عاصمہ اور ردا کی شادی ایک سال قبل ہوئی ہے۔ عاصمہ زوالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی شادی سے پہلے پی ایچ ڈی مکمل کرکے شادی تک آنے والے مرد و خواتین کی عمر 35 کے قریب ہو چکی ہوتی۔ عاصمہ کی بھی 35 سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی۔ اب وہ 36 کی ہیں۔ مگر بے حد خوبصورت اور دانا لڑکی ہے۔ انکے خاوند کی عمر 40 سال ہے۔ دونوں میاں بیوی ایک یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔ ارینج میرج ہوئی ہے۔
ردا کی عمر 23 سال ہے۔ انکی شادی 22 سال کی عمر میں اپنے سے پندرہ سالہ بڑے کزن علی سے ہوئی ہے۔ جو یونان سے 12 سال بعد لوٹا ہے۔ یہ جوڑا انڈر میٹرک ہے مال و دولت کی ریل پیل ہے۔ جاب کی ضرورت ہی نہیں۔
دونوں لڑکیوں کے ہاں گذشتہ ایک سال شادی شدہ زندگی میں حمل نہیں ہو سکا۔ اب تھوڑی سی فکر ہوئی تو ڈاکٹر سے ملا گیا۔
عاصمہ کے سب بلڈ ٹیسٹ ہوئے۔ سب نارمل ہیں۔ ٹیوب ٹیسٹ ہوئے۔ دونوں ٹیوبز بند نہیں ہیں۔ رحم یعنی بچہ دانی اور اووری یعنی انڈہ دانی میں کوئی پانی کی تھیلی، رسولی، اندر باہر نہیں ہے۔۔ مینسٹرل سائیکل بھی بلکل ریگولر ہے۔ انڈوں کی افزائش اور اخراج کو مانیٹر کیا گیا وہ بھی بلکل پرفیکٹ تھا۔ خاوند کا اب تک کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا تھا۔ جب بیوی کا سب کچھ نارمل ثابت ہوا تو اب باری خاوند کی آگئی۔۔ سیمن انیلسز ہوا۔ سمین کا والیوم یعنی مقدار ایک اخراج میں 2 سے 5 ملی لیٹر تک ہو سکتی ہے۔ جو ایک ملی لیٹر سے بھی کم تھی۔ اور سپرم کاونٹ کا نمبر جو ایک ملی لیٹر پانی میں 20 سے 150 ملین تک ہوتا ہے۔ 9 ملین تک تھا۔ موٹیلٹی یعنی سپرم کی حرکت کرنے کی صلاحیت اور انکی ساخت 60٪ تک نارمل ہونی حمل کے ضروری ہے۔۔وہ ٹھیک تھی۔ یعنی ہم سیمن کی مقدار، اس میں موجود سپرم کی تعداد، اور سپرم کی موٹیلٹی یعنی حرکت کو نوٹ کرتے ہیں۔
جوڑا پڑھا لکھا تھا۔ نیچرلی حمل مشکل تھا۔ عمر بھی بارڈر لائن کو ٹچ کر رہی تھی۔ دونوں نے رضا مندی سے مصنوعی طریقے یعنی IVF سے حمل کا فیصلہ کیا۔ ان کو شروع میں بتا دیا گیا کہ دس میں سے بمشکل 2 یا 3 لڑکیوں کو ہی اس طریقے سے حمل ہوتا ہے۔ اور حمل نہ ہونے کی صورت میں بھی فیس پوری یعنی 7 لاکھ تک لگے گی۔ تاکہ بعد میں ہونے والے جسمانی، مالی اور ذہنی ٹراما سے بچا جا سکے۔ بہت زیادہ خوش گمانیاں نہ پال لی جائیں۔ کہ ہم اب والدین ضرور بن جائیں گے۔ ڈاکٹر نے ان کو بتایا کہ یہ اسلام میں بلکل جائز ہے۔ بس آپ کو ہم حمل میں مدد کر رہے ہیں۔ آپکا اپنا ہی سپرم اور انڈہ ہے۔
