مسلمانوں کے بارے میں ایک تاثر ہے کہ وہ بنیاد پرست ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے عیسائی مسلمانوں سے زیادہ بنیاد پرست ہیں۔ گو وہ مسلمانوں کی طرح جارحانہ کروائیاں نہیں کرتے ہیں۔ اس کی نسبت وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے پر عمل کرتے ہیں۔ اس وقت صرف امریکہ میں ہی سیکڑوں ٹی وی اور ریڈیو اسٹیشن عیسائی مبلغوں کے ہیں جن پر ہر مبلع روزانہ کئی لیکچر دیتا ہے اور وہ ان کی آمدنی بھی کڑوروں ڈالر سالانہ ہے۔ ان کی مذہبی تنظیم میں رضاکار نہیں بلکہ اس میں سیکڑوں تنخواہ دار ملازمین کام کرتے ہیں۔ ان کا اثر و رسوخ اس قدر زیادہ ہے جب بھی وہ کسی کام کے لیے چندے کی اپیل کرتے ہیں تو انہیں چند دنوں میں کڑوروں ڈالر مل جاتے ہیں۔ ان کی باتوں پر کروڑوں امریکوں کا ایمان ہے۔ اس میں عام آدمی ہی نہیں بلکہ اس میں صعنت کار، سائندان انجینیر سرکاری اہل کار یہاں تک کہ کوئی صدر ایسا نہیں گزرا جو کہ ان کی باتوں پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ اس میں موجودہ صدر تو اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ مذہبی معاشرے میں ممکن ہے۔ اسرائیل کی تخلق بھی ان کے عقیدے کا حصہ ہے۔ یعنی اسرائیل کر پرورش ایک قربانی کے بیل کی پروش کی طرح جس سے ہمدری اور محبت محض اس لیے کی جاتی ہے کہ اسے ذبح کرکے اس کا گوشت اڑانا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا و عیسائی مبلغ کس بات کی تبلغ کر رہے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کو تباہ کرنے کی کوشش کرنے والے بشترعیسائی ہیں۔ اس کو آگ لگانے کی کوشش کرنے والا ایک آسٹریلوی عیسائی تھا۔ حالانکہ عیسائی نہ تو وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر چاہتے ہیں اور نہ اس سے ان کو کوئی مذہب لگاؤ ہے۔ پھر کیا وجہ عیسائی اس مسجد کے پیچھے پڑے ہیں اور اس کی وجہ مسلمانوں کو معلوم نہیں ہے یا انہیں اس کا ادراک نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ہوگی۔
عیسائیت اپنے وجود میں آنے کے سترہ سو سال تک یہودیوں سے عیسائی شدید نفرت کرتے تھے۔ صہونیت کے خلاف آواز بڑے زور شور سے بلند کی جاتی رہی ہے۔ اس دوران مسیح چرچ یہودیوں کا سخت مخالف رہا ہے۔ عیسائیت تین سو سال تک اپنی بقا کی جدوجہد کرتی رہی اور بالآخر ایک معتوب فرقہ کے بجائے مقدر فرقہ قرار پائی۔ جس نے دوسروں کو سزا دینا شروع کردیا۔ چرچ کے قائدین نے عیسائی بادشاہوں سے اتفاق کرکے یہودیوں سے عیسائیوں سے ملنے سے روک دیا۔ برطانوی مورخ سیل روتھ کے الفاظ مین عیسائیوں نے یہودیوں کو معمول کی سرگرمیوں سے روک دیا اور انہیں ان کے دائروں تک محدود کردیا۔ جس میں انجام دہی کی ان میں خاص صلاحیت تھی۔ یعنی ان کے بین الاقوامی روابط اور حالات کے مطابق تبدیل ہونے کی صلاحیت۔
انگریز صلیبی یہودیوں کو سزا دینے میں خاص طور پر سفاک تھے۔ وہ اس بنیاد پر ان کی مذمت کرتے تھے کہ وہ اپنی حرام کی کمائی پر عیش کرتے ہیں۔ جب کہ مسلمانوں کو مقدس سرزمین سے نکالنے کے لیے صلیبی جنگجوو حضرت عیسیٰ کو مصلوب کرنے پر انتقام لینے کی خاطر جنگ کر رہے تھے تو انہون نے یہودیوں کا مکمل صفایا کردیا۔ سارے مسیحی مغربی یورپ میں یہودیوں کا داخلہ بند تھا۔ 1290ء میں انہیں انگلینڈ سے، 1492ء میں اسپین سے اور اسے کچھ عرصہ بعد انہیں اسپین سے نکال دیا گیا۔
اصلاحی تحریک کے قائد مارٹن لوتھر نے یہودیت اور یہودیوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا۔ اس نے کہا یہودیوں کو ملک سے نکال دینا چاہیے۔ انہیں خدا کی عبادت سے روک لینا چاہیے، ان کی عبادت کی کتابیں تالمود وغیرہ صبط کر لینا چاہیے۔ انہیں خدا کی عبادت سے روک دینا چاہیے۔ ان کی عبادت گاہیں جلا دینی چاہیے اور ان کے مکان مسمار کر دینا چاہے۔
