جا پہنچا ایران!
لاہور سے کوئٹہ تھکا دینے والا سفر ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ٹرین چلتے چلتے تھک جائے گی اور ایک مقام پر تو یقین ہوجاتا ہے کہ بس تھک ہی گئی۔ تب گاڑی کے پیچھے بھی ایک انجن لگا دیا جاتا ہے۔ طویل صبر کے بعد پہلی بار کوئٹہ پہنچا تو ایک خوب صورت شہر میں اپنے آپ کو پاکر تھکاوٹ کی بجائے راحت محسوس کی۔ رات کوئٹہ قیام کے بعد دوسرے دن کوئٹہ سے بس کے ذریعے ایران پاکستان سرحد کی طرف سفر کا آغاز ہوا۔ اُن دنوں پاکستان کی سرحدوں پر خفیہ والوں کی نظریں باہر جانے والوں کو بہت غور سے دیکھتی تھیں۔ جنرل ضیا کی خوفناک آمریت اپنے عروج پر تھی۔ البتہ پاک افغان سرحد، آرپار جانے والے مجاہدین کے لیے جنت تھی۔ چوںکہ اشتراکی کُفری سوویت یونین اور اس کی حمایت یافتہ کابل حکومت کے خلاف جہاد ایک مقبول ریاستی پالیسی تھی۔ دلچسپ بات دیکھیں۔ اُن دنوں جمہوریت کی جدوجہد کرنے والے دہشت گرد قرار دئیے جاتے تھے، یہ جہاد کرنے والے پاکستان، امریکہ اور ہالی ووڈ کی فلموں تک ہیروقرار دئیے گئے۔ اور آج وہی مجاہدین اور اُن کے بطن سے جنم لینے والے دہشت گرد کہلاتے ہیں۔ میں ایک جواں سال جمہوریت پسند ایکٹوسٹ تو تھا، ساتھ ہی آوارہ گرد اور جہاں گرد بھی۔ 23ویں سال کو چھوتے مجھ نوجوان سے کوئٹہ کے بس اڈے پر ایک خفیہ والے نے خوب انٹرویو کیا۔ کیا کرتے ہو، کدھر جارہے ہو اور نہ جانے کیا کیا۔ پاسپورٹ چیک کرنے کے علاوہ اس نے میری آنکھوں کے اندر جھانکنے کی پوری کوشش کی، حتیٰ کہ میرے دل کی سکیننگ بھی کی۔ میری ایک پسندیدہ فلم The Guns of Navarone میں مجھے انتھونی کوئن کے ایک سین کی نقل اتارنے کی خوب مہارت ہوچکی تھی کہ جب اسے نازی فوجی مخالف سمجھ کر تفتیش کے لیے اسی طرح سوالات کرتے ہیں تو وہ ایک مچھیرا بن کر جواب دے کر انہیں جُل دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ میں بھی اس خفیہ والے کو ایک آوارہ گرد اور یورپ میں پھسل جانے والے کا تاثر دینے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے پاسپورٹ چیکنگ اور میری آنکھیں اور دل کو کرخت انداز میں دیکھنے کے بعد، پاسپورٹ میرے ہاتھ میں واپس تھما دیا۔ میرا دل آوارہ کہ میں آوارہ، معلوم نہیں۔ بس میں بیٹھا۔ بس ڈرائیور میرا ہی انتظار کررہا تھا۔ بس میں سب مسافر افغان تھے۔ چھے چھے فٹ دراز قد، لمبی گردنیں اور بڑے سر۔ نہ جانے ازبک یا تاجک، طویل قامت، منگول لگ رہے تھے۔ مگر لاڈلے تھے حکومت پاکستان کے۔
