نظریہ یا آئیڈیالوجی مختلف افکار ونظریات، عقائد و معتقدات تخیلات، و اقدار کے باہمی منطقی رشتوں کا ایک مربوط و مبسوط نظام فکر ہے، جس میں کسی نظریہ کے نظریاتی اور عملی پہلو مساوی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ انکے درمیان منطقی ربط قائم ہوتا ہے۔ خیالات کی منطقی تصدیق کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ علت ومعلول کے دائرے میں رہ کر بات کی جاتی ہے، مگر ضروری نہیں کہ آئیڈیالوجی ہر جگہ معقولات سے ہی اپنے نظریہ کا پرچارک کر رہی ہو یہ عقیدہ کو بھی اپنا موضوع سخن بنا سکتی ہے۔ اس کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے۔ مذہب، معیشت، سیاست، تعلیم، اخلاقیات جیسے موضوعات کوتجربات کی شکل میں بیان کر رہی ہوتی ہے۔ کہ مروجہ سماجی ڈھانچہ کیسا ہے اور اسکو کیسا ہونا چایئے۔ کوئی بھی آئیڈیالوجی اپنے خیالات وافکار میں تنہا نہیں ہوتی وہ بہت سے افکار دوسرے نظریات سے بھی مستعار لیتی ہے۔ آئیڈیالوجی دوسروں سے خیالات مستعار لے کر نئی آئیڈ یالوجی کا تار وپود بنتی رہتی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد نشان منزل کا پتا بتانا مقصود ہوتا ہے۔ ہیووڈ کے نزدیک,, سیاسی نظریہ دیگر بہت سے خیالات سے ہم آہنگ ہو کر سیاسی عمل کو تحریک دیتا ہے۔۔۔ آیئڈیالوجی منطقی سلسلوں کا باہم مربوط ایسا سٹرکچر ہے جس کا اظہار کسی گروہ یا جماعت کی طرف سے ہوتا ہے، یہ وضاحت کرتا ہے کہ سماج کس طرح کا ہے اور اس کو کس طرح کا ہونا چایئے،، آئیڈیالوجی جسطرح اپنی تکمیل دوسروں سے خیالات مستعار لیکر کرتی ہے اسی طرح یہ کبھی اپنے قدو کاٹھ پر مکمل طور پر کھڑی بھی نہیں ہو سکتی۔ رفتار زمانہ کی نئی تخلیقات اور تقاضوں کے پیش نظر اس کو مختلف چیلنجز کا سامنا بھی رہتا ہے، جب تک یہ حقائق اور اثباتیت کے درجہ پر پہنچ نہیں جاتی، مگر انسانی ذہن کا کسی آئیڈیالوجی کیساتھ چپکے رہنا بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اس بنا پر آئیڈیالوجی کے اندر منفی تاثر ابھرتا ہے۔ ازم اور آئیڈیالوجی اکھٹے ہو جاتے ہیں،جہاں ازم ہو گا وہاں آئیڈیالوجی بھی ہو گی ۔ ازم انسانی زہن کی بے معنی نفسیاتی کیفیت کا نام ہے۔فطرت،انصاف اور فطری بہاوٗ کا رستہ روکتا ہے۔ نیکی وخیر کے نقطہ کمال میں بھی اس کے اندر رجعت قہقری کا عنصر پیدا ہوجاتا ہے۔ پوسٹ ماڈرنسٹ کا بیانیہ عقلی وتخیلاتی نہیں، وہ جو کچھ دیکھتے ہیں،تعمیر کرتے ہیں۔ تجربیت حقیقت ہے اور اضافیت اخلاقی اس بنا پر آئیڈیالوجی علمی تصدیق کا درجہ حاصل نہیں کر سکتی، مگر اسکے کچھ پہلو منطقی اثباتیت کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ تجربہ ہی وہ واحد شے ہے جو آئیڈیالوجی کی صحت کا تعین کرتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ انسان بھی نفسیاتی طور پر کسی نہ کسی آئیڈیالوجی کے زیر اثر رہنے پر مجبور ہے۔ انسانی زہن آئیڈیالوجی کی تخلیق کرتا ہے اور آئیڈیالوجی اسکی نشان منزل بن جاتی ہے۔ جب آئیڈیالوجی عملی رہنمائی کرنے سے قاصر ہو تو ازم انسان کو اسکے ساتھ چمٹے رہنے پر مجبور کرتا ہے، جسے کشمکش،اور تضادات جنم لیتے ہیں۔ انسانی عقل، سماجی تجربہ اور انسانی نفسیات میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی۔ ہمیشہ تضاد کی صورت قائم رہتی ہے۔ انسانی نفسیات نا قابل اعتبار ہے۔ یہ مسلسل متغیرمنطقی اور غیر منطقی کیفیتوں کے زیر اثر رہتی ہے، اور آئیڈیالوجی اسکی ہر جگہ رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بلکہ سائنسی حقائق اور سماجی تجربات سے بھی یہ ماورا ہو جاتی ہے۔ آیئڈیالوجی کو اسی لئے متشدد، متعصب، غیر شفاف، کلیت پسنداور ازم و جانبداری جیسے الزامات کا سامنا رہتا ہے۔ انسانی ذہن کی تشکیل سماجی ماحول میں ہوتی ہے، جیسا سماجی ماحول ہو گا، انسانی ذہن اسی طرح کی آئیڈیالوجی کو قبول کرے گا، جس میں ان گنت سیاسی وسماجی، مذہبی، علاقائی، ونسلی اور طبقاتی پہلو موجود ہوں گئے۔ مگر سیاسی آئیڈیالوجی میں سیاسی معاشیات ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ سیاست کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ وہ آئیڈیالوجی کے زیر اثر رہنے پر مجبور ہے، جس نظریہ سیاست میں حقائق کے بر عکس آئیڈیالوجی کی چھاپ جتنی زیادہ گہری ہوگی وہ اتنی ہی مخرب اخلاق اور انسان دشمن ہو گی اور اس میں ازم وجانبداری سماجی ترقی کے سفر کو سست کر دے گی۔ سیاسی نظریہ کو افکار کی سائنس کہا جاتا ہے،جس میں منطقی ربط کو لازمی قرار دیا گیا ہے، مگر یہ منطقی ربط اور استدلال عقیدہ پرستی کے قالب میں ڈھل جائے تو انسان لا مرکز ھوجاتا ہے اور آئڈیالوجی غالب آجاتی ہے جس سے حقائق پس پردہ چلے جاتے ہیں اور تجرید کا رنگ غالب آجاتا ہے، کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مذہبی آئیڈیالوجی سیاست سے جب بھی ہم آہنگ ہوتی ہے تو وہ تاریخی تجربات اور موجودہ حقائق کو تجرید کا رنگ دینا شروع کر دیتی ہے، جسے سماجی حرکیات اور ترقی کا پہلو سست پڑ جاتا ہے، جہاں جہاں جنونی مذہبی سیاست کو فروغ ملا وہاں کے معاشرے ترقی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گئے، جبکہ سیاسی آئیڈیالوجی کی اساس انسانی تجربات پر مستحکم ہوتی ہے۔ مغربی معاشروں میں کیتھولک اور پروتصتنٹ کی محاز آرائی،مسلم دنیا میں میں مذہبی فرقہ پرستیاں اور ہندوستاں میں جاری ہندو ازم کی سیاست نے منفی آئیڈیالوجی کو فروغ دیا جسے بد امنی،انتشار،غیر جمہوری قدروں کا فروغ اور مسلمانوں کا جینا دوبھر ہو گیا، سرمایہ داریت، کمیونزم اور سوشلزم نے بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی،مگر موخر الزکر نے انسان کو عقیدہ پرستی سے نکال کر عقل وتجربات کی راہوں پر ضرور گامزن کیا۔ اسکے علاوہ جہاں آئیڈیالوجی کسی بھی سیاسی جماعت پر غالب ھو گی وہ ضرور شر انگیزی کا باعث بنے گی، متشدد آیئڈیالوجی کا نقص یہ ہے کہ وہ حقائق اور تجربات کو اپنے سیاسی بیانیہ میں شامل نہیں کرتی۔ دوسرا بڑا نقص یہ ہے کہ آئیڈیالوجی قبل از تجربی ہے تعصبات اور میلانات کا اظہار کرتی ہے۔