( تسکا – 1886 – Tocka )
انتن چیخوف ( Anton Chekhov )
شام کا دھندلکا ہے ۔ نم آلود برف کے بڑے بڑے گالے سڑکوں پر لگی بتیوں ، جنہیں اسی وقت جلایا گیا تھا ، کے گرداگرد سست روی سے چکر کاٹتے ہوئے نیچے گر رہے ہیں ۔ یہ چھتوں پرباریک اور نرم تہہ بچھانے کے ساتھ ساتھ گھوڑوں کی کمروں اور کندھوں کے علاوہ ٹوپیوں پر بھی پڑ رہی ہے ۔ گاڑی بان ’ ایونا پتاپوف ‘ برف سے سفید بھوت سا لگ رہا ہے ۔ وہ بکسے پر بِنا ہِلے جلے اتنا جھک کر بیٹھا ہوا ہے ، جتنا ایک انسانی جسم جھک سکتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر عام طور پر پڑنے والی برف بھی پڑ رہی ہوتی تو بھی اس نے اسے جھٹکنا ضروری نہ سمجھا ہوتا ۔ ۔ ۔ اس کی پستہ قد گھوڑی بھی سفید ہے اور اسی کی مانند بے حس و حرکت کھڑی ہے ۔ اس کا ساکت ہونا ، اس کے جسم کی گولائیاں اور اس کی لکڑی کی مانند سیدھی ٹانگیں اسے یوں دِکھا رہی ہیں جیسے وہ آدھے کوپک میں ملنے والی گھوڑے کی شکل والی اَدرکی روٹی ہو ۔ وہ شاید اپنے خیالوں میں گم ہے ۔ کوئی بھی بندہ جس سے اس کا ہل چھین لیا گیا ہو اوراسے اپنے مانوس سرمئی لینڈ سکیپ سے جدا کرکے اس دلدلی جگہ پر ، جہاں بھوتیلی روشنیاں اور عجلت میں آتے جاتے شور مچاتے لوگ ہوں ، اسی طرح ہی سوچنے پر مجبور ہوتا ہے ۔
ایونا اور اس کی گھوڑی کو حرکت کیے کافی دیر ہو چکی ہے ۔ وہ دونوں کھانے کے وقت سے پہلے ڈیرے سے نکلے تھے اور انہیں ابھی تک کوئی سواری نہ ملی ہے ۔ اب شام کے سائے قصبے پر لمبے ہو رہے ہیں ۔ سڑک پر لگی بتیوں کی پیلی روشنی اب زیادہ شوخ اور چمکیلی ہو چکی ہے اور سڑک پر ہلچل میں شور شرابا بڑھ گیا ہے ۔
”او گاڑی بان ! “ ، ایونا سنتا ہے ، ” وائیبورسکایا چلو گے ! “
ایونا اپنی برف سے ڈھکی پلکوں کے نیچے سے ایک افسر کو دیکھتا ہے جس نے فوجی اوور کوٹ اور سر پر ٹوپی پہن رکھی ہے ۔
” وائیبورسکایا جانا ہے ۔“ ، افسر نے دوہراتا ہے ، ” کیا تم سو رہے ہو ؟ وائیبورسکایا جانا ہے! “
ایونا ہاں کے اظہار کے طور پر لگام کو جھٹکا دیتا ہے جس کی وجہ سے گھوڑی کی کمر اور کندھوں سے برف کے گالے ہوا میں اڑ جاتے ہیں ۔ افسرگاڑی میں بیٹھ جاتا ہے ۔ گاڑی بان گھوڑی کو تھپتھپاتا ہے ، اپنی گردن کو ہنس کی طرح اونچا کرتا ہے ، اپنی نشست سے اٹھتا ہے اور ضرورت کے تحت نہیں بلکہ عادتاً اپنا چھانٹا لہراتا ہے ۔ گھوڑی بھی اپنی گردن اٹھاتی ہے اور اپنی لکڑی جیسی ٹانگوں کو ترچھا کرتی ہے اورہچکچاتے ہوئے چل دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
