سائنس، علم سے زیادہ علم حاصل کرنے کے طریقہ کار کا نام ہے۔ سائنس کی سب سے بڑی ایجاد سائنسی طریقہ کار ہے۔ جدید وقت میں سب سے بھروسہ مند علم سائنس کا علم ہے۔ یہی وجہ کے غیر سائنسی علوم مثلا علم نجوم، ٹیلی پیتھی اور مذہبی علم کے عالم اس کی اصطلاحات کا استعمال کر کے علم کو سائنس کا روپ دینے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔
سائنسی علم طبعی ثبوتوں پر انحصار کرتا ہے، اس کے زمرے میں محض وہ علم آتا ہے جس کو تجربہ گاہ میں غلط یا درست ثابت کیا جا سکتا ہو۔ سائنس میں کسی شخص کو باوا آدم کی حثیت حاصل نہیں ہوتی۔ جب تک آئنسٹائن اپنی بات کو تجرباتی طور پر ثابت نہیں کرے گا اس کی اہمیت صفر ہو گی۔ سائنس سوال کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، اس میں پہلے سے موجود کسی مسلمہ نظریے کو چینلج کرنا برا خیال نہیں کیا جاتا۔
اس کے برعکس ٹیلی پیتھی کی بنیاد محض اندازوں پر ہے۔ مذہبی علم عقیدہ پر انحصار کرتا ہے۔ اور اس کو ماننے لئے کوئی ثبوت درکار نہیں ہوتا۔ اس کو تجربہ گاہ میں غلط یا درست ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مذہبی علم میں باوا آدم ہوتے ہیں، جو جتنا بڑا عالم ہو گا اس کی بات کی اہمیت اتنی زیادہ ہو گی۔ مذہبی علم میں سوال اٹھانے اور پہلے سے موجود کسی نظریے کو چیلنج کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔
آج کل جعلی سائنس کا کاروبار عروج پر ہے۔ عالم نجوم اور مذہبی عالم ہر وقت ’سائنس نے بھی ثابت کر دیا ’ کا ڈھنکا بجاتے نظر اتے ہیں۔ عام لوگ اس سے بڑے متاثر ہیں۔
ایک زمانے کی بات ہے کسی ملک میں ایک عجیب معمہ سامنے آیا۔
لوگ شام کو اپنے جانور کھونٹیوں سے باندھ کے گھر آتے تھے۔ مگر صبح جب اٹھ کر دیکھتے تو جانور اپنی کھونٹیوں سے کھل کر شہر میں گھوم رہے ہوتےتھے۔ ایسا سب پرسرار طریقے سے کیسے ہو جاتا تھا۔ اس بات نے شہر میں سنسنی پھیلا رکھی تھی۔ لوگوں کی اس پریشانی کو بھانپتے ہوے بادشاہ سلامت نے شہر کے فلسفیوں اور داناؤں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ اور ان کو ہدایت کی کے وہ تحقیق کر کے یہ بتائے کے ایسا کون اور کیوں کرتا ہے؟
کمیٹی نے تحقیق کی اور اپنی وضاحت لے کر بادشاہ کے سامنے پیش ہوئی۔ وجہ بلکل سادہ تھی، کمیٹی کےنظریے کے مطابق زمین کے نیچے چھوٹے چھوٹے بونے رہتے ہیں جن کو بالتشئے کہا جاتا ہے۔ رات کو جب سب سو جاتے ہیں تو یہ بونے زمین سے باہر اتے ہیں، شہر میں گھومنا شروع کر دیتے ہیں اور جانوروں کو ان کی کھونٹیوں سے کھول دیتے ہیں۔ یہ سب وہ کسی ماورائی طاقت کی ناراضگی کی وجہ سے کرتے ہیں
یہ وضاحت سن کے قومی اضطراب کی کفیت ختم ہوئی اور لوگوں کو اس کارروائی کی وجہ بتا دی گئی۔
سوال یہ ہے کے بونوں والا یہ تحقیقی نظریہ سائنسی ہے؟ اگر نہیں؟ تو کیوں نہیں؟
کیوں کے یہ کسی نئی بات کی پشین گوئی نہیں کرتا، ہم ان کی عادات بارے کوئی علم نہیں اس لئے ہم نہیں بتا سکتے کے وہ مستقبل میں کس طرح کی اور کوئی واردات کر سکتے ہیں؟
وہ بونے رات کے وقت ہی اتے ہیں اور وہ کسی کو نظر بھی نہیں ا سکتے، ان کو دیکھنے کے دعویدار صرف چند محصوص افراد ہیں ہر حاص و عام نہیں
کیا ہم بونوں کے متلعق اس نظریے کو غلط ثابت کر سکتے ہیں؟
نہیں نا
کیا ہم اس نظریے کو ٹھیک ثابت کر سکتے ہیں؟
نہیں نا
اس کو ٹھیک یا غلط ماننے لئے کوئی کسوٹی نہیں
لوگ اس حقیقت کو جو آشکار ہوئی بطور عقیدہ تو مان سکتے ہیں مگر (کارل پوپر )کے وضح کردہ اصول کے مطابق اس کو سائنسی نظریہ نہیں کہا جا سکتا
نہیں۔
اسی طرح یہ بھی اک عام وہم ہے کے ماہواری والی خواتین کے جسم سے منفی انرجی نکلتی ہے جو دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اب ہم انرجی والی اس بات کو کسی پیمانے کے لحاظ سے ماپ نہیں سکتے۔
دراصل سائنس میں منفی اور مثبت انرجی جیسی کوئی چیز نہیں، سائنس میں ایک فزکس کے اعتبار سے انرجی کا وجود ہے جس کو باقاعدہ ماپا جا سکتا ہے۔ دوسرا بائیالوجی میں یہ اے ٹی پی کی شکل میں موجود ہے اور اس کا انتقال باقاعدہ سمجھا جا سکتا ہے
اس لئے یہ بھی اک جعلی سائنس کی مثال تھی۔
محض سائنس کی اصطلاحات سے کوئی تحقیق سائنسی نہیں بنتی اس لئے سائنسی طریقہ کار کے مطابق تحقیق ہونی ضروری ہوتی ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...