اپنی اپنی قسمت ہے۔ لکھے کو کون بدل سکتا ہے۔ یہی جنوبی ایشیا ہے جہاں سیاست دان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔وزارتیں ہیں یا صوبے یا ریاستیں‘آئی ٹی کی مدد سے چلا رہے ہیں۔ہر روز صبح آٹھ بجے صوبے یا ریاست کی یا اپنی وزارت کی تازہ ترین صورت حال دیکھتے ہیں اور جانچتے ہیں۔ اور یہی جنوبی ایشیا ہے جہاں سیاست دان ٹھٹھے کرتے ہیں ، جگت بازی میں وہ مہارت ہے کہ ٹیلی ویژن چینل نوکریوں کی پیشکشیں کرتے پھرتے ہیں۔زندگی بھر کوئی کتاب نہیں پڑھی۔دو صفحے بھی مدد کے بغیر لکھنا ناممکن ہے ۔ پہلے کہا کہ ڈالر اٹھانوے پر آیا تو استعفیٰ دے دوں گا،اب کہہ رہے ہیں کہ حکومت بتائے کہ ڈالر کیسے نیچے آیا؟ان سے کوئی پوچھے کہ کیا آپ نے شرط لگاتے وقت کسی قسم کی تخصیص کی تھی کہ فلاں طرح سے نیچے آئے اور فلاں طرح سے نیچے نہ آئے ؟ساتھ ہی ایک اور ٹھٹھا کہ پٹرول کی قیمت دس روپے کم ہو تو استعفیٰ جیب میں ہے۔
اپنی اپنی قسمت ہے۔لکھے کو کون بدل سکتا ہے۔کیا یہ متنانت ہے؟کیا سنجیدگی کا شائبہ بھی نظر آتا ہے؟استعفیٰ ؟خدا کی قسم یہ کبھی استعفیٰ نہیں دیں گے۔ یہاں استعفیٰ کاکلچر ہوتا تو اس وقت کا ریلوے وزیر اتنے بڑے حادثے پر یہ نہ کہتا کہ میں کیوں استعفیٰ دوں؟میں کوئی ڈرائیور ہوں؟جس ملک میں وزارت کے لیے پارٹی چھوڑنا صبح و شام کا معمول ہو‘وہاں استعفیٰ کون دے گا؟کیا سندھ حکومت میں کسی نے استعفیٰ دیا ہے؟کیا ڈیرہ اسماعیل خان جیل کے شرم ناک اور عبرت ناک سانحے پر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں کوئی مستعفی ہوا؟ جس اقتدار کے لیے عزت‘تعلقات‘وفاداری‘سب کچھ قربان کیا جاتا ہے‘ اسے چھوڑنا زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے ؎
اتنی ارزاں نہیں ہے شہرت
عزت نیلام کر رہے ہیں
سندھ حکومت میں استعفیٰ دینے والا ایک بھی رجل رشید ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ رجل رشید تو دور کی بات ہے‘اس انتہا درجے کی ’’نجی‘‘سیاسی جماعت میں جس کا نام پیپلز پارٹی ہے‘ کوئی اوسط درجے کی عزت نفس رکھنے والا سیاست دان بھی ہوتا تو پارٹی کا ہیڈ کوارٹر دبئی نہ ہوتا اور’’ماتحتوں‘‘ کو وہاں نہ طلب کیا جاتا۔ایسی سیاسی جماعتوں سے تو ایسٹ انڈیا کمپنی لاکھوں درجے بہتر تھی کہ ہیڈ کوارٹر لندن میں تھا لیکن ضابطہ اور رُول ریگولیشن بھی تھا۔ ہمایوں مرزا’’پلاسی سے پاکستان تک‘‘ میں اس کنٹرول کا ذکر کرتا ہے جو مالیات اور حسابات کے محکمے کا ایسٹ انڈیا کمپنی پر تھا۔ ایک پائی بھی متعلقہ ادارے کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں کی جا سکتی تھی۔
سندھ حکومت کو جو ’’پارٹی‘‘چلا رہی ہے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی بدتر ہے۔ پارٹی کا ہیڈ کوارٹر دبئی میں ہے۔کیا عجب‘کچھ عرصہ بعد وزیر اعلیٰ کا دفتر بھی وہیں منتقل ہو جائے‘اس کے بعد وزراء کے دفاتر۔ ذرا دل تھام کر خبر پڑھیے…
پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو نے سابق گورنر خیبر پی کے‘ مسعود کوثر سمیت اپنے سینئر ایڈوائزروں کو ضروری مشاورت کے لیے دبئی طلب کر لیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو نے حال ہی میں تشکیل دی گئی اپنی کابینہ کے ارکان کو جن میں سابق گورنر مسعود کوثر‘سینیٹر جہانگیر بدر‘نوابزادہ غضنفر گل اور بشیر ریاض شامل ہیں‘19مارچ کو دبئی میں بلا لیا ہے‘‘۔
اس کے ساتھ دوسری خبر پڑھیے:
’’ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو پیپلز پارٹی کے لیڈر آصف علی زرداری نے دبئی طلب کیا ہے…‘‘
والد گرامی ماتحتوں کو الگ بلا رہے ہیں ، صاحبزادے الگ بلا رہے ہیں، یعنی ؎
اسی جانب رواں ہیں قافلے عشاق کے سب
کہ اب اِک مہ لقا کا رخ بخارا کی طرف ہے
اور یہ کیا انکشاف ہے کہ بلاول بھٹو کی اپنی کابینہ الگ ہے جو حال ہی میں تشکیل دی گئی ہے۔کابینہ تو حکومتوں میں ہوتی ہے ، بلاول بھٹو کس ملک یا کس صوبے کے حکمران ہیں کہ کابینہ بنائی ہوئی ہے؟ویسے اس کابینہ نے مغل بادشاہت کی یاد تازہ کر دی ہے۔اکبر بھی لڑکا ہی تھا جب بادشاہ بنا اور بیرم خان جیسے عمر رسیدہ امراء ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑے ہوتے تھے۔ پیپلز پارٹی کا بادشاہت سے دور کا بھی تعلق نہیں‘یہ تو جمہوریت کی نقیب ہے۔ جب شہزادہ بلاول بھٹو اپنے بیرم خانوں کو طلب کرتا ہے تو جمہوریت قبر میں فرط مسرت سے کروٹیں بدلتی ہے۔کراچی نہیں‘ پشاور کے مسعود کوثر اور لاہور کے جہانگیر بدر کو یہ بیس بائیس سالہ شہزادہ دبئی طلب کر رہا ہے، سبحان اللہ !کیا مقام ہے سفید سروں والے ان معمر سیاست دانوں کا جن کا محض سیاسی تجربہ ہی
شہزادے کی عمر سے تین گنا نہیں تو دو گنا تو ضرور ہی ہو گا۔ کیوں نہ ہو‘ جس جماعت میں اعتزاز احسن اور رضا ربانی جیسے دانشور اور سنجیدہ پارلیمنٹیرین موجود ہوں اس میں پارٹی کی قیادت وراثت ہی کی تو مرہون منت ہو گی۔
تعجب ہے کہ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے بڑے بڑے ستونوں کو دبئی طلب کیا گیا ہے لیکن جناب مخدوم امین فہیم کو پوچھا تک نہیں گیا۔ سندھ پر ایک لحاظ سے انہی کا تو خاندان حکمرانی کر رہا ہے۔ ٹیکس ادا نہ کرنے کی شہرت کے مالک مخدوم امین فہیم کے ایک صاحبزادے سندھ حکومت میں ریلیف منسٹر ہیں ، دوسرے صاحبزادے تین دن پہلے تک تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر تھے ، تیسرے صاحبزادے چھ ماہ پہلے اسی خوش قسمت ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے اورتین سال سے تھے، چوتھے صاحبزادے اسی ضلع سے صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔
کون کہتا ہے کہ پاکستان میں زرعی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ حماقت تو بھارت نے 1951ء میں کی تھی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں ٹیکس نہ دینے والے بڑے بڑے سائیں ہیں نہ صاحبزادے۔ رہے ہم، تو ہمیں کیا ضرورت ہے زرعی اصلاحات کی ! زمیندار ہوں یا جاگیردار یا سردار‘ہماری موجودہ قابل رشک ترقی انہی حضرات کے صدقے سے تو ہے اور پھر روحانی گدیاں! وہ تو سونے پر سہاگہ ہیں۔