” بدمعاش ، تم کس طرف بڑھ رہے ہو ؟ “ ، ایونا بیٹھے افسر ، جو ادھر ادھر لڑھک رہا ہے ، کا چِلانا سنتا ہے ۔ ” تم کس طرف بڑھ رہے ہو ، بدمعاش ؟ دائیں طرف رہو ! “
” کیا تمہیں گاڑی چلانا نہیں آتی ! دائیں طرف رہو “ ، افسر غصے سے کہتا ہے ۔
ایک دوسرا گاڑی بان اسے گالی دیتا ہے ؛ ایک پیدل چلنے والا سڑک پار کرتے ہوئے بازوسے برف جھاڑتے ہوئے اسے غصے سے دیکھتا ہے جو گھوڑی کے منہ سے ٹکرا گیا ہے ۔ ایونا بکسے پر بیٹھا یوں بے کل ہوتا ہے جیسے کانٹوں پر بیٹھا ہو ۔ وہ اپنی کہنیاں جھٹکتا ہے اور آنکھوں کو یوں گھماتا ہے جیسے یہ جانتا ہی نہ ہو کہ وہ کہاں تھا اور وہاں کیوں تھا ۔
” یہ سچ میں بدذات ہیں “ ، افسر مذاق سے کہتا ہے ۔ ” یہ جان بوجھ کر تمہارے سامنے آ رہے ہیں یا گھوڑے کے قدموں میں گر رہے ہیں ۔ وہ یقیناً تمہیں تنگ کر رہے ہیں ۔“
ایونا سواری کی طرف دیکھتا ہے اور لب ہلاتا ہے ۔ ۔ ۔ لگتا ہے جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن سوائے سُوں سُوں کے اس کے منہ سے کچھ نہیں نکلتا ۔
” کیا ؟ “ ، افسر پوچھتا ہے ۔
ایونا کے چہرے پر ایک سرد مسکراہٹ آتی ہے اور وہ کھنکار کر گلا صاف کرتا ہے اور بیٹھی ہوئی آواز میں کہتا ہے ؛ میرا بیٹا ۔ ۔ ۔ ار ۔ ۔ ۔ میرا بیٹا اس ہفتے مر گیا ، جناب ! “
” ہمم ! وہ کیسے مرا ؟ “
ایونا پورا گھوم کر سواری کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے ؛
” کون بتا سکتا ہے ، بخار ہی وجہ بنی ہو گی ۔ ۔ ۔ وہ تین دن تک ہسپتال میں بستر پر پڑا رہا اور پھر مر گیا ۔ ۔ ۔ خدا کی مرضی ۔ “
” سامنے دھیان رکھو ، بدمعاش، اور اندھیرے سے باہر نکلو ۔ کیا تم پاگل ہو گئے ہو ؟ نظر نہیں آتا کہ تم کدھر جا رہے تھے ، بوڑھا کتا نہ ہو تو ؟ “
” گاڑی بھگاﺅ ! گاڑی بھگاﺅ ! ۔ ۔ ۔ افسر کہتا ہے ۔ ” اس طرح تو ہم کل ہی پہنچ پائیں گے ۔ جلدی کرو ! “
گاڑی بان پھر سے اپنی گردن اونچی کرتا ہے ، نشست سے اٹھتا ہے اور بھاری دل کے ساتھ اپنا چھانٹا لہراتا ہے ۔ وہ کئی بار افسر کی طرف دیکھتا ہے ، لیکن اس کی آنکھیں بند ہیں اور شاید وہ مزید کچھ سننے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
وائیبورسکایا پہنچ کر ایونا سواری اتارتا ہے اور ایک ریستوراں کے پاس رُک کر بکسے پر سکڑ کر بیٹھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ گیلی برف ایک بار پھر اسے اور گھوڑی کو سفید کر دیتی ہے ۔ ایک گھنٹہ گزر جاتا ہے۔ ۔ ۔ اور پھر دوسرا بھی ۔ ۔ ۔
