زیر نظر کتاب"آدھی ادھوری کہانیاں" اسرار احمد شاکر کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ان کی کتاب "میرے بھی کچھ افسانے" 2015 میں چھپ کر منظر عام پر آئی تھی،جسے ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
اسرار شاکر کے افسانوی مجموعے "آدھی ادھوری کہانیاں" پر رائے لکھنے سے پہلے کچھ مصنف کے بارے میں بتاتا چلوں تاکہ ان کے افسانوں پر بات کرنے میں آسانی ہو۔اسرار شاکر نے ناڑی ضلع جھل مگسی،تحصیل میرپور کے دور افتادہ گاؤں موضع چھتہ پلال میں آنکھ کھولی۔ان کا بچپن اور لڑکپن وہیں گزرا۔ اسرار شاکر نے ابتدائی تعلیم بھی وہاں سے ہی حاصل کی۔اب مگر وہ عرصہ دراز سے میرے آبائی شہر اوستہ محمد میں سکونت پذیر ہیں۔
جیساکہ میں اوپر بتا آیا ہوں کہ اسرار شاکر نے چوں کہ دیہات میں آنکھ کھولی،اس لیے ان کے افسانوں میں دیہی رنگ بدرجہ اتم موجود ہے۔وہ زندگی کے دیہی نظام سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کے افسانوں میں ماں کی ممتا کا عکس بھی جھلکتا ہے۔وہ وڈیروں اور جاگیرداروں کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کے ہاں دیہی زندگی کے مرد اور عورت کی محنت و مشقت کا احوال بھی ہے اور کہیں کہیں جنس پر بھی بات ہوئی ہے۔
محکوم عورت کی تصویر کشی ہو یا ملا کا اصلی چہرہ۔مٹی سے محبت کی بات ہو یا دھرتی ماں سے جدائی کا کرب،بہرحال یہی وہ موضوعات ہیں جن کے تذکرے کے بغیر دیہی معاشرے کی حقیقی نمائندگی ناممکن ہے۔ان موضوعات میں کسی قسم کی ملمع سازی یا رنگ آمیزی کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔
اسرار معاشرتی بے اعتدالیوں سے صرفِ نظر نہیں کرتے۔ان کے افسانوں کے تقریباً تمام پہلو کسی نہ کسی طرح جاگیرداروں اور وڈیروں کے قبیح نظام کے تذکرے سے جڑے ہیں۔ان کے افسانوں میں ناڑی کی چیکی مٹی کی خوشبو بھی ہے،اورمیل سے اٹے جبہ و دستار کے پسینے کی بو بھی۔یہ کہانیاں پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دیہی زندگی کے گہرے مطالعے اور مشاہدے کے بغیر یہ نہیں لکھی جا سکتی تھیں۔ ان افسانوں میں روایت سے جڑے واقعات کا بیان ایسا ہے جیسے اہرام مصر کی حنوط شدہ ممی کو دور حاضر کے نشتر سے چیرا لگایا جائے یعنی اس فرسودہ نظام کے بت کو توڑنے کی اس نوجوان کی کوشش،جس میں وہ کامیاب رہا ہے۔
اسرار شاکر اشارے کنائے میں بات کرکے قاری کو نہیں الجھاتے بلکہ سادہ اور سلیس پیرائے میں اپنا مدعا پیش کرتے ہیں۔ہاں البتہ ان کے ہاں کہیں کہیں عام سی تشبیہات جو کہ نثر کے حسن کو دوبالا کرنے میں معاون ہوں،ان کا بیان بھی ملتا ہے۔یہ اچھی بات ہے کہ علمی لحاظ سے ہر سطح کا قاری ان کے افسانوں کو پڑھ کر محظوظ ہوسکتا ہے۔
