آج زمین پر آٹھ برِ اعظم ہیں۔ ایشیاء ، یورپ ، افریقہ ، شمالی امریکہ ، جنوبی امریکہ، آسٹریلیا ، انٹارکٹیکا اور ذیلینڈیا۔
ان میں سے آٹھواں برِ اعظم ذی لینڈیا کا رقبہ آسٹریلیا سے آدھا ہے اور اسکا محض 7 فیصد حصہ ہی سمندر سے باہر ہے جس میں نیوزی لینڈ کے جزائر اور بحر الکاہل میں موجود اسکے ساتھ دوسرے ممالک کے چھوٹے چھوٹے جزائر شامل پیں۔
مگر زمین پر ہمیشہ سے آٹھ برِ اعظم نہیں تھے اور نہ ہی یہ ہمیشہ سے وہیں تھے جہاں ہیں۔ اگر آپ آج سے 33 کروڑ سال پیچھے جائیں تو زمین پر اسکے خطِ استوا پر محض ایک ہی بڑا براعظم تھا جسکو سائنسدان آج “پِنجیا” کے نام سے پکارتے ہیں۔ زمین کی اوپری سطح یعنی کرسٹ پر موجود یہ براعظم دراصل اسکے نیچے موجود پگھلی چٹانوں پر تیر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ حرکت کرتے ہیں۔ اسے کانٹینٹل ڈرفٹ کہتے ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی چل رہا ہے۔ زمین پر جو زلزلے آتے ہیں یہ یہ بھی دراصل آپکے پاؤں تلے حرکت کرتی زمین کے باعث آتے ہیں ۔
مگر یہ سب ہمیں کیسے معلوم ہوا۔ ملیے آلفریڈ ویگینر سے۔ یہ صاحب بیسویں صدی کے ایک جرمن سائنسدان تھے۔
ویگینر نے جب دنیا کا نقشہ دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ جنوبی امریکہ اور افریقہ کے برِ اعظم کے درمیان سے اگر سمندر نکال دیا جائے تو یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ یوں فٹ ہوتے ہیں جیسے کسی بچے کے پزل گیم کے ٹکڑے۔
تاہم یہ کوئی واضح ثبوت نہیں تھا۔ مگر جب اس نے دیکھا کہ جنوبی امریکہ اور افریقہ میں ملنے والے جانوروں کے فوسلز بھی ایک جیسے ہیں یعنی ماضی میں دونوں براعظموں کے جانور بھی ایک سے تھے تب اس نے خیال ظاہر کیا کہ ماضی میں یہ دونوں بر اعظم آپس میں جڑے ہوئے تھے۔
اس نے اس خیال کو مزید اگے بڑھایا کہ ماضی میں تمام بر اعظم آپس میں جڑے ہوئے تھے جو بعد میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔
ویگینر کے اس خیال کو اس کی زندگی میں زیادہ پذیرائی نہ مل سکی ۔ وہ 1950 میں گرین کینڈ میں ایک مہم کے دوران مر جاتا ہے۔
60 کی دہائی میں جب سائنس کی ٹیکنالوجیز نے ترقی کی
اور زمین پر زلزلے اور مقناطیسیت معلوم کرنے کے لیے حساس آلات بنے تو سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ زلزلے زمین پر ہر جگہ نہیں آتے بلکہ مخصوص جگہوں پر آتے ہیں۔ایسے ہی جب انہوں نے سمندروں میں مقناطیسیت ماپنے والے آلات لگائے تو دیکھا کہ زمین کی مقناطیسیت بدلتی ہے۔
ان آلات سے ڈیٹا اکٹھا کر کہ سائنسدان اسی نتیجے پر پہنچے جس پر ویگنر میاں دو دہائیاں پہلے پہنچ چکے تھے۔ کہ ماضی میں بھی اور اب بھی زمین کے بر اعظم مسلسل حرکت میں ہیں۔ سائنسدانوں نے مزید دریافت کیا کہ زمین کی اوپری سطح یعنی کرسٹ 20 ٹیکٹکانک میں ٹوٹی ہوئی ہے جن پر بر اعظم تیر رہے ہیں۔جب ان پلیٹوں کا آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے تو ان سے توانائی خارج ہوتی ہے جس سے زلزلے آتے ہیں۔
آپ اگر دنیا کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو آپکو عموماً پہاڑ ان جگہوں پر نظر آئیں گے جہاں دو براعظم یا انکے درمیان ٹیکٹانک پلیٹس ہوں۔
ایسا اس لیے کہ جب ٹیکٹانک پلیٹس آپس میں ٹکراتی ہیں تو ان سے انکے درمیان زمین کی سطح اوپر اٹھتی ہے جو پہاڑوں کی شکل اختیار کرتی ہے۔
پہاڑ دراصل ٹیکٹانک پلیٹو ں کے ٹکراؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
انکا زمین کی مضبوطی یا استحکام سے کوئی تعلق نہیں ۔
اس دیرافت کے بعد آج ہم جانتے ہیں زمین پر بر اعظموں کی تقسیم ہمیشہ ایسی نہیں رہے گی۔ مستقبل میں آج سے 25 کروڑ سال بعد یہ تمام بر اعظم ایک مرتبہ پھر اکٹھے ہو جائیں گے۔ پھر ممکن ہے آپکو امریکہ نہ جانا پڑے۔۔امریکہ خود چل کر پاکستان آ جائے۔ 🙂
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...