تین جوان آدمی ، جن میں سے دو لمبے اور پتلے ہیں جبکہ تیسرا پستہ قد اور کبڑا ہے ، ایک دوسرے پر جھولتے اور زور زور سے اپنے جوتوں پر چڑھے ربڑ کے موزوں کو راہداری پر دھپ دھپ مارتے آتے ہیں ۔
” ابے کوچوان ، پولیس والے پُل تک جانا ہے ! “ ، کبڑا پھٹی ہوئی آواز میں چِلاتا ہے ۔ ” ہم تینوں نے ۔ ۔ ۔ بیس کوپک ! “
ایونا لگام کو جھٹکتا ہے اور گھوڑی کو تھپکی دیتا ہے ۔ بیس کوپک مناسب کرایہ نہیں لیکن اسے اس کا خیال نہیں آتا ۔ چاہے یہ ایک روبل ہو یا پھر پانچ کوپک ، اب اس کے لئے اہم نہیں رہے ، بس کرایہ ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ تینوں جوان ایک دوسرے سے رگڑ کھاتے اور گالیاں بکتے گاڑی میں چڑھتے ہیں اور تینوں ایک ساتھ بیٹھناچاہتے ہیں ۔ یہ بات طے کرنا باقی ہے کہ کن دو نے بیٹھنا اور کس نے کھڑا ہونا ہے ؟ غصیلی و لمبی تکراراور گالی گلوچ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کبڑے کو کھڑا رہنا چاہیے کیونکہ وہ سب سے پست قد ہے ۔
” چلو ، اب گاڑی چلاﺅ “ ، کبڑا گاڑی میں اپنے پاﺅں جما کر اور ایونا کی گردن پر سانس چھوڑتے ہوئے پھٹی ہوئی آواز میں کہتا ہے۔
” اتارو اسے ! یہ تمہارے پاس کس قسم کی ٹوپی ہے ، میرے دوست ! پورے پیٹرزبرگ میں اس سے گھٹیا ٹوپی نہیں ہو گی ۔ ۔ ۔ “
” ہی ۔ ہی ۔ ۔ ۔ ہی ۔ ہی ! ایونا ہنستا ہے ۔ ” واقعی یہ بہت معمولی سی ہے ۔ “
” خیر ، ٹھیک ہے یہ بہت ہی معمولی ہے ۔ تم گاڑی چلاﺅ ! اور کیا تم سارا راستہ یونہی گاڑی چلاﺅ گے؟ اے ؟ کیا میں تمہاری گردن پر ایک دھروں ؟ “
” میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے ۔“ ، لمبے قد والوں میں سے ایک کہتا ہے ۔ ” کل واسکا اور میں نے ’ ڈکمسوفس ‘ میں برانڈی کی چار بوتلیں چڑھائیں تھیں ۔“
” مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو “ ، دوسرا لمبا آدمی غصے سے بولتا ہے۔ ” تم جانگلیوں کی طرح جھوٹ بولتے ہو ۔“
” یہ سچ ہے ، اگر میں جھوٹ بولوں تو مجھے موت آ جائے ۔ “
” اس میں اتنا ہی سچ ہے جتنا کسی جُوں کے کھانسنے میں ۔“
” ہی ۔ ہی ۔ “ ، ایونا ہنستا ہے ۔ ” حضرات شاد رہیں ۔ “
” تھو ! خدا تمہیں غارت کرے “ ، کبڑا غصے سے چلاتا ہے ۔ ” او پلیگ زدہ بوڑھے ، گاڑی چلانے پر دھیان دو ۔ یہ بھی چلانے کا کوئی طریقہ ہے ؟ گھوڑی کوایک چھانٹا مارو اورذرا کس کے دھرو ۔“
