یہ ہم میں سے نہیں ! بخدا یہ ہم میں سے نہیں! ہم ان میں سے نہیں ! ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے نہ ان کا ہم سے۔
جانے پہچانے مشہور و معروف سیاست دان کے فرزند نے یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ میں اپنی جگہ کسی اور کو بٹھایا۔ پوچھ گچھ ہوئی۔ یونیورسٹی سے نکال دیے گئے۔ پریس نے ’’ دونمبری‘‘ کی سرخی جمائی۔ایک آدھ دن میں اس واقعے کی پشت پر گہری سازش کا واویلا کیاجائے گا۔ چند دن مزید گزریں گے۔ دونمبری فراموش کردی جائے گی۔ جو معزز ہیں وہ معزز ہی رہیں گے۔
کسی کو اچھا لگے یا مرچیں لگیں، کوئی مانے یا نہ مانے ، کوئی تیوری چڑھائے یا آستینیں چڑھا کر میز پر مکہ مارے ، منہ سے جھاگ نکالے اور گلے کی رگیں سرخ کرلے، سچ جو دلوں میں ہے، زبانوں پر آئے یا نہ آئے ، یہ ہے کہ یہ کلاس کا مسئلہ ہے۔ سیاست دان ایک کلاس بن چکی ہے۔ غضب خدا کا ، یہ اپنا پیشہ بھی سیاست بتاتے ہیں۔ گویا ذریعہ معاش ہے۔ ’’ہم سیاسی لوگ ہیں‘‘ تکیہ کلام ہے۔ قانون تو وہ قالین ہے ہی جس پریہ چمکتے دمکتے پالش شدہ جوتے لے کر چلتے ہیں۔ آئین تو وہ چھڑی ہے ہی، جسے یہ ہاتھ میں رکھتے ہیں اور تشریف فرمایا دراز ہوتے وقت کسی بھی کونے میں دیوار کے ساتھ کھڑا کردیتے ہیں اور وہ چپ کرکے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اخلاق کا لفظ بھی ان کی لغت میں نہیں ! رہی عزت ! تو معزز ہونے کا معیار ہی اور ہے!
یہ پہلا واقعہ نہیں کہ سیاست دان کا فرزند پریس کے بقول دونمبری کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ ان میں شاید ہی کوئی بچا ہو جس نے یا جس کے متعلقین نے ایسا نہ کیا ہو۔ ان میں صاف ستھرے بھی ہیں۔ اہل دیانت بھی ہیں، لیکن وہ کم ہیں۔ شاذ معدوم کی طرح ہوتا ہے۔ قاعدہ کلیہ عمومی اکثریت سے بنتا ہے۔ ان کی اکثریت اخلاقی حدود و قیود سے ماورا ہے اور اگر کہنے کی اجازت ملے تو عزت نفس اس قبیلے کے نزدیک ایک مذاق، ایک ڈھونگ، ایک بے معنی مہمل لفظ سے زیادہ کچھ نہیں !
کچھ عرصے پہلے راولپنڈی میں ایک حاجی صاحب کا بھتیجا ان کی جگہ کمرۂ امتحان میں پکڑا گیا۔ ملتان کے ایک سیاست دان کے بیٹے کی ڈگری جعلی پائی گئی۔ کسی پر حج کرپشن کا مقدمہ چل رہا ہے، کسی پر ایسی گاڑیوں کا جن کی خریداری کا جواز ہی پیش نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی بیٹے کی شادی پر کنڈا لگاتے پایا جاتا ہے۔ کسی کے بارے میں ٹی وی چینل چنگھاڑ رہے ہیں کہ ٹیلی فون آپریٹر سے کھرب پتی بن گئے۔ کسی کے اکائونٹ میں چار کروڑ آئے اور گئے ، ٹیکس کا قومی کارڈ بنا ہی نہیں۔ وزارت اور لیڈری ہے کہ پھر بھی ساتھ چپکی ہوئی ہے۔ کسی پر اربوں کا زمین کا سکینڈل ہے، کسی کو اس کے ’’ ساتھی‘‘ پولیس کی تحویل سے چھڑا لے جاتے ہیں، کوئی تھانے پر حملہ کرکے ملزمان چھڑوانے اور پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے کے جرم میں انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں ملوث ہوتا اور ’’بے گناہ‘‘ ثابت ہوجاتا ہے۔ کسی کا بیٹا عورت پر تیزاب چھڑکنے کے واقعے سے منسوب ہے۔ کسی پر کسی عورت کے اغوا اور قتل کا مقدمہ بنا ہوا ہے۔ کسی کے بارے میں کوئی عورت پریس کانفرنسیں کرتی پھرتی ہے کہ میں اس کی بیوی ہوں۔ کسی کی یہ شہرت مسلمہ ہوچکی ہے کہ سرکاری افسروں کی بیویوں کو شوہروں سے چھڑوا کر اپنے عقد میں لانا مشغلہ ہے۔ کوئی کروڑوں کا بجلی کا بل دینے کے بجائے اہلکاروں کو قتل کی دھمکی دیتا ہے۔ اور… اس سب کچھ کے باوجود یہ لوگ معزز ہیں! اس سب کچھ کے باوجود یہ طبقہ حکمران ہے ، اس سب کچھ کے باوجود یہ کلاس معتبر اور متکبر ہے۔ پارلیمنٹ میں یہ گروہ آئین اور جمہوریت کا راگ الاپتا ہے۔ کوئی عوام کو ٹیکس نہ دینے کا کہے تو مروڑ اٹھتا ہے کہ ریاست کا نظام کیسے چلے گا، جب اپنے ساتھ کے ’’ معززین‘‘ ٹیکس نہ دیں تو کان پر جوں نہیں رینگتی۔ ان کی ’’ مستقل مزاجی‘‘ کا عالم یہ ہے کہ ساری دنیا کو سمندر پار جائیدادوں کا علم ہے لیکن ان کے حواری ’’ثبوت‘‘ کی بات کرتے ہیں!