مگر یفارمیشن کے بعد یہ سب کچھ بدل کیا اور یہودیوں سے نفرت کرنے بجائے انہیں Philo-Smitism کہا جانے لگا، جس کا مطلب ہے‘محبوب و صلاح کار’کے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ یہودی ہیں اور یہودیت پر کاربند ہیں بلکہ عیسائیوں کی نجات میں ان کا ایک کردار ہے Philo-Smitism کے نظریے کا اظہار مسیحی یہودیت میں بھی ہوتا ہے۔ تمام بنیاد پرستوں کا کہنا ہے کہ فنا ہوجانا ان کا مقدر ہے۔ حالانکہ بہت سے بنیاد پرست جو اپنے حلقوں میں بڑے محترم ہیں اور اپنے پیرو کاروں کو یہ سکھاتے ہیں کہ دنیا کے مصائب کے ذمہ دار یہودی ہیں۔ 1930ء کے عشرے میں بنیاد پرستوں جن میں آرنلڈ گیبلن Arnold C Gaebein مقبول ترین بائبل کے مقبول معلم اور آور ہوپOur Hope کے ایڈیٹر اور دوڈء بائبل انسٹیوٹ کے صدر جیمز ایم کرے اور عیسایت کے محافظDefenders of the Christian Faith کے بانی گرالڈ بی ون روڈ کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہودی ایک بین الاقوامی سازش کے بانی ہیں۔ انہوں اپنے صہونیت دشمن بیانات کی بنیاد ایک ایک صہونی دستاویزProtocol of the Learnded Elders of Zoin پر رکھی ہے جو ایک خفیہ کاروائی کی روداد ہے۔ اس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں نے مسیحت کو تباہ کردینے، جمہوی حکومتوں کا تختہ الٹنے، عالمی معیشت کو اپنے قبضہ میں لینے اور دنیا پر تسلط جمانے کی عالم گیر سازش تیار کی ہے۔ یہ خفیہ دستاویز روس سے نکلی پھر امریکہ میں 1920ء میں ہنزی فورڈ کے Dearbom Independent میں دی انٹر نشنل جیو کے عنوان سے شائع ہوئی۔ 1930ء کے آخری عشرے میں بنیاد پرستوں (عیسائیوں) کی ایک بڑی تعداد نے محسوس کیا کہ جو لوگ یہودیوں کی بین الاقوامی سازش کا بہت چرچا کرتے ہیں اور ان کے خلاف قوانین پر اصرار کرتے وہ کچھ نازیوں کے ہمدر لگتے ہیں۔ عیسائیوں نے اسرائیل کے قیام کی یہودیوں سے زیادہ کوشش کی۔ برطانیوی وزیر اعظم نے ترکی سلطان عبدالحمید سے ۰۲۹۱ء میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دینے پر بہت سی مراعات کی پیش کش کی۔ 1945ء صدر روز ویلٹ نے سعودی سلطان عبدالعزیز سے ایک پانی کے جہاز میں ملاقات کے دوران کہا کہ ان پر نازیوں نے بہت ظلم و ستم کئے ہیں اور انہیں فلسطین میں آباد ہونے کا حق دینا چاہیے۔ اس پر سلطان عبدالعزیز نے صدر روز ویلٹ کو جواب دیا اس میں فلسطینوں کا کیا قصور ہے۔ حقیقت میں یہودیوں نے فلسطین میں کچھ زیادہ لمبے عرصہ کے لیے آباد نہیں رہے اور نہ ہی انہیں فلسطین میں آباد ہونے سے دلچسپی رہی ہے۔ مگر یہ بات عیسائیوں نے انہیں باور کرائی کہ انہیں فلسطین میں اپنا آزاد وطن حاصل کرنا چاہیے۔ یعنی یہودیوں سے زیادہ عیسائیوں کو فلسطین میں آباد کرنے سے دلچسپی تھی۔
آرمیگا ڈون Armageddon یا آخری جنگ ایک نیا عقیدہ ہے جو کے عیسائی دنیا میں دو سو سال سے کچھ عرصہ پہلے پھیلا ہے۔ اس عقیدے کے مطابق خدا کو سہولت مہیا کرنا یعنی Forcing God,snHands تاکہ وہ ہاتھ اٹھا کر انہیں جنت میں پہنچا دیں۔ جہاں کوئی مصیبت نہیں ہوگی اور جہاں سے وہ آرمیگڈن یعنی خیر و شر کا آخری معرکہ اور کرہ ارض کی تباہی کا منظر دیکھیں گے۔ یہ نظریہ تیزی سے امریکہ کے مختلف چرچوں میں پھیل گیا اور آج بھی مسیحی دنیا میں سب سے عام عقیدہ ہے۔ اس وقت امریکہ میں ہی ایک چوتھائی باشندے اسے مانتے ہیں۔