زمان و مکان کے اندر مسلسل تبدیلیوں کا سلسلہ رواں دواں رہتا ہے،نقش بنتے اور مٹتے رہتے ہیں، جہاں آئیڈیالوجی رفتار زمانہ کیساتھ مطابقت پزیری پیدا نہیں کر سکتی۔منطق و اخلاق بھی بہت سی چیزوں کو ردو قبول کرتے رہتے ہیں، مگر اائیدیالوجی ہیرو پرستی، تقدیس پرستی، پرسنلٹی کلٹ اور زعم دانشوری میں الجھی رہتی ہے۔اسی بنا پر پسماندہ سماج میں ہیرو کھمبیوں کی طرح جنم لیتے ہیں۔یہ اپنے اندر اقدار ی، عملی وتجربی شہادتیں بھی نہیں رکھتی، مگر موجود رہتی ہے۔ یہ سیاست کے علاوہ ادب وآرٹ میں بھی اپنا اثر ونفوز رکھتی ہے۔سیاست کو آئیدیالوجی اور ازم سے پاک کرنے سے ہی ایک سچے اور صحتمند سماج کی تشکیل ممکن ھو سکتی ہے۔جبکہ علم سیاسیات و معاشیات ابھی تک سماجی علوم کے دائرہ میں کھڑے ہیں،مکمل سائنس کا درجہ حاصل نہیں کر سکے،لیکن آلاتیت پسندی اور دیگر تجربی علوم آئیڈیالوجی کی دھند رستے سے صاف کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
انسان کو لامرکز کر کے جس کسی بھی آئیدیالوجی کی بنیاد رکھی جائے گی، وہ متعصب، انتشار پسند۔ امن دشمن اور ترقی کے عمل کو سست کرنے والی ہو گی، اسکی ترجیحات میں مخصوص گروہ،طبقہ،فرقہ۔ اور نسل کی طرفداری ہو گی، اسی بنا پر آئیڈیالوجی کو جانبداری کا طعنہ دیا جاتا ہے.عالمگیر سطح پر قابل قبول ایک بھی سیاسی نظریہ موجود نہیں ہے جسکو علمی تصدیق کی مکمل حمائیت حاصل ہو، مگر تمام سیاسی نظریات کو ایک جیسا بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔ان میں ایک وسیع خلیج بھی موجود ہے، کسی بھی نظریہ میں جتنے زیادہ غیر عقلی عناصر موجود ہوں گے وہ اتنا ہی سماج سے عدم مطابقت کا حامل ہوگا۔ جن جن معاشروں میں سدھار کی راہیں ہموار ہوئیں انہوں نے مذہب وکلچر کو انسان کا ذاتی اور انفرادی مسلہ قرار دیا۔سیاست کی بنیاد انسانی ضروریات اور سماجی تجربات پر رکھی اور آئیدیالوجی سے نجات حاصل کرنے کی بھرپور کوششیں کی گئیں،مگر ہزار کوششوں کے باوجود آئیڈیالوجی کے کچھ نفسیاتی،طبقاتی اور جغرافیائی پہلووں سے انسان نجات حاصل نہیں کر سکا۔ہر عہد کی ایک آئیڈیالوجی ہوتی ہے جو اپنی تصدیق کے لئے تجربے کی محتاج ہوتی ہے۔قرون وسطیٰ میں سیاست پر مذہب کا رنگ غالب رہا اور سیاسی آئیڈیالوجی مذہب کی کنیز بنی رہی،مگر انسانی تجربات کے ہاتھوں ارتقا کا عمل کافی حد تک سست رہا،سولہویں صدی میں یورپ میں مذہبی رنگ کی چھاپ گہری رہی،انیسویں صدی کے وسط تک سائنسی ازم اور بیسویں صدی میں کمیونزم اور سوشلزم کا طوطی بولتا رہا،پھر لبرل ڈیموکریسی اور سوشل دیموکریسی نے تضادات اورسخت گیری کو ختم کرنے کی کوششیں کیں۔ازم اور آئیڈیالوجی نے دنیا کو دو بلاکوں میں تقسیم کر دیا۔مگر یہاں تماتر سیاسی آئیڈیالوجی کا مرکز سخن انسانیت کی بقا،آزادی اور جمہوریت تھی،استحصال سے پاک معاشرے کا قیام تھا۔مارکسزم نے دنیا بھر کے قدیم نظریات کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا،دنیا بھر میں انقلاب کی صدائیں بلند ہونے لگیں،مارکسزم نے نہ صرف سیاست بلکہ دیگر شعبہ جات میں بھی انقلابی تبدیلیوں پیدا کیں۔