اسرار شاکر کی کتاب "آدھی ادھوری کہانیاں" فرصت ملتے ہی پڑھنا شروع کر دی تھی۔اس کتاب کا پہلا افسانہ "دو شادیوں کے بیچ محبت اور موت کا حال" ہے۔اس کہانی میں مصنف نے ایک فطری موضوع کو بیان کیا ہے۔افسانے میں ایک عورت خواب کی تعبیر کی صورت میں اپنے خاوند کی موت کو تو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے، مگر سوکن کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔بظاہر یہ موضوع روایتی ہے لیکن اس واقعے کے بطن سے میاں بیوی کے جذبات اور نفسیات کا ایک ایسا پہلو جنم لیتا ہے جو ایک تجربہ کار لکھاری ہی بیان کرسکتا ہے۔حجلہ عروسی سے لیکر شوہر کی موت والی تعبیر تک کا سفر دلچسپ ہے۔لیکن فقیر کی رائے میں مصنف نے اس کہانی کے اختتام سے قبل ہی چند جملوں میں مقصد کی بات کھول کر رکھ دی ہے۔جو کہ افسانے کا خاصہ نہیں۔مثلاً:
" آخری بار جب ہماری جواں سال محبت قریب المرگ تھی میری موت کا سن کر اس کے چہرے پر بے پناہ مسرت پھیل گئی تھی"
مزید یہ جملہ بھی دیکھیں کہ اس میں کتاب کے ذکر نے سوکن کا مفہوم نصف کہانی میں ہی ادا کر دیا ہے۔
" میرے اور چندہ کے بیچ تعلقات میں کشیدگی کی بڑی توجیح تلاش کی جائے تو جرم میری کتابوں پر بھی صادر ہوتا ہے"
فقیر کی رائے میں مصنف کے مندرجہ بالا دو جملوں سے بڑھ کر اس کہانی کی کوئی مختصر تشریح نہیں ہو سکتی۔
اگر یہ دو جملے اس قدر واضح نہ ہوتے اور نصف کہانی میں نہ لائے جاتے تو شاید یہ کہانی مزید دلچسپ ہو جاتی۔اس کے علاوہ کہیں حرف اثبات "نا" کی جگہ حرف نفی " نہ " کا استعمال کیا گیا۔ مصنف سے اس غلطی کی توقع نہیں تھی،ممکن ہے کہ ٹائپنگ کی غلطی ہو۔
"برسوں بعد" نامی کہانی جہاں تنگ نظر معاشرے کی عکاسی کرتی ہے، وہاں گلے سڑے نظام سے پیدا ہونے والے حالات کی بھی عکاس ہے جو کسی شہر مقہور کے حصے میں ہی آ سکتے ہیں۔ ایسے واقعات جو ذیلی طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ان حالات و واقعات کا ذکر کہانی کو مربوط بنانے کا سامان مہیا کرتا ہے۔آغاز سے اختتام تک واقعہ نگاری اور منظر نگاری خوب کی گئی ہے۔
"بستی کا کرب" ایک ایسی کہانی ہے، جس میں طاقت اور ہوس کا تصادم عزت اور غیرت سے ہے۔ جس میں ہوس کی بھوک اور طاقت و حاکمیت مظلومیت پر غالب ہیں۔ ایسی مظلومیت جو مصنوعی ہے۔جس سے خود کو نکالنے اور سر اٹھانے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ بستی کے سینکڑوں باسی ایک بدمعاش کا سامنا کرنے سے عاری ہیں۔ افسانے میں مرد برائے نام مرد ہے جب کہ عورت اپنے احساس اور جذبوں سے اظہار پانے والی جرات کا نشان ہے۔ اس افسانے میں دراصل عورت ہی اصل کرب میں مبتلا ہے۔ اس لحاظ سے میری رائے میں اس کہانی کا نام "عورت کا کرب" ہوتا تو کہانی لازوال ہوتی۔وہ عورت جو اس کہانی میں زیادہ توجہ اور رحم کی مستحق بھی ہے۔