آرمیگاڈون تھیولوجی Armageddon Theology کے مطابق آخری معرکہ میں انسانی زندگی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ اس عقیدے کے مطابق تل ادیب سے ۵۵ میل دور ایک جگہ میگوڈو ہے۔ یہاں کنعان کا قدیم شہر آباد تھا اور بائبل میں اسے حزرائیل کے کی وادی Valley of Gezreel کہا گیا ہے۔ یہ اہم مقام ہے جو کے قدیم تجارتی شاہراؤں کے ارتصال پر واقع ہے اور فوجی اہمیت کی جگہ ہونے کی وجہ سے یہاں بے شمار جنگیں لڑیں گئیں ہیں اور 1918ء میں اسی مقام پر جنرل ایلن بی نے ترکوں کو شکست دے کر شام میں انگریزوں کا تسلط قائم کیا تھا۔ اسی مقام پر آخری معرکہ ہوگا اور ہر جس کہ معنی پہاڑ کے ہیں اور میگوڈو شامل کرکے اسی سے آرمیگاڈون بنا ہے۔
مشہور مبلغ جیری فال ویل کا کہنا ہے کہ ہم سب کے لیے خدا کی ہداہت ہے کہ ہم ہولناک جنگ لڑیں۔ ایسی جنگ کہ جس کے ساتھ انسانی تاریخ ختم ہوجائے۔ ان کا کہنا ہے کہ آخری جنگ ایک خوفناک حقیقت ہے اور ہم سب آخری انسانی نسل کا حصہ ہیں۔ پوری تاریخ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ یہ ایک آخری جنگ ہوگی پھر خدا تعالیٰ اس زمین اور آسمان سب کو تباہ کردے گا اور اس جنگ میں دنیا کے کئی ارب کے افراد مرجائیں گے اور یہ بہت ہولناک ہوگا۔ کلٹن کے مقدمے کے اسپیشل پرازیکیوٹر کینتھ اسٹار کہتے ہیں کہ دنیا کا خاتمہ قریب ہے اور اس حادثہ کا وقوع ہماری زندگی میں کسی وقت بھی ہوسکتا ہے، اس آخری معرکے Armageddon ہر دو میں سے ایک فرد ہلاک ہوجائے گا۔ یعنی تین ارب انسان ہوجائیں گے۔
آخری معرکہ Armageddon پر ناول بھی کثرت سے لکھے گئے اور بہت مقبول بھی ہیں۔ ہال لینڈ کی کتاب ’آنجہانی عظیم کرہ ارض The Late Great Planet Earth’کی ڈھائی کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں اور 1970ء کی ڈھائی میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب تھی اور اس پر اسی نام سے فلم بھی بنائی گئی۔ اس نے چار اور ناول ایک ہی نام ’جہان نو ہو رہا ہے پیدا There is a New World Coming’لکھیں۔ ان سب ناولوں میں ایک ہی پیشن گوئی کی کہ آخری جنگ Armageddon سامنے ہے اور دنیا تباہ ہوجائے گی۔
1990ء کی دھائی کے آخر میں تم لائی ہا Tim Lahaye اس سلسلے کی چار کتابیں ’پیچھے رہ جانے والے left Behind’لکھیں ۔ اس میں دوبار ہپیدا ہونے کی نوید ہے۔ ان کی کتاب کی تیس لاکھ کتابیں فروخت ہوئیں۔ پبلیشر ویکلی کے ایڈٹر کا کہنا ہے کہ ایسی کتابیں ہمارے کلچر پر حاوی ہوگئی ہیں۔
1984 میں یانکے ہووچ Yankehovich کی رائے شماری کے مطابق 39 فیصد امریکی اس کے عقیدے کے مطابق اس زمین کی تباہی آگ سے ہوگی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آئندہ صدی (موجودہ صدی) میں دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔1998ء میں ٹائم میگزین کے مطابق امریکہ کی نصف آبادی سے زیادہ آبادی یعنی 51 فیصد آبادی اس پر یقین رکھتے ہیں۔ غرض اس آخری جنگ کے قائل امریکہ کے بڑے بڑے پادری اور مبلغ ہیں۔ مثلاً لیوس پالا Luis Palaw نے اخبار پارک ٹائمز نے 1999ء میں 67 اقوام سے خطاب کرتے ہوئے ایک کروڑ بیس لاکھ افراد سے خطاب کیا اور اس آخری معرکہ کے بارے انہیں کہا کہ وہ اس کے لیے تیاریاں کرلیں۔ اس آخری جنگ کے نظریہ Armageddon Theory بیان کرنے والے پادری عوام میں بہت مقبول ہیں اور کشیر تعداد میں دولت بھی کماتے ہیں۔
بائیبل چرچ کا کہنا ہے خدا کی ہداہت کے مطابق ہمیں اس دنیا کو ختم کرنا چاہیے۔ امریکہ میں تقریباً پانچ کروڑ بنیاد پرست ہیں۔ جو بے شمار چرچوں میں بٹے ہوئے۔ جن میں Armageddon کا نظریہ بہت مقبول ہے۔ مسیحی عالم اسی مسلک کی تعلیم دیتے رہے ہیں، جیسا کہ جم جونز نے اپنے پیروؤں سے کہا تھا دنیا ختم ہونے والی ہے، ہمیں اس کا ساتھ دیتے ہوئے اس ہجوم سے آگے نکلنا چاہیے۔ دنیا کے خاتمے اور آخری جنگ Armageddon کا نظریہ اتنا مقبول ہوا کہ اس میں عام سر پھرے افراد سے لے کر علیٰ ترین ارباب حکومت بھی اسے مانتے ہیں۔ دنیا ختم ہونے کے نظریہ پر یقین کرنے والوں میں ایسے بہت سے مذہبی رہنما تھے جنہوں نے اجتماعی خودکشیاں کی ہیں۔ آخری جنگ Armageddon ہے کیا جس پر آج کی عیسائی دنیا یقین رکھتی ہے اور اس آخری جنگ کی تیاری کیوں کر رہے ہیں۔