عاصمہ کو طے شدہ ڈیٹ سے ریگولر کلینک بلا کر ہارمونز کے مخصوص ٹیکے لگانے شروع کیے گئے۔ کہ ایک کی بجائے زیادہ انڈے انڈہ دانی سے نکالے جا سکیں۔ آخری ٹیکے کے 36 گھنٹوں بعد انڈے نکالے جانے تھے۔ یعنی آج صبح 9 بجے ٹیکہ لگا تو کل رات 9 بجے انڈے انڈہ دانی سے ٹیوب میں آئیں گے۔ اور عاصمہ کو انستھیزیا کا ڈاکٹر بیہوش کرے گا۔ ایک ٹرانس وجائینل الٹرا ساؤنڈ کی طرح Sucker کی مدد انڈے حاصل کرلیے جائیں گے۔ اس پراسس میں اور ہوش میں بھی آکر عاصمہ کو کوئی درد نہیں ہوگا۔ نہ کوئی کہیں کٹ لگا ہے۔ وجائنا میں ایک ٹیوب گئی اس سے انڈے نکال لیے گئے۔
خاوند کا سمین لے کر ایک ڈش میں انڈوں کو فرٹیلائز ہونے کا کنٹرول درجہ حرارت میں موقع دیا گیا۔ انڈوں اور سپرمز کے ملاپ سے 6 عدد اگلے تین چار دن میں صحت کے اعتبار سے اچھے ایمبریو بن گئے۔ پانچویں دن ایک ایمبریو کو یوٹرس میں رکھا جانا تھا۔ یوٹرس کا بیڈ بہترین تیار کیا گیا تھا کہ ایمبریو جاتے ہی یوٹرس کی دیوار سے چپک جائے۔ میاں بیوی خوشی خوشی کلینک آرہے تھے کہ گاڑی پر ٹریکٹر چڑھ گیا۔
خاوند تو ٹھیک رہا۔ عاصمہ کی دائیں ٹانگ اتنی ڈیمج ہوئی کہ کاٹے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ ران سمیت پوری ٹانگ کٹ گئی۔ چہرے پر شیشہ لگنے سے بہت گہرے گھاؤ آئے۔ سانسیں باقی تھیں جان بچ گئی۔ ایمبریوز کو فریز کر دیا گیا۔ کہ جب صحت بحال ہوگی قسمت میں ہوا تو تب مینسٹرل سائیکل دیکھ کر ایمبریو انجیکٹ کروا لیں گے۔ یہ ایمبریو اگلے دس سال تک استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان انڈوں اور سپرم کی عمر یہیں رک گئی ہے۔۔ دس سال بعد شاید سپرم اور عاصمہ کے انڈے اتنے صحت مند نہ ہوتے جتنے آج ہیں ۔ مگر اب انکے 6 ایمبریو فریز کر دیے گئے ہیں جو جب مرضی استعمال ہو سکتے ہیں۔
ردا کی طرف حمل کا سٹریس اتنا زیادہ نہیں ہے ۔ کہ لڑکی ابھی کم سن ہے ۔ علی ردا کا خاوند یونان رہنے کیوجہ سے سیمن انیلسز کو جانتا ہے۔ اور کافی معلومات رکھتا ہے۔ بیوی سے پہلے اپنے ٹیسٹ خود سے ہی کروانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ سیمن کی مقدار سپرم کی تعداد اور صحت و حرکت آئیڈیل ہے۔ ردا کو شہر کی سب سے اچھی کنسلٹنٹ گائنا کالوجسٹ کے پاس لیکر جاتا ہے۔ جو 15 سو فیس میں 5 سے 10 منٹ مریض کو دیتی ہے۔ وہ فیس کاونٹر پر دس ہزار فیس جمع کرواتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ کل وہ اور اسکی بیوی ڈاکٹر سے دونوں ایک ساتھ ایک گھنٹہ ملیں گے ۔ ڈاکٹر نئے مریض دیکھنے کی جلدی میں نہ ہو۔
