نیو سائوتھ ویلز آسٹریلیا کا مشرقی صوبہ ہے۔اس کا دارالحکومت سڈنی ہے۔سڈنی کی اہمیت آسٹریلیا میں وہی ہے جو نیو یارک کی امریکہ میں‘بمبئی کی بھارت میں اور کراچی کی پاکستان میں ہے۔صدر مقام تو آسٹریلیا کا کینبرا ہے لیکن مالی ‘تجارتی‘صنعتی اور ایک اعتبار سے سیاسی حوالے سے بھی‘سڈنی پہلے نمبر پر ہے۔نیو سائوتھ ویلز کے وزیر اعلیٰ کی بھی ملک میں بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ وہ اہم ترین صوبے کا حاکم اعلیٰ ہے۔
اپریل 2011ء میں لبرل پارٹی کا ایک سیاستدان ’’او۔فیرل‘‘ صوبے کا وزیر اعلیٰ منتخب ہوا۔اپریل 2014ء میں اس کی حکومت کو تین سال مکمل ہوئے اور اسی مہینے اس پر ’’کرپشن‘‘ کا الزام لگ گیا۔آسٹریلیا کا محکمہ جو کرپشن کے خلاف تحقیقات کرتا ہے‘ آئی سی اے سی (INDEPENDENT COMMISSION AGAINST CORRUPTION)کہلاتا ہے ‘ اس محکمے نے وزیر اعلیٰ کو دھر لیا۔یہ کرپشن بیرون ملک جائیداد خریدنے کی تھی نہ اپنا بزنس بڑھانے کی۔نہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے ایک دن نئے قوانین جاری کرنے اور دوسرے دن فائدہ اٹھانے کے بعد ان قوانین کو منسوخ کرنے کی‘نہ اپنی فیکٹریوں کے بنے ہوئے لوہے کی فروخت کی‘ نہ الیکشن میں دھاندلی کی‘ نہ چودہ بے گناہوں کے قتل کی۔کرپشن کا الزام یہ تھا کہ 2011ء میں ‘ یعنی تین سال پہلے‘ ایک بزنس مین سے وزیر اعلیٰ نے شراب کی ایک بوتل تحفے میں وصول کی تھی جس کی کل قیمت تین ہزار ڈالر تھی!
آئی سی اے سی کو وزیر اعلیٰ نے یہ بیان دیا کہ اسے بالکل یاد نہیں کہ اس کے گھر پر ایسی کوئی بوتل آئی ہو۔اس پر آئی سی اے سی نے وزیر اعلیٰ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک کاغذ دکھایا جس پر اس نے بزنس مین کو تھینک یو لکھ کر بھیجا تھا۔اٹھائیس سکینڈ کی ایک ٹیلی فون کال بھی ادارے نے گواہی میں پیش کی۔یہ کال وزیر اعلیٰ نے بزنس مین کو کی تھی۔ہاتھ کا لکھا ہوا’’تھینک یو‘‘ سامنے آنے پر وزیر اعلیٰ نے اپریل2014ء میں پریس کانفرنس کی اور میڈیا کو مندرجہ ذیل بیان دیا۔
’’میں اعتراف کرتا ہوں کہ ’’تھینک یو‘‘ کے الفاظ میرے لکھے ہوئے ہیں اور اس کے نیچے دستخط بھی میرے ہیں۔ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جو احتساب پر یقین رکھتا ہے‘ میں اس تحریر کے نتائج قبول کرتا ہوں‘ اور اعتراف کرتا ہوں کہ میری یادداشت میرا ساتھ نہیں دے رہی۔مجھے ابھی تک یاد نہیں آ رہا کہ شراب کی بوتل کا تحفہ آیا تھا لیکن ذمہ داری بہر طور قبول کرتا ہوں۔اگلے ہفتے اپنی پارٹی کا اجلاس منعقد کر کے میں استعفیٰ دے رہا ہوں تاکہ نیا وزیر اعلیٰ منتخب کیا جا سکے‘‘
پبلک نے اور سیاست دانوں نے بھی افسوس کا اظہار کیا کہ یہ ایک معمولی بات تھی۔یہاں تک کہ حزب اختلاف کے قائد نے بھی بہت محتاط بیان دیا جس میں یہ نہیں کہا کہ استعفیٰ دینا چاہیے۔ملک کے وزیر اعظم نے مستعفی ہونے والے وزیر اعلیٰ کے حسن کردار کی اور احساس ذمہ داری کی تعریف کی۔
17 اپریل 2014ء کو وزیر اعلیٰ نے استعفیٰ دے دیا جو قبول کر لیا گیا۔مائک بیئرڈ نیا وزیر اعلیٰ منتخب ہوا۔
لال بہادر شاستری مئی1952ء میں ریلوے کا وزیر بنا۔ستمبر 1956ء میں ریلوے کا ایک حادثہ ہوا جس میں بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے۔شاستری نے استعفیٰ دے دیا۔وزیر اعظم نہرو نے استعفیٰ منظور نہ کیا۔تین ماہ بعد تامل ناڈو صوبے میں ریلوے کا ایک اور حادثہ ہوا۔شاستری نے ’’اخلاقی اور آئینی ذمہ داری‘‘قبول کرتے ہوئے دوبارہ استعفیٰ دیا۔اس بار نہرو نے استعفیٰ منظور کر لیا لیکن پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ وہ استعفیٰ اس لیے منظور کر رہا ہے کہ اس اقدام سے ’’آئینی دیانت‘‘ کی ایک اعلیٰ مثال قائم ہو گی۔ورنہ شاستری حادثے کا کسی طور بھی ذمہ دار نہیں۔