لیکن یہود اور اسرائیل سے اس کا کیا تعلق ہے اس پر آئندہ بحث کریں گے
حضرت عیسیٰ کے پیروکار ایک ہزار ایک سو برس تک اس عقیدے کو مانتے تھے کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ واپس آئیں گے اور بہت سے لوگوں کا کہنا تھا ایسا مصائب و تکلیفوں کے بعد ایسا ہوگا۔ مگر دو افراد جن میں ایک برطانوی چرچ کا پادری جان ڈربی اور اسکو فیلڈ تھے۔ اسکوفیلڈ نے ایک ریفرنس بائبل لکھی جو اس کے نام سے اسکوفیلڈ بائبل کہلاتی ہے۔ اس بائیبل میں یہ لکھا کہ عذاب سے جو مسیحی بچیں گے وہی نجات حاصل کرسکیں گیں۔ 1800ء کے وسط تک وہ اس عقیدے کی تبلغ کرتے رہے۔ اس نے یورپ کے طویل دورے کے بعد امریکہ کے طول و عرض کا دورہ کیا اور مختلف مسیحی مذہبی رہناؤں سے ملاقات کی جس سے امریکہ میں 1875ء تا 1930ء کے دوران ایونجلزم اور بنیاد پرستی کو فروغ حاصل ہوا۔ اس نظریے کو جان ڈربی اور اسکو فیلڈ کے علاوہ فلاڈیلفیا کے جیمز بروک، شگاگو کے ڈوایٹ ایل موڈی اور ایوانجیلکل کے مصنف ولیم ای بلیک اسٹون نے زور شور سے تبلیغ کی اور یہ نظریہ کیتھولک اور پرونسٹ دونوں میں پھیل گیا۔ حتیٰ کہ امریکی کالجوں کے نصف گریچوٹ اس عقیدت کو مانتے تھے۔ 1989ء پولیسٹر گیلپ اور کیسٹلی نے کہا کہ امریکہ دنیا کو انوکھا ملک ہے۔ جہاں ایک طرف تعلیم کی سطح بہت اعلی ہے اور دوسری طرف مذہبی عقیدے اور مذہبی سرگرمیاں بھی بہت بلند ہیں۔ اس عقیدے کے مطابق کوئی فرد نجات شدہ Saved ہونے کی وجہ سے دوبارہ پیدا ہوں گے اور وہ آرمیگڈون کی جنگ کو جنت کی بلند بالا کرسیوں پر بیٹھ کر دیکھیں گے۔ اس لیے امریکہ بشتر مسیحوں کا دعویٰ ہے کہ وہ نجات شدہ Saved ہیں۔ حتیٰ کہ امریکہ کے صدور جمی کارٹر، رونالڈ ریگن اور جارج بش سینئر اور بہت سے سیاسی رہنما نجات شدہ Saved کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس عقیدہ کو اہمیت حاصل ہوگئی اور عام لوگ بھی کسی اجنبی سے ملتے تو پوچھتے کہ تم نجات شدہ Saved ہو۔
کیتھولک کے روایتی تصور کے مطابق فلسطین حضرت عیسیٰ کی سرزمین ہے اور اس نہ یہودیوں کی واپسی کا کوئی امکانات، نہ منتخب لوگوں کا کوئی تصور تھا۔ ابتدائی مسیح رہنما متفق تھے یہودیوں کی دوبارہ آمد کی پیشن گوئیاں بابل کی جلاوطنی چھٹی قبل مسیج سے تعلق رکھتی تھیں۔ جنہیں سائرس نے واپسی کی اجازت دی تھی جو کہ پوری ہوچکی ہیں۔ چنانچہ سترویں صدی تک یہ کہتے تھے کہ یہودی مذہب کے وارث مسیحی چرچ ہے اور یہ تصور نہیں پایا جاتا تھا کہ یہودی خدا کے منتخب بندے ہیں اور مسیح کی آمد کے بعد یہودی مذہب روایت کو ختم کر کے اپنی روایات قائم کیں۔ جیسا کہ سینٹ آگسٹس نے شہر الوہی City of God میں لکھ ہے کہ یہ عیسائی چرچ خدا کی ہزار سالہ بادشاہت کی علامت ہے۔ تاہم سترویں صدی عیسوی کے بعد پادری عہد نامہ قدیم کی داستانوں کو اپنے حوالے سے سمجھنا شروع کر دیا اور انہوں نے زندگی کو اس طرح دیکھنا شروع کر دیا کہ گویا ان کا خاتمہ اب یقینی ہے اور ان کی توجہ مسیحا پرسیتی Messiansim اور ہزار سالہ عبادت Millennarianism میں الجھ گئے جو کہ یہودی مذہب کی روایات کا خاص عقیدہ ہیں۔ فلطین جس کا تعلق وہاں آباد قدیم باشندوں سے ہے اور اس کے دو ہزار سالہ دور کو نظر انداز کرکے کچھ عرصہ گزارے ہوئے یہودیوں کی اس مدت تک محدود کردیا جو انہوں نے یہاں گزاری ہیں۔ اس طرح مسیحی عہد نامہ قدیم کے اس تصور کو کہ خدا کی مقدس سرزمین اور مقدس بندوں کے نسل پرستی کے اصول کو اختیار کرلیا۔ اس زمانے میں مسیحوں میں یہ عقیدہ عام ہوگیا کہ یہودی جو اھر ادھر بکھر گئے وہ ایک دفعہ فلسطین میں جمع ہوکر عیسیٰ کی آمد ثانی کی تیاری کریں گے۔
