عصمت چغتائی اُردو کے نئے افسانے کی معمار ہیں۔ وہ ایک درد مند دل، خلاق ذہین اور جرٔات آزما قوتوں کی مالک ہیں۔ وہ زندگی کی سچائیوں سے پیار کرنے والی اور ان سچائیوں کو اپنی بے پناہ تخلیقی قوتوں سے کہانیوں کا روپ دینے والی عظیم فن کار ہیں۔عصمت چغتا ئی تعلیم یا فتہ تھیں،ذہین تھیں، عصر ی شعو ر اے آگا ہ تھیں۔ چنا نچہ ا نہوں نے اپنے علم ،مشا ہد ے اور تجربے کے ذ ر یعے ا نسا نی نفسیا ت کی تہہ د ر تہہ گہرا ئیو ں اور ا نسا نی وجو د میں کلبلاتی ہزاروں صداقتوں سے آگا ہی حاصل کی ۔عصمت چغتا ئی کی کہا نیاں اپنے عہد کی پیداوار اور اپنے معاشرے کی عکا س ہیں۔ایک ا نٹر و یو میں کہتی ہیں:
’’دو پہر کو محلے بھر کی عو ر تیں جمع ہو کر بیٹھ جا تی تھیںاور ہم لڑ کیوں سے
سے کہا جا تا تھا ’’چلو بھا گو تم لو گ‘‘میں چھپ کے پلنگ کے نیچے
گھس کے سے ان کی با قی سن لیا کر تی تھیں۔ جنس کا مو ضو ع ، گھٹے
ہو ئے ما حول اور پر دے میں ر ہنے والی بیو یوں کے لیے بہت ا ہم
ہے ۔وہ اس پر با ت چیت کیا کر تی تھیں۔ میر ی افسا نہ نگا ری اسی
گھٹے ہو ئے ما حول کی عکا س ہے ۔‘‘
عورتوں کی زندگی کے جن پہلوؤں کو عصمت نے دیکھا مدتوںان کا تاثر رہا۔ان کے اسی مشاہدے اور شدید قسم کے تاثر نے کئی اہم تخلیقات کو جنم دیا۔مثلا َلحاف،چوتھی کا جوڑا،دو ہاتھ،گیندا،بیکار،ننھی کا نانی،سونے کا انڈا ،ہیرو ،حیوان،نیند ،یار ،کافر وغیرہ۔
عصمت چغتا ئی کا افسا نہ ’’لحا ف ‘‘کی ا شا عت نے ا د بی د نیا میں تہلکہ مچا د یا ۔ کیو ں کہ پہلی با ر ایک خا تو ن ا فسا نہ نگا ر نے ا یک نسا ئی کردارکی جنسی ز ند گی اور جذ با تی گھٹن کی کیفیت کا بے با کا نہ اظہا ر کیا تھا ۔ لہذا چا روں طر ف سے مخا لفت کا ا نبا ر اُمنڈ پڑا۔ادب کے نقادوں نے ان پرفحش نگا ری کا ا لزام لگا یا ۔قا نو ن حر کت میں آگیا ۔ فحش نگا ری کے ا لزام میں لاہو ر میں مقد مہ دائر ہوا۔لیکن بر ی ہو گئیں۔’’لحاف ‘‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو نامرد شوہر کی وجہ سے اپنے جنسی جذبات کی خاطر ہم جنسی کا رستہ اختیار کرتی ہے۔عصمت چغتا ئی نے ’’لحا ف ‘‘ میں جا گیر دا ر نہ نظا م میں جنم لینے والے ایسے ا لمیے کو پیش کیا جو عمر ر سید ہ جا گیر دار اور غر یب نو جوان خا تو ن کی بے جو ڑ شا دی کا نتیجہ ہے ۔ اس ا فسا نے میں انہوں نے یہ با ت واضح کر نے کی کوشش کی ہے کہ عو ر ت بھی انصا ف کی حقدار ہے ۔مر د اپنی دلچسپیو ں میں کھو کر جن عو ر توں کو بے جا ن مو ر تیاں سمجھ کر نا انصا فی کے جا ل میں جکڑ د یتے ہیں۔ تو و ہ بھی ز ند گی گز ا ر نے اور آسو دگی حاصل کر نے کا کو ئی نہ کو ئی ذ ر یعہ تلاش کر لیتی ہیں۔ یہ ذ ر یعے کتنے ہی گھنا ؤ نے مکر و ہ اور غیر فطر ی کیوں نہ ہوں…دراصل عصمت معا شر ے کے گھنا ؤ نے نا سو ر کو ڈ ھکا چھپا کر ر کھنے کی قا ئل نہیں وہ ہربا ت کو ا نتہا ئی جرأ ت کے سا تھ منظر عا م پر لے آتی ہیں۔
