استنبول سے شانلے عرفہ تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالم کا عنوان اس لئے رکھا کہ پچھلے چند دن ترکی میں گزرے،سفر کا آغاز مشہور تاریخی شہر استنبول سے کیااور اختتام شامی سرحد سے قریب واقع تاریخی شہرشانلے عرفہ (Sanliurfa)پر ہوا۔ سب سے پہلے مگر تذکرہ غازی عینتب (عین تب) شہر کی ایک تقریب کا کرنا چاہتا ہوں، جس نے دل کو چھو لیا۔ غازی عین تب یا انتب( Gaziantep) مغربی ترکی کا معروف تاریخی شہر ہے۔شام کی سرحد سے یہ لگ بھگ ساٹھ ستر کلو میٹر دور واقع ہے۔ یہ پرانا تاریخی شہر ہے، پہلے اس کا نام انتب یا عینتب ہی تھا، مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی کی آزادی کی مزاحمتی جنگ میں اس شہر کا کردار اہم رہا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد چونکہ ترکی شکست خوردہ اتحاد میں شامل تھا ، برطانیہ ، فرانس نے عثمانیہ سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے، عراق، اردن ،حجاز وغیرہ الگ کر دئیے گئے، اب ان کی نظر ترکی پر جمی تھی، غازی عینتب میں پہلے انگریز فوج اور پھر فرانسیسی فوج قابض ہوئی،1921 میں مقامی آبادی اور بچے کچے ترک فوجیوں نے بڑی جرات کے ساتھ فرانسیسیوں سے جنگ لڑی اور شہر کو آزاد کرا لیا۔ اسی جنگ ہی کی وجہ سے مصطفی کمال اتاترک نے کہا کہ عینتب اب سے غازی عینتب("Antep the war hero") ہے۔ ترک پارلیمنٹ نے بعد میں باضابطہ طور پر شہر کا نام بدل دیا۔ مقامی لوگ اس اعزاز کو اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں ۔
اسی غازی عینتب میں شامی مہاجرین کے یتیم بچوں کے لئے الخدمت پاکستان نے ایک یتیم خانہ” آغوش “کے نام سے بنایا ہے، الخدمت کے سربراہ عبدالشکور صاحب کی قیادت میں ایک وفد اسی سلسلے میں ترکی گیا تھا۔الخدمت پاکستان کا ممتاز خیراتی ادارہ ہے، مختلف شعبوں میں اس کے والنٹیئرز کام کر رہے ہیں، تھر میں پانی کے منصوبے ہوں یا ملک کے کسی اور علاقے میںآنے والی کوئی آفت یا مشکل ، الخدمت ہر جگہ پہنچتی اور اپنے وسائل کے مطابق امدادی سرگرمیوں میں حصہ ڈالتی ہے۔ پچھلے چند برسوں سے اس نے یتیم بچوں کی کفالت پر خاص فوکس کر رکھا ہے، ”آغوش “کے نام سے دس ادارے کام کر رہے ہیں جہاں سینکڑوں یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم وتربیت کے انتظامات کئے گئے، آغوش کے علاوہ دس ہزار کے قریب یتیموں کو ان کے گھروں میں مالی امداد پہنچائی جاتی ہے۔ الخدمت پاکستانی این جی او ہے، مگر چونکہ اس کا نظم، والنٹیئرز اور ڈونرز وغیرہ بیشتر نظریاتی لوگ ہیں، مسلم امہ کے ساتھ اپنے آپ کو مضبوط بندھن میں جڑے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ چند ماہ پہلے الخدمت کی کاوش سے ترکی میں روہنگیا مسلمانوں کے مدد کے لئے ایک بڑی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں اسلامی دنیا کے کئی ممالک کی خیراتی تنظیموں نے حصہ لیا۔ ترکی دورے کے دوران ہی شائد عبدالشکورصاحب کو شامی المیہ کی شدت کا احساس ہوا اور انہوں نے سوچا کہ شامی مہاجرین کے لئے خوراک ، کپڑوں، سامان ضرورت وغیرہ کے حوالے سے مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں، ہمیں یتیم بچوں کے لئے کام کرنا چاہیے۔ یہ خیال آب غازی انتب میں الخدمت کے پہلے” آغوش“ مرکز کی صورت میں مجسم ہوچکا ہے۔ آغوش مرکز کی افتتاحی تقریب اس قدر روح پرور اور دل میں اترجانے والی تھی کہ شائد برسوں تک اسے بھلانا ممکن نہیں رہے گا۔
یہ گزشتہ جمعہ کی سہہ پہر تھی، جب غازی انتب میں آغوش کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے پہنچے۔ غازی انتب خاصا گرم شہر ہے،
دھوپ میں بلا کی تمازت تھی، دو دن سے ہم مسلسل سفر میں تھے، جمعہ کی نماز سے پہلے غازی انتب کا مشہور تاریخی قلعہ اور میوزیم بھی دیکھا۔قلعہ خاصا اونچا تھا، چڑھائی نے انجرپنجرہلا کر رکھ دئیے تھے۔ خاکسار کے تو ویسے بھی ورزش اور چہل قدمی جیسی ”لگژریزیا تعیشات “سے خاصے ناخوشگوار تعلقات ہیں۔ ہمارے نزدیک بہترین سفر وہی ہے ، جس میں مزے سے ایک جگہ بیٹھ کر کافی پیتے ہوئے نظارے دیکھے جائیں۔ اسے ہماری سستی پر محمول نہ کیا جائے، دراصل ہم باطنی سفر پر زیادہ یقین رکھتے ہیں ، آنکھیں بند کر کے دنیا جہاں کی ”سیاحت“ کرنا ہمیشہ سے مرغوب رہا ہے۔ یہ تمہید اس لئے بیان کی کہ غازی انتب کی اس تقریب میں پہنچ تو گیا، مگرموڈ خاصا خراب تھا، اوپر سے سخت دھوپ میں ٹینٹ کے نیچے بیٹھ کربور، رسمی تقریریں سننے کا ذرا جی نہیں چاہ رہا تھا۔وہاں پہنچے تو آغوش مرکز میں زیر تعلیم بچوں نے ایک قطار بنا کر استقبال کیا۔ سرخ وسفید ،پیارے بچوں کو دیکھ کرکوفت دور ہوئی ، تاہم گرمی کے اثرات سے ابھی تک باہر نہیں آیا تھا۔ یکایک اعلان ہوا کہ بچے ترک اور پاکستانی قومی ترانے گائیں گے۔ خیال آیا کہ ڈیک سے ترانے کے بول نشر ہوں گے اور بچے ہونٹ ہلا کر ساتھ دیں گے۔ پہلے ترک ترانہ چلا اور پھر پاکستانی ترانہ کی باری آئی تو صرف دھن ہی بجی، معلوم نہیں غلطی سے قومی ترانے کے بول نہ چل سکے یا پہلے سے یہی پلان تھا۔ بچوں نے اچانک ہی نہایت جوش وخروش سے ہمارا قومی ترانہ گانا شروع کر دیا۔ ان کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پاکستانی جھنڈے تھے۔ لہک لہک کر جوش سے ترانہ گاتے ہوئے وہ جھنڈے لہراتے ، وفور جذبات سے ان کے چہرے سرخ ہوگئے۔ یہ ایک ایسا منظر تھا، جسے لفظوں میں بیان کرنا شائد ممکن ہی نہیں۔ شام کے ستم رسیدہ بچوں نے غازی انتب کی اس جھلستی دوپہر میں ہم پاکستانیوں کے دل جیت لئے۔ ان کے انداز میں والہانہ پن اور بے ساختگی تھی، آنکھوں سے ہمارے لئے محبت، ممنونیت اور تشکر کے ملے جلے جذبات جھلک رہے تھے۔ حیرت ہوئی کہ ان بچوں کو اتنے اچھے طریقے سے پاکستانی قومی ترانہ یاد کرایا گیا۔ اپنے موبائل سے اس کی ایک ویڈیو بناکر نیٹ پر ڈالی تو فوری وائرل ہوگئی، چند گھنٹوں میں اسے سینکڑوں ، ہزاروں شیئر مل گئے۔ رسمی تقریریں مجھے قطعی پسند نہیں، مگر اس تقریب میں جو گفتگو ہوئی ، وہ تکلف سے پاک تھی۔ الخدمت کے آغوش مرکز میں معروف ترک این جی او ”حیرات فاﺅنڈیشن “شامل ہے۔ ترک زبان میں خ کا لفظ شامل نہیں ، اس لئے خیرات فاﺅنڈیشن حیرات فاﺅنڈیشن بن گئی، وہ خلیل کو حلیل کہتے ہیں۔حیرات فاﺅنڈیشن کے عبداللہ اور حمزہ صاحب نے ترکی میں گفتگو کی ، جس کا ترجمہ الخدمت کے ترکی میں نمائندے کے طور پر کام کرنے والے پاکستانی نوجوان عمر فاروق نے کیا۔ عمر وہاں زیر تعلیم رہے ہیں، ناروال کا ایک دیسی پنجابی ، مگر ترکی میں ایسی مہارت حاصل کر لی کہ تیز رفتاری سے ساتھ ساتھ ترکی سے اردو اور اردو سے ترکی میں ترجمہ کر ڈالتا۔وہ دو تین گھنٹے عجب کیفیت طاری رہی ۔ سچ تو یہ ہے کہ وہاں موجود ترک، شامی عرب اور پاکستانی ایک ایسے جذباتی اٹوٹ بندھن سے وابستہ محسوس کر رہے تھے ، جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے، بیان کرنا آسان نہیں۔
عبدالشکور صاحب سابق طالب علم رہنما رہے ہیں، ستر کے عشرے کے اوائل میں پنجاب یونیورسٹی میں زیرتعلیم رہے، اس دور کے مختلف طالب علم رہنما مختلف جماعتوں کی جانب سے ممتاز ہوئے، جاوید ہاشمی، جہانگیر بدر، حافظ ادریس وغیرہ۔ عبدالشکور صاحب ناظم جامعہ پنجاب رہے ہیں۔ بعد میں وہ امریکہ چلے گئے ، پھر دو عشرے قبل واپس آئے اور اپنے قصبہ میں بچیوں کے لئے تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ تعلیم
وتربیت سے ان کا تعلق رہا، الخدمت کے پہلے سیکرٹری جنرل رہے، پچھلے تین برسوں سے سربراہ ہیں۔ ان کی تقریر کی گھن گرج سابق طالب علم رہنما کا پتہ دیتی ، مگر اسلوب بالکل مختلف اور دل میں اتر جانے والا تھا۔سادگی سے مگر واضح الفاظ میں انہوں نے شام کے المیہ پر اپنے دکھ ، درد کا اظہار کیا ،شامی مہاجرین کے ساتھ ہمدردی کی اور پرسوز لہجے میں بولے،” جس آگ نے آپ کو جھلسایا ہے، اسے بجھانے کی تو ہمارے پاس طاقت نہیں، ہم دعا کر سکتے ہیں کہ آپ کی مشکلات کا دور ختم ہو، شام میں امن وآمان ہوجائے اور آپ واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔ البتہ جہاں تک ہو سکا ، ہم آپ کے زخموں پر مرہم رکھنے اور کانٹے چننے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ آغوش کا یہ مرکز اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔یہ یہیں پر رکے گا نہیں ، ان شااللہ جس قدر ہوسکا، ہم آگے بڑھیں گے۔“
آغوش مرکز کا دورہ بھی خوشگوار حیرت کا باعث بنا۔ ترک بڑی نفیس اور خوش ذوق قوم ہے۔ ان کے پاس وسائل کم ہوں ، تب بھی اپنے سلیقے، نفاست اور قرینے سے وہ گھر سجا دیتے ہیں۔ غازی انتب کا آغوش بھی اسی ترک کلچر کا غماز تھا۔ نہایت صاف ستھرا، خوبصورت اور دلکش فرنیچر سے آراستہ ۔ دل سے ان ستم رسیدہ شامیوں بچوںاور ان کی مدد کرنے والوں کے لئے دعا نکلی ۔
کالم کی سپیس ختم ہوئی، مگر سفر کی روداد ابھی باقی ہے، اگلی نشست میں ان شااللہ شانلے عرفہ شہر اوروہاں کے شامی مہاجرین کیمپوں کی تفصیل بیان کروں گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