ڈاکٹر کو جب معلوم ہوتا ہے دس ہزار فیس والا مریض آیا ہے۔ تو وہ اگلے دن سب سے پہلے 8500 واپس کرتی ہے۔ اور کہتی ہے آپ دو گھنٹے لیں میں آپ سے بات کرنے میں جلدی نہیں کروں گی۔ آپ جب مطمئن ہوئے تب جائیے گا۔ اور اپنے سابقہ رویے پر نظر ثانی بھی کرتی ہے کہ وہ بہت کم وقت دیتی ہے تب ہی مریض نے اتنی زیادہ فیس دے کر وقت زیادہ لیا ہے۔
بلڈ ٹیسٹ سب نارمل آتے ہیں۔ ریڈیالوجسٹ سے ٹیوبز اور انڈہ دانیوں کے الٹرا ساونڈ ریکمنڈ ہوتے ہیں۔ ایک ٹیوب بلاک ہوتی ہے۔ اووریز کا سائز اور یوٹرس سائز سب نارمل ہے۔ انڈہ دانیوں میں پانی کی کوئی تھیلی Ovarian cyst نہیں ہے۔ یوٹرس کے اندر باہر کوئی Fibroid رسولی وغیرہ نہیں ہے۔
چند ماہ علاج چلتا مگر ہر کوشش کے بعد بھی حمل نہیں ہوپاتا۔ پھر سب ٹیسٹ ہوتے۔ اب دونوں ہی ٹیوبز بلاک ہیں۔ آئی وی ایف کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ حمل نیچرل طریقے سے نہیں ہو سکتا۔
سائیکل ترتیب دے کر ردا کو ہارمونز کے ٹیکے لگنا شروع ہوئے۔ مقررہ دن پر انڈے نکال لیے گئے۔ سپرم کو نیچرلی انڈے سے ملنے کی بجائے انڈے میں خود سپرم داخل کیا گیا۔ جسے ICSI کہتے ہیں۔ 10 ایمبریوز اچھی صحت کے تیار ہوئے ہیں۔ علی کی خواہش ہے کہ انکی پہلی اولاد بیٹی ہو۔ وہ ڈاکٹر کو کہتا ہے وہ جینڈر سلیکشن بھی کرانا چاہتے ہیں۔ یعنی ڈبل ایکس والا ایمبریو بچے کے لیے استعمال ہو۔۔وہ اسکی اضافی فیس بھی ادا کریں گے۔ IVF میں سو فیصد جنس کا تعین درست کیا جاسکتا ہے۔ یعنی بیٹا یا بیٹی اپنی مرضی سے پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر آئی وی ایف کے بعد حمل واقعی کامیاب ہوجاتا۔ ایمبریوز کی جنیٹک ٹیسٹنگ کے بعد جینڈر سلیکشن ہوتی ہے۔ اور ایمبریو یوٹرس میں رکھ دیا جاتا ہے۔ بائی چائس پہلی بیٹی پیدا کرنے کی طرف جایا جا رہا ہے۔ 9 ایمبریوز فریز کر لیے گئے ہیں۔ کہ یہ ایمبریو گروتھ نہیں کرتا۔ حمل نہیں ٹھہرتا یا مس کیرج ہوجاتا تو پچھلا سارا مہنگا ترین عمل کرنے کی بجائے صرف ایمبریو ہی بچہ دانی میں رکھوا لیا جائے۔ کہ اس سے پیسوں اور وقت کی کافی بچت ہوگی۔
وہی ہوا۔ پندرہ دن بعد حمل نیگیٹو تھا۔ تین ماہ بعد دوبارہ فریز شدہ ایمبریوز میں سے پہلے ہی معلوم شد ڈبل ایکس یعنی بیٹی والا ایمبریو بچہ دانی میں رکھا جاتا ہے۔الحمدللہ اس بار حمل ٹیسٹ پازیٹیو ہے۔ ایمبریو بڑی اچھی گروتھ کر رہا ہے۔ پراپر چیک اپ ہوتا رہا۔ نو ماہ بعد پلان شدہ سیکشن کرکے بیٹی پیدا کر لی گئی۔ جو انتہائی صحت مند اور ماشاءاللہ بہت ہی پیاری بچی تھی۔ باقی ایمبریوز اگلے بچے کے لیے محفوظ ہیں۔ دس سال تک استعمال ہو سکتے۔
