ایک آ گیا، دوسرا آئے گا، دیر سے دیکھتا ہوں یوں ہی رات اس کی گزر جائے گی، میں کھڑا ہوں یہاں کس لیے ، مجھ کو کیا کام ہے، یاد آتا نہیں، یاد بھی ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی ہے، جس کی رکتی ہوئی اور جھجکتی ہوئی ہر کرن بے صدا قہقہہ ہے، مگر میرے کانوں نے کیسے اسے سن لیا ۔۔ ایک آندھی چلی، چل کے مٹ بھی گئی، آج تک میرے کانوں میں موجود ہے سائیں سائیں مچلتی ہوئی اور ابلتی ہوئی، پھیلتی پھیلتی ، ۔۔ دیر سے میں کھڑا ہوں یہاں ، ایک آیا ، گیا ، دوسرا آئے گا، رات اس کی گزر جائے گی ، ایک ہنگامہ برپا ہے دیکھیں جدھر، آرہے ہیں کئی لوگ چلتے ہوئے ، آرہے جارہے ہیں اِدھر سے اُدھراور اُدھر سے اِدھر ۔۔ جیسے دل میں مرے دھیان کی لہر سے ایک طوفان ہے ویسے آنکھیں مری دیکھتی ہی چلی جارہی ہیں کہ اک ٹمٹماتے دئیے کی کرن زندگی کو پھلستے ہوئے اور گرتے ہوئے ڈھب سے ظاہر کیے جا رہی ہے، مجھے دھیان آتا ہے اب تیرگی اک اجالا بنی ہے۔ مگر اس اجالے سے رستی چلی جارہی ہیںوہ امرت کی بوندیں جنہیں میں ہتھیلی پہ اپنی سنبھالے رہا ہوں ، ہتھیلی مگر ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی تھی، لپک سے اجالا ہوا، لو گری، پھر اندھیرا سا چھانے لگا ، بیٹھتا بیٹھتا، بیٹھ کر ایک ہی پل میں اٹھتا ہوا، جیسے آندھی کے تیکھے تھپیڑوں سے دروازے کے طاق کھلتے رہیں، پھڑپھڑاتے ہوئے طائرِ زخمِ خوردہ کی مانند میں دیکھتا ہی رہا ایک آیا، گیا، ۔۔۔ دوسرا آئے گا، سوچ آئی مجھے، پائوں بڑھنے سے انکار کرتے گئے، میں کھڑا ہی رہا، دل میں اک بوند نے یہ کہا رات یونہی گزر جائے گی، دل کی اک بوند کو آنکھ میں لے کے میں دیکھتا ہی رہا، پھڑ پھڑاتے ہوئے طائرِ احساس زخم خوردہ کی مانند دروازے کے طاق اک بار جب مل گئے، مجھ کو آہستہ آہستہ احساس ہونے لگا ۔۔ اب یہ زخمی پرندہ نہ تڑپے گالیکن مرے دل کو ہر وقت تڑپائے گا، میں ہتھیلی پہ اپنی سنبھالے رہوں گا وہ امرت کی بوندیں جنہیں آنکھ سے میری رسنا تھا، لیکن مری زندگی ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی، جس کی رکتی ہوئی اور جھجکتی ہوئی ہر کرن بے صدا قہقہ ہے کہ اس تیرگی میں کوئی بات ایسی نہیں، جس کو پہلے اندھیرے میں دیکھا ہو میں نے، سفر یہ اجالے، اندھیرے کا چلتا رہا ہے ۔۔ تو چلتا رہے گا، یہی رسم ہے راہ کی ایک آیا، گیا، دوسرا آئے گا، رات ایسے گزر جائے گی، ٹمٹماتے ستارے بتاتے تھے۔ رستہ کی ندّی بہی جا رہی ہے، بہے جا، اس الجھن سے ایسے نکل جا، کوئی سیدھا منزل پہ جاتا تھا لیکن کئی قافلے بھول جاتے تھے انجم کے دور یگانہ کے مبہم اشارے مگر وہ بھی چلتے ہوئے اور بڑھتے ہوئے شام سے پہلے ہی دیکھ لیتے تھے۔ مقصود کا بند دروازہ کھلنے لگا، مگر میں کھڑا ہوں یہاں، مجھ کو کیا کام ہے، میرا دروازہ کھلتا نہیں ہے، مجھے پھیلے صحرا کی سوئی ہوئی ریگ کا ذرّہ ذرّہ یہی کہہ رہا ہے کہ ایسے خرابے میں سوکھی ہتھیلی ہے اک ایسا تلوا کہ جس کو کسی خار کی نوک چبھنے پہ بھی کہہ نہیں سکتی مجھ کو کوئی بوند اپنے لہوکی پلا دو، مگر میں کھڑا ہوں یہاں کس لئے؟ کام کوئی نہیں ہے تو میں بھی ان آتے ہوئے اور جاتے ہوئے ایک دو تین ۔۔ لاکھوں بگولوں میں مل کر یونہی چلتے چلتے کہیں ڈوب جاتا کہ جیسے یہاں بہتی لہروں میں کشتی ہر اک موج کو تھام کر لیتی ہے اپنی ہتھیلی کے پھیلے کنول میں، مجھے دھیان آتا نہیں ہے کہ اس راہ میں تو ہر اک جانے والے کے بس میں ہے منزل، میں چل دوں، چلوں ۔۔ آئیے آئیے، آپ کیوں اس جگہ ایسے چپ چاپ، تنہا کھڑے ہیں، اگر آپ کہئے تو ہم اک اچھوتی سی ٹہنی سے دو پھول ۔۔ بس بس مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں اک دوست کا راستہ دیکھتا ہوں ۔۔ مگر وہ چلا بھی گیا ہے، مجھے پھر بھی تسکین آتی نہیں ہے کہ میں ایک صحرا کا باشندہ معلوم ہونے لگا ہوں خود اپنی نظر میں۔ مجھے اب کوئی بند دروازہ کھلتا نظر آئے۔ یہ بات ممکن نہیں ہے، میں ایک اور آندھی کا مشتاق ہوں جو مجھے اپنے پردے میں یکسر چھپا لے، مجھے اب یہ محسوس ہونے لگا ہے سہانا سماں جتنا بس میں تھا میرے وہ سب بہتا سا ایک جھونکا بنا ہے جسے ہاتھ میرے نہیں روک سکتے کہ میری ہتھیلی میں امرت کی بوندیں تو باقی نہیں ہیں، فقط ایک پھیلا ہوا، خشک، بے برگ، بے رنگ صحرا ہے جس میں یہ ممکن نہیں میں کہوں ۔۔ ایک آیا، گیا، دوسرا آئے گا، رات میری گزر جائے گی۔
٭٭٭