انسان کو جرم کا ارتکاب کرنے سے کون سی چیز بچاتی ہے؟
خدا کا خوف اور آخرت کا ڈر! وہ جو کروڑوں کی پیش کش ٹھکرا دیتے ہیں اور مست جھومتے شباب کی ہمکتی دعوت دیتی گود سے منہ پھیر لیتے ہیں، انہیں دیکھنے والا اُس خدا کے سوا کون ہوتا ہے جو کسی کو نظر نہیں آتا اور جس کی موجودگی میں خلقِ خدا وہ سب کچھ کرتی ہے جو کسی دوسرے انسان کی موجودگی میں کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا! دنیا کی کوئی پولیس، کوئی ایف آئی اے، کوئی سی آئی اے، کوئی نیب اتنی طاقت ور نہیں جتنا آخرت کا دھیان ہے بشرطیکہ آخرت پر یقین رسمی، خاندانی یا ثقافتی نہ ہو، بلکہ اس طرح ہو جیسے سامنے پڑے ہوئے گلاس کے بارے میں ذرا سا شک بھی نہ ہو کِہ یہ گلاس تھے اور فرش پر گرنے کی صورت میں ٹوٹ جائے گا! قلاش ٹیکسی والا جب کرنسی نوٹوں سے بھرا ہوا تھیلا اصل مالک کو لوٹاتا ہے تو وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ حالانکہ اسے پکڑا جا سکتا ہے نہ کوئی دعویٰ کر سکتا ہے!
یہ یقین تو دل میں راسخ ہے کہ کانچ یہ گلاس جو سامنے میز پر پڑا ہے، فرش پر گرا تو ٹوٹ جائے گا مگر یہ یقین دل میں راسخ نہیں کہ حشر کے دن حساب دینا ہے۔ اگر یہ یقین راسخ ہوتا تو حج اور عمرے کرنے والے اور نمازیں پڑھ پڑھ کر ماتھوں پر نشان بنا دینے والے زہاد اور صلحا دکانوں میں بیٹھ کر ملاوٹ کرتے نہ ٹیکس چوری کرتے نہ جھوٹ بولتے۔ ثابت ہوا کہ حشر کے دن کا یقین آسانی سے دل میں جڑ نہیں پکڑتا۔ ہم میں سے اکثر آخرت پر جس ایمان کا ذکر کرتے ہیں اور بار بار کرتے ہیں، وہ محض ہمارے کلچر کا تقاضا ہے، یہ ہماری ثقافت کا حصّہ ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہم انشاء اللہ کہتے ہیں اور یہ لفظ کہتے ہوئے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم وعدہ ایفا نہیں کریں گے!
انسان کو جرم کا ارتکاب کرنے سے کون سی شے بچاتی ہے؟
ملکی قانون کا ڈر! ریاست کے اداروں کا خوف! پولیس پیچھے نہ پڑ جائے! نیب گھر کا راستہ نہ دیکھ لے، ایف آئی اے کے انسپکٹر دروازے پر دستک نہ دینے لگ جائیں، جیل میں نہ ڈال دیں! ہتھکڑی نہ لگ جائے!
مغربی معاشرے میں ملکی قانون اور ریاستی اداروں کا ڈر، لوگوں کو راہِ راست پر لانے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نیویارک میں پندرہ منٹ برقی رو غائب ہو جانے کے دوران سینکڑوں ڈاکے نہ پڑتے اور بیسیوں عورتیں وحشت کا شکار نہ ہوتیں۔ سنگاپور کے شہری بارڈر پار کر کے، ملائشیا کی حدود میں داخل ہوتے ہی ٹریفک قانون کی ایسی تیسی نہ کرتے۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ قتل کا سراغ لگانے والے دس سال بھی تفتیش کا باب بند نہیں کریں گے اور جلد یا بدیر پکڑ لیں گے۔ ٹیکس کے قوانین اتنے سخت ہیں کہ ٹیکس چوری کرنا تقریباً نا ممکن بنا دیا گیا ہے۔ شہریوں کو معلوم ہے کہ اگر صدر کلنٹن کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے، اگر وزیراعظم کی بیوی کو عدالت میں لایا جا سکتا ہے، اگر چیف جسٹس کا فرزند شراب پی کر گاڑی چلانے کے جرم میں دھر لیا جاتا ہے اگر خاتون وزیر کو رات کے اندھیرے میں لال بتی کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑتا ہے تو پھر اور کون مائی کا لال ہے جو پکڑا نہیں جائے گا؟
انسان کو جرم کا ارتکاب کرنے سے کون سی چیز بچاتی ہے؟
عزت کا احساس! بے عزتی کا خوف! معاشرے میں آنکھیں نیچی ہونے کا ڈر! کہیں سسرال والے نہ سن لیں! کہیں داماد کو نہ معلوم ہو جائے! کہیں بیٹی کی زندگی جہنم نہ بن جائے، کہیں اولاد کو پتہ نہ چل جائے، کہیں بیوی تک خبر نہ پہنچ جائے، کہیں سمدھیوں تک بات سفر نہ طے کر لے۔ محلے میں کیسے چلوں گا؟ مسجد کس منہ سے جاؤں گا؟ خاندانی تقاریب میں رشتہ داروں کا کیسے سامنا کروں گا؟ شریک کیا کہیں گے؟ ان سب امکانات کا خوف انسان کے اُن قدموںکو روک لیتا ہے جو غلط راستے پر چلنے لگتے ہیں! داماد اور بیٹی کا خیال آتے ہی وہ شیطانی ارادوں کو سر سے جھٹک دیتا ہے!