سارا دن اور ساری رات بس چلتی رہی۔ ایران کی سرحد پر پہنچے تو کپڑے، بدن اور اُس وقت میرے گھنگھرالے بال مٹی اور ریت سے اٹ چکے تھے۔ آدھے سے زیادہ رستہ سڑک کے بغیر مکمل خشک صحرائی تھا۔ اور اردگرد خوفناک سیاہ پہاڑ۔ بیاباں ہی بیاباں۔ اس بیابانی کی کوئی دہشت تھی، اللہ اللہ۔ صبح سویرے ہم پاک ایران سرحد تفتان پر تھے۔ سرحد پار کی اور طویل سرحدی امیگریشن اور کسٹم کے عمل کے بعد میں ایران میں داخل ہوگیا۔ اس سے پہلے چار بار بھارت جا چکا تھا، اب میں جنوبی ایشیا سے مشرقِ وسطیٰ میں داخل ہوگیا۔ ایران میں، انقلابِ ایران اپنی جوان انگڑائیاں لے رہا تھا۔ ہر طرف خمینی اور شہدائے انقلاب کی تصاویر اور اسی کے ساتھ ساتھ عراق کے ساتھ جنگ میں ایرانی شہدا کی تصاویر۔ تفتان سے زاہدان پھر سفر شروع ہوا ایک ایرانی بس میں۔ زیادہ مسافر پاکستانی زائرین تھے۔ بس کے باہر ایران اور بس کے اندر پاکستان تھا۔ نارووال اور ملتان سے تعلق رکھنے والے زائرین کے ساتھ خود کو پاکر تحفظ کا احساس بحال ہوا جو پچھلی رات اور دن، چھے چھے فٹے منگولوں کے ساتھ سفر کے بعد میرا احساس گم ہوچکا تھا۔ بس کے اندر سرائیکی اور پنجابی اور بس ڈرائیور فارسی بول رہا تھا۔ لیکن زائرین خواتین نے جب اپنے سفری بیگوں میں سے اچار کے چھوٹے مرتبان نکالے تو ساری بس ایسے لگی جیسے ہم زاہدان نہیں بلکہ نارووال جارہے ہوں۔ گڈی آئی، گڈی نارووال دی، چھڑیاں دے دل ساڑدی (گاڑی آئی گاڑی نارووال کی، کنواروں کے دل جلاتی)۔
زائرین مجھ آوارہ گرد کی Excitement پر حیران تھے۔ تفتان سے زاہدان پتھریلا صحرائی علاقہ تھا۔ اگست کا شدید گرم مہینہ۔ اور گرمی کتنی خوفناک تھی، اس کا احساس تب ہوا جب سارے مسافرین بس کو پاسدارانِ انقلابِ ایران نے ایک صحرائی چیک پوسٹ پر اپنے اپنے پاسپورٹ کے ہمراہ باہر اترنے کا حکم دیا۔ سب کے پاسپورٹ بھی چیک ہوئے اور سامان بھی۔ میرے بیگ میں دو قمیصیں، دو ڈائریاں، ایک پتلون، ایک سانیو ریڈیو اور کانوں کو لگا کر سننے والے ٹیپ ریکارڈر اور ایک بانسری تھی۔ اُن دنوں آوارہ گردی کے علاوہ اس آلہ موسیقی کو بھی بجانے کا جنون تھا۔ اس کے لیے پاکستان کے معروف بانسری نواز خادم حسین ناہانی سے باقاعدہ تربیت بھی لی جنہوں نے نورجہاں کے گائے گیت ’’ونجھلی دی مٹھڑی تان‘‘ میں اپنے فن کے جوہر دکھائے تھے، مگر نالائق شاگرد اپنے استاد سے فیض یاب ہونے میں مکمل ناکام رہا۔ البتہ پھوں پھاں کرکے بانسری سے آوازیں نکال کر ہی خوش ہوجاتا تھا۔ پاسدارانِ انقلاب نے میری ڈائری اور ٹیپ ریکارڈر کو کھول اور بیگ میں رکھی چار کیسٹوں کو بجا کردیکھا کہ کہیں ان میں ردِانقلاب پیغام تو نہیں۔ ہندی گانے سن کر سپاہ پاسدارانِ انقلاب مسکرا دیا۔