اسکرو فیلڈ بائبل 1909ء میں شائع ہوئی تھی اور پوری مسیح دنیا میں تیزی سے مقبول ہوئی۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی اب تک کروڑیں جلدیں فروخت ہوچکیں۔ اس کے مطابق آخری دنوں میں یہودی فلسطین پہنچ جائیں گے اور عیسائی چاہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ جلد آجائیں تو انہیں بعض اقدامات کرنے چاہیے اور یہ تصور عام ہوگیا کہ اسرائیل 1948ء میں تشکیل مسیح کی دوبارہ آمد کی تیاریای ہے۔ اس بائیبل میں کئی صدیوں میں پھیلے ہوئے رجحانات کو یکجا کیا گیا ہے۔ یہ وہ خیالات تھے جو کہ بعد کے عیسائیوں کے خیالات اور عقیدے پر گہرا اثر ڈالا۔
بہت سے عیسائیوں کا خیال ہے اسکرو فیلڈ بائیل میں بائبل کی یہ تفسیر ایک جدید نظریہ ہے اور اس کا مسیحی کلسیا میں اٹھارہ سو سال تک اس کا کو ذکر نہیں ملتا ہے۔ خاص کر بائبل کا تصور کہ خدا کی محبت اور رحمت تمام انسانیت اور ہر زمانے کے لیے ہے کی نفی ہے۔ اس کے مطابق خدا اس وقت تک مسیح کو دوبارہ آمد کی اجازت نہیں ہے جب تک یہود اپنا کام انجام نہیں دیں گے۔ خدا کے وعدہ صرف اس کے منتخب بندوں یعنی یہودیوں کے لیے ہے اور اس میں خدا اور بندوں کے کے درمیان غیر مشروط معاہدے کا ذکر ہے۔ جو کہ عہد نامہ کے اس اصول کی نفی ہے کہ خدا اور انسانوں حضرت عیسیٰ کے خون پر قائم ہیں۔ اس کے مطابق عیسیٰ ایک یہودی بادشاہت قائم کرنے کے لیے آئیں گے اور یروشلم کی تیسیری عبادت گاہ میں ایک تخت پر بیٹھ کر نئی عبادت مثلاً قربانی کو رواج دیں گے۔ حالانکہ بائیبل کے مطابق وہ ایک دائمی بادشاہت کے مالک ہیں۔
طرح مسیحت موجودہ زمانے کے یہودیوں کے ہاتھوں یر غمال بن گئی ہے۔ اس حضرت عیسیٰ کو نہیں بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں کو مرکزی حثیت ہے اور فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا قیام خدا کی اولین ترجیح کو حضرت عیسیٰ کی تعلیم کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
اس عقیدے میں لوگوں کی شامل ہونے کی وجہ یہ بھی ہے ان کا خیال ہے کہ وہ اندر کے لوگ ہیں اور انہیں اطلاعات قبل از مل چکیں ہے۔ پادری اپنے پیروں کو بتاتے ہیں کہ یہودیوں کا ان تعلق اسی سرزمین سے ہے اور اسے کے صلے میں مسیح کی آمد دوبارہ ہوگی۔ سابق صدر جمی کارٹر کا بھی عقیدہ ہے کہ اسرائیل کا قیام بائیبل کے عین مطابق ہے۔ سابق سنیٹر مارک کے مطابق مقدس سرزمین پر یہودیوں کی واپسی مسیح کی آمد کی نشانی ہے۔ اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے ڈونلڈ ویگز دینیات کا پروفیسر اور پادری Presbyterin Minsiter بھی اور لارڈ سیفٹس بری چاہتے تھے کہ سارے یہودی اسرائیل کی تخلیق کے لیے فلسطین پہنچ جائیں۔ اگرچہ لارڈ سیفٹس بری یہودیوں کو مغرور اور سیاہ دل اور ایسے لوگ جو اخلاقی گراوٹ، ہٹ دھرمی اور کتاب مقدس سے لاعلمی میں مبتلا ہیں کہتا تھا۔ لارڈ سیفٹس بری Lard Shaftesbury ((1801-1885 Dispensationalists کے ابتدائی لوگوں میں شامل تھا اور اس کا تعلق برطانیہ سے تھا اور وہ ایک مخیر شخص تھا۔ وہ مزدوروں کے بچوں، ذہنی مریضوں اور قیدیوں کے ساتھ ہمدرانہ رویئے کا حامی تھا۔ اس کا بھی یہی خیال تھا کہ یہودیوں کا فلسطین پر قبضی عیسیٰ کی دوبارہ آمد کے خدائی منصوبے کی تکمل ہے۔
