آج عصمت چغتائی کی برسی ہے۔
وہ 21 اگست، 1911ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ اور 24 اکتوبر1991ء کو بمبئی میں انتقال ہوا
عصمت چغتائی نے بدایوں، بھوپال، آگرہ،لکھنو، بریلی،جودھ پور،علی گڑھ اوربمبئی میں زندگی گزاری۔
والد مرزاقسیم بیگ چغتائی جج تھے۔ چھ بھائیوں اور چار بہنوں میں عصمت کادسواں نمبر تھا۔ ان کے ایک بھائی عظیم بیگ چغتائی بھی مشہور ادیب تھے .بچپن ہی سے عصمت کے مشاغل لڑکو ں جیسے تھے، پتنگ بازی اور بنٹے کھیلنا وغیرہ ۔ ان کی سوچ باغیانی تھی ۔1942میں عصمت کی شاہد لطیف سے شادی ہوئی،جس سے دوبیٹیاں پیداہوئیں۔ پہلے تدریس کا شعبہ اختیار کیا، پھر مکمل طورپر ادب اور فلم سے وابستہ ہوگئیں۔۔
عصمت چغتائی ادب کی ترقی پسند تحریک میں شامل تھیں ۔ ان کا کہنا تھا ایسا ادب جو انسان کی بھلائی چاہے، جو انسان کو پیچھے نہ دھکیلے۔ جو انسان کو صحت، علم اور کلچر حاصل کرنے میں مدد دے اور جو ہر انسان کو برابر کا حق دینے پر یقین رکھتا ہو۔ انسان کی بھلائی چاہے۔ اندھیرے میں جانے کی بجائے اجالے کی طرف آئے۔ قصہ، کہانی، نظم، غزل جن سے انسان کی فلاح وبہبود مقصود ہو وہی ترقی پسند ادب ہے۔
عصمت چغتائی کا پہلا افسانہ ”گیندا“تھا۔چوتھی کا جوڑا“عصمت چغتائی کا نمائندہ افسانہ ہے۔
عصمت چغتائی کے ناولوں میں ضدی، ٹیڑھی لکیر،معصومہ،سودائی،عجیب آدمی،جنگلی کبوترشامل ہیں،جبکہ کاغذی پیرہن کے نام سے خودنوشت سوانح لکھی۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں کلیاں،ایک بات،چوٹیں،دوہاتھہ،چھوئی موئی،بدن کی خوشبو اور آدھی عورت آدھا خواب شامل ہیں
۔انہوں نے کئی معروف ادبی شخصیات کے خاکے لکھے،جن میں اسرارالحق مجاز،سعادت حسن منٹو،خواجہ احمد عباس،کرشن چندر،سجادظہیر،پطرس بخاری،میراجی،جاں نثار اختر شامل ھیں۔اپنے بھا ئی عظیم بیگ چغتائی کا خاکہ ’’ دوزخی ‘‘ کے نا م سے لکھا جسے منٹو نے بہت سراہا اور کہا کہ ’’ اگر تم ایسا ہی خاکہ مجھہ پر لکھنے کا وعدہ کرو تو میں آج ہی مرنے کو تیار ہوں۔‘‘
عصمت چغتائی کا افسانہ’’ لحاف‘‘ جو خواتین میں ہم جنس پر ستی کے بارے میں تھا ،سخت نکتہ چینی کا نشانہ بنا لیکن انہوں نے کبھی یہ کہانی لکھنے پر افسوس کا اظہار نہ کیا ان کے بقول یہ نوابی سماج کی ایک عام بات تھی۔ اپنی آپ بیتی میں لکھتی ہیں کہ لحاف سے پہلے اور لحاف کے بعد میں نے جو کچھہ لکھا اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔ لحاف کا لیبل اب بھی میری ہستی سے چپکا ہوا ہے۔ لحاف میری چڑ بن گیا۔ میں کچھہ بھی لکھوں لحاف کی تہوں میں دب جاتا ہے۔ لحاف نے مجھے بڑے جوتے کھلوائے۔
قراۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی کی معاصرانہ چشمک سب جانتے ہیں۔ عصمت نے قرۃ العین حیدر کے بارے میں ’’ پو م پو م ڈارلنگ ‘‘ کےعنوان سے مضمون لکھا، جس کا جواب قرۃ العین حیدر نے ’’ لیڈی چنگیز خان ‘‘ لکھہ کر دیا۔
عصمت چغتائی نے تقریباً 14 فلموں کے لیے اسکرپٹ اورمکالمے لکھے۔1948 میں فلم ضدی لکھی ۔ 1950 میں فلم آرزو کی کہانی، ڈائیلاگ اور اسکرین پلے اور 1958 ء میں فلم سونے کی چڑیا کی کہانی لکھی۔ فلم جنون اور فلم محفل کے بھی ڈائیلاگ تحریرکئے۔1974 ء میں بننے والی فلم گرم ہوا عصمت چغتائی کے ایک افسانے پر بنائی گئی تھی۔ اس فلم کے ڈائیلاگ اور اسکرین پلے کیفی اعظمی اور شمع زیدی نے تحریر کئے
۔24 اکتوبر 1991کو بمبئی میں عصمت چغتائی کا انتقال ہوا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کے جسد خاکی کو نذر آتش کیا گیا ۔ یہ ان کا آخری حرف بغاوت تھا !
یہ تحریت فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“