اس ا فسا نے پر عصمت نے معصو میت کی ا یک چا در بھی ڈا لنے کی کو شش کی یعنی لحا ف کے ا ندھیر ے اور اُجا لے کو ا یک معصوم بچی کی نظروں سے د کھا یا ۔ مگر اس ا فسا نے سے لذ تیت کشید کر نے وا لوں نے اُسے ،فحش قرار دیا،عصمت کو محض سنگ با زی کے لیے،منٹو کا ہم زاد ہی بنا ڈالا۔جس کسی نے عصمت پر فحا شی پھیلانے کا ا لزا م لگا یا ، اس نے جواب میں منٹو کی طر ح کہا :’’ ز ند گی ہی ا گر فحش ہے ، تو میں کیا کروں۔
ـ’ ’چو تھی کا جو ڑا ‘‘عصمت کا بے مثل ا فسا نہ ہے ۔اس میں جس معا شر تی ا لمیے کی تصو یر کشی کی گئی ہے وہ کسی ا یک گھر کا نہیں بلکہ پو رے پا ک و ہند کے عا م گھر ا نوں کا ا لمیہ ہے ۔’’چو تھی کا جوڑا‘‘ کبٰر ی کی نا مراد ز ند گی کی کہا نی ہے جس کی کسی و جہ سے شا دی نہ ہو سکی ۔اس ا فسا نے میں ماں اور دوسر ی معمر خواتین کے مشو ر ے سے کبٰری کی چھو ٹی بہن حمید ہ کو مجبو ر کیا جا تا ہے کہ وہ اپنی بڑ ی بہن کی شا دی کے لیے گھر آئے ہوئے نو جوان ر شتے کو راغب کر ے۔لیکن ہو تا یہ ہے کہ وہ نو جوان حمید ہ کی ز ند گی کو داغ دار کر کے چلاجا تا ہے ۔انجا م کا ر کبٰر ی سہرا باندھنے کی حسر ت دل میں لیے دِق کے مرض میں اس د نیا سے رخصت ہو جا تی ہے ۔اس کہا نی کا نما ئند ہ کردار ’’ماں‘‘ ہے جواُسی لگن اوراستقلال سے ا پنی مر حو م بیٹی کا کفن سیتی ہے ، جس لگن سے اس کا چو تھی کا جوڑا سیا تھا۔اس کہا نی میں عصمت نے نہ صر ف کبٰر ی کی ماں کابلکہ ایک معا شر ے کی تہذ یب کا درد اوراس درد سے اُٹھتی ہو ئی کر ب کی ٹیسوں کو بڑ ے بے سا ختہ اورپُراثرار انداز میں بیا ن کیا ہے جوان کی مصوری کا کما ل ہے ۔
عصمت کا افسا نہ ’’دوہا تھ‘‘غیر حقیقی طبقا تی تقسیم کے شکا ر محنت کش لو گوں کی کہا نی ہے ،جن کے لیے اقتصادی بد حا لی میںاخلاقی اقدار کے تحفظ سے ز یا دہ ز ند ہ ر ہنے اور پیٹ بھر نے کا مسئلہ ا ہم ہے ۔ان کی الم نا ک ضرورت دو کما نے والے ہا تھ ہیں۔ اس کہا نی کے کردار رام اوتارکو جب غیر ت دلائی جا تی ہے کہ اس کا بیٹا نا جا ئز ہے تو وہ اپنی معا شی مجبو ر یوں کارونا روتا دکھائی دیتا ہے ۔عصمت نے ان دل خراش حقیقتوں کو ایک نبا ض کی طرح محسو س کیا اور نہا یت موثر ا نداز میں بیان کیا ہے۔