1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد وہ تمام لوگ جو یہودیوں پر ایک بین الاقوامی سازش کا الزام دھرتے تھے بدل گئے۔ صہونیت کے مخالف وہ اب بھی تھے لیکن زرا مختلف انداز میں۔ اب ان کا طریقہ قدرے عیارانہ مشفانہ اور سرپرستانہ ہوگیا تھا اور وہ یہودیوں کے لیے وہ محبت کے جزبات رکھنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ یہودیوں کی فلسطین میں آبادکاری کتاب مقدس کی تفسیر کے مطابق عیسیٰ کی دوبارہ آمد کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ان کی اسرائیل کے قیام سے پہلے فلسطین میں ان کی آباد کاری کی حمایت، مدد اور حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس لیے پولینڈ، روس، جرمنی امریکہ، انگلینڈ اور ہر جگہ سے اسرائیل کو دوبارہ بنانے فلسطین بھیجے گئے تھے وہ عقیدے کے مطابق وہ یہودی ریاست کے حامی بن گئے۔ کوئی بھی شخص اگر فرانس، انگلینڈ، جرمنی، اٹلی یا امریکہ و ہدف تنقید کرتا ہے تو اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اسرائیل پر تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے اس پر تنقید کرنا گویا خدا پر حرف گیری کرنا ہے۔
مسجد اقص جس مقام پر تعمیر ہے اس جگہ پر یہودی وہاں اپنی عبادت گا یا ہیکل کی تعمیر چاہتے ہیں اور مسیحی بھی یہی چاہتے ہیں۔ کیوں کہ اسی جگہ پر قربانی کے بعد حضرت عیسیٰ کا نذول ہوگا اور یہ عقیدہ رکھتے ہین کہ بائیبل کے مطابق جب وقت ختم ہوجائے گا End of Time تو یہودیوں کی قربانی کی رسم زندہ ہوجائے گی اور ان کا کہنا ہے ہمارا آقا (مسیح یا دجال) کی آمد ہوگی۔ بائیبل میں ہیکل کی دوبارہ کی تعمیر کی پیشن گوئی پوری کر رہے ہیں۔ راسخ العقیدہ یہودی ۰۷ ء تک اس ہیکل میں قربایاں ادا کرتے رہے ہیں۔ اب وہ ہیکل کے بغیر ان قربانیوں کو ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ جب ان کا ہیکل کی تعمیر ہو جائے گی تو وہ ہیکل کے اندر ایک دنبہ یا بیل کی قربانی دیں گے۔
عیسائی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ ضرور تباہ ہوگی۔ جیسا کہ بہت سے کٹر یہودی اور عیسائی اس کو تباہ کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ بہت سے عیسائی ان یہودیوں کے لیے چندہ جمع کرتے رہے ہیں جو کہ مسجد اقصیٰ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان عیسائیوں کا واحد مقصد یہ ہے مسجد اقصیٰ تباہ کرکے اس کی جگہ ہیکل تعمیر کیا جائے۔ اس لیے ہمیشہ یہودیوں کی تخریبی کاروائیوں کو جو کہ مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مگر یہودیوں کی ان کاروائیوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے جو کہ خود یورپیوں کے خلاف ہوئیں۔ مثلاً ۰۳۹۱ء میں یہودیوں دہشت گردوں نے بیت المقدس کے ایک ہوٹل میں بم رکھا۔ جس میں ہوٹل کے علاوہ برٹش مینڈیٹ سکیٹریٹ اور کچھ فوجی ہیڈکواٹر تباہ ہوگیا تھا۔ جس میں ایک سو کے لگ بھگ انگریز اور دوسرے بہت سے افراد مارے گئے مگر اس خبر کو دبا دیا گیا۔ ایک یہودی دہشت گرد گولڈ فیٹ جو 1930ء میں جنوبی افریقہ سے نقل مکانی کرکے اسرائیل آگیا تھا یا سابق اسرائیلی وزیر اعظم بن گوریان جنہوں نے بے شمار عورتوں و بچوں سمیت لوگوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے تھے مگر مسیحی دنیا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ کیوں کہ وہ فلسطین پر قبضہ کرکے ہیکل کی تعمیر کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ کام تشدد کے زریعے کیوں نہ ہو۔ بہت سے عیسائی یہودی مدرسوں کی تعمیر کے لیے چندہ اس لیے اکھٹا کرتے ہیں کیوں کہ وہ وہاں بچے قربانی کے طریقہ سیکھتے ہیں کہ ہیکل بننے کے بعد جانوروں کو کس طرح ذبحہ کیا جائے گا۔ کیوں کہ ان کے عقیدے کے مطابق یہودیوں کے تیسرے ہیکل کی تعمیر کے بعد اس میں سرخ بیل یا کنواری گائے کو ذبحہ کرنے کے بعد ہی ہیکل کی تعمیر مکمل ہوگی اور اس کے بعد مسیح کا نزول ہوگا اور اس کے لیے مسجد اقصی کو تباہ کرنا پڑے گا۔ لہذا اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے تیسرے یہودی ہیکل کی تعمیر کے لیے مسجد کے قبضہ کو ختم کرایا جائے۔ اسرائیلی حکومت اگرچہ مسجد کو ختم نہیں کرا رہی ہے لیکن مسجد کے ارد گرد آثار قدیمہ کے نام سے کھدائیاں مسلسل کروا رہی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کھدائیوں سے مسجد کمزور ہوکر گر پڑے۔ ان کھدائیوں پر مسلمانوں کی طرف سے مسلسل احتجاج ہوتا رہا ہے مگر یہ کھدائیاں نہیں رکیں ہے۔
عیسائیوں کا کہنا ہے کہ خدا کی مرضی یہی ہے کہ یہودیوں کے ہیکل کی تعمیر ہو۔ یہی وجہ ہے یہودیوں کے قبضہ کے بعد مسلسل کوششیں ہوتی رہی ہیں کہ مسجد کو تباہ کر دیا جائے اور اس کے لیے یہودیوں کے علاوہ عیسائی اس مسجد کو تباہ کرہ کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس مسجد میں آگ لگا کر تباہ کرنے کی کوشش کرنے والا ایک آسٹریلوی عیسائی تھا جسے پاگل قراد دیا گیا۔ ان تمام تباہ کرنے کی کوششوں کو کبھی یہودیوں یا عیسائیوں نے مذہمت کی ہے اور انہیں ہیرو تصور کیا جاتا رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت ان کے ساتھ نرم اور ہمدرانہ سلوک کرتی رہی ہے۔ یہودی اور عیسائی اس مسجد کو ایک ایسا بوجھ تصور کرتے رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہیکل کی تعمیر میں رکاوٹ پیش آرہی ہے اور عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ ہیکل کی تعمیر کے بغیر حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد نہیں ہوگی۔
مغربی کنارے اور بیت المقدس میں دہشت گردی کرنے والی سب سے بڑی تنظیم Gush Emunim کو امداد امریکہ سے فراہم کی جاتی ہے اور بہت سی تنظیں اس مقصد کے لیے امداد فراہم کرتے رہے ہیں۔ ان مسیحیوں کا کہنا ہے کہ ماونٹ موریا Mount Morish میں حضرت موسیٰ کے فرامین کے مطابق میں اس عبادت گاہ کو اسی جگہ جہاں مسجد اقصیٰ اور گنبد صغرا کا مقام ہے تعمیر ہو۔ اس لیے ان کی یہی کوشش رہی ہے کہ اس مسجد کو کسی طرح تباہ کر دیا جائے۔ ابسوبس Eusebius نے اپنی کتاب Ecclesiastieal History میں لکھا ہے کہ اسرائیل کے قیام سے عہد نامہ قدیم کی پیشن گوئیاں پوری ہوگئی ہیں اور اسرائیل کا اقتدار اور اس کی قیادت عیسائی مسیحا کے ہاتھ آگئی ہے۔ اسرائیل جس کی آباد ہانگ گانگ سے بھی مختصر ہے اور وہ وہاں اقلیت میں ہیں یہی وجہ ہے امریکہ اسرائیل کی ہر سطح پر دنیا میں سب سے زیادہ مدد فراہم کر رہا۔ یہ حکومتی سطح پر سات ہزار سات سو پچتر ڈالڑ سالنانہ سے بھی زیادہ ہے۔ جب کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کو یہ امدد چالیس ڈالڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دوسری تنظیموں کی امداد اس کے علاوہ ہے جو اس سے کہیں زیادہ ہے اور ان تنظیموں کا رونالڈ ریگن اور جارج بش کی کامیاب کرنے میں بڑا ہاتھ رہا ہے۔ اس سے ان کے اثر و رسوخ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے
ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ دنیا میں ایک ایسی آگ ضرور لگنی چاہیے جس میں دنیا جل کر بھسم ہوجائے۔ یہ شدید عذاب کا خوفناک زمانہ اور شیطان کی سراسمیگی کا زمانہ، دنیا کہ خاتمے End Dayw پر آئے گا اور اس آخری جنگ میں دنیا تباہ ہوجائے گی۔ لیکن یہ اس سے پریشان نہیں ہیں۔ کیوں کہ انہیں نجات آسمانی یعنی فضائی نجات کے ذریعہ وہ اس تباہی سے محفوظ رہیں گے۔ بنیاد پرست عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ خدا اور ابلیس کے درمیان آخری معرکہ ان کی زندگی میں شروع ہوگا اور انہیں امید ہے کہ انہیں جنگ کے آغاز سے پہلے ہی وہ جنت میں پہنچا دیا جائے۔