جس کا بنیادی مقصد استحصالسے پاک غیر طبقاتی معاشرے کا قیام تھا،یہ تجربہ اپنے اندر بہت سے تضادات اور انسان کی نفسیاتی کمزوریوں کے باعث ناکام ہوا مگر جاتے جاتے انسانیت کو بہت کچھ دے بھی گیا۔آج کی ترقی یافتہ فلاحی ریاستوں پر مارکسی تعلیمات کا گہرا اثر ہے۔مگر سوشلزم اور کمیونزم ،ازم،کلیت پسندی،سخت گیری،اتھاریٹیرین،غیرجمہوری رویے،اور شخصی آزادی کے طعنوں سے بچ نہیں سکے۔منڈی کی معیشت نے اس کا دور تک پیچھا کیا،منصوبہ بند معیشت نہائیت سادگی سے سرمایہ داروں کے ہاتھ سے مات کھا گئی۔اسکو علامہ اقبال نے بھی خراج تحسین پیش کیا تھا۔اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے۔مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے۔علم سیاسیات کے عالموں نے کمیونزم اور سوشلزم کو آزادی اور جمہوریت کے منافی قرار دیا۔انسانی نفسیات سے متصادم سمجھا اور اسکو ایک سائنسی متشدد مذہب کے روپ میں پیش کیا،جبکہ سوشلزم کی بنیاد سائنسی حقائق،تاریخی وسماجی تجربات وحرکیات پر تھی،کسی بھی قسم کی آئیڈیالوجی کا منکر تھا۔یہ مزدور طبقہ کی بالادست طبقہ پر طبقاتی جدوجہد کے ذریعے حکمرانی چاہتا ہے،تاریخی شواہد یہی بتاتے ہیں،مگر یہ نظریہ روبہ زوال ہے۔ریاست کا خاتمہ بھی اسکے آدرش میں شامل ہے۔سماج میں صرف اسکے نزدیک دو طبقے یعنی ایک ظالم اور مظلوم ہیں۔مگر اب سماج میں ایک سے زیادہ طبقات اپنا وجود رکھتے ہیں۔جسکی بنیاد پر یہ بھی ایک طرح کی آئیڈیالوجی بن کر رہ گیا ہے،اور اسکو پہلے جیسی اب قبولیت نہیں رہی ہے،مگر پسماندہ اور استحصال زدہ معاشروں میں اس کا بیانیہ مختلف شکلوں میں زندہ ہے۔ سوشلسٹ تحریکیں جن جن معاشروں میں طاقتور رہیں وہاں اتنا ضرور ہوا کہ روائیتی منفی آئیڈیالوجی کا خاتمہ ہوگیا،سیاست میں عملیت پسندی اور حقائق کو جگہ مل گئی۔ازم اور آئیڈیالوجی کی چھاپ ماند پڑ گئی اور خوشحال معاشروں کا قیام عمل میں آیا۔ازم جو تاریخی تضادات کی پیداوار تھا،دھیرے دھیرے دم توڑ گیااور سیاست میں ازم ایک طاقتور بیانیہ کے طور پر قائم نہ رہ سکا۔سوشل ڈیموکریٹ اصلاحات کے قائل ہیں،مگر ایک مخصوس فلاحی ریاست کا قیام چاہتے ہیں اور یہ تصور انکو بھی آئیڈیالوجی کے خانے میں داخل کر دیتا ہے۔قومیت پسندوں کے ہاں سخت گیر آئیڈیالوجی کے انسان دشمن عناصر موجود ہیں،جس کی بنیاد نسل قومیت اور مذہب پر قائم ہے۔موجودہ زمانے میں ہندوستان اسکی بدترین مثال ہے،جہاں ہندو آئیڈیالوجی نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی جمہوری اور شخصی آزادیوں کا گلہ دبایا ھوا ہے۔دوسری طرف افغانستان میں طالبان کی سخت گیر سیاسی آئیڈیالوجی امن وترقی کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے،جسے دیگر نسلی و مذہبی موڈریٹ طبقات کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔اگر طالبان اپنی آئیڈیالوجی کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے اعتدال کا راستہ اختیار کر لیں،تو افغانستان ایک بہتر اور کامیاب ریاست بن سکتی ہے۔انکی نیت صاف ہے مگر طریقہ کار میں اعتدال نہیں ہے۔