زیشان ہاشم میرے دل اور دماغ کے بہت ہی قریب ، لبرل، زہین وفطین، صاحب دانش، محقق نوجوان ہیں، انہوں نے ایک حالیہ پوسٹ میں اسرائیلی ریاست کو 'فاشسٹ' جیسی انتہا پسندانہ اصطلاح سے نواز کرمیرے سر کو گھما کررکھ دیا ہے۔ زیشان سے ایسی 'لوز ٹاک' کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ وہ بے حد متوازن، سنجیدہ سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرنے والا ہے۔
مجھے تو لگتا ہے، عرب مسلمان/اسرائیل تنازعے میں سیکولر، لبرل زیشان ہاشم سے ہندوستان کے مولانا وحید الدین خان زیادہ بصیرت والے ہیں۔۔۔ وہ ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
" برٹش ایمپائر نے فلسطین کی تقسیم کا ایک فارمولہ بنایا۔ یہ عام طورپربالفورڈیکلریشن کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تقسیم واضح طورپر عربوں کے حق میں تھی، اس تقسیم میں فلسطین کا ایک تہائی سے کم حصہ اسرائیل کو دے دیا گیا، اور اس کا دو تہائی سے زیادہ حصہ عربوں کے لئے خاص کیا گیا۔ اس کے مطابق یروشلم اور بیت المقدس کا پورا علاقہ عربوں کو ملا تھا۔ مگراس وقت کی مسلم قیادت نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ایک عرب عالم نے حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس کو قبول کرلینے کی بات کہی، تو اس پر عرب مفاد سے غداری کا الزام لگایا گیا۔ وہ شخص یہ شعر کہہ کر مرگیا۔ عربی سے ترجمہ
" یعنی عنقریب میری قوم جان لے گی، کہ میں نے اس کو دھوکا نہیں دیا، اور رات خواہ کتنی لمبی ہوجائے، صبح بہرحال آ کر رہے گی"
اس وقت کی مسلم قیادت ، عرب قیادت اگر حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتی اور ابتدائی مرحلہ میں جو کچھ اس کو مل رہا تھا، اس کو لے کر وہ اپنی ساری کوشش تعمیر و ترقی کے کام پر لگا دیتی تو آج فلسطین کے عرب مسلمانوں کی حالت وہاں کے یہود سے بدرجہا بہتر ہوتی، مگر غیر حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہوا، کہ فلسطینیوں کے حصے میں تباہی کے سوا کچھ نہ آیا" (مولانا وحید الدین)
عرب اسرائیل تنازعہ ، عرب مسلمانوں کی حماقتوں، زلالتوں، جارحیت، جنگی جنونیت سے عبارت ہے۔۔عربوں نے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے، اسے سمندر میں پھینکنے کے دعووں سے بار بار حملے کئے، اور ہر بار حسب معمول اور حسب مقدر بدترین، زلت آمیز شکستیں بھی کھائیں اور بمعہ فلسطین، آس پاس کے سب عرب ممالک اپنے وسیع علاقے گنوا بیٹھے۔۔ اس کہانی کی تفصل کیا بتانی، تاریخ کے پلوں کے نیچے وقت کا پانی بہت بہہ چکا ہے۔۔
اسرائیل کو مجبوری میں ایک جنگی ریاست کا اسٹیٹس بنانا پڑا۔۔ اگر وہ عربوں کے معاملے میں اور اپنے تحفظ کے معاملے میں زرا بھر بھی غفلت، کمزوری یا نام نہاد "غیر فاشسٹ' رویہ اختیار کرتا ۔۔۔ تو عربوں کے دعووں کے مطابق آج واقعی اسرائیل مٹ چکا ہوتا۔۔۔ لیکن تاریخ میں مٹنے والے مٹتے ہیں۔۔ عربوں کی پچھلے ستر سال کی تاریخ۔۔ حماقتوں اور نالائقیوں سے بھری ہوئی ہے۔۔ اب یہ سب یا تو مٹ چکے ہیں، یا اپنے ذخموں کو چاٹ کر۔۔ اپنی اپنی دنیا میں رہ رہے ہیں۔۔ فلسطینی مسلمانوں کی عین روائت کے مطابق۔۔ کئی حصوں میں خود ہی تقسیم ہوچکے ہیں۔ انہیں خود پتا نہیں، وہ کیا ہیں، کیا چاہتے ہیں۔ صرف بچے پیدا کرنا اس کا سب سے بڑا جہادی 'ہتھیار' ہے۔۔ اور اہل یہود کے خلاف ایک ابدی زہریلی نفرت کو پالنا۔۔۔ ان کا مقصد حیات ہے۔۔
حیرت ہے زیشان کے اسرائیلی ریاست کو فاشسٹ کہنے کی۔۔ لگتا ہے لندن میں ' گورے لیفٹ اور لبرلوں ' کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوگے ہیں۔۔ یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ بھرے ہوئے ہیں۔۔ جب کہ حقیقت یہ ہے، لاکھوں فلسطینی اسرائیل میں جا کرملازمتیں کرتےہیں۔ ان کے دم سے زندہ ہیں۔ اسرائیلی حکومت انسانی ہمدردی کی بنا پر بے شمار پراجیکٹس چلاتی ہے، جس سے فلسطینیوں کو طبی امداد دی جاتی ہے۔۔ یہ فلسطینی پیدائشی عقل کے لنگڑے لولے ہیں، دعوی ہے کہ فلسطین ہزار ہا سال سے ان کا ہے۔۔ لیکن آج بھی فلسطین ایک بنجر ، بھیک منگا ملک ہے۔۔ اور اسی جگہ پر 70 – 100 سال سے بسنے والے چھوٹے سا اسرائیل دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔۔ اس کی فوجی طاقت سے سارا عالم اسلام کانپتا ہے۔۔
یہودی دو ہزار سال سے بھٹکتے رہے۔۔۔ ان کو ہر ایک کے عہد میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔ اور وہ دنیا کو تجارت، بینکنگ، علمی فکری، فلسفیانہ، سائنسی تحقیق سے انسانیت کو ترقی اور علم کی نئی سے نئی منزلوں تک پہنچاتے رہے اور پہنچا رہے ہیں۔۔ میرا خیال ہے بنو قریبضہ کے واقعے کے بعد جب اسلامی ایمپائر وجود میں آئی، تو انہوں نے بھی اہل یہود کے ساتھ کچھ اتنا برا نہیں کیا تھا۔۔ کم از کم اسپین اور بغداد کی امیہ اور عباسی خلافتوں میں یہودی مملکت کا حصہ رہے۔۔
فاشسٹ ہٹلر تھا۔۔ فاشسٹ نازی تھے۔۔ نہ کہ یہودی۔۔۔ جو یہودیوں کے ساتھ ہولوکاسٹ میں قیامتیں برپا کی جا چکی ہیں۔۔ ان کی روشنی میں اسرائیل کی اپنے وجود کے لئے سخت گیری بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے، عربوں اور عالم اسلام کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات میں بحالی عالم امن اور انسانیت کی خوشحالی میں اہم قدم ثابت ہوگی۔۔ زیشان صاحب اس سے اسرائیل کے " فاشزم' کا بھی خاتمہ ہوگا۔ وہ ایک نارمل ریاست بن کرانسانیت اور لبرل جمہوریت کے لئے بہتر کردار ادا کرسکے گا۔
عالم اسلام کو تقسیم کرنے اور جارحانہ نفرت انگیز رویہ رکھنے میں ایران کا کردار قابل مذمت ہے۔ نہ کہ اسرائیل کا۔
“