قصبے کے سب سے بڑے رئیس چودھری منیر کے پاس ایک دور میں بے حساب دولت تھی آدھے قصبے کے مالک وہ اکیلے تھے ہاتھی نشین بھی تھے جتنے بڑے رئیس اتنے ہی بڑے عیاش اور بدکارجب کوئی شخص بدکاریوں کاشکار ہو جاتا ہے تو اس کی جاگیراور دولت خود بخودختم ہونی شروع ہو جاتی ہے رفتہ رفتہ اولاد کے سامنے بھیک مانگنے کی نوبت آ جاتی ہے چودھری منیر کو جو عورت پسند آ جاتی اسے ہر قیمت پر حاصل کر کے دم لیتے چاہے جو کرنا پڑے چاہے جو قیمت چکانی پڑے ساری جاگیر اس نے انہیں چکروں میں پھونک دی رفتہ رفتہ اس کی اولاد کے سامنے بھی برے دن آنے شروع ہو گئے ۔جب کچھ نہ رہاتو اس کے بیٹوں نے یہ رویہ اختیار کیاکہ جو مکان یا دوکانیں زمینیں چودھری نے لوگوں کواپنے غلط افعال کو پورا کرنے کے لئے مجبور لوگوں کو مفت دے دی تھیں اس کے کاغذات حاصل کر کے عدالتوں کے چکر لگانے شروع کر دئیے کئی بار ان سے دوکان مکان پر قابض لوگوں سے جھگڑے بھی ہوئے مار پیٹ کی نوبت بھی آئی مگر وہ ایسا کرنے سے باز نہ آئے ۔اگر ایسا نہ کرتے تو کھاتے کیا خرچ کہاں سے چلاتے نکمے ناکارہ لڑکے محنت مشقت کرنا جانتے ہی نہ تھے لہٰذا دن بھر کسی وکیل کے بستریا تھانے کچہری کے چکر لگاتے گزرتے۔ قصبے کے ایک غر یب شخص ملوا کی بیوی اور بیٹیاں بڑی خوبصورت تھیںچودھری صاحب ان کی ہمیشہ تاک میں لگے رہتے ملوا بے چارہ غریب آدمی چودھرج صاحب نے ایک چھوٹا سا مکان اسے دے دیا رات دن چودھری صاحب ملوا کے گھر پڑے رہتے اس بہانے ملوا اور اس کے اہل خانہ کو بھی عمدہ کھانا نصیب ہونے لگا۔ چودھری صاحب کے بیٹوں کے ہاتھ اس مکان کے کاغذ لگ گئے وہ فوراََکچہری جاکر مقدمہ کر آئے عدالت نے چودھری کے بیٹوں کو یہ اختیار دے دیاکہ وہ پولس کی مدد سے ملوا کے اہل خانہ سے مکان خالی کرا سکتے ہیں۔مقامی پولس کی مدد سے ملوا اور اس کے اہل خانہ سے مکان خالی کرا لیا۔ ملوا تو بے چارہ سیدھا آدمی تھامگر بیوی اس کی بہت منھ زور منھ پھٹ تھی وہ سیدھی تھانے پہنچی اور داروغہ جی کو مخاطب کر کے بولی داروغہ جی آپ نے قانون کا سہارا لے کر ہم سے مکان تو چودھری کے بیٹوں کو واپس دلوا دیا اب کسی قانون کا سہارا لیکرچودھری سے میری عزت بھی تو واپس دلوایئے ۔داروغہ جی بولے میں سمجھا نہیں عورت نے جواب دیاداروغہ جی آپ کو کیا معلوم کہ اس مکان کے لئے مجھے اور میری بیٹیوں کو کتنی رات چودھری کے ساتھ سونا پڑا ہے۔داروغہ جی میری عزت بھی تو واپس دلائیے۔بتائیے میں کس عدالت میں اپنی عزت کا دعویٰ کروں۔
“