فرحت نواز کا شعری مجموعہ
’’استعارہ مِری ذات کا‘‘
چند خواتین رائٹرز کی نظر میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل(انگلینڈ)
فرحت نواز کا پہلا شعری مجموعہ’’استعارہ مِری ذات کا‘‘اپنی تمام تر شعری نزاکتوں اور لطافتوں کے ساتھ میرے سامنے ہے اور میں سوچ رہی ہوں کہ خواب دیکھنے والی آنکھ نے اپنی بات کہنے میں اتنی دیر کیوں کی؟آنکھ کی گود تو کبھی خوابوں سے ویران نہیں ہوتی۔خواب ٹوٹ سکتے ہیں،بکھر سکتے ہیں،ان کی تعبیریں بدل سکتی ہیں مگر خواب کبھی نہیں مرتے۔ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ریزہ ریزہ خواب،کرچی کرچی خواب، بکھرتے خواب،ادھورے خواب،کسی بھی نام سے پکاریں خواب تو خواب ہی رہتے ہیں۔پھر فرحت تو خواب گر ہیں۔۔۔۔۔۔۔لگتا ہے فرحت نے ایک طویل عرصہ یادوں کے تپتے ہوئے صحرا میں آبلہ پائی کی ہے۔مگر یہ یادیں آکاس بیل کی طرح جسم و جاں سے لپٹی ہی رہتی ہیں۔یادیں بے وفائی نہیں کرتیں۔ان کے زخم ہر موسم میں پھول بن کرخوشبوؤں کا ہالہ کئے رکھتے ہیں۔اور فرحت نے ان یادوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو جانے کی بجائے ان کے لمس اپنے اندر سموئے ہیں۔وہ ان خوشبوؤں اور رنگوں سے خوب واقف ہیں۔۔۔۔۔۔۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ’’عورت محبت کی وہ کہانی ہے کہ جب اختتام کو پہنچتی ہے تو ایک نیا آغاز پاتی ہے۔‘‘فرحت نواز کا یہ شعری مجموعہ اسی آغازاور اختتام۔۔۔اور پھر آغاز کی کہانی سنا رہا ہے۔فرحت اس شعری مجموعہ میں محبتوں کے کئی اختتام اور کئی آغاز کرتی نظر آرہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’اپنی ذات سے باہر بیٹھنا ‘‘بہت بڑی بات ہے مگر اب میرا فرحت کومشورہ ہے کہ اپنی بات کہہ کرعرفانِ ذات کے جس مرحلے سے آپ گزری ہیں،اب ذرا اندر کے موسموں کی بھی خبر لیں۔یقیناََ وہ بھی بدل چکے ہوں گے اورآپ سے گفتگو کرنے کے لیے بے تاب ہوں گے ۔اپنی بات کہتی رہیے،ہم سنتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہناز خانم عابدی(کینیڈا)
’’ استعارہ مری ذات کا ‘‘ فرحت نواز کا شعری مجمو عہ میرے سامنے ہے۔
’’استعارہ کے معنی ہیں کسی لفظ کو اصل معنی کے بجائے کسی اور معنی میں استعمال کر نا جب کہ ان دونوں معنوں میں مشابہت کا تعلق ہو ۔ ‘‘
فر حت نواز نے اپنے جذ بات ، احسا سات اور اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کو پوری سچائی کے ساتھ اپنی شا عری میں سمو دیا ہے ۔یوں ان کی شا عری کی یہ اوّلین کتاب ان کی ذات کا استعا رہ بن کر پڑھنے والوں کے سامنے آ ئی ہے۔