افسانہ "بودلی" کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک بے بس دیہاتی ماں کی کہانی ہے،جو اپنے خیالات میں آزاد دکھائی دیتی ہے۔اس کی بچی نیکر پہن کر گلیوں میں گھومتی ہے۔ اگر کوئی اس سے پوچھے یا اسے روکے تو بود لی کا ترنت جواب دیتی ہے کہ اسے آزادی کے ساتھ جینے اور رہنے کا حق دیا گیا ہے۔شوہر کی لاتعلقی کے بعد گھر والوں کی طرف سے آئے دن کی تذلیل سے دلبرداشتہ ہو کر پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے شہر میں ماری ماری پھرتی ہے، جہاں روایت اور ماڈرن کلچر کے درمیان ذہنی الجھن کا شکار ہو جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں،اس کردار کی نفسیاتی تشکیل میں ایک تضاد ہے۔ ابتدا میں مصنف نے اسے آزادانہ خیال سے روشناس کروایا ہے کہ وہ بچی کو آزادی سے گھومنے اور جینے پھرنے کا حق دیتی ہےاور اس کے بعد بودلی مسلسل کہانی میں روایت اور ماڈرن کلچر کی کشمکش میں مبتلا ہوکر آخرکار میم صاحب کے ماڈرن خیالات سے متاثر ہوجاتی ہے۔ جہاں تک ذیلی کرداروں کا تذکرہ ہے مولوی اور میم کے کرداروں نے بودلی کے کردار سے بڑھ کر کہانی میں قاری کے لئے تجسس کا سامان مہیا کیا ہے۔میری رائے میں اس معاشرے میں ایک طلاق یافتہ خاتون کے مقام کا تعین کرنے پر مصنف داد کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
حاجی صاحب کے بارہویں حج کا قصہ، یہ کہانی بھی خاصے کی چیز ہے ابتدائیہ بہت اچھا اور متاثر کن ہے۔مصنف نے معاشرے کے ایک ایسے شخص کو بے نقاب کیا ہے جو بظاہر مذہبی فرائض کا پابند ہے اور دوسروں کو بھی دین پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کرتا ہے،لیکن خود عمل پیرا نہیں ہے۔ وہ بارہ حج تو کر لیتا ہے۔روز چائے کی چسکی لے کر دنیا بھر کی خبروں پر نظر تو رکھتا ہے مگر اپنے محلے کی بیوہ عورت کی خبر گیری سے محروم ہے۔ جو غربت سے ہار کر دم توڑ دیتی ہے۔اس افسانے میں اصلاح کا وسیع پہلو شامل ہے۔
جہاں تک افسانہ "مرد" کی بات ہے۔ یہ کہانی مصنف کی ذہنی اختراع معلوم نہیں ہوتی بلکہ یہ ہمارے سماج کا ایک اہم اور نازک پہلو ہے۔ اس کہانی میں ساحل کا کردار ایک ایسے مرد کی عکاسی کرتا ہے جو اپنی ظاہری چستی، صحت مندی اور وضع قطع سے ایک مکمل مرد ہے۔ لیکن در حقیقت جنسی معاملات میں ذرا سی نقاہت سے اس کی مردانگی کا پول کھل جاتا ہے۔البتہ اس کہانی میں عورت کی بے بسی اور بے کسی کی نمائندگی نہایت چابکدستی سے کی گئی ہے۔وہ عورت جو دن بھر کام کاج کی تھکن سے چور چور جب بستر پرگر پڑتی ہے تو شوہر ایک وحشی کی مانند اس کی خستہ حال کیفیت اور موڈ کو نظر انداز کرتے ہوئے جنسی خواہشات کی تسکین چاہتا ہے۔ جنسی خواہش کے حصول کی خاطر بیوی پر مردانگی کا رعب بھی جھاڑتا ہے، لیکن بیوی کے پاس انکار کے لیے کوئی حیلہ بہانہ نہیں ہے۔ وہ اگر انکار کرے تو روایت کے مطابق شوہر کے حق میں گناہ کی مرتکب ٹھہرے۔اس نازک موضوع پر میں نے اس سے قبل کوئی افسانہ نہیں پڑھا۔ یہ فکر و فن کے ساتھ ایک مکمل اور جامع کہانی ہے جس میں جملوں کی بندش اور الفاظ کا چناؤ خوب کیا گیا ہے۔ مثلاً:
"وصل کے اس لمحے جب کوجاں کا وجود دھونکنی کی طرح دھک اٹھا تھا وہ اس کے دل کے دریا میں اتر کر ٹھنڈے ٹھار ہو جاتی، مگر پوری کوشش کے باوجود اس کے بچھونے سے پیاسی لوٹ گئی تھی"
یہ جملہ بھی ملاحظہ کریں:
" قبائلی رسم و ریت کے مطابق ان کی سیج پر بچھائی گئی سفید چادرعرق گلاب کے سرخ دھبوں سے خالی نہ رہ جائے"
مندرجہ بالا جملوں پر غور کریں تو بظاہر پردے میں کہی گئی عام سی باتیں ہیں لیکن پورے مفہوم کے ساتھ قاری تک بات کی مکمل ترسیل ہوجاتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ذیلی کرداروں کے مکالمے، مقامی مزار کی منظر کشی اس کہانی کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔
اسرار شاکر کی ایک اور کہانی جس کا عنوان ہے "رشتہ"یہ حوس سے پاک، ایک سچی محبت کی داستان ہے۔ایک ایسا نوجوان جو کالج کی ایک لڑکی سے مانوس ہو کر بھی خود کو جیسے اجنبی سا خیال کرتا ہے۔ وہ اس رشتے کو محض خواب اور خیال تک ہی محدود رہنے دیتا ہے، کیونکہ اس سے آگے ضمیر اور تہذیب کا مقدس علاقہ ہے۔وہ ان اوباش اور آوارہ لڑکوں میں سے نہیں جو ہمیں بازاروں، گلی کوچوں کے نکڑ پر دل میں ہوس کی کھوٹ لئے نظر آتے ہیں، بلکہ مصنف نے نہال کو ایک ایسے کردار کی صورت میں پیش کیا ہے جو محبت اور خلوص کی سرحدوں کو پار کرنے کے بجائے اپنی کہانی کو کوئی رنگ دے کر حقیقت نہیں بنانا چاہتا۔اس کہانی میں ایک نوجوان کے جذبات و احساسات کو نہایت خوبی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
"تھڑے کا افسانہ" نامی کہانی اپنے عنوان کی طرح کافی دلچسپ ہے یہ ایک ایسے کہانی نویس کی داستان ہے جو اپنے کام سے نہیں بلکہ نام سے ادبی دنیا میں شہرت پاتا ہے۔ اس کی وہ کہانی جو اس کی ادھیڑ عمر محبوبہ نے سنائی تھی،جس میں اس کی ماں اسے جنم دیتے وقت طبی امداد نہ ملنے پر زچگی کی تکلیف میں اس جاگیردار کی حویلی کی بیرونی دیوار کے پہلو میں مر جاتی ہے۔ وہ جاگیردار جس نے اسپتال کو اناج اور کھاد کے گودام میں تبدیل کررکھا تھا۔گویا یہ کرب بھری داستان سننے کے بعد مضطرب ہو کر کمال اپنی ماں کے انتقام کے طور پر اور بستی کی ایسی کئی ماؤں کی حفاظت کے لیے جو کبھی بھی اس کی ماں کی طرح زچگی کی حالت میں ہسپتال نما گودام کے پاس دم توڑ سکتی تھیں، گاؤں کے اس جاگیردار کے خلاف شب و روز کی محنت سے ایک شاہکار کہانی تخلیق کرتا ہے۔لیکن چونکہ یہ کہانی کسی کمال خان نے لکھی تھی نہ کہ کسی ڈاکٹر یا ادیب نے،لہذا بہت سی کوشش کے باوجود اس کی شاہکار کہانی کسی ادبی رسالے یا اخبار کی زینت نہیں بنتی۔اس وجہ سے کمال خان دلبرداشتہ ہو جاتا ہے مگر استاد کے اصرار پر ایک اور عام سی کہانی لکھتا ہے،جو اس کے نام میں ڈاکٹر اور ادیب کا اضافہ ہونے کے سبب چھپ کر اس کی شہرت کا سبب بنتی ہے۔یہ کہانی دراصل دور حاضر کی روایت پر طنز ہے کہ ایسے کئی کمال خان جو عمدہ لکھتے ہیں، مگر شہرت اور پذیرائی نہ ملنے کے باعث منظرعام پر نہیں آپاتے۔کہانی اچھی ہے مگر محبوبہ کی گود میں ماں کی موت کا قصہ سرشاری کے عالم میں سننا تعجب خیز تھا۔