زاہدان میں ہم اسلامی مسافرخانے میں ٹھہرے۔ ہم ’’اوتو بس‘‘ میں تمام مسافر زائرین نے ایک ہی جگہ قیام کا فیصلہ کیا۔ یاعلی مدد، یا علی مدد، کے نعرے لگاتے جب پاکستانی مرد، عورتیں اور بچے اسلامی مسافر خانے میں داخل ہوئے تو منظر دیدنی تھا۔ خصوصاً ایک ملنگنی کی بلند اور بھرپور آواز میں یاعلی مدد کا نعرہ تو اس کی جھانجھروں اور منکوں کی چھنک کے ساتھ مسافر خانے سے باہر تک گونجا، سڑک پر جاری ٹریفک میں بھی ہلچل ہوئی۔ میں اب زائرین کا مکمل ہمسفر تھا مشہد تک۔ دوسرے دن ایک ہی بس میں ہم سب مشہد روانہ ہوئے۔ کتنا وسیع صحرا تھا راستے بھر۔ پہلی مرتبہ کوئی صحرا دیکھنے کا تجربہ ہوا۔ اور خشک صحرامیں پتھر ایسے بکھرے پڑے تھے جیسے یہاں پتھروں کی بارش ہوئی ہو۔ اگست 1983ء کے مہینے میں دشت لوت کی بیابانی اور خشکی۔ بیان سے باہر ہے اس صحرا کی وحشت۔ایران کے صوبے کرمان سیستان و بلوچستان میں واقع دشت لوت دنیا کا 27واں بڑا صحرا ہے۔ دشت لوت، دنیا کی سب سے خشک اور گرم ترین سرزمین ہے۔ یہاں گرمی کی شدت 159 فارن ہائٹ تک ہوتی ہے۔ بس کا ایئرکنڈیشن سسٹم کیا طاقتور تھا کہ اس انتہائی گرم صحرا میں بھی بس کے اندر گرمی کا احساس نہ ہوا۔
بس زائرین کے درود وسلام اور نعرۂ حیدری سے گونجتی صحرا کے اندر جدید سڑک پر رواں دواں تھی۔اپنے آپ کو بیابان صحرا میں پاکر مجھے لگا کہ میں شاید ہی وطن واپس پہنچ پائوں۔ والدہ اور والد صاحب میری آوارہ گردی سے خوف زدہ تھے۔ دنیا بدل رہی تھی۔ پاکستان میں افغان جہاد، ایران میں اسلامی انقلاب، افغانستان میں اشتراکی اور ترکی میں کنعان ایورن کی فوجی آمریت اور میری منزل تھی، سرخ جنت بلغاریہ۔ مہم جُو آوارہ گرد، جہاں گردی پر نکل کھڑا ہوا۔ جیب میں صرف تین سو ڈالر اور مدتِ سیاحت ساٹھ دن۔ دشت لوت نمکین صحرا ہے۔ ایک بڑی نمکین جھیل کی خشکی نے اس کو نمکین صحرا میں بدل ڈالا ہے۔ تین سو میل طویل اور دوسو میل چوڑا دشت لوت۔ میری آوارہ گرد آنکھیں سارا دن اور رات بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ شام ڈھلے بس ایک قصبے میں رکی۔ ریستوران مٹی کی دیواروں سے چنا گیا تھا۔ صحرائی ریستوران۔ مگر اندر سے جدید اور صاف ستھرا تھا۔ باسمتی چاول جس قدر ایران میں کھائے جاتے ہیں، شاید اتنے ہمارے ہاں بھی نہیں کھائے جاتے۔ ہر کوئی چلو مرغ یا چلوکباب کا آرڈر دے رہا تھا۔ جہاں گردی کے جنون کے سبب میری جیب دن میں ایک ہی کھانے کی استطاعت رکھتی تھی۔ صبح کا ناشتہ ایک کپ چائے اور دو بسکٹ سے کیا۔ دوپہر کا کھانا، Skipped۔ کباب کی جو لذت ایران میں پائی، وہ میں نے ترکی میں بھی نہیں دیکھی۔ایرانی آذر بائیجان میں ایک کباب ’’کباب کوبیدہ‘‘ ذائقے میں اپنی مثال آپ ہے۔ کوئی ڈیڑھ فٹ کی سیخ پر کباب لگاکر سیخوں کو رات بھر دودھ کی بالٹی میں رکھ دیا جاتا ہے۔ چربی، قیمے، لہسن، سبز پیاز، سیاہ مرچ، سمک اور پارسلے سے بنا یہ کباب آذربائیجان اور کاکیشیا کے پری استان خطوں (کوہ قاف) میں دستیاب ہوتا ہے۔ رات بھر بس میں سفر کرنے کے بعد صبح صبح مشہد پہنچی۔ یہ ایران میں دنیا بھر کے اہل تشیع کے لیے ایک مقدس شہر ہے۔قدیم ایرانی طرزِتعمیر، مگر جدید انداز میں بنی عمارتیں۔ ایرانی جدت پسندی نے اپنے قدیم اندازِ تعمیر کو بھلا نہیں دیا۔ مشہد اس حوالے سے ایک ماڈل شہر ہے۔ بس کے ہمسفر زائرین اب اپنی جیبوں کی طاقت کے مطابق بٹ گئے۔ مگر اچھا یہ ہوا کہ ایک ہی گلی میں موجود مسافر خانوں میں، جہاں شیعہ زائرین کا ایک مسافر خانہ آل عمران مسافر خانہ بھی تھا۔ سنا کہ وہاں زائرین مفت ٹھہرے۔ گرد میں اٹا جہاں گرد، سودے بازی کرکے اسی گلی کے ایک مسافر خانے میں ٹھہرا۔ سرزمین فارس میں موجود اس مسافر خانے کا انام تھا، ’’عرب مسافر خانہ‘‘ اور یہ پاکستانی مسافر۔ آوارہ گردی کا جنون کہ میں نے عرب مسافر خانے کے نوجوان مینیجر سے ایک یادگار سودے بازی کی۔ ایران میں اُن دنوں ’’شعلے‘‘ فلم اور اس کا گانا ’’محبوبہ محبوبہ‘‘ عروج پر تھا۔ میرے پاس یہ گانا ایک کیسٹ میں موجود تھا۔ کسی ایرانی کے لیے یہ کسی ڈرگ کی طرح نایاب اور قیمتی تحفہ تھا۔ نوجوان ایرانی کی میری کیسٹوں پر نظر تھی اور میری نظر اس کی سائیکل پر جو مسافر خانے کی ڈیوڑھی میں کھڑی تھی۔ سودا ہوا کہ وہ میری کیسٹیں لے کر اُن کو کاپی کرلے گا اور اس کے عوض وہ مجھے اگلے تین دن اپنی بائیسکل عطا کیے رہے گا۔ سائیکل، ٹرین کے بعد آج بھی اس آوارہ گرد کی پسندیدہ سواری ہے۔ بس اب عرب مسافر خانے کی بائیسکل تھی اور میں آوارہ گرد اور مشہد کی گلیاں۔ گلی گلی پھرا یہ آوارہ۔ گم ہوجاناجہاں گردی کا سب سے پُرلطف عمل ہوتا ہے۔ ٹیپ ریکارڈر جیب میں ڈالی اور کانوں پر ہیڈفون۔ اور اپنا پسندیدہ گانا بجاتا مشہد کی گلیوں میں گم ہوگیا یہ جہاں گرد۔ سائیکل کے پیڈل، کانوں میں بجتے ساز اور گیت کے الفاظ کے ساتھ ساتھ جنونِ آوارگی میں زور لگاتے رہے۔
آوارہ ہوں، یا گردش میں ہوں، آسمان کا تارا ہوں
“