فر حت نواز اردو شعر و ادب کے آ سمان پر چمکنے والا ایسا ستارہ ہے ،جو طلوع ہو ا، دیکھنے والوں کو اپنی نئی نویلی، نو وارد ،چمک دمک سے متوجہ ہی نہیں متاثر بھی کیا اور ٹوٹے بغیر بیس برسوں پر محیط عزلت کے دھندلکوں میں رو پوش رہ کر ایک مر تبہ پھر نمو دار ہو ا ،اپنے وجود کی پوری درخشانی کے ساتھ ۔ دو دہائیوں ں کی پر دہ پوشی کا خیال کیا جا ئے اور فرحت نواز کی اس کتاب کو پڑھا جا ئے تو یہ تسلیم کر نا پڑتا ہے کہ سچی شاعری کے سوتے کو وقت اور حالات کے سنگلاخ سے سنگلاخ پتھر بھی لا محدودمدت تک بند نہیں کر سکتے ۔ سچا اور توا نا تخلیقی تموج پتھروں کو تو کیا پہاڑوں کو بھی تسخیر کر لیتا ہے ۔
فرحت نواز عصرِ جدید کی شا عر ہ ہیں لیکن ان کے خیال میں روایات سے مکمل انحراف جدت پسندی کے لواز مات میں نہیں آتا چنانچہ ان کا یہ شعری مجمو عہ ہما ری تہذیبی روایت کے مطا بق حمدیہ اور نعتیہ کلام سے شروع ہو تا ہے ۔ ہو نا بھی چا ئیے ۔عقیدت کے اس کلام کو پڑھتے وقت میں نے بھی یہ محسوس کیا ہے کہ فر حت نوازنے اس اصول کو نظر انداز نہیں کیا ہے ۔’’ با خدا دیوانہ باش و با محمد ﷺہو شیار ۔ ‘‘ ان کی نعتوں میں سر شا ری کی کیفیت ہے۔:
استعا رہ میری ذات کا ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جس میں فرحت نواز نے نسا ئی زندگی کے سچے سیدھے روپ کچھ اس طرح نظما ئے ہیں کہ مر حلہ وار بچپن ، کچی عمر ، جوانی ، ہم جولیوں کے ساتھ کھیلنے اور خوابوں کے شہزادوں کی آ مد کا انتظارکرتے اور ان خوابوں سے قطع نظر کر کے خانہ داری کے بندھن میں بندھنے اور سسرال کے فریم ورک میں اپنی جگہ بنانے بیٹی سے بہو ، بہوسے ماں کے مر تبے تک پہنچنے کی روئداد کو ایک مونتاج کی شکل میں پیش کیا ہے۔اگر خواتین شا عرات کی شا عری کو پیشِ نظر رکھ کر بات کی جا ئے تو ہم یہ محسوس کر نے پر مجبور ہو جا ئیں گے کہ فرحت نواز ہم عصر شا عرات سے قطعی مختلف لہجے اور اسلوب کی شا عرہ ہے اور ایک علیحدہ مقام کی حقدار بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیما سیال(خان پور)
’’استعارہ مِری ذات کا‘‘ازفرحت نواز پوری وارفتگی،پوری وابستگی،پوری سپردگی اور پوری بندگی کے ساتھ میرے سامنے ہے۔کئی سال پہلے سکول لائف کے دوران ادبی دنیا میں قدم رکھنے والی لڑکی آج اس منترکی نہ سمجھ میں آنے والی رمز کو سمجھ گئی ہے ،جس سے سوکھے پتوں کے ڈھیر کو گھر میں آنے سے کوئی نہ روک سکا۔
بندگی،وارفتگی،وابستگی،سپردگی وہ جذبے ،وہ رشتے ہیں ،رشتوں کی وہ کڑیاں ہیں جو ہمارے ارد گرد کے لوگوں،معاشرتی،مذہبی،قومی،سماجی،آفاقی،زمینی رویوں اور محبتوں کی اساس ہیں۔یہ دودھ،میدے اور مٹی اور پانی کاوہ ملن ہے،جس سے گندھ کر انسان کے اندر شاعری جنم لیتی ہے۔سجل،نرمل،کومل احساسات فطرت کے وہ سر چشمے ہیں جن کے بطن میں اتر کر تخیل آفاقیت کی منزل کو چھوتا ہے۔پھر بقول شاعر
آسماں؍ تیرا احسان ہے؍اپنے سائے میں رکھا ہے تو نے مجھے؍میری اوقات کیا؍تیری رُتبے میں کیا شان ہے؍تجھ پہ معراج کی شب؍محمد ؐ نے رکھے تھے؍اپنے مبارک قدم!(نعتیہ۳)
یا پھر میں ہوں منزل کڑی مسافت کی
اُس کے چہرے پہ ہے تھکن شاید