ایونا کو اپنی پشت پر کبڑے کی لڑکھڑاتی آواز آتی ہے اور اس کا جھٹکے کھاتا جسم محسوس ہوتا ہے ۔ وہ گالی گلوچ والا طرز مخاطب سنتا ہے ، وہ انہیں دیکھتا ہے اور اس کے دل پر چھایا تنہائی کا بوجھ آ ہستہ آہستہ کم ہونے لگتا ہے ۔ کبڑا اُسے برا بھلا کہتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک مفصل گالی کو ادا کرتے ہوئے اس کے گلے میں پھندا لگ جاتا ہے اور اسے شدید کھانسی گھیر لیتی ہے ۔ اس کے لمبے ساتھی کسی ’ نیڈیذہا پیٹروفنا ‘ کے بارے میں بات کر رہے ہیں ۔ ایونا مڑ کر انہیں دیکھتا ہے ۔ کچھ وقفے کے بعد وہ پھر انہیں دیکھتا ہے اور کہتا ہے ؛
” اس ہفتے ۔ ۔ ۔ ار ۔ ۔ ۔ میرا ۔ ۔ ۔ ار ۔ ۔ ۔ بیٹا مر گیا ۔ “
” ہم سب نے مر جانا ہے ۔ ۔ ۔ “ ، کبڑا کھانسنے کے بعد لب پونچھتے اور آہ بھرتے ہوئے کہتا ہے ۔” گاڑی تیز بھگاﺅ ، بھگاﺅ ، میرے دوست ، میں زیادہ دیر تک اس طرح اکڑوں کھڑا نہیں رہ سکتا ! تم ہمیں منزل پر کب پہنچاﺅ گے ؟ “
”اس کو ذرا مزہ چکھاﺅ ۔ ۔ ۔ رکھو ایک چپت اس کی گردن پر ۔ “
” او طاعون زدہ بڈھے ! سنا تم نے؟ میں تم میں چابی بھرتا ہوں ۔ اگر تم نے ہمارے ساتھ رہنا ہے تو تمہیں تیز چلنا ہو گا ۔ سنا تم نے ، بڈھی عفریت نہ ہو تو ؟ کیا تمہیں اس پات کی کوئی پرواہ ہی نہیں کہ ہم کیا بک رہے ہیں ؟ “
اور ایونا کو اپنی گردن کی پشت پر چپت سنائی دینے کے علاوہ محسوس بھی ہوتی ہے ۔
” ہی ۔ ہی ! ۔ ۔ ۔ ۔ “، وہ ہنستا ہے ۔ ” آپ لوگ شاد رہیں ۔ ۔ ۔ اور خدا آپ کو تندرست رکھے ۔ “
” ابے کوچوان ! کیا تو شادی شدہ ہے ؟ “ ، ایک لمبا پوچھتا ہے ۔
” میں ؟ ہی ۔ ہی ، شادی شدہ ، جناب ۔ اب تو میری بیوی یہ نم آلود مٹی ہی ہے ۔ ۔ ۔ ہی ۔ ہو ۔ ہو ۔ ۔ ۔ وہ جو میری قبر ہے ! ۔ ۔ ۔ ادھر میرا بیٹا مر گیا ہے اور میں زندہ ہوں ۔ ۔ ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ موت غلط دروازے سے اندر آئی ہے ۔ ۔ ۔ بجائے اس کے وہ میرے لیے آتی وہ میرے بیٹے کی طرف گئی ۔ ۔ ۔ ۔“
اور ایونا انہیں یہ بتانے کے لیے مڑتا ہے کہ اس کا بیٹا کیسے مرا تھا ، اسی لمحے کبڑا ایک سرد آہ بھرتا اور اعلان کرتا ہے کہ خدا کا شکر تھا کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے تھے ۔ بیس کوپک لینے کے بعد ایونا دیر تک انہیں گھورتا رہتا ہے جبکہ اس کی بد مست سواریاں اندھیرے میں گم ہو چکی ہیں ۔ اب وہ ایک بار پھر اکیلا ہے اور خاموشی نے پھر سے اسے گھیر لیا ہے ۔ ۔ ۔ بدبختی اور تکلیف کا احساس جو کچھ دیر کے لیے ہلکا ہوا تھا پھر شدت اختیار کرلیتا ہے اور اس کے دل کو پہلے سے بھی زیادہ سفاکی سے چیرنے لگتا ہے ۔ ایونا کی بے سکون آنکھیں اضطراب اور تکلیف بھرے احساس کے ساتھ اس ہجوم کو ٹٹولتی رہتی ہیں جو سڑک پر دونوں اطراف میں آ جا رہا ہے ؛ کیا ان ہزاروں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اس کی بات سن سکتا ؟ لیکن ہجوم اُس اور اُس کی تکلیف و بدبختی سے بے پرواہ آ جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ اس کی تکلیف اور بدبختی کی کوئی انتہا نہیں رہتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر ایونا کا دل پھٹے تو اس کے رنج و الم کے سیلاب نے باہر نکل کر پوری دنیا لپیٹ میں لے لینا ہے لیکن اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا ۔ یہ ایک ایسی جگہ چھپا ہوا ہے اور ایک غیر اہم خول میں بند ہے کہ دن میں بھی چراغ لے کر ڈھونڈنے پر کسی کو نہ مل پائے ۔ ۔ ۔
ایونا کو ایک قُلی سامان اٹھائے نظر آتا ہے تو وہ اس نے اسے مخاطب کرنے کا سوچتا ہے ۔
” دوست ! کیا وقت ہو گیا ہے ؟ “، وہ اس سے پوچھتا ہے ۔
” دس بجنے کو ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن تم یہاں کیوں رُکے ہوئے ہو ؟ گاڑی آگے بڑھاﺅ ! “
ایونا گاڑی کو چند قدم آگے بڑھاتا ہے ، پھر دوہرا ہو جاتا ہے اور خود کو اپنے رنج و الم اور اضطراب کے حوالے کر دیتا ہے ۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ لوگوں سے عرض کرنا ٹھیک نہیں ۔ پانچ منٹ سے پہلے ہی وہ سیدھا ہو جاتا ہے ، گو اسے درد کی تیز دھار کا احساس ہوتا ہے لیکن وہ سر جھٹکتا ہے اور لگام کو جھٹکتا ہے ۔ ۔ ۔ اب اس سے مزید برداشت نہیں ہو رہا ۔
” ڈیرے کی طرف واپسی “ ، وہ سوچتا ہے ، ” ڈیرے کی طرف ہی چلو ۔ “
اور اس کی گھوڑی دُلکی چال چلنے لگتی ہے جیسے اس کی سوچوں سے واقف ہو ۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد ایونا ایک بڑے اور گندے چولہے کے پاس بیٹھا ہے ۔ چولہے کے گرداگرد فرش اور بنچوں پر لوگ خراٹے لے رہے ہیں ۔ ہوا حبّس اور بدبوﺅں سے بھری ہے ۔ ایونا سوئے ہوﺅں کو دیکھتا ہے ، خود کو کھجاتا ہے اور خود پر افسوس بھی کرتا ہے کہ وہ ڈیرے پر جلدی کیوں لوٹ آیا ۔ ۔ ۔
” میں نے تو اتنا بھی نہیں کمایا کہ جو خرید سکوں ۔“ ، وہ سوچتا ہے ، ” میں شاید اسی لیے خستہ حال ہوں ۔ ایسا بندہ جو اپنا کام جانتا ہو ، ۔ ۔ ۔ جس کے پاس کھانے کے لیے کافی ہو اور جس کے گھوڑے کے پاس بھی کھانے کے لیے کافی ہو ، وہ ہمیشہ آرام میں رہتا ہے ۔ ۔ ۔ “
ایک کونے میں پڑا ایک جوان کوچوان اٹھتا ہے نیند میں ہی گلا صاف کرتا ہے اور پانی کی بالٹی کی طرف چل دیتا ہے ۔
” پانی پینا چاہتے ہو ؟ “ ، ایونا اس سے پوچھتا ہے ۔
” ہاں کچھ ایسا ہی ہے ۔ “
