(Last Updated On: )
جو لوگ چالیس پنتالیس سال سے اوپر کے ہیں انھوں نے دو فقرے تو اکثر سنے ہوں۔
جب کوئی بندہ کسی ٹیکنیکل کام میں مصروف ہوتا تو اس کو کہتے
“اتنا تو ڈاکٹر قدیر خان ہے”
دوسرا جملہ کسی کی امارت دیکھ کر کہا جاتا
“اتنے تم سیٹھ عابد ٹھہرے”
1998 سے بہت پہلے بچہ بچہ ڈاکٹر عبد القدیر کے نام سے آشنا تھا۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے یعنی یوم تکبیر کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی پوری قوم کی نہ صرف امید بلکہ ہیرو بن چکے تھے۔
1971 کو جہاں سقوط ڈھاکہ رونما ہوا وہاں اس جنگ کے نتیجے میں مغربی پاکستان کے علاقوں پر بھی بھارت نے قبضہ کر لیا تھا۔
تحصیل شکرگڑھ جو پہلے ضلع گرداسپور کی تحصیل ہوا کرتی تھی تقسیم کے دوران گورداسپور سے الگ کر کے اس کو ضلع سیالکوٹ میں ضم کر دیا گیا۔
تحصیل شکرگڑھ کے گاؤں مسرور جہاں سے پاکستان کا معیاری وقت لیا جاتا ہے اس گاؤں کی زمینوں سے ہی ہندوستان کا بارڈر ختم ہو کر کشمیر کا بارڈر شروع ہوتا ہے جو سیالکوٹ گجرات جہلم اور پنڈی تک کمان کی شکل اختیار کرتا ہے۔
ہندوستان کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں اسی ضلع گورداسپور سے آسان ترین رسائی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گورداسپور اگر تقسیم کے وقت پاکستان کو مل جاتا تو مسئلہ کشمیر ہوتا ہی نہیں کیونکہ ہندوستان کی کشمیر تک رسائی مشکل ہو جاتی۔
شکرگڑھ کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے جب بھی جنگ ہوئی یا جنگ کا خطرہ ہوا تو ہندوستان نے اس علاقہ میں بہت زور لگایا۔ شکرگڑھ سے کچھ آگے سیالکوٹ سے پہلے چونڈہ پر ٹینکوں کی چڑھائی کا بھی یہی مقصد تھا کہ وہاں سے زور دار حملہ کر کے نارووال کے اوپر تک علاقہ کاٹ لیا جائے۔ جس کے بعد ہندوستان کے لئے مقبوضہ کشمیر مزید محفوظ ہوجاتا۔
1971 میں تحصیل شکرگڑھ کا جس علاقے پر ہندوستان نے قبضہ کر لیا تھا وہ بعد ازاں ذولفقار علی بھٹو نے ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کر کے واگذار کروایا یہی وجہ ہے کہ جب 1972 کے الیکشن ہوئے تو شکرگڑھ سے “تیلی” برداری کے ایک سلیمان نامی شخص کو پیپلز پارٹی کی ٹکٹ ملی تو وہ انورعزیز چوہدری جن کی برداری اس علاقہ میں ٪80 سے بھی زائد ہے ان سمیت تمام دوسری برادریوں راجپوت پٹھان اور جٹوں کے ووٹ بھی اس کو مل گئے۔ اور “سلیمان تیلی” بھاری اکثریت سے ایم این اے منتخب ہو گئے۔ جو ایم این اے بننے کے بعد اپنا نام ملک سلیمان لکھنا شروع ہو گئے۔ تب سے اب تک شکرگڑھ نارووال کے تمام “تیلی” ملک ہی کہلاتے ہیں۔
اس الیکشن کے بعد جب انورعزیز چوہدری کے ساتھ ذولفقار علی بھٹو کی ملاقات ہوئی تو بھٹو نے انورعزیز چوہدری سے کہا مسٹر چوہدری سنا ہے آپ اپنے علاقے کے تیلی سے ہار گئے ہو؟
انورعزیز چوہدری جو انتہائی ذہین اور حاضر جواب شخصیت تھے انھوں نے کہا نہیں جناب میں “سلیمان تیلی” سے نہیں ہارا مجھے آپ نے یعنی ذولفقار علی بھٹو نے شکست دی ہے۔
کیا وجہ تھی شکرگڑھ کے لوگوں نے اپنے ساتھ رہنے والے اپنے برداری کے قابل انسان کو ووٹ نہیں دیئے؟
اس کی وجہ شکرگڑھ کے عوام کی احسان مندی تھی ان کو یہ یاد تھا کہ ذولفقار علی بھٹو نے مذاکرات کر کے ان کا علاقہ ہندوستان سے واگذار کروایا ہے۔ وہ بھٹو کو محسن مانتے تھے۔
1971 کے بعد اگرچہ اس بارڈر پر کوئی باقائدہ جنگ تو نہیں ہوئی مگر پھر بھی کئی بار فوجیں آمنے سامنے آتی رہیں۔ اور لوگوں کو بار بار اپنے گھر بار چھوڑنے پڑتے۔
ان لوگوں کو ایک ہی امید تھی کہ پاکستان بھی ایٹم بم بنائے گا تو ہمیں پھر اپنے گھر بار بار نہ چھوڑیں گے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں شاید سب سے پہلے ڈاکٹر عبد القدیر خان اسی علاقہ میں سب سے زیادہ مشہور تھے۔ اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نام امید بن چکا تھا۔
یوم تکبیر پر یہاں کے لوگوں نے بےتحاشا جشن منایا اور شکرانے کے نوافل پڑھے۔ 1998 کے بعد شکرگڑھ کے دیہات جو بارڈر کے ساتھ ساتھ بھی ہیں وہاں بھی اب دیہاتوں میں بہت ہی شاندار کوٹھیاں اور بنگلے بنے ہوئے ہیں کیونکہ اب یہاں کے لوگوں کو یقین ہو چکا تھا کہ دشمن اب کبھی ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کرے گا۔
ڈاکٹر عبد القدیر کی وفات پر وہ نسل جو چالیس پنتالیس سال کسے اوپر کی ہے اس علاقہ میں انتہائی مغموم ہے۔ یہاں میں ڈاکٹر عبد القدیر کی وفات کی خبر سن کر اپنے محس کے لئے بہت سے مغموم لوگوں کو پرنم دیکھا۔
کہتے ہیں پرنم آنکھوں سے کی دعائیں پروردگار عالم ضرور سنتا ہے پرودگار عالم سے پرنم آنکھوں کے ساتھ دعا ہے کہ اللہ پاک ڈاکٹر عبد القدیر خان کو جنت الفردوس میں بلند درجے عطا فرمائے۔
ہم عام عوام اپنے محسن کو دعاؤں کے علاؤہ کچھ بھی پیش نہیں کر سکتے۔
اللہ کریم ہماری دعائیں قبول فرما۔
آمین