انسانی علم میں ان تین رکاوٹوں کے علاوہ کوئی باڑ ایسی نہیں جو برائی سے جرم سے، حرام خوری سے، بددیانتی سے روک سکے۔ کوئی بے شک کہتا ہے میں بزدل ہوں اس لیے رشوت نہیں لے سکتا۔ اصل میں اُسے ان تین میں سے کسی ایک رکاوٹ کا خوف ہوتا ہے۔
کرپشن کرپشن کا جو ملک میں شور و غوغا برپا ہے اُسے اِن تین رکاوٹوں کے آئینے میں دیکھیے! صدر زرداری سے لے کر وزیراعظم نواز شریف تک، رحمن ملک سے لے کر ڈاکٹر عاصم تک، مولانا سے لے کر مسٹر تک۔ جتنے کردار کرپشن کے نام سے ہمارے ذہن میں آتے ہیں، وہ سب اِن تینوں بندھنوں سے آزاد ہیں! دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے اگر خدا کا خوف دامن گیر ہو اور حشر کے دن حساب دینے پر پختہ یقین ہو تو کیا انسان دوسروں کو دعوتِ عام دے گا کہ فلاں پوسٹ پر تعینات کر دیتا ہوں، آگے خود بنا لو! کیا وہ نہیں سوچے گا کہ ریاست کا خزانہ صاحبزادی کے سٹاف پر خرچ کر رہا ہوں اور فلاں مد کی رقوم داماد کے سپرد کر رہا ہوں تو کیا کل یہ بچے امجھے بچا پائیں گے؟ نمازوں عمروں اور تلاوتوں کے باوجود اندر کوئی یہی کہہ رہا ہوتا ہے کہ ’’ایہہ جہان مِٹھا تے اگلا کِس ڈِٹھا؟‘‘ یا’’ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست!‘‘
رہا ملکی اداروں کا ڈر۔ تو ان کے دانت تو نکال ہی دیے گئے ہیں۔ کسی بھی ملک میں کرپشن سمیت تمام جرائم اصلاً پولیس کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ ایف آئی اے بھی بنیادی طور پر پولیس ہی ہے۔ جن ملکوں میں ملکی قوانین اور ریاستی اداروں کا خوف جرائم سے روک لیتا ہے، وہاں ریاستی ادارے سیاسی دباؤ سے آزاد ہیں۔ اگر صوبے کا آئی جی صوبے کے وزیراعلیٰ کا ذاتی ملازم بن کر رہ جائے اور اپنے ماتحتوں کے تبادلے تک اپنی مرضی سے نہ کراسکے یا نہ رکوا سکے تو اُس پولیس سے کون خوف کھائے گا؟ انکوائری کے درمیان ایف آئی اے کے سربراہ کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا جائے تو ایسی ایف آئی اے سے پٹواری بھی نہیں ڈرے گا۔ اونچی کرسیوں والے اسے کہاں خاطر میں لائیں گے؟
اور عزت کا احساس! یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ یہ پرندہ کس سیارے میں رہتا ہے اور کِن فضاؤں میں اُڑتا ہے؟ عزت کا خیال انہیں ہوتا تھا جو جرم کر کے پکڑے جاتے تھے تو رشتہ داروں کو منہ دکھانے کے خوف سے خودکشی کر لیتے تھے۔ جائدادیں چھوڑ کر جنگلوں کو بھاگ جاتے تھے اور گمنامی میں مر جاتے تھے۔ ایک لمحے کے لیے غور کیجیے، اگر وزیراعظم کے خلاف اُٹھنے والا طوفان جھوٹا بھی ہے، اگر وہ بے گناہ بھی ہیں تو یہ کیوں نہیں سوچتے کہ تین حرف ایسے اقتدار پر جو میرے بیٹوں کو میری دخترِ نیک اختر کو اور اب میرے داماد کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے! سوچیے، اگر عزت کا احساس ہوتو انسان یہ تو ضرور سوچے گا کہ لوگ کیا کہیں گے، کل میں پرویز مشرف کا دفاع کر رہا تھا، آج کس کا کر رہا ہوں؟ کل کہاں رقص کر رہا تھا، آج کس کے لیے زبان وبیان کی ساری حدود پار کر رہا ہوں؟ کیا کوئی عزت دار انسان مسٹر ٹین پرسنٹ کہلا کر دنیا کا سامنا کر سکتا ہے؟ کیا کوئی عزت دار شخص ’’ایم بی بی ایس‘‘ کا تمسخر برداشت کر سکتا ہے؟ کیا عزتِ نفس رکھنے والا گوشت پوست سے بنا انسان دنیا کو بتا سکتا ہے کہ ہاں، غیر ملکی خاتون اوّل سے سیلاب کے لیے ملنے والا ہار میرے قبضے ہی میں ہے اور میں اسی کو واپس کروں گا جس نے دیا تھا!
اللہ کے بندو! اگر خدا کا خوف نہیں ہے اور اگر ریاستی ادارے تمہاری جیبوں میں ہیں تو کم از کم یہی سوچ لو کہ خلقِ خدا کیا کہہ رہی ہے؟ اور تاریخ کے صفحات پر کیا لکھا جا رہا ہے؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“