” چلو شاید اس سے تمہارا کچھ بھلا ہو جائے ۔ ۔ ۔ لیکن اے میرے ساتھی ! میرا بیٹا مر گیا ہے ۔ ۔ ۔ سنا تم نے ؟ وہ اس ہفتے ہسپتال میں مرا ۔ ۔ ۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے ۔ ۔ ۔ “
ایونا اپنے بولے ہوئے الفاظ کا اثر دیکھنا چاہتا ہے ، لیکن اسے کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا ۔ نوجوان نے سر لپیٹ لیا ہے اور سو چکا ہے ۔ ایونا ٹھنڈی آہ بھرتا ہے اور خود کو کھجاتا ہے ۔ جس طرح نوجوان کو پانی کی طلب تھی اسی طرح اسے بولنے کی چاہ ہے ۔ اس کے بیٹے کی موت کوجلد ہی ایک ہفتہ ہونے والا ہے لیکن وہ کسی کو بھی اس بارے میں بتا نہیں پایا ہے ۔ ۔ ۔ وہ اس کے بارے میں کھل کر بات کرنا چاہتا ہے ، اس پر غور و خوض کرنا چاہتاہے ۔ ۔ ۔ وہ بتانا چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا بیمار کیسے ہوا ، اس نے کیا تکلیف اٹھائی ، وہ کس طرح مرا اور اس نے مرنے سے پہلے اسے کیا کہا تھا ۔ ۔ ۔ وہ اس کے جنازے ، اس کی تدفین کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ وہ اپنے بیٹے کا سامان لینے ہسپتال کیسے گیا ۔ اس کی ایک بیٹی ، انیسیہ ، ابھی بھی پیچھے گاﺅں میں ہے ۔ ۔ ۔ اور وہ اس کے بارے میں بھی باتیں کرنا چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ ہاں اس کے پاس باتیں کرنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔ اس کے سامع کو لازماً آہیں بھرنی چاہییں ، افسوس کرنا چاہیے ، رونا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ اور شاید یہ زیادہ بہتر ہو کہ عورتوں سے بات کی جائے ۔ گو وہ احمق ہوتی ہیں اور پہلے ہی لفظ پر رونے دھونے بیٹھ جاتی ہیں ۔
” چلو باہر چلو اور گھوڑی پر نظر ڈال لو “ ، ایونا خود سے کہتا ہے ، ” سونے کے لیے ابھی بہت وقت ہے ۔ ۔ ۔ فکر نہ کرو تم کافی سو لو گے ۔ “
وہ اپنا کوٹ پہنتا ہے اور اصطبل میں جاتا ہے جہاں اس کی گھوڑی کھڑی ہے ۔ وہ جو ، چارے اور موسم کے بارے میں سوچتا ہے ۔ ۔ ۔ جب وہ اکیلا ہوتا ہے تو وہ اپنے بیٹے کے بارے میں نہیں سوچ پاتا ، ہاں اگر کوئی پاس ہو تو وہ اس کے بارے میں بات کر سکتا ہے لیکن اس کے بارے میں اکیلے میں سوچنا اوراسے تصور میں لانا نا قابل برداشت تکلیف کا باعث بنتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
”تم کیا چبا رہی ہو ؟ “، ایونا نے اس کی چمکتی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اپنی گھوڑی سے پوچھتا ہے ۔” چبانا چھوڑو ۔ ۔ ۔ چبانا چھوڑو ۔ ۔ ۔ چونکہ ہم نے اتنا نہیں کمایا کہ جو خرید سکیں اس لیے ہمیں چارے پر ہی گزارا کرنا پڑے گا ۔ ۔ ۔ اور ہاں اب میں اتنا بوڑھا ہو گیا ہوں کہ مزید کوچوانی نہیں کر سکتا ۔ ۔ ۔ میرے بیٹے کو یہ کام کرنا چاہیے تھا ، مجھے نہیں ۔ ۔ ۔ وہ ایک عمدہ گاڑی بان تھا ۔ ۔ ۔ اسے زندہ رہنا چاہیے تھا ۔ ۔ ۔ “
ایونا کچھ دیر چُپ رہتا ہے اور پھر بولنا شروع کر دیتا ہے ؛
” میری بوڑھی گھوڑی ! لیکن اب تو کچھ ایسا ہی ہے ۔ ۔ ۔ کزما ایونیوچ چلا گیا ہے ۔ ۔ ۔ اس نے مجھے الوداع کہا تھا ۔ ۔ ۔ وہ چلا گیا اور بِنا کسی کارن مرگیا ۔ ۔ ۔ اب تم ذرا سوچو کہ ایک چھوٹا گھوڑا ہوتا اور تم اس کی ماں ہوتیں ۔ ۔ ۔ پھر اچانک وہ چلا جاتا اور مر جاتا ۔ ۔ ۔ تمہیں دُکھ تو ہوتا نا ، ہوتا کہ نہیں ؟ ۔ ۔ ۔
گھوڑی چباتی رہتی ہے ، سنتی رہتی ہے اور اپنے مالک کے ہاتھوں پر سانس چھوڑتی رہتی ہے ۔ ایونا جذبات کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے اور اسے وہ سب بتاتا رہتا ہے جو وہ کہنا چاہتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اضطراب ( تسکا ؛ Tocka) انتن چیخوف کے بہترین افسانوں میں سے ایک ہے ۔ یہ پہلی بار جنوری 1886 ءمیں ’ Peterburgskaya Gazeta‘ کے شمارہ نمبر 26 میں شائع ہوا تھا ۔ بعد ازاں یہ چند معمولی ترامیم کے ساتھ ’ Motley Stories‘ میں چھپا ۔ 1895 ء میں یہ ’ Probleski‘ نامی مجموعے میں شامل ہوا اور بالاآخر یہ ایڈولف مارکس کی ترتیب دی گئی کلیات ِ چیخوف کی تیسری جلد میں شامل کیا گیا ۔ یہ کلیات چیخوف کی حیات میں ہی 1899 ء تا 1901ء میں مرتب ہوئی تھی ۔ اس وقت کی نقادوں نے اسے اپنے وقت کے افسانوں میں سے ایک بڑا افسانہ قرار دیا تھا ۔ لیو ٹالسٹائی کے نزدیک چیخوف کے جو افسانے اہم رہے ان میں ’ تسکا ‘ بھی شامل ہے ۔
اس افسانے کا ترجمہ انگریزی میں ' Misery ' کے نام سے کیا گیا لیکن انگریزی میں کوئی ایک لفظ ' تسکا ' کے سارے معانی بیان نہیں کر سکتا ؛ اردو میں بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ یہ بہرحال اس کیفیت کے نزدیک ترین ہے جسے بےچینی یا اضطراب کہا جاتا ہے ۔
یہ افسانہ 133 برس پہلے لکھا گیا تھا لیکن آج بھی اسے پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے جیسے یہ وقت کی قید سے آزاد ایک کلاسیک ہے ؛ بادشاہت کے زمانے کا سینٹ پیڑزبرگ ہو ، منٹو کے دور کا لاہور ہو یا آج کے دور کا کوئی بھی پُر ہجوم شہر ، ' انسان ' ، اس کا رنج و الم ، اضطرابی کیفیت اور عمومی انسانی بے حسی جاری و ساری ہے ۔
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...