اس کے علاوہ عصمت نے ’’دو ہا تھ‘‘میں انسا نی دوستی کا تصو ر پیش کیا ہے ۔دو ہا تھ جو محنت کش ہیں۔مظلو م طبقے کے ہا تھ ہیں جو شاید معاشرے کے لیے قابل قبو ل نہ ہوں۔ حلالہ نہ ہو لیکن یہ سما ج کا بو جھ اُٹھا ئے ہو ئے ہیں۔ انہیں حلالی اور حرامی کے حوالے سے نہیں ایک انسا ن کے ’’دو ہا تھ‘‘ کے طو ر پر تسلیم کر نا چا ہیے۔
’’گیندا ‘‘یہ کہانی ہمارے معاشرے کے گھنا ؤنے پہلو کو نمایاں کرتی ہے۔جس میں ایک غریب کی بچی کا جنسی استحصال بڑی خاموشی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔گیندا کم عمر معصوم ودھوا ہے۔جس کی شادی بچپن میں ہی کردی گئی تھی۔اب وہ بے حس سماج کی نظروں میں بڑی گناہ گار تھی۔اس پر بے شمار پابندیاں عائد تھیں۔یہیں نہیں وہ جس گھر میں کام کرتی تھی مالک کا بیٹا انانیت کی ساری حدود کو توڑ کر اپنے ناجائز بچے کی ماں بنا کر تڑپنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔اور خود سماج کی نظروں میں پاک صاف بن کر باہر چلا جاتا ہے۔
افسانہ ’’بیکار‘‘میں سماج کے تلخ رویہ کو محسوس کیا جاسکتا ہے جس میں ہاجرہ اپنے شوہر باقر میاں کی نوکری چلی جانے کے بعد ایک ایک کرکے پریشانیوں اور بگڑتے حالات کو سنبھالنے کے لیے اسکول میں ملازمت کرتی ہے۔مگر باقر میاں کے دوست ہاجرہ کے باہر نکلنے پر طعنہ کستے ہیں اور اس کے کردار پر بھی انگلی اٹھاتے ہیں اور ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے کوئی بازارو عورت ہو۔دوسری طرف اسکول کے حکام اس کی معاشی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے زیادہ کام لیتے ہیں اور پھر گھر میں اس کا شوہر جس کی ذہنی نشوونما روایتی اخلاقیات کی پروردہ تھی ،اس پر نہ صرف شک کرتا ہے بلکہ ہاتھ بھی اٹھاتا ہے۔اورآخر کار باقر میاں کی موت ہوجاتی ہے ۔جس کا ذمہ دار بھی ہاجرہ کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
’’ننھی کی نانی‘‘ میں نو سال کی بچی معصوم کی کہانی بیان کی گئی ہے۔جس کی ذمہ داری نانی کے سپرد ہے۔نانی ڈپٹی صاحب کے یہاں کام کرتی ہے مگر ڈپٹی صاحب کی حیوانیت سے بے خبر ننھی کو بھی ان کے یہاں کام پر لگا دیتی ہے۔ایک دن گھر میں اکیلا دیکھ کر ڈپٹی صاحب اسے اپنی شہوانیت کا شکار بنا لیتے ہیں۔غریب بے سہارا نانی ڈر کر خاموش رہ جاتی ہے۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے لوگ ننھی کا استعمال کرکے سماج کی ایسی کھائی میں پھینک دیتے ہیں جہاں سے واپس آنا اس کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے۔اس طرح ایک غریب بے سہارا لڑکی سماج کی حیوانیت پسندانہ رسوم و رواج پر مبنی استحصال کا شکار ہو کر ذلت و تحقیر کے قعر عمیق میں دھنستی چلی جاتی ہے۔
