ہم یہ جانتے ہیں کہ ستاروں کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ یعنی کائنات میں ہر روز کئی ستارے بنتے ہیں اور کئی اپنی عمر گزار کر ختم ہو جاتے ہیں۔ مگر کیوں؟
ستاروں کا وجود دو مخالف قوتوں کے توازن سے برقرار رہتا ہے۔ ایک طرف گریویٹی جو ستارے کو اندر کیطرف دھکیلتی ہے اور دوسری طرف وہ قوت یا دباؤ جو ستاروں میں ہونے والے فیوژن کے عمل سے بنتی ہے۔ (فیوژن ایک ایٹمی عمل ہے جس میں ہلکے عناصر کے ایٹموں کے شدید ملاپ سے بھاری عناصر کے ایٹم وجود میں آتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ زبردست توانائی حرارت اور تابکاری کی شکل میں خارج ہوتی یے)۔
جب سورج سے کئی گنا زیادہ ماس رکھنے والے ستاروں میں فیوژن کا عمل ختم ہوتا یے تو وہ ٹھنڈے ہونے لگتے ہیں۔ مخالف قوتوں کا توازن بگڑ جاتا یے۔ گریویٹی حاوی ہو جاتی ہے جو ستارے کو اپنے ہی وزن تلے دھنساناشروع کر دیتی ہے۔ یوں اس تیزی سے جب ستارے گریویٹی سے دبتے ہیں تو ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے جسے سپرنووا کہا جاتا یے۔اس عمل سے ستارے کا کچھ حصہ خلا میں بکھر جاتا ہے جس سے بے حد روشنی ہیدا ہوتی ہے۔ اور باقی نیوٹران سٹار بن جاتا ہے۔ اس عمل سے کس قدر روشنی پیدا ہوتی ہے؟
اتنی کی اگر ہماری کہکشاں میں کوئی ایسا ستارہ سپرنووا بنے تو ہمارے آسمان پر وہ دن میں بھی ایک روشن چمکتا ستارہ نظر آئے۔
ایسا ماضی میں بھی کئی بار ہو چکا ہے مثال کے طور پر سن 1006 میں، یا 1054ع میں یا پھر 1181 میں
یا پھر 1604 میں۔یعنی آج سے قریب 400 سال پہلے۔
دیکھنے والوں نے ہفتوں ان سپرنووا کو آسمان پر دن کو بھی چمکتا دیکھا اور اسے مہمان ستارا جانا۔
ہماری کہکشاں میں ایک ستارہ ہےاسکا نام ہے بیٹلجوس۔
یہ زمین سے لگ بھگ 548 موری سال دور ہے۔ یہ سورج سے ماس میں دس سے بیس گنا زیادہ ہے اور سائز اتنا کہ اگر اسے نظامِ شمسی میں سورج کی جگہ رکھیں تو یہ مریخ سے بھی آگے تک کے فاصلے پر پھیلا ہو۔
بڑے ستاروں کی سورج جیسے ستارے سے عمر کم ہوتی ہے۔
بیٹلجوس اپنی عمر کے اختتام پر ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ اگلے ایک لاکھ سال میں کسی بھی وقت سپرنووا بن سکتا ہے۔ شاید کل، شاید ہزاروں سال بعد۔
کئی دہائیوں سے ماہرین فلکیات یہ جانتے ہیں کہ اسکی چمک کر 425 دن بعد ایک چوتھائی کم ہوتی رہتی ہے۔ مگر 2020 میں اسکی چمک غیر معمولی طور پر کم ہو گئی۔ اتنی کم کہ زمین سے آنکھ سے بھی مشکل سے نظر آتا۔
اس سے سائنسدانوں کو یہ لگا کہ شاید یہ اب سپرنووا ہو کر ہھٹے گا مگر کئی دنوں تک ایسا نہ ہوا۔
اس کے مزید مشاہدے سے اب یہ معلوم ہوا ہے کہ دراصل بہت سی خلائی گرد اس ستارے سے خارج ہوئی جس نے اسکی روشنی کو زمین تک آنے سے روک دیا۔ اسی وجہ سے یہ اتنا روشن دکھائی نہیں دیا۔
اب سائنسدان اس ستارے کی مزید تصاویر لیکر کمپیوٹر ماڈلز کے ذریعے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سپرنووا کب بنے گا۔
شاید مستقبل قریب میں ہم اسکی بہتر سے بہتر تصاویر لیکر ایک صحیح اندازہ لگا سکیں کہ یہ ستارہ ہمارے آسمان پر کب مہمان بن کر آئے گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...