پنجاب سے لے کر مکران کے ساحل تک گنگا کے کنارے تک جاٹ کثیر تعداد میں اور پنجاب میں ان کی اکثریت ہے ۔ گو اب یہ مسلمان ہیں اور شمالی ہند میں یہ دوسری اقوام سے اور راجپوتانہ میں نصف کسان جاٹ ہوں گے ۔ دریائے سندھ کے کنارے ان کی بہت سی قومیں مسلمان ہوچکی ہیں ۔ جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ بلوچ بھی جاٹ نسل ہیں ۔ غیر مستقیم پنجاب میں راوی کے مغربی اضلاع میں بیشتر جاٹ مسلمان تھے ۔ لیکن وسطی پنجاب میں وہ اکثر سکھ اور جنوبی پنجاب میں وہ اکثر ہندو ہیں ۔
لی بان کا کہنا ہے کہ یہ پنجاب و سندھ میں سب سے باوقت قوم ہے ۔ ان میں شاز و نادر خارجی میل سے ٹھوڑا بہت تغیر پیدا ہوا ہے ۔ تاہم ان کا عام ڈھانچہ حسب ذیل ہے ۔ قد لمبا کاٹھی مظبوط چہرے سے ذہانت نمودار ، جلد کس قدر سیاہ ، ناک بڑی اور اونچی اور بعض اوقات خم دار اور ان کی آنکھیں چھوٹی اور سیدھی ، گال کی ہڈیاں کم ابھری ہوئیں ہیں ، بال سیاہ اور کثرت سے ڈاھاڑیاں چگی اور کم بالوں کی ، بلند قامت خوش نظر ، ان کی چال سیدھی اور شاندار ۔ جاٹوں میں تین مذہب کے لوگ ہیں ۔ مسلمان جو دریائے سندھ کے نچلے والے حصہ میں رہتے ہیں ، سکھ پنجاب میں اور ہندو جو راجپوتانہ میں رہتے ہیں ۔ گنگا جمنا کے دو آبے اور راجپوتانے میں یہ جاٹ کہلاتے ہیں اور پنجاب میں یہ جٹ مشہور ہیں ۔ اس طرح یہ جیٹ ، جٹ ، زت کے نام سے بھی مشہور ہیں ۔
جٹ دراز قد ہوتے ہیں ان کا جسم گھٹا ہوا اور مظبوط ہوتا ہے اور رنگ سانولہ ہوتا ہے ۔ یہ مانا جاسکتا ہے کہ جاٹ نسل کے لحاظ سے وہ آریا ہیں ۔ اگرچہ بعض مصنفین نے انہیں اصل کے اعتبار کے لحاظ سے سیتھائی آریائی قرار دیا ہے ۔ جس کی بڑی شاخ میں آگے چل کر مختلف قبائل کی آمزش ہوگئی ہے ۔ اگرچہ جنرل کنگم کا کہنا ہے کہ جاٹ اندوسیتھک ہیں اور سکندر کے بعد آئے ہیں ۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تورانی یا اندوسیتھک نہ ڈراویڈوں سے زیادہ ملی نہ آریوں سے ۔ تاہم اس میل کا اثر جو وقوع میں آیا ہے ، وہ جاٹوں میں موجود ہے ۔ مثلاً بعض ان میں سیاہ فام ہیں اور بعض کا رنگ قدر صاف ہے ، جیسا کہ راجپوتوں کا ۔ جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ جاٹوں کی روایات کے مطابق وہ پانچویں صدی عیسویں کے مابین دریائے سندھ کے مغرب سے آکر پنجاب میں آباد ہوئے تھے ۔
مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ انڈو ایرانی ، ساکا اور یورپی سیھتی ایک ہی تھے ۔ ہسٹری آف ورلڈ کے مطابق سیتھی وسط ایشا اور شمالی یورپ کے ان قبائل کا نام ہے جو ہمیشہ اپنے پڑوسی نسلوں سے سرپیکار رہتے تھے ۔ سیتھہ ایک قدیم علاقہ کا نام ہے جو جو بحیرہ اسود کے مشرق اور دریائے جیحوں و سیحون (دریائے آمو و سیر) کی وادی سے لے کر دریائے ڈینیوپ اور دریائے ڈان تک پھیلا ہوا تھا ۔ ہیروڈوٹس کہتا ہے کہ مساگیٹے سیتھی قوم کی اولاد ہیں ۔