’’افسانہ ‘‘سونے کا انڈا‘‘ میں سماج کی کڑوی سچائی کو پیش کیا گیا ہے۔عورتوں کو مساوی حقوق حاصل ہو جانے کے بعد بھی لڑکیوں کی پیدائش پر گھر میں ماتم کا ماحول ہوجاتا ہے۔یہاں بھی بند و میاں کے گھر پر تیسری مرتبہ لڑکی پیدا ہوجانے پر لڑکے کی آس لگائے سب کے چہرے اُتر جاتے ہیں اور ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے۔لڑکوں کو طنزیہ طور پر سونے کا انڈا کہا جاتا ہے جو بڑے ہو کر نوکری کرتے ہیں اور دلہن کے ساتھ جہیز میں بے شمار دولت لاتے ہیں۔جبکہ بیٹیوں کو اس لیے بوجھ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے لیے لڑکا تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ شادی کے لیے جہیز جمع کرنا پڑتا ہے۔تب بندو کی بیوی سوچتی ہے کہ میں ایسی جگہ چلی جاؤں جہاں میری بیٹیوں کو سماجی مقام مل سکے۔
عصمت چغتا ئی کی جن کہا نیو ں پر جنس نگا ری کا ا لزا م ہے ان میں بنیا دی طو ر پر معا شر ے کی بے ا عتدا لیا ں،جا گیر دارانہ نظام کی قبا حتیں، شخصی ا ستحصال ،غلامی میں جکڑ ے ہو ئے ما حول کا تفنن اور مجبو ر کرداروں کی کہانیاں ہیں۔ان کہا نیوں میں عصمت کے ر دعمل کا اظہار سما جی جبر کے خلاف ہے جسے وہ ا پنے مخصو ص طنز یہ لہجے میں پیش کر تی ہیں۔حیا ت اللہ ا نصا ری عصمت چغتا ئی کے متعلق اپنے خیالات کااظہا ر کر تے ہو ئے کہتے ہیں:
’’ عصمت کو اپنے فن سے ز یا دہ کو ئی چیز ا ہم نہیں…تیکھی طنز،چست
فقر ے ،شکر میں لپٹی کڑ وی با تیں،ہنسی مذاق اور اسی ہنسی مذاق میں ہجو
ملیح…‘‘
عصمت نے ا پنے ا فسا نوں میں مر د اور عو رت دو نوں کو ا نقلاب کی راہ د کھا ئی ہے ۔ عو رت کی جنسی استحصا ل سے آزادی کا سوال ہو یا آزاد زند گی کا نیا تصور، محبت کی نا کا می اور محرو می کا تذ کر ہ یا جذ با ت و احسا سات کا بیا ن، ز با ن و بیا ن کی چا شنی ہو یا لب و لہجہ کی د لکشی اور تا ثیر کا مسئلہ ،عصمت چغتا ئی کا حقیقت پسندانہ اظہا ر اپنی تما م تر خو بصو رتی کے سا تھ ا ن کے افسا نوں میں جھلکتا ہوا د کھا ئی د یتا ہے ۔لیکن اس کے سا تھ سا تھ اس حقیقت کو د لکش اور پُر تا ثیر بنا نے کے رو ما نی طر ز احسا س کی آمیز ش بھی ا پنا ا ہم کردار ادا کر تی ہے ۔چنا نچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عصمت چغتا ئی کا فن جنسی حقیقت نگا ری کے سا تھ سا تھ رو ما نی جذبات و احسا سا ت سے بھی مز ین ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...