انہیں آئیدیالوجی کے تجریدی پہلووں کے بر عکس اپنی سیاست کی بنیاد زمینی حقائق کے مطابق رکھنی چائیے۔مذہبی سیاسی آئیڈیالوجی اپنے سخت گیر مفہوم میں انسانی نفسیات اور ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ طالبان کے تصور اسلام میں علمی لحاظ سے کجی ونقص پایا جاتا ہے، اسلام کی عقلی اور روحانی روح جو عہد رفتہ میں سائنس وفلسفہ کیساتھ ہم آہنگ تھی۔ارتقا اور ترقی جس کاخمیر تھا۔دوسری تہذیبوں سے کسب علم جن کا ایمان تھا۔خذ ما صفا ودعا ماکدر کے اکتسابی اصول پر عربوں نے جو ترقی کی دوسری اقوام سے علوم وفنون مستعار لیکر ایک نامیاتی کلیت سے جدید تہذیب کی بنیا درکھی سراسر قوائے عقلی اور ارتقائی اصولوں کی نمائندہ تھی۔انہوں نے ہندوستان سے علم ہندسہ وفلکیات،یونان وروم سے فلسفہ،طب اور دیگر علوم مستعار لئے۔ماضی پرستی و عقیدہ پرستی کے بر عکس ارسطو کے فلسفہ تجربہ ومشاہدہ پر علم کی بنیاد رکھی،مگر طالبان کی آئیڈیالوجی جوں کی توں اپنے سلف کی مظہری نقل کرنے پر بضد ہے جو معنویت سے نا بلد ہے،جسے انکی سیاسی وعلمی آئیدیالوجی تعطل وجمود کا شکار ہے۔انہیں اپنے آپکو عصری شعور اور تقاضوں کے سانچے میں ڈحالنے کی ضرورت ہے۔اس بنا پر مودی کی ہندو ازم کی آئیڈیالوجی اور طالبان کی سخت گیر آئیدیالوجی ایک مخصوص طبقہ کے علاوہ دوسروں کے لئے ضرر رساں ہیں۔ جہالت عقیدت کی ماں ہے کا طعنہ ابھی تک امت مسلمہ کو سننے کو مل رہا ہے۔ سیاسی اائیڈیالوجی ایک لمبا تاریخی سفر طے کر کے آج سوشل ڈیموکریسی تک پہنچی ہے جس کا آج بھی اپنا ہدف سوشلزم ہے۔سوشلزم اورریاست مدینہ کے تاریخی تصور کی ارتقائی اساس ایک ہی ہے۔ اسی طرح انار کسٹوں کو اپنی مرضی کی ریاست کے قیام کے لئے تنظیم سازی،مفادات کی کشمکش، ریاست کا قیام کے تمام مراحل سے گذرنا ہو گا جو کہ ایک آئیڈیالوجیکل عمل ہے۔
آئیڈیالو جی ازم اور آرتھوڈکس ماکسزم و سوشلزم کی سخت ترین شکلوں سے نکلنے کے لئے ایک تیسرے رستے کا انتخاب ضروری تھا، جسکو ڈ یمو کریٹک سوشلزم یا سوشلسٹ دیمو کریسی کا نام دیا گیا۔۴۷۸۱ مین لندن کی فیبین سو سائٹی نے اس تیسرے رستے کا انتخاب کیا کہ اینٹی یوٹوپیا سیاست کی داغ بیل ڈالی جائے،جسمیں جمہوریت پسندی،شخصی آزادی،عقلیت پسندی،اصلاح پسندی، وسعت نظری، عملیت پسندی، اخلاقی اقدار، انجذابیت، اور سمجھوطے کی سیاست کو فروغ دیا جائے، جس کو سوشل ڈیمو کریسی یا ڈیمو کریٹک سوشلزم کا درجہ بھی دیا گیا، جس کا تعلق لبرل ڈیمو کریسی سے بھی قائم رہا۔برنسٹن نے اس کو معتدل سوشلزم کا نام دیا،اس نے چھوٹے اور بڑے کاروبار کو قابل عمل قرار دیا۔ طبقات دو نہیں بہت سے ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے،اشیا ئے صرف میں اضافہ ہو رہا ہے، استحکام کے لئے ضروری ہے کہ ریگولیشن کی جائیں نہ کی طبقات کا خاتمہ کیا جائے، ذراعت میں چھوٹے قطعہ اراضی بڑھ رہے ہیں بنکنگ، تجارت، محصولات اور روزگار میں اضافہ ہو رہا ہے، اصلاحات،پنشن،سوشل سیکیورٹی، تعلیم میں بہتری نظر آ رہی ہے، طبقاتی تفریق میں