بھارت کے حالیہ انتخابات میں کانگریس کو تاریخی شکست ہوئی اور لوک سبھا میں اسے صرف 44سیٹیں مل سکیں جبکہ اس کی حریف بھارتیہ جنتا پارٹی کو دو سو اسی نشستیں ملیں۔جن صوبوںسے بہت ہی کم نشستیں ملیں ان میں مہاراشٹر ‘آسام اور ہریانہ سرفہرست ہیں۔آسام میں صوبائی حکومت بہرحال کانگریس ہی کی بنی ہے۔لیکن کانگریس کے سیاست دان اپنی پارٹی سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کی پالیسیوں کی وجہ سے مرکز میں شکست ہوئی ہے اس لیے تبدیلیاں لائی جائیں۔اس اختلاف میں آسام کا وزیر تعلیم و صحت بسو سرما نمایاں تھا۔ایک ماہ قبل اس نے استعفیٰ دے دیا‘ اس لیے کہ اس کے خیال میں وزیر اعلیٰ کی پالیسیاں پارٹی کے حق میں نقصان دہ تھیں۔انہی دنوں مہاراشٹر میں بھی صوبائی وزراء نے وزیر اعلیٰ سے اس حوالے سے اختلافات کا اظہار کیا۔صوبائی وزیر صنعت نرائن شرما نے مہاراشٹر میں بھی استعفیٰ دے دیا۔
بھارت ہی کے صوبے بہار میں نیتش کمار 2005ء سے وزیر اعلیٰ تھا ۔اس کے عہد میں بے شمار اور بے مثال ترقیاتی کام ہوئے اور صوبے کی شکل ہی تبدیل ہو گئی۔2010ء میں وہ دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوا۔ حالیہ قومی انتخابات میں اس کی پارٹی جنتا دل یونائیٹڈ کو شکست ہوئی۔ 2009ء کے الیکشن میں اس پارٹی کو لوک سبھا (قومی اسمبلی ) میں بہار سے بیس نشستیں ملی تھیں۔لیکن مئی کے انتخابات میں صرف دو امیدوار کامیاب ہوئے۔شکست کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نیتش کمار نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔ایک بہت بڑے بزنس مین اشوک کمار سنگھ نے پوری بزنس کمیونٹی کی طرف سے استعفیٰ پر اظہار افسوس کیا ہے۔’’بہار کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا ہے۔نیتش کمار نے صوبے کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا تھا۔‘‘نیتش کمار نے بالکل نہیں کہا کہ ترقیاتی کام متاثر ہوں گے۔اس نے تاریخ کے صفحے پر اپنا نام اس خانے میں لکھوا لیا جو عزت داروں کے لیے مخصوص ہے۔
16اپریل 2014ء کو جنوبی کوریا کی ایک فیری (چھوٹا بحری جہاز) سمندر میں ڈوب گئی۔بہت سے مسافر ہلاک ہو گئے۔ ڈوبنے والوں کی زیادہ تعداد طلبہ پر مشتمل تھی جو سیر کے لیے ٹرپ پر نکلے تھے ۔یہ ایک پرائیویٹ سفر تھا۔حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہ تھا‘ لیکن حادثے کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جنوبی کوریا کے وزیر اعظم چنگ نے استعفیٰ دے دیا۔استعفیٰ دینے والے اس ایشیائی وزیر اعظم کا بیان دیکھیے۔
’’میں نے متاثرہ خاندانوں کا اور روتے ہوئے لواحقین کا درد اور کرب دیکھا اور ان کا وہ غم دیکھا جو بچھڑنے والے پیاروں کے لیے ان کے چہروں پر پھیلا ہوا تھا۔میں نے سوچا کہ ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے مجھے اس حادثے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے‘‘۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ جنوبی کوریا کے سسٹم میں زیادہ تر اختیارات صدر کے پاس ہیں‘ لیکن حکومت کا سربراہ بہر طور وزیر اعظم ہے۔فیری پر مقررہ وزن سے کہیں زیادہ وزن لاد دیا گیا تھا۔ڈوبنے کی اور بھی تکنیکی وجوہات تھیں۔وزیر اعظم کا یا وزیر اعظم کی حکومت کا دور دور سے اس حادثے سے تعلق نہیں تھا۔ نہ ہی کسی بھی پہلو سے ذمہ داری بن رہی تھی‘ لیکن جمہوری ملکوں میں وزیر ‘وزرائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم ہمیشہ اخلاقی بنیادوں پر استعفے دے دیتے ہیں۔تاہم ایسا ان ملکوں میں ہوتا ہے جو صرف جمہوریت کا دعویٰ نہیں کرتے‘عزت دار بھی ہوتے ہیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