"پانچ سیکنڈ کی کہانی" ایک ماں کی ممتا کی کہانی ہے۔ پانچ سیکنڈ کے ملاپ کے بعد شکم مادر میں پڑنے والا تخم جب نو مہینے بعد بچے کی صورت میں ماں کی گود میں آتا ہے تو ماں تمام سابقہ تکالیف بھول جاتی ہے۔ تب ماں کی زندگی کا ہر لمحہ بچے کی دیکھ بھال میں وقف ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ شوہر کے حصے کا پیار بھی بٹ کر بچے کی محبت میں بدل جاتا ہے۔ تقریبا پندرہ سال تک بچے کی دیکھ بھال میں ماں کی ممتا کا جذبہ پیش پیش رہے اور پھر پانچ سیکنڈ میں اس جذبے کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ اس جذبے کی شکست و ریخت کتنی اذیت ناک ہے۔ حالانکہ اس افسانے میں بننے اور بگڑنے کا عمل پانچ سیکنڈ پر مبنی ہے مگر بچے کی حیات اور موت کے درمیان ماں کی ممتا کے قرب کی تشریح صدیوں تک محیط ہے۔
اسرار کے افسانوں کو پڑھ کر کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کہانیوں میں محض کرداروں کے جذبات اور کیفیات کا تذکرہ ہی کیا گیا ہے نہ کہ جذبات و کیفیات کے ساتھ کرداروں کو پیش کیا گیا ہے۔ مگر ایسا نہیں، دراصل مصنف کے یہاں تقریباً تمام کہانیوں کا تانا بانا خوب بنا گیا ہے۔ مصنف کسی بھی روایت یا تذکرے کے بیان میں قدرت اور مہارت رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے پیش ہونے والے کرداروں کے جذبات کی طرف قاری کا ذہن کم مائل ہوتا ہے، بلکہ واقعے کے بیان سے زیادہ متاثر ہو کر جڑا رہتا ہے۔ اس ضمن میں برسوں بعد میں جمال خان کے گاؤں آنے کے بعد درد ناک صورت حال کا بیان یا حاجی صاحب کے بارہویں حج کی تکمیل کا قصہ، جس میں بیوہ کی موت کا منظر جو بڑھیا کی آہ و فغاں پر ختم ہوتا ہے۔ دو شادیوں کے بیچ محبت اور موت کا حال میں سورج اور اس کی بیگم کے درمیان خواب سے متعلق مکالمہ؛ان کہانیوں میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔
جہاں تک مائیکرو فکشن میں شامل کہانیوں کی بات ہے۔ ان میں مصنف نے اختصار کے ساتھ کہیں کہیں وسیع موضوعات کو بھی خوب نبھایا ہے۔ مثلاً دہشت گرد، تربیت، تضاد وغیرہ میں جہاں اسرار شاکر معاشرتی بے اعتدالیوں پر گہرا طنز کرتے نظر آتے ہیں، وہاں تاسف اور تحیر کا اظہار کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔
اسرار شاکر کی کہانیاں پڑھتے ہوئے میں نے انہیں حقیقت سے افسانے کی طرف گامزن دیکھا اور افسانے سے حقیقت کی طرف بھی، مگر کلی طور پر اسرار شاکر حقیقت پسند ہیں۔ اس بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کے اس سفر کی منزل قطبی ستارے کی طرح روشن دکھائی دیتی ہے۔امید ہے اردو افسانے کی دنیا میں جلد وہ اپنا مقام بنا لیں گے۔