حضرت عیسیٰ کی آمد سے پہلے دجال آئے گا۔ دجال کون ہے اس کی تشریح ہر زمانے میں الگ رہی ہے۔ کبھی پوپ، کھبی مسلمان، کبھی ہٹلر کھبی اشتراکی روس اور کبھی صدام حسین کہا گیا ہے۔ تاہم یہ مسیح کا دشمن ہوگا یہ یاجوج ماجوج کی فوج کے ساتھ ساتھ حرکت میں آئے گا۔ دجال کا دور سات سال کا ہوگا جو ابتلا کا دور ہوگا اور دریائے فرات خشک ہوجائے گا اور دو لاکھ افراد پر مشتمل گھڑ سوار فوج اور جن کے گھوڑوں کے نتھوں سے آگ، دھواں اور لاوا اگل رہا ہوگا اور کڑوروں افراد مغرب سے اور کروڑوں افراد مشرق سے اس کے ساتھ آئیں گے۔ یہ طاقتور فوج ایک سال کی جنگ جوئی کے بعد گنجان آبادی والے علاقوں حملہ کرکے انہیں تباہ و برباد کردے گی اور وہ اسرائیل پر حملہ کردیں گے۔ دجال کے ساتھ اسرائیل کے یہودی مل جائیں گے اور اس جنگ میں سات سال گزر جائیں گے۔
مگر اس آخری جنگ سے پہلے مسجد اقصیٰ کی جگہ یہودیوں کا ہیکل تعمیر ہوگا اور کے گنبد صغرا کے نیچے یہودی ایک بھیڑ کی قربانی دیں گے۔ جس کے نتیجے میں حضرت عیسیٰ آسمان سے اتریں گے اور The Rapture نجات پانے والے حضرت عیسیٰ کا فضا میں جاکر ان کا استقبال کریں گے۔ پھر حضرت عیسیٰ گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے مدد گاروں کے ساتھ دجال سے میگوڈو میں جنگ کریں گیں اور اسے قتل کریں گے اور اس خون ریز اور فیصلہ کن جنگ میں لاکھوں افراد ہلاک کر دیے جائیں گے۔ یہ جنگ جو شر و خیر کے درمیان ہوگی اس جنگ میں دنیا کہ بڑے بڑے شہر اس جنگ میں تباہ ہوجائیں گے اور دو تہائی یہودی ہلاک ہوجائیں گے۔ کچھ کے خیال کے مطابق اس جنگ میں نوے لاکھ یہودی ہلاک ہوجائیں گے اور دوسو میل تک اتنا خون بہہ گا کہ وہ گھوڑوں کی باگ تک پہنچ جائے گا۔
بائبل کے مطابق یہودی خدا کے پسندیدہ باشندے تھے مگر انہوں نے خدا کی خواہش کہ مطابق حضرت عیسیٰ کے آگے نہیں جھکے اس لیے متعیوب ٹہریں گے۔ اس لیے ان پر شدید آفت آئے گی اور وہ کچھ یہودی بچیں گیں جو کہ مردوں کی تدفین کریں گے۔ اس جنگ میں بچنے والوں میں ایک چوالیس لاکھ باشندے عیساعیت قبول کرلیں گے اور حضرت عیسیٰ کے آگے جھک جائیں گے اور حضرت عیسیٰ کے فرامین کی تبلیغ کریں گے۔ جو افراد مسیحت قبول نہ کرے گا وہ روحانی طور پر اندھے رہیں گے۔ تمام یہودیوں کو حضرت عیسیٰ پر ایمان لانا ہوگا یا وہ پھر آریمیگیڈن کی جنگ میں ہلاک ہوجائیں گے۔
آخری جنگ Armageddon کا عقیدہ کرنے والے یہودیوں کے مخالف Anti-Semitiv ہیں اور انہیں پسند نہیں کرتے ہیں۔ مگر حضرت عیسیٰ کا دوبارہ ظہور Dispensationalism کے لیے کہ مسجد صغرا کی جگہ یہودیوں کے ہیکل تعمیر ضروری ہے۔ اس لیے وہ اسرائیل کی سرپرستی کرتے ہیں اور اس کی حفاظت کرتے ہیں کہ۔ کیوں کہ حضرت عیسیٰ کا مرکز اسرائیل ہے۔ اس لیے خدا نے یہودیوں کو جن کی تعداد اب ایک کروڑ چالیس لاکھ تک پہنچ گئی ہے زمینی راستے پر چلایا ہے اور ایک بلین عیسائیوں کو بہشتی راستے پر پر چلایا ہے۔ باقی پانچ بلین لوگوں کا خدا کے ریڈار اسکرین پر کوئی وجود نہیں ہے اور وہ آرمیگیڈن کے مرحلہ میں ہلاک ہوجائیں گے اور نجات صرف منتخب لوگوں کے لیے ہوگی۔ ایک نیا آسمان اور نئی زمین پیدا ہوگئی جس میں عیسائی امن و عافیت کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔ یوں حضرت عیسیٰ اپنی پانچ ہزار سالہ بادشاہت قائم کریں گے۔
تہذیب و تر تیب
(عبدالمعین انصاری)