جب گیدڑ بیڑی پیا کرتے تھے تب کی بات ہے ، دلوں میں نفرت کی ایسی آگ جلی کہ درد ، بے درد ہوا ، دھرتی کانپی اور اس نےنفرت کے دریا کو بہنے کو رستہ دے دیا ، نفرت کے دو کنارے ، ایک پار کے دوسرے پار جانے کو ، نفرت کے ، مگرمچھ کو خونگوشت دان کریں ۔ اور دوسری اوڑ جائیں گے کہ پارٹیشن کی لکیر نے گھروں کے پتے بدل دیے تھے ، تبھی ایک طرف کے تین بہن بھائیوں نے ماں کو درندوں کے نرغے میں چھوڑ جان بچانے کی سوچی ! ہاۓ زندگیتیری پیاس ماں کو بھلا دے ، ایسی ہی تو ظالم بھوک جو بیٹا ماں کے ہاتھوں پردیسی کروا دے ، چل پیٹ کی چھوڑ ، پھر سہی ،نفرت کی بات کر ، تو ہاں تینوں بھاگے ، ہاتھ میں کچھ زیور کے شاید درندے کی بھوک ان سے مت جاۓ ۔کیا جانیں !یہ تو بس ساتھ ملا جھونگا ہے۔
(پرانا رواج ، کھانے کی چیز خریدی جاتی تو ساتھکچھ ایکسٹرا مقدار جھونگا کہہ کر ملتی تھی ) تو تینوں چلے اور راہ کے درندوں نے حملہ کیا تو بھائ تو دبک گۓ مکئ کے کھیت میں ، بہنکا پلو نفرت کے اندھوں کو دکھ گیا ، اب بھائ بےبسی اور لاچاری سے پریشان ، مگر ہاۓ رے زندگی کی چاہ یا دکھ اور بےبسی نے ایسا مفلوج کیا جب درندہ شان سے رخصتہوا تو ہی کمین گاہ سے نکلے بہن کے کچھ ٹکڑے تو پڑے تھے مگر زندگی ناپید ، جانے کیوں پھٹے پلو کا ایک خون میں ڈوبا ٹکرا ،اسی خونمیں سمی مٹی اس میں باندھ ساتھ رکھ لیا ۔
جانے کیا، جادو تھا اس خون بھری پوٹلی میں اس نے بالکل امام ضامن کا سا اثر کیا اور دونوں کو صحیح سلامت نفرت کے دریا کے دوسرےکنارے پہنچا دیا ، ایک بھائ تو ایسا سہما ،پھر کبھی عورت ذات کے پیروں سے اوپر کچھ نظر اٹھا کر نا دیکھا ، بال برہم چاری ہو گیا، دوسرے نے اس پوٹلی کو سنبھال مقدس کتاب کے غلاف میں رکھا اورمولوی سے اپنے نام کا فتوی لیا ، دونوں نے زندگی تو جی مگر ساری عمر ان دو موتوں کے سوا دیکھا کچھ نا ، ان لمحوں کی آنکھ سےاپنی ساری زندگی کو دیکھتے رہے ، ایسا ہی ہوتا ہے ، وہ آنکھیں مر تو بہت پہلے گئ تھیں ، دفن تب ہوئ جب چھوٹے بھائ نے کہا کہمیرے کفن میں اس پوٹلی کو بھی رکھ دینا آخر برسوں پہلے ہوئ موت کو قبر ملی اور کسی کا دنیا کو خوف سے دیکھنے کا عمل تمام ہوا
نہیں شاید نہیں ہوا ! وہ تو اس پوٹلی والے کے خون میں سرایت کر چکا تھا اور اس سے ہوتا ہوا مجھ تک بھی پہنچا ہے ۔ میں کبوہ دیکھتی ہوں جو موجود ہے ، ہم سبھی کب وہ دیکھتے ہیں جو ہوتا ہے ۔ ایک سانحہ ، سوچ ، انسان ، جذبہ ہم سے ہماری آنکھیں لے ہمیں ایک دھاندلی سی عینک تھما دیتا ہے اور ساری زندگی وہی کہرہ زدہ دنیادیکھتے زندگی گزر جاتی ہے
جیسے سارے ہی پردیسی ہجر کے درد کے بنا کچھ دیکھ نہیں پاتے ہیں
دھندلی نگاہیں ، دھندلی سوچ اور دھندلی زندگی خود سوچیں اگر ہجر کے مارے سلجھی زندگی گزاریں تو الجھن کا بھلا کیا بنے گا۔
“