کڑی مسافت رکھنے والے کیلئے ایک تھکے چہرے سے کیا مسکان کی امید ہوسکتی ہے۔ایک پُر امید مسکراہٹ ،یہ وہ خواب ہے جس کی تعبیر ایک شاعر ہی جان سکتا ہے۔
ہمارے شہر کا موسم پرانا ہے جدائی کا
ہمارے شہر آؤ نا کبھی موسم نیا لے کر
خدا اور انسان یہ دو وسیلے ہیں جن سے محرومی،مجذوبی،یا پھر غنائیت اور بھرپائی والی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے تو یوں وارد ہوتا ہے۔
تو محبت کا خدا ہے تودیارِ دل پر
کچھ صحیفے ہی وفاؤں کے اتارے ہوتے
اور یہ بھی کہ
تیرے صدقے جاؤں میں
تیرا بلاوا ہو
سر کے بَل آؤں میں
بابل،ماہیے،امن کی فاختہ،ٹائم آؤٹ اور وہ بہت کچھ،حقیقت،خواب،نیم خوابی،خواہش،کہانی،افسانہ،
ذات کے استعارے میں موجود۔چھوٹے شہر کی بڑی شاعرہ۔جس کا شعر جتنی بار پڑھا جائے،پہلے سے زیادہ لطف دے۔میٹھی چٹکی بھرے۔
مٹی گارا تھا وہ شخص
پھر بھی پیارا تھا وہ شخص
پھر دیا تونے کسی دور کی منزل کا پتہ
پھر سفر پاؤں کے چھالوں میں اتر جائے گا
دور کی منزل کے سفر کا پاؤں کے چھالوں میں اترجاناکمال بندش ہے۔
فرحت نواز کا شعری مجموعہ’’استعارہ مِری ذات کا‘‘ایک بار نہیں خود کو کئی بار پڑھوانے کی طاقت رکھتا ہے۔
جگہ جگہ آگے جا کر واپس آنا پڑتا ہے۔ٹھہرنا پڑتا ہے۔اور جہاں بندہ ٹھہر گیا،وہیں پڑاؤ ہو گیا۔
اگلے سفر سے پہلے کا پڑاؤ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروین عزیز(خان پور)
’’استعارہ مِری ذات کا‘‘فرحت نواز کا شعری سفر نامہ ہے۔اسے پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے کوئی شاعرہ لمبی مسافت طے کرنے کے بعدآپ کو بیرونی اور اندرونی (External & External )طور پرگزرنے والی ہر واردات کا حال احوال پوری دل جمعی،ایمانداری اور خلوص سے دے رہی ہے۔فرحت نواز کی یہ شعری سرگزشت پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے وہ کانٹوں میں رہتے ہوئے پھولوں جیسی باتیں سوچتی ہے۔اندھیروں میں روشنی سوچتی ہے۔بے گھری میں دیوار و در کی صورت بناتی ہے۔نفرت کے گھنے جنگل میں بھی خوشبو کے پیچھے بھاگتی ہے۔دشت میں بھی محبتوں کی سرشت کاسراغ لگا لیتی ہے۔اُسے اپنے ’’بخت‘‘ کا علم ہے لیکن پھر بھی محبتوں کے گھروندے بناتی رہتی ہے اور بناتی رہے گی۔کوششِ ناتمام کے عمل سے گزرنا اُس کا کام ہے۔کوشش کے رنگ لانے کا انتظار نہیں کرتی۔
محبت اس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔اگر وہ اس کتاب کا نام’’استعارہ مِری محبت کا‘‘رکھتی تو شاید زیادہ حسبِ حال ہو جاتا۔اُس کی ذات کا استعارہ ’’محبت‘‘ہی ہے۔شاید اس بات کا علم کم لوگوں کو ہے۔
حمدونعت سے لے کر کتاب کے آخری لفظ تک وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑتی۔خود تنہا رہ کراُس نے ’’استعارہ مِری ذات کا‘‘ہمارے ہاتھوں میں تھما کرہمیں تنہائی کے دکھ سے بچا لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