آ مرے اندر آ
پوتر مہران کے پانی
ٹھنڈے میٹھے مٹیالے پانی
مٹیالے جیون رنگ جل
دھو دے سارا کرودھ کپٹ
شہروں کی دشاؤں کا سب چھل
یوں سینچ مجھے کر دے میری مٹی جل تھل
ترے تل کی کالی چکنی مٹی سے
ماتھے پر تلک لگاؤں
ہاتھ جوڑ ڈنڈوت کروں
او من کے بھید سے گہرے
ہولے ہولے سانس کھینچتے
اوم سمان امر
او مہان ساگر
میں اتری تیرے ٹھنڈے جل میں کمر کمر
تیرے ٹھنڈے میٹھے مہربان پانی سے منہ دھو لوں
اور دھو لوں آنسو
کھارے آنسو
تیرے میٹھے پانی سے دھو لوں
او مہان مٹیالے ساگر آ
سن مری کتھا
میں بڑی ابھاگن بھاگ مرا
بے درد ہاتھ میں رہا سدا
ٹوٹا مرا مٹی سے ناطہ
کیسے ٹوٹا
اک آندھی بڑی بھیانک لال چڑیل
مجھے لے اڑی
اٹھا کر پٹکا اس نے کہاں سے کہاں!
تیرے چرنوں میں سیس جھکاتی ایک اکیلی جان
مرے ساتھ مرا کوئی میت نہیں
کوئی رنگ روپ' کوئی پریت نہیں
مری ان گڑھ پھیکی مرجھاتی بولی میں کوئی سنگیت نہیں
مری پیڑھیوں کے بیتے یگ میرے ساتھ نہیں
بس اک نردئی دھرم ہے
جس کا بھرم نہیں
وہ دھرم جو کہتا ہے مٹی مری بیرن ہے
جو مجھے سکھاتا ہے ساگر مرا دشمن ہے
ہاں' دور کہیں
آکاش کی اونچائی سے پرے
رہتا ہے خدا
اتنا روکھا
مٹی سے جوڑ نہیں جس کا
سب ناطے پریت اور بیر کے اس کی کارن میں کیسے جوڑوں
میں مٹی مرا جنم مٹی
میں مٹی کو کیسے چھوڑوں
او مٹیالے بلوان مہا ساگر
میں اکھڑی دھرتی سے
بھگوان مرا رس سوکھ گیا
پھر بھی سنتی ہوں اپنے لہو میں بیتے سمے کی نرم دھمک
وہ سمے جو میرے جنم سے پہلے بیت گیا
مرے کانوں میں
اک شور ہے جھرجھر بہتے ندی نالوں کا
اور کوئی مہک بڑی بے کل ہے
جو گونج بنی مری چھاتی سے ٹکراتی ہے
او مہان ساگر
جیونःرس دے
اپنے تل میں جل پودا بن کر جڑ لینے دے
سدا جیے
او مہان ساگر سندھو
تو سدا جیے
اور جئیں ترے پانی میں پھسلتی مچھلیاں
شانت سکھی یوں ہی
ترے پانی میں ناؤ کھیتے
ترے بالک سدا جئیں
او پالن ہار ہمارے
دھرتی کے رکھوالے
ان داتا
تری دھرتی
نرم رتیلی مہربان سندھ کی دھرتی
سدا جیے
“