ہاں ! یہ کلاس کا مسئلہ ہے ! ہم ڈنکے کی چوٹ کہیں گے کہ مڈل کلاس میں یہ ’’ عزت داریاں‘‘ نہیں پائی جاتیں ! خدا کی قسم ! مڈل کلاس کے کسی شخص سے پوچھیں کہ میاں ! کل جیل میں تو تم گھر کا روزمرہ کا خرچ چلانے کے لیے ہاتھ کی گھڑی بیچ رہے تھے ، آج تین محل مع تین بی ایم ڈبلیو کے اور چالیس کارٹن ملبوسات کے کہاں سے آگئے، تو خودکشی کرلے گا یا ساری زندگی منہ چھپاتا پھرے گا! کتنے بیورو کریٹوں کے بچے کمرہ ہائے امتحان میں دوسروں کو بٹھاتے پکڑے گئے؟ کتنے جرنیلوں پر اغوا اور قتل کے مقدمے بنے ؟ کتنے ڈاکٹر بچوں کی شادیوں پر کنڈے لگاتے دیکھے گئے ؟ کتنے انجینئر تھانوں پر حملے کرتے پائے گئے؟ کتنے پروفیسروں کے اکائونٹس میں کروڑوں روپے آئے اور چپکے سے واپس چلے گئے ؟ کتنے شاعروں اور کتنے ادیبوں نے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کے ذریعے دنیا میں شہرت پائی۔ مڈل کلاس کی کتنی اعلیٰ، تعلیم یافتہ خواتین نے نیویارک میں ’’آسیب زدہ‘‘ پینٹ ہائوس خریدے اور ان میں قدم رنجہ کرنے کی مہلت ہی نہ پائی؟
ان کی عزت داریوں کا عالم تو اس شخص کی طرح ہے جسے شرم دلانے کے لیے کسی نے کہا تھا کہ تمہاری پشت پر کیکر اگ آیا ہے تو اس نے کمال بے حیائی سے جواب دیا تھا کہ اچھا ہے، سائے میں بیٹھیں گے۔ بڑے سے بڑے جرم پر یہ طبقہ ایک ہی بات کہتا ہے اور کندھے اچکا کر کہتا ہے کہ… ’’ پھر سیاست میں تو ایسا ہوتا ہی ہے…‘‘ جیسے ان کے لیے ہر جرم کے جواز میں ازل سے سرٹیفکیٹ جاری ہوا ہے جو اتنا لمبا ہے کہ ابد تک چلا گیا ہے! جدہ کے قونصل خانے میں آج بھی بیس ریال کی وہ رسید شاید محفوظ ہو جو چمڑے کی جورابوں کی خرید کی ہے۔ طواف کرتے وقت نرم و نازک پیروں کو تکلیف ہوتی تھی۔ میقات کا مقام پرواز کے دوران آئے تو ان کی بلاسے ، احرام پہنچ کر ہی باندھیں گے کہ خود نہ خریدنا پڑ جائے ! کیا اس بھوکی ننگی بلکتی سسکتی تڑپتی قوم کو کبھی بتایا جائے گا کہ ان سڑسٹھ برسوں میں کتنے سیاست دانوں نے کتنے عمرے اور کتنے حج قومی خزانے سے کیے ؟ ان اخراجات کے ہندسے کیا ہیں ؟ اور کروڑ پتی اور اربوں میں کھیلنے والے یہ معززین گزشتہ نصف صدی میں اندرون ملک اور بیرون ملک علاج معالجے پر لنگوٹی میں ملبوس اس قوم کی کتنی دولت اڑا چکے ہیں؟
عزت؟ مائی فٹ ! شرم و حیا ! ہا ہا ہا ! یہ تھانوں سے چھڑا لیے جائیں یا کمرہ ہائے امتحان میں پکڑے جائیں ، جیلوں کا منہ دیکھیں یا فوجداریوں میں ملوث ہوں ، ہمیشہ انگلیوں سے فتح کا نشان بنائیں گے۔ سابق ٹیکس کمشنر یوسف بٹ صاحب نے مدتوں پہلے واقع سنایا تھا۔ لاہور کے ایک معروف سائنسدان سکالر جن کی لکھی گئی (نام حذف کیاجارہا ہے) نصابی کتابیں مدتوں کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہیں، ایک صاحب سے (ان کا نام بھی حذف کیاجارہا ہے) ملاقات کررہے تھے۔ یہ صاحب پروفیسر صاحب کا مکان کرائے پر لینا چاہتے تھے ۔ بات طے ہوگئی۔ اچانک کرایہ دار نے بتایا کہ میرا تعلق اداکاری کے شعبے سے ہے، پروفیسر صاحب نے رائٹنگ ٹیبل کی طرف سے گھومتی ہوئی کرسی کا رخ دوسری طرف کیا اور ایک ثانیہ توقف کیے بغیر معذرت کرلی۔ آج کی مڈل کلاس سیاست دانوں کے طبقے کو اتنی ہی عزت دار گردانتی ہے!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