جب ڈاکٹرعارف علوی صدرِ پاکستان نہیں تھے
ڈاکٹر عارف علوی کے صدر پاکستان منتخب ہونے کی خبر سن کر وہ ٹیلی فونک گفتگو اورملاقات ذہن میں تازہ ہوگئی،جو 2013 کے الیکشن سے قبل ان کے کلینک پر ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب دورانِ انٹرویو وقفے وقفے سے اٹھ کرکسی مریض کو دیکھنے چلے جاتے، اور ہم وقت گزاری کے لیے ان کے صاحب زادے سے باتیں کرنے لگتے، جو ان دونوں پاکستان تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا سیل کی دیکھ ریکھ میں جٹے تھے۔Ji
ایسے ہی ایک وقفے کے دوران، جب ڈاکٹر صاحب ایک مریض کے معاینہ کی غرض سے اٹھے، تو فوٹو گرافر نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ ڈاکٹر صاحب سے کہیں، ماتھے پرٹکائی دندان سازوں والی مخصوص عینک ہٹا لیں، تصویریں نہیں بن رہیں۔
اس انٹرویو کی کہانی بھی دل چسپ ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب عمران خان نے کراچی جلسے کا ڈول ڈالاتھا۔لاہور میں ان کے تاریخی شو کے بعد توقعات کا گراف اوپر چلا گیا ، کراچی میں ایک لہر تھی۔ انٹرویو کرنا ہماری صحافتی ذمہ داریوں کا حصہ تھا، تو ارادہ کیا کہ عمران خان کا خصوصی انٹرویو کیا جائے ۔اسی ضمن میں ڈاکٹر عارف علوی سے رابطہ کیا۔
”نہیں بھائی، ابھی تو ممکن نہیں!“ انھوں نے ٹکا سے جواب دے دیا۔
ہم نے جواب کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا: ”آپ کا بھی انٹرویو کرنا ہے!“
”اب تو جلسے کے بعد ہی ممکن ہے۔ ٹھیک ہے بھائی!“
عمران خان کا انٹرویو تونہ ہوسکا، مگر اس کامیاب جلسے کے چند روز بعد ہم ان سے ملنے پی سی ایچ ایس کے ایک خاموش اور سرسبز گوشے میں ضرور پہنچ گئے، جہاں شیشے کی دیواروں والی خوب صورت عمارت میں ہمیں کچھ دیر اُن کا انتظار کرنا پڑا۔
وہ بات کرنے کو تیار تھے، مگر مریضوں کی آمد اور ٹیلی فون کالز کے وجہ سے وقفے آتے رہے۔ایسی ہی ایک کال کے دوران غلام احمد پرویز کا تذکرہ آیا، تو ہم پوچھ بیٹھے کہ ادھرکون صاحب تھے، اور کیا معاملہ ہے؟۔کہنے لگے،”یہ صاحب کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی معاشی پالیسی غلام احمد پرویز کی اقتصادیات پر تحریر کردہ کسی کتاب کے خاصی قریب ہے، تو وہ کتاب مجھے بھجوا رہے ہیں۔“
انٹرویو ڈھائی گھنٹے جاری رہا، گو ریکارڈنگ صرف سوا گھنٹے کی تھی۔ اس سے آپ وقفوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔وہ تجربہ عمران خان سے ملاقات کے تجربے ہی سا تھا۔یعنی صحافی ہونے کے باوجود ہم چائے سے محروم رہے۔
یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، مدعا ہمارا یہ کہ جناب عارف علوی کا شمار پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی میں آمد سے پہلے جھکاؤ دائیں بازو کی سیاست کی جانب رہا۔ ایک احتجاج کے دوران انھیں بازو پر گولی بھی لگی۔ پیشہ ورانہ سفر میں بھی جناب نے بڑی کامیابیاں اپنے نام کیں۔ صرف پاکستان نہیں، برصغیر کے چوٹی کے دندان سازوں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اس شعبے میں سرگرم بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہ بھی رہے ہیں۔
اس روز وہ 2013 الیکشن میں ایک تہائی اکثریت لے کر حکومت بنانے کے لیے پرامید تھے، مگریہ ممکن نہ ہو سکا۔ اگلی بار وہ ہمیں ایک پریس کانفرنس میں این اے 250 کے انتخابات میں ایم کیو ایم پر دھاندلی کے مبینہ الزامات عاید کرتے نظر آئے،ا ور اس دوران تھوڑے جذباتی بھی ہوگئے۔ بعد ازاں میڈیا ٹاکزمیں بھی ہم نے ان کا یہ رنگ دیکھا۔
دو برس بعد،یعنی دھرنوں کے زمانوں میں ہم نے ان کا پھر انٹرویو کرنے کا ارادہ باندھا۔ اتفاق سے ڈائری میں ان کا فون نمبر پی ٹی آئی سندھ کے میڈیا کوآرڈی نیٹر دوا خان کے ساتھ ہی درج تھا۔
اپنے تئیں ہم نے دوا خان کا نمبر ملایا،کہا: ”دوا صاحب، ڈاکٹر عارف علوی کا انٹرویو کرنا ہے۔“
دوسری طرف سے پوچھا گیا: ”دوا خان کا یا عارف علوی کا؟“
ہمیں بڑا غصہ آیا کہ دواخان، جن سے اکثر رابطہ ہوتا تھا،آج کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ غصے سے کہا: ”بھائی، عارف علوی کا!“
ادھر سے کہا گیا: ” وہ تو میں ہوں!“
تب ہم سمجھے، کیا واقعہ ہوا۔ غلطی سے دوا خان کے بجائے عارف علوی کا نمبر مل گیا تھا۔
اب جب کہ ڈاکٹر عارف علوی صدر پاکستان بن گئے ہیں، وہ ملاقاتیں اور یادیں ذہن میں یکدم تازہ ہوگئیں۔
پی ٹی آئی کے متنازع ترین انتخاب یعنی جناب فیاض چوہان نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے عارف علوی کے انتخاب سے ایک روز قبل یہ فرمایا؛ ڈاکٹر علوی دہی بھلے والے صدر سے بہتر ثابت ہوں گے۔ ایسا ہی ایک طنز محسن پاکستان عبدالقدر خان نے بھی کیا تھا۔
ہم جناب فیاض چوہان کے زاویے سے تو نہیں سوچ سکتے کہ اس کے لیے ان سا دانا و بینا ہونا ضروری، البتہ یقین رکھتے ہیں کہ ڈاکٹر علوی اچھے اور سرگرم صدر ثابت ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے نظریاتی گروہ میں انھیں کلیدی حیثیت حاصل رہی، انھیں صدر کے لیے نامزد کرنا عمران خان کا قابل تعریف فیصلہ تھا۔
یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ اپنا کردار مثبت انداز میں نبھائیں گے۔ ساتھ ہی ہماری یہ خواہش ہے کہ اس شہر کے لیے، جوماضی میں قتل و غارت گری اور اب کچرے کی ڈھیر کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، اس کے لیے کچھ کرگزریں کہ کراچی کے زخم گہرے ہیں ، کوئی ڈاکٹر ہی اُنھیں بھرسکتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