مشتاق سبقت مرحوم سرائیکی زبان کے ممتاز شاعر تھے لیکن اردو میں بھی شاعری کرتے تھے آپ کی ایک فکر انگیز نظم بہت مشہور ہوئی وہ یہ کہ “جب دنیا کے بت خانوں میں اصنام کی پوجا جاری ہو” اس میں شاعر نے مروجہ معاشرتی منافقت اور اخلاقی قدروں کے زوال کو بڑی مہارت سے بیان کیا ہے۔ پُرجوش اور سبق آموز اشعار کے ذریعے مشتاق سبقت ایک ایسی دنیا کی بھیانک تصویر کشی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جہاں مادیت اور دکھاوا روحانیت اور صداقت پر چھایا ہوا ہے۔
نظم کا آغاز دنیا کے مندروں میں بتوں کی پوجا کی ایک واضح تصویرکشی کے ساتھ ہوتا ہے جو حضرت انسان کے وقار پر پتھر کے بوجھ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ منظر کشی مذہبی سطحی پن، اخلاقی زوال، اور بنیادی اصولوں کی خیانت جیسے موضوعات کو سامنے لاتی ہے۔
مشتاق سبقت کی بعض برادریوں پر تنقید عقیدے کے رکھوالوں تک پھیلی ہوئی ہے جو حقیقی عقیدت کے بجائے نمائش کے لیے مذہبی رسومات میں ملوث نظر آتے ہیں۔ شاعر مذہبی اتھارٹی کے عہدوں پر فائز لوگوں میں منافقت کے پھیلاؤ پر افسوس کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے، جہاں تقویٰ کی آڑ میں بدعنوانی اور روحانی خالی پن پنپتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
مزید برآں مشتاق سبقت لوگوں میں اس فکری بے حسی اور جہالت کو بے نقاب کرتا ہے جو معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے، جیسا کہ جہالت کی سرکشی نے عقل اور دانش کی آوازوں کو دبا کر غرق کر دیا ہے۔ شاعر فکری گفتگو کے زوال کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتا ہے، جس کی علامت حق کی تحریف اور باطل کی تسبیح ہے۔
نظم ذاتی فائدے کے لیے عقیدے کے استحصال کی بھی مذمت کرتی ہے، ایسی مثالوں کو اجاگر کرتی ہے جہاں دنیاوی خواہشات کے لیے اخلاقیات سے سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ مادی دولت یا طاقت کے لیے عقیدے اور اصولوں کی تجارت کرنے والوں کے خلاف مشتاق سبقت کا سخت فرد جرم عصری معاشرے میں اخلاقی اقدار کے خاتمے کی نشاندہی کرتی ہے۔
سرائیکی شاعر مشتاق سبقت کی شاہکار نظم “جب دنیا کے بت خانوں میں اصنام کی پوجا جاری ہو” ایک کال ٹو ایکشن کے طور پر کام کرتا ہے اور لوگوں کو مروجہ منافقت کا مقابلہ کرنے اور دیانت، خلوص اور انصاف کی اقدار کو برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے۔ مشتاق سبقت نے اپنی مزاحمتی شاعری کے ذریعے قارئین کو چیلنج کیا ہے کہ وہ معاشرے کی حالت زار پر غور کریں اور زیادہ مستند اور اصولی وجود کے لیے جدوجہد کریں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مشتاق سبقت کی نظم جدید معاشرے میں پھیلے ہوئے اخلاقی دیوالیہ پن اور منافقت کی ایک طاقتور تنقید کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ اپنی گہری بصیرت اور فکر انگیز منظر کشی کے ذریعے نظم قارئین کو دعوت دیتی ہے کہ وہ انسانیت کے جوہر پر غور کریں اور اخلاقی تنزلی کے عالم میں سالمیت کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر غور کریں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے مشتاق سبقت کی نظم پیش خدمت ہے۔
*
جب دنیا کے بت خانوں میں اصنام کی پوجا جاری ہو
جب ایک انسان کی عظمت پر اک پتھر کا دم بھاری ہو
جب من کی جمنا میلی ہو اور روح میں اک بیزاری ہو
جب جھوٹ کے ان بھگوانوں سے ایمان پہ لرزہ طاری ہو
“اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو”
ہم اہلِ حرم ہیں, اب ہم سے یہ کفر گوارہ کیسے ہو؟
ہم لوگ انا الحق بولیں گے, ہم لوگ انا الحق بولیں گے
جب مسند، منبر پر بیٹھی ہر ایک نظر للچاتی ہو
جب صرف دکھاوے کی خاطر تسبیح اٹھائی جاتی ہو
جب دین کے ان ٹھیکیدارو میں نفس امارہ باقی ہو
بے ذوق جہاں پر صہبا ہو بے ذوق جہاں پر ساقی ہو
.”اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو”
جب اہلِ خرد کی باتوں پر کچھ جاہل شور مچاتے ہوں
جب بلبل ہو تصویرِ چمن اور کوے گیت سناتے ہوں
جب چڑیوں کے ان گھونسلوں میں کچھ سانپ اتارے جاتے ہوں
جب مالی اپنے گلشن میں خود ہاتھ سے آگ لگاتے ہوں
“اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو”
جب شاہ کے ایک اشارے پر اپنوں میں نیازیں بٹتی ہوں
جب آنکھیں غربت ماروں کی حسرت کا نظارہ کرتی ہوں
جب قلمیں جابر، ظالم کی عظمت کا قصیدہ لکھتی ہوں
جب حق کی باتیں کہنے پر انساں کی زبانیں کٹتی ہوں
“اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو”
جب مصر کے ان بازاروں میں کعنان کو بیچا جاتا ہو
جب حرص ہوس کی منڈی میں ایمان کو بیچا جاتا ہو
جب صوم صلوٰۃ کے پردے میں قرآن کو بیچا جاتا ہو
“انسان کو بیچا جاتا ہو یزدان کو بیچا جاتا ہو”
“اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو”
جس دور میں کعبے والے کو گرجا کے نظارے بھاتے ہوں
جس دور میں مشرق والے بھی مغرب کے ترانے گاتے ہوں
جس دور میں مسلم لیڈر بھی کچھ کہنے سے گھبراتے ہوں
جس دور میں سبقت غیرت کے اسباب عدم ہو جاتے ہوں
“اس دور میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو”
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