سنٹرل ایمسٹرڈیم میں “جدوجہد گروپ” کا ایک چھوٹا سا دفتر ایک تنگ گلی کے پہلے فلور پر تھا۔ انتہائی تنگ سیڑھیوں سے جانا پڑتا تھا۔
اس دفتر نے ضیالحق آمریت کے خلاف دن رات کام کیا تھا۔ پوسٹر لکھے جاتے تھے۔ رسالہ جدوجہد تیار کیا جاتا تھا۔ پوسٹ کیا جاتا تھا۔ 20/25 افراد پر مشتمل گروپ کا سٹڈی سرکل کیا جاتا تھا۔ یہ ہمارا سوشل سنٹر بھی تھا۔
ایک روز اس دفتر کی رونقیں دو بالا ہو گئیں جب معلوم ہوا کہ احمد فراز اور فیض احمد فیض یہاں تشریف لا رھے ہیں۔ یہ 1982 تھا وہ دونوں عظیم شاعر ہمارے سینئر ساتھی اسد مفتی کی دعوت پر آئے تھے۔
دفتر میں انہی تنگ سیڑھیوں سے چڑھتے دونوں دفتر تشریف لائے اور دیر تک محفل جمی رھی۔
اس محفل میں مرحوم یثرب تنویر گوندل المعروف ڈاکٹر لال خان بھی تھا۔ یہیں فیض احمد فیض نے اپنی تاریخی نظم پڑھی تھی۔ جو انہوں نے بیروت جانے سے قبل لندن میں لکھی تھی
مرے دل مرے مسافر
دلِ من مسافرِ من
–
مرے دل مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سُراغ کوئی پائیں
کسی یارِ نامہ بر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتا تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے ناشنائیاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا
جدوجہد کے پہلے ادارتی بورڈ کے ممبر محمد امجد (حال مقیم گلاسکو) نے اس موقع کی دو فوٹو گراف بھیجی ہیں جو انہیں کی کھینچی ہوئی ہیں۔
“