اس قدر سختی ہے کہ اپنی بات کہنا مشکل ہو گیا ہے۔‘
یہ پاکستانی میڈیا کے ایک معروف اینکر کے الفاظ ہیں جنھیں آپ تقریباً روزانہ کئی بار اپنی ٹی وی سکرینوں پر دیکھتے ہیں۔ سیاست اور معاشرتی مسائل پر تو وہ کھل کر بات کرتے ہیں لیکن سینسرشپ پر بات کرنے سے قاصر ہیں۔
کچھ ایسی ہی رائے ایک اور اینکر پرسن کی بھی ہے، ان کے مطابق اگر وہ شکایت بھی کریں تو ادارے کی نشریات یا اخباروں کی ترسیل متاثر ہو سکتی ہے، جس سے ہونے والے مالی نقصان کا براہ راست اثر عام ورکر پر ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ 'اس لیے خاموش رہنے میں ہی سب کا بھلا ہے۔'
پاکستان میں صحافتی اداروں نے ناظرین کو کیا دکھانا ہے اور کیا نہیں دکھانا، اخبارات میں کیا شائع کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں، یہ پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
صحافی کہتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے شروع ہونے والی سینسرشِپ اب سیلف سینسرشپ میں تبدیل ہو گئی ہے اور اس کا سلسلہ اب سیاسی شخصیات کے انٹرویوز تک پہنچ چکا ہے۔
حالیہ دنوں میں نجی ٹی وی چینل جیو نیوز پر مولانا فضل الرحمان اور سردار اختر مینگل کا سلیم صافی کے ساتھ ہونے والا انٹرویو نشر نہیں کیا گیا۔ کئی دن تک ان انٹرویوز کے اشتہار نشر ہوئے لیکن انٹرویو نہ نشر ہو سکے۔
مولانا نے بظاہر قومی میڈیا میں ان پر پابندی کو بھانپتے ہوئے پہلی مرتبہ سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے کارکنوں کو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کے لیے ویڈیو پیغام جاری کیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان ہارے ہوئے سیاستدانوں کی حیثیت بھی اب پشتون تحفظ موومنٹ سی ہوگئی ہے جس پر پاکستان میڈیا میں مکمل غیراعلانیہ پابندی ہے۔
اینکرز نجی محفلوں میں شکایت کرتے ہیں کہ انھیں بات کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صحافیوں کے کالم نہ چھپنا، پروگرامز کو ریاستی اداروں اور پالیسیوں پر تنقید سے باز رکھنا اور ایسے اقدامات کرنے والوں کے حامیوں کو منظر سے غائب کرنا اب انھیں مجبور کر رہا ہے کہ وہ احتیاط کریں۔
سینیئیر صحافی طلعت حسین نے سوشل میڈیا پر اسی قسم کی قدغن کا کھل کر اشارہ دیا۔
ایک اخبار سے تعلق رکھنے والے ایک اور سینئیر صحافی کہتے ہیں کہ ملک میں صحافت مسلسل خطرے میں ہی رہی ہے۔ کبھی فوجی آمر، کبھی جمہوری رہنما اور کبھی دہشت گردی کے ہاتھوں۔ آج میڈیا کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات میں صحافی سیلف سینسرشپ پر مجبور ہیں۔
بی بی سی نے سلیم صافی سمیت کئی ایسے صحافیوں سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم انھوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
مختلف تنظیموں کے اعداد و شمار بھی پاکستان میں صحافیوں پر تشدد، آزادی رائے پر پابندی اور سینسرشپ کی تصدیق کرتے ہیں۔
صحافتی آزادی کے لیے سرگرم تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس سال اپریل سے لے کر جون کے تین ماہ میں سیلف سینسرشپ اور تشدد کے 28 واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ان میں اپریل میں نو، مئی میں 11 اور جون میں آٹھ واقعات رونما ہوئے۔ جبکہ ان میں سینسرشپ کے واقعات کی تعداد پانچ رہی۔
حالانہ خیال ہے کہ انتخابات کے ماہ یعنی جولائی میں اس میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل پاکستان کے سرکردہ انگریزی اخبار اور چینل ڈان کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا رہا۔ ڈان گروپ نے اخبار کی ترسیل میں خلل اور نیوز چینل کو کیبل آپریٹرز کی جانب سے ان کی جگہ سے ہٹانے کی شکایت کی تھی۔
گروپ کے سربراہ حمید ہارون نے چند روز قبل بی بی سی سے بات کی اور کہا کہ یہ پابندیاں کسی ادارے کی جانب سے ہوں یا شخصیات کی جانب سے، اس معاملے پر بات چیت ہونی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسے صرف سینسرشپ کہنا درست نہیں ہو گا، بلکہ 'جو آج کل ہو رہا ہے یہ سیلف سینسر شپ ہے۔ صحافیوں کو اغوا کرنا انھیں ہراساں کرنا یا دھمکیاں دینا یہ تو سینسرشپ کا مضبوط حصہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی کالم نگار ہیں جنھوں نے اب اپنے کالم سوشل میڈیا پر ڈالنے شروع کر دیے ہیں۔'
خیال رہے کہ اس سے پہلے صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ڈان کو دیے گئے حالیہ انٹرویو کی اشاعت کے بعد اخبار کی ترسیل روکنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا۔
ادارے کے مطابق نواز شریف کا انٹرویو 12 مئی کو شائع ہوا اور 15 مئی سے اخبار کی ترسیل بند ہونا شروع ہوئی۔ ادارے نے کہا تھا کہ 'بلوچستان کے بیشتر علاقوں، سندھ کے کئی شہروں اور تمام فوجی چھاؤنیوں میں اخبار کی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔'
مبصرین کہتے ہیں کہ صحافیوں کو حقائق بیان کرنے پر ہراساں کرنے یا ان پر پابندی لگانے سے کبھی مسائل حل نہیں ہوں سکتے بلکہ اس طرح کی کوششوں سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق بااثر سمجھے جانے والے صحافتی اداروں سے منسلک سینیئر صحافی چپ رہنے پر مجبور ہیں تو محدود وسائل پر چلنے والے کسی صحافتی ادارے کے صحافی کی مشکلات کیا ہوں گی؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“