دو سال بعد عاصمہ کی صحت کچھ بحال ہوتی ہے۔ جبکہ ایک سال پہلے ہی عاصمہ کا خاوند فیملی پریشر میں آکر سب کچھ جانتے بوجھتے اولاد کے لیے دوسری شادی کر چکا ہے۔ اور ایک سال میں حمل نہیں ہو سکا۔ آئی وی ایف کی طرف دوبارہ جانا پڑے گا۔ عاصمہ کے خاوند کا ایک قریبی دوست جو کہ ایک شاعر ہے۔ غیر معمولی فساخت و بلاغت کے ساتھ فطین آدمی ہے۔ اور اپنے سرکل میں دہریہ یعنی خدا کا منکر مشہور ہے۔ کائنات خود سے وجود میں آنے انسان کو پہلے بندر ماننے پر یقین رکھتا ہے۔ شراب پیتا ہے۔۔شادی نہیں کرنا چاہتا۔ اسے مشورہ دیتا ہے کہ عاصمہ اور تمہارے سپرم سے بنے ہوئے جو ایمبریوز فریز ہوئے پڑے ہیں۔۔ان کو ہی استعمال کرکے بچہ پیدا کر لو۔۔وہ بھی تمہارے نکاح میں ہے اور یہ نئی بیوی بھی۔ پیدا ہونے والے بچے کی اصل ماں تو عاصمہ ہوگی۔ شاید وہ اس بچے کی خاطر اپنی باقی عمر ہنسی خوشی گزار سکے۔ کہ یہ میری اولاد ہے۔ اور نئی بیوی کا بھی پیار اسے حاصل ہوگا۔ کہ اسنے نو ماہ اس بچے کو پیٹ میں رکھا۔ اسے دودھ پلا کر بڑا کیا۔ وہ اسے کہتا ہے فتوے لو گے تو یہ حرام ہی ہوگا۔ مگر چند سال بعد شاید یہ پراسس جائز ہوجائے مگر تب تک ہم نہ ہونگے۔ مجھے امید ہے تمہارا خدا تم کو اس گناہ کی سزا نہیں دے گا۔ کہ دونوں تمہاری ہی تو بیویاں ہیں۔
وہ اس مشورے کو لے کر بہت سوچتا ہے۔ مگر مذہبی ذہن کی وجہ سے کسی طرح بھی قبول نہیں کر پاتا۔ دوسری طرف عاصمہ وہیل چیئر پر آچکی ہے۔ ڈیوٹی بھی جائن کر لیتی ہے اور خواہش ظاہر کر دیتی ہے کہ اپنے ایمبریو سے وہ بچہ خود پیدا کرے گی۔ سکریننگ ہوتی ہے۔ حادثے میں یوٹرس محفوظ رہی ہے۔ وہ اب بھی ماں بن سکتی ہے۔ ڈاکٹرز حمل کی تیاری کرتے ہیں۔ اللہ کی کرنی پہلی ہی کوشش میں فریز شدہ ایمبریو سے کامیابی سے حمل ٹھہر جاتا ہے۔۔
عاصمہ کی عمر 39 سال ہونے والی ہے۔۔ کامیابی سے حمل مکمل ہوتا ہے۔ بیٹا پیدا ہوا ہے۔ عاصمہ کی سوتن وہ پہلا فرد ہے جو اسے ہوش میں آنے پر اس سے ملتا ہے۔ عاصمہ مکمل ہوش میں آکر اپنا بیٹا اسکی گود میں ڈال دیتی ہے۔ کہ میں بھی ہوں اور تم اسکی آج سے ماں ہو۔ تم ہی اسے پال پوس کر بڑا کرو گی۔ ہمارے بیٹے کو دو ماؤں کا پیار ملے گا۔ وہ لڑکی زارو قطار رونے لگتی ہے۔ اور عاصمہ کا منہ ماتھا ہاتھ دیوانہ وار چومنے لگتی ہے۔ اپنے میکے فون کرتی ہے کہ آپکی بیٹی ماں بنی ہے وہ سب کچھ لے کر آئیں جو رسمی طور پر پہلے بچے کی پیدائش پر میکے والے لے کر آتے۔
پورے ہسپتال میں جشن کا سا سماں ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ ساری کائنات آج خوش ہے۔ اور خوشی کے آنسو بہا رہی ہے۔ ایک دم سے بادل آتے ہیں اور ہلکی ہی بارش برسا کر یہ پیغام دے جاتے ہیں کہ آپ لوگوں کی اس خوشی اور عمل نے ہمیں بھی رلا دیا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...