کبھی کبھی آپ کے بظاہر کسی شخص سے تعلقات نہیں ہوتے دور تک کا کوئ واسطہ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی لا شعور میں قربت کا احساس ہوتا ہئے یہ احساس اس وقت اور شدت اختیار کر جاتا ہئے جب کوئ تخلیق نگار اپ کے وجود کے احساسات محسوسات کا بابانگ بلند اظہار کرتا ہوا دل کے کسی گوشہ میں مقیم ہو جاتا ہئے بالکل یہ حال ڈاکٹر راحت اندوری کے تعلق سے میرے ساتھ تھا میں کبھی ان سے ملا نہیں کبھی ملاقات نہیں ہوئ حد تو یہ ہئے کبھی مشاعرہ میں سننے کا اتفاق نہیں ہوا بس ٹی وی سوشل میڈیا اخبارات ورسائل میں ان کے کلام اور پیشکش کے انداز سے واقفیت تھی
ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنے منفرد انداز اور حساس شاعری سے جو عوام الناس کی ترجمان تھی وقت کے ارباب اختیار کی مسندوں کو ہلا دیا اور اپنے ساتھ مداحوں کے جم غفیر کی اواز کو اپنے اشعار کے ذریعہ اپنے لب و لہجے کی کاٹ سے بے حسوں کے جگر کاٹ دئے
جوآج صاحب مسند ہیں،کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ،ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہےشامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہئے
بہرحال اپنے وطن عزیز سے محبت کرنے والا ادب کے گہواروں اور عوام کے دلوں کا شہنشاہ اپنے پیچھے اپنی لازوال شاعری اور ایک احتجاجی اواز چھوڑ گیا بقول اقبال ساجد
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاوءنگا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاوءنگا
اک روشنی کی موت مروں گا زمیں پر
جینے کا اس جہاں میں حق چھوڑ جاوءں گا
گزروں گا شہر سنگ سےجب ائنہ لئے
چہرے کھلے دریچوں میں فق چھوڑ جاوءں گا
ڈاکٹر راحت اندوری کا اس جہان کو خیر باد کہہ دینے سے اردو ادب اور عوام الناس غمگین ہئے میں بھی غمگین ہوں مگر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے درجات بلند فرماکر اپنے خاص جوار رحمت میں جگہ دے آمیں ثمہ آمین