پی سائیکس گتی کہلانے والوں کا ذکر کرتا ہے ۔ جنہوں نے 6200 قبل م ق میں سمیر اور اسیریا وغیرہ پر قبضہ جما لیا تھا ۔ چینی ماخذ میں بیان کیا گیا ہے کہ وی قبائل کی تاریخ 2600 ق م تک پیچھے جاتی ہے ۔ چین کے وی ، ایران کے داہی ، یونان کے دائے اور موجودہ دور کے داہیا جاٹ ایک ہی ہیں ۔ جنوبی ایشیا کے کے جاٹ وہی لوگ ہیں جو ایران کی تاریخ میں گتی اور چینیوں کے یوچی )جس کا چینی تلفظ گتی ہے( کے طور پر سامنے آتے ہیں ان کا اصل وطن سرحدات چین سے لے کر بحیرہ اسود تک وسط ایشیا ہے ۔ ہیروڈوٹس اور دیگر یونانی مورخ انہیں گیتے یا مساگیتے کہتے ہیں ۔ موخر الذکر نام انہی قبائل کا بڑا عنصر ۔
جاٹ اگرچہ راجپوتوں کی چھتیس راج کلی میں شامل ہیں ، لیکن راجپوت نہیں کہلاتے ہیں اور نہ ہی راجپوت جاٹوں سے شادی بیاہ کرتے ہیں اور ان کا شمار نچلی اقوام میں ہوتا ہے ۔ ان سے لڑکی لے لی جاتی ہے لیکن لڑکی نہیں دی جاتی ہے ۔ ولسن کا کہنا ہے کہ راجپوت قبائل راٹھور ، پوار اور گہلوٹ وغیرہ یہاں پہلے سے آباد تھے ۔ یہ چاروں قبائل اصل میں جاٹ ہیں جنہیں بعد میں راجپوت کہا جانے لگا ہے ۔
جاٹوں نے کبھی برہمنی مذہب کی برتری اور بالادستی قبول نہیں کی اور یہی وجہ ہے انہوں نے رسمی انداز میں باقیدہ ہندو مذہب قبول نہیں کیا ۔ یہی پس منظر تھا جس میں برہمنوں نے اور ان کی تقلید میں دوسری ذاتوں نے جاٹوں کو کشتریوں کا نچلا طبقہ بلکہ شودر خیال کرتے ہیں ۔ لیکن جاٹوں نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی اور کتاب ہندو قبائل اور ذاتوں میں برصغیرٰٰٰٰٰٰٰٰ کی قدیم چھتیس راج کلی میں جاٹوں کا نام ضرور ملتا ہے لیکن کہیں بھی انہیں راجپوت ظاہر نہیں کیا گیا ہے ۔ اس آخری جملے میں بنیاد یہ ہے کہ راجپوت رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل ہونے والے جاٹ اور گوجر ہیں جن لوگوں نے رسمی طور پر متصب برہمنی نظام کی شرائط اور قبول کرنے سے انکار کیا انہیں رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل نہیں کیا گیا اور وہ آج تک وہی جاٹ ، گوجر اور آہیر ہیں ۔ یہی وجہ ہے جاتوں اور راجپوتوں مشترک قبائلی نام ہیں ۔
بیواہ کی شادی کی وہ اہم ترین نقطہ اختلاف تھا جو کہ کوہ آبو کی قربانی کے موقعہ پر جاٹوں اور برہمنوں کا اختلاف ہوا ۔ جن لوگوں نے برہمنوں کی پیش ردہ شرائط کو تسلیم کیا وہ راجپوت کہلائے ۔ اس کے برعکس جنہوں نے بیواہ کی شادی کرنے پر اصرار کیا وہ ہندو مذہب میں داخل ہونے کے باوجود جاٹ کہلائے ۔
محمد بن قاسم کے مقابلے میں انہوں نے مزاحمت کی تو محمد بن قاسم نے ان کی بڑی تعداد گرفتار کرلیا اور انہیں حجاج بن یوسف کے پاس بھجوا دیا۔ سلطان محمود غزنوی کو ہند پر حملوں کے دوران بڑا تنگ کیا ۔ چنانچہ ایک حملہ خاص طور پر ان کے خاتمہ کے لئے کیا اور چھ سو کی تعداد میں خاص قسم کی کشتیاں تیار کرائیں جس میں تین تین برچھے لگے ہوئے تھے ۔ ان کشتیوں کو دریائے سندھ میں دال کر ہر کشتی پر بیس بیس سپاہی تعنات کئے اور باقی ماندہ فوج کو دریائے سندھ کے کنارے پیدل چلنے کا حکم دیا ۔ جاٹوں کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بیوی بچے کسی جزیرے پر بھیج کرکوئی چار ہزار یا آٹھ ہزار کشتیوں پر سوار ہوکر محمود غزنوی کی فوج پر حملہ آور ہوئے ۔ باوجود کثرت کے کثیر تعداد میں جاٹ مارے گئے ۔ محمود غزنوی نے جزیرے پر پہنچ کر جاٹوں کے اہل و عیال کو گرفتار کرلیا ۔
اورنگزیب جس زمانے میں دکن میں مصروف تھا ، جاتوں نے غنیمت جان کر اپنے سرداروں کی قیادت میں عام آبادی پر حملے کئے ۔ یہاں تک انہوں نے اکبر کے مقبرے کو توڑنے کی کوشش کی ۔ اورنگ زیب نے ان کی سرکوبی کے لئے مقامی فوجداروں کو مقرر کیا ۔ لیکن جب اورنگ زیب کے بعد سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرنے لگا تو بھرت پور اور اس گرد نواح کے جاٹوں نے اپنے سردار سورج مل کی سردگی میں آگرہ اور دہلی کے درمیانی علاقہ میں دہشت پھیلادی ۔ ان کے ظلم و ستم سے غضبناک ہوکر احمد شاہ ابدالی نے ان کی گوشمالی کی ۔ لیکن ان کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کرسکا ۔ بعد میں رنجیت سنگھ ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ یہ ریاست مختصر عرصہ کے لئے قائم ہوئی تھی ۔
سکھ جو اٹھارویں صدی کے آخر تک پنجاب کے حاکم بن چکے تھے ۔ ان کی سلطنت کے قیام میں نادرشاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے بھر پور مدد دی اور ان حملوں کی بدولت مغلیہ سلطنت نہایت کمزور ہوگئی اور سکھ ایک قوت کے ساتھ ابھرے ۔ انہوں نے مغلیہ سلطنت کے ذوال کو اس کے انجام تک پہنچایا ۔ سکھوں کی اکثریت جٹوں پر مشتمل تھی اور جٹوں کا عمل دخل بہت تھا ۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں انگریزوں کے خلاف تحریک جلی جس کا مشہور سلوگن ’ جٹا پگڑی سنھال جٹا ‘ تھا ۔ اس تحریک میں حصہ لینے والے بھی سکھ تھے ۔ اس کا روح رواں مشہور انقلابی بھگت سنگھ کا چچا تھا ۔
جاٹ گنوارپنے اور بے وقوفی میں ضرب مثل ہیں اور لین دین میں سادہ لوح ہوتے ہیں ۔ اپنے ہم جنسوں کے مقابلے میں بھینسوں اور گایوں کا انہیں زیادہ خیال کرتے ہیں ۔ ان کا پیشہ زیادہ تر کاشکاری ہے ۔ وہ نہ صرف دلیر واقع ہوئے ہیں بلکہ اچھے سپاہی واقع ہوئے ہیں ۔ ہندو جاٹوں میںایک سے زائد شادی کا رواج تھا ۔ اس طرح ایک زمانے میں معتدد بھائیوں کی ایک ہی بیوی ہوا کرتی تھی ۔ انیسویں صدی کے آخر تک لڑکی کو بچپن میں ہی مارنے کا رواج تھا ۔ عقد بیواہ اور بیواہ بھابی سے شادی ان کے ہاں اب بھی جائز ہے ۔ برادری سے باہر شادی اور غیر عورتوں سے ناجائز تعلق بھی عام عام رہا ہے ۔
بلوچوں کا ایک بڑا قبیلہ جتوئی کی اصل جاٹ ہے ۔ کیوں کہ بلوچ روایات کے مطابق میر جلال خان کی لڑکی جاتن سے منسوب ہے ۔ جاتن جات کا معرب ہے ۔ اس طرح جت اور جاٹ کے علاوہ جتک ، جدگال اور دوسرے قبائل کی اصیلت جاٹ النسل ہے ۔ یہ اگرچہ خود کو جاٹ نہیں مانتے ہیں اور بلوچ کہتے ہیں ۔ سندھ کے سماٹ قبائل بھی جاٹ النسل ہیں ۔ اس طرح بشتر بشتون قبائل کی اصل جاٹ ۔ گو وہ اسے تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...