بزرگ دوست اسرار زیدی کو رخصت ہوئے سات برس بیت گئے
اسرار زیدی صاحب سے سالہا سال پاک ٹی ہائوس میں باقاعدگی سے ملاقات رہی۔
کوئی اور کوئی ٹی ہائوس آتا یا نہ آتا زیدی صاحب اوپر جانے والی سیڑھیوں کے نیچے اپنے مخصوص صوفے پر ضرور موجود ہوتے۔ انتظار حسین لکھتے ہیں’’ وہ جو دیوار سے چپکے ایک بزرگ بیٹھے ہیں، چھریرا بدن، کمر قدرے جھکی ہوئی، جانے کب سے یہاں جمے بیٹھے ہیں، کتنے زمانےسے انہیں اسی نشست پر اسی انداز سے بیٹھا دیکھتا آرہا ہوں، شاید اتنے زمانے سے بیٹھے بیٹھے پھپھوندی بھی لگ گئی ہو۔ یہ اسرار زیدی ہیں۔ نہ منہ سے بولتے ہیں ،نہ سر سے کھیلتے ہیں۔ پھر بھی ان میں کوئی جادو تو ہے کہ عقیدت مند دور دور سےکھنچ کران کے پاس بیٹھے ہیں۔ ان کی ٹیبل سمجھو کہ’’آستانۂ عالیہ‘‘ ہے۔بندگانِ درگاہ ٹی ہائوس میں داخل ہوکر پہلےپہلے اسی آستانے پر ماتھا ٹیکتے ہیں۔ جسے نظر بھر کر دیکھہ لیتے ہیں ،اسے حلقہ میں اقتدار مل جاتا ہے۔ اس لئے حلقے کے الیکشن کے دنوں میں ان کے گرد زیادہ جمگھٹا رہتا ہے‘‘
اسرار زیدی بہت خوش اخلاق، ملنسار اور انسان دوست شخصیت تھے۔ نوجوان شاعروں اور ادیبوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ انہیں سب آنے جانے والوں کی خبر ہوتی اور نہ آنے والوں کی فکر بھی۔ کسی کو بھی کوئی کتاب رسالہ بحفاظت پہنچانے کا یہی ذریعہ تھا کہ زیدی صاحب کے حوالے کر دیا جائے۔
اکثر اوقات جب ان سے کسی تقریب یا ادب کے حوالے سے کسی واقعہ کی بات ہوتی تھی تو وہ مخصوص انداز میں سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہتے تھے ’’لکھہ دیا ہے‘‘ کافی عرصے تک سمجھہ نہ آئی کہ’’ لکھہ دیا ہے‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اسرار زیدی صاحب اخبارِ جہاں میں ادبی کالم لکھتے ہیں۔’’ لکھہ دیا ہے‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ اس موضوع پر وہ اپنے کالم میں لکھہ چکے ہیں۔ بہرحال تین لفظوں پر مشتمل یہ چھوٹا سا فقرہ زیدی صاحب کی شناخت بن گیا۔
اسرار زیدی 6 نومبر 1925 کو مشرقی پنجاب کے قصبے حسین پور میں پیدا ہوئے۔ دادا ریاست گوالیار کے اعلیٰ عہدیدار تھے۔اسرار زیدی نے اینگلو عریبک کالج دہلی سے بی اے کیا۔ دہلی میں روزنامہ جمہوراور ماہنامہ جمالستان سے وابستہ رہے۔ قیامِ پاکستان کے کے خاندان ساہیوال (اس وقت منٹگمری) میں آباد ہوا۔ وہاں وہ ’’خدمت‘‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل ہوئے۔ ایوب خاں کے مارشل لا میں یہ پرچہ بند ہوا تو لاہور آگئے۔ یہاں احسان،ہلال پاکستان،امروز، آزاد سے وابستہ رہے۔
ایک بار ایک انگریزی کالم نگار نے غلطی سے ان کے انتقال کی خبر بریک کردی۔ جس کے بعد ان کے ثبوتِ حیات کیلئے مداحین نے کئی تقریبات کا اہتمام کیا۔ تمام شاعر، ادیب اور دانشور اسرار زیدی صاحب کا بے حد احترام کرتے تھے۔ آخر عمر میں ٹی ہائوس کی بندش کی وجہ سے زیدی صاحب دھنی رام روڈ ، انار کلی میں اپنے گھر تک محدود ہوگئے۔ اس لئے ملاقاتیں بھی بہت کم ہوگئیں۔ پھر پتہ چلا کہ چند دن بیمار رہے اور چل بسے۔ ان کی منہ بولی بیٹی میت بھائی پھیرو لے گئی اور اپنے قریب دفن کیا۔
اسرار زیدی کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے۔ ترتیب وتدوین کا بھی بے شمار کام کیا۔
ان کے کچھہ شعر
مصروف ہم بھی انجمن آرائیوں میں تھے
گھر جل رہا تھا لوگ تماشائیوں میں تھے
آشوبِ ذات سے نکل آیا تھا اک جہاں
ہم قید اپنی قافیہ پیمائیوں میں تھے
انجانے لوگوں کو ہر سو چلتے پھرتا دیکھہرہا ہوں
کیسی بھیڑ ہے پھر بھی خود کو تنہا تنہا دیکھہ رہا ہوں
آئینے میں کیا دیکھوں جب ہر چہرہ آئینہ ہے
اس کا چہرہ دیکھہ رہا ہون، اپنا چہرہ دیکھہ رہا ہوں
اور ایک غزل
ہے ابر کتنی دور، ہوا کتنی دور ہے
اب اس نگر سے رخشِ صدا کتنی دور ہے
اب رودِ نیل میں کفِ نمرود کے لئے
موسیٰ کہاں ہے اس کا عصا کتنی دور ہے
اب شہریار کتنے حصاروں میں بند ہے
اب وہ طلسمِ ہوشربا کتنی دور ہے
اب کس جگہ سے تختِ سلیماں کا گزر ہے
اب اس جگہ سے شہرِ صبا کتنی دور ہے
اب راہ کھو چکی ہے مسافت کی دھند میں
اے دشت تیرا آبلہ پا کتنی دور ہے
شہ رگ سے بھی قریب ہوں، اس نے خبر یہ دی
میں سوچتا رہا خدا کتنی دور ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“