہیں۔ اس کے بعد سے نفسیات میں ہم اپنے آپ کو جس طرح جانتے گئے ہیں، ہمیں احساس ہوتا گیا ہے کہ نہ صرف ہم منطقی نہیں بلکہ خود اپنے اوپر بھی زیادہ کنٹرول نہیں رکھتے اور خود اپنے آپ سے زیادہ واقف نہیں۔
پھر ہماری بنائی ہوئی ایجادات ہم سے آگے نکلنا شروع ہو گئیں۔ جسمانی لحاظ سے تو ہم پہلے ہی کچھ خاص نہ تھے۔ ہمارا فخر اور زندگی میں ہماری خاصیت ہماری ذہانت تھی۔ مگر ذہین مشینیں ہمیں ان کاموں میں پچھاڑنا شروع ہو گئیں جو ہماری خاصیتتھےتھی۔ شطرنج میں ہمارے چیمپئین ان سے ہار گئے۔ ہم اب اس زمین پر بھی سب سے ذہین نہیں۔
زخموں پر نمک چھڑکنے کیلئے کاسمولوجسٹس نے اب پتہ لگایا ہے کہ جس چیز سے ہم بنے ہیں، وہ بھی کائنات کا اکثریتی مادہ نہیں۔
تضاد یہ ہے کہ جتنا ہم اپنی بے وقعتی کو جانتے گئے، اتنے اہم ہوتے گئے کیونکہ ہم میں واحد خاص چیز ہمارا یہ جاننا ہی ہے۔
اس کائنات میں ہمارے جیسی ایڈوانسڈ زندگی کا ہونا نایاب ہے اور اس کی وجہ ارتقا کی کڑی چھلنی ہے۔ جہاں پر ایسی زندگی کا ہونا نایاب ہے، وہاں پر آگے بڑھنے کا اور بہت کچھ کر لینا کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے۔ یہ سپیس اور ٹائم میں ہمارے اس وقت اور جگہ کو بہت خاص بناتا ہے۔
ہم ایٹمز کی ایسی ترتیب ہیں جو فزکس کے قانون کے تحت اکٹھا ہو کر انسان بنے ہیں اور شعور پایا ہے۔ ہم ایک انتہائی پیچیدہ فزیکل سسٹم ہیں جو انفارمیشن کو ان پٹ کرتا ہے، پراسس کرتا ہے، سٹور کرتا ہے اور آوٗٹ پٹ کرتا ہے۔ اگر یہ ترتیب مل کر وہ صورت اختیار کر سکتی ہے جو پھر دوسرے ایٹموں کو ترتیب دے کر اپنے لئے استعمال کر سکے تو پھر یہ دوسروں کو اس طرح بھی ترتیب دے سکتی ہے کہ اس سے زیادہ ایڈوانسڈ صورت میں ڈھل سکیں۔ قدرتی عمل سے ہونے والی تخلیق خود نئی تخلیقات کر کے اٹھ سکتی ہے۔ اپنی بائیولوجی بدل سکتی ہے، شعور کی نئی شکل بنا سکتی ہے اور اس کائنات کو آباد کر سکتی ہے۔
سائنس فکشن کے رائٹر اس طرح کی کہانیاں لکھتے آئے ہیں اور سوال یہ نہیں کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے۔ بلکہ یہ کہ کیا ایسا ہو گا۔
ہماری جیسی زندگی کا ہونا انتہائی نایاب ہے۔ کائنات میں ان گنت دوسرے نظامِ شمسی ہیں۔ ان میں سے بہت سے وہ جو ہم سے بھی اربوں سال پرانے ہیں۔ جیسا کہ فرمی نے پوچھا تھا کہ ان کو تو ہم پر وقت کی برتری رہی تھی تو پھر وہ کہاں ہیں؟ قدرت کا نظام ہر سکیل پر کام کرتا ہے۔ اگر ان میں سے زندگی کی ایک شکل بھی پھیلنا شروع کر دے (مثال کے طور پر، اپنی کاپیاں بنانے والے نینوروبوٹس کے ذریعے) تو پھر دوسری شکلیں بھی اس کو نظرانداز نہیں کر سکتیں۔ اس لئے میرا اندازہ ہے کہ اس تمام قابلِ مشاہدہ کائنات میں شاید ہم زندگی کی وجہ واحد شکل ہیں جو اس مقام پر پہنچے ہیں جو ٹیلی سکوپ بنا کر اس کو دیکھ سکے۔ یہ آفاقی وسعتیں جو ہمیں ہمارے چھوٹے پن کا احساس دلاتی ہیں، اس طریقے سے شاید صرف ہمیں ہی نظر آتی ہیں اور ہمیں ہی خوبصورت لگتی ہیں۔ ہماری زمین اور ہم اگر اس کائنات کی سب سے خاص جگہ اور ترتیب ہیں تو صرف اس وجہ سے۔
لیکن ہمارا یہ وقت جہاں پر اہم ہے، وہیں پر غیرمستحکم بھی۔ ہمارے پاس وہ ٹیکنالوجی بھی ہے جو خود ہم کو تباہ کر سکتی ہے۔ ہمارے پاس مستقبل کے دو راستے ہیں۔ زندگی کا اور موت کا۔ اگر دور کے مستقبل میں یہ آفاق زندگی سے پُر ہوئے تو اس وجہ سے کہ زمین پر رہنے والوں نے زندگی کا راستہ چنا تھا۔ اگر ہر جگہ موت کا سناٹا ہوا، تو وہ اس زمین پر رہنے والوں کے اپنے کئے گئے انتخاب کی وجہ سے۔ ہم کس طرح یاد رکھے جائیں گے، معلوم نہیں۔ لیکن ہم بے وقعت نہیں۔
جب ہم گمان کر لیں کہ ہم مرکز ہیں، ہم خاص ہیں، سب کچھ ہمارے لئے ہے تو یہ غرور ہمارے اپنے لئے، اپنے گروہ کیلئے اپنی قوم کے لئے اور انسانیت کے اگے بڑھنے کیلئے زہرِ قاتل ہے۔ سائنس، بطور انسان، ہمارے اس غرور کو بری طرح سے توڑ چکی ہے۔ جن کو اس سے اختلاف ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔
لیکن عروج اسی وقت ملتا ہے، جب غرور ٹوٹتا ہے۔
انسان میں کیا خاص ہے؟ کچھ بھی نہیں، وہ بھی نہیں جو عام خیال رہا ہے۔ صرف جب سب الگ الگ جڑتا ہے تو کچھ مختلف بنتا ہے۔ اس پر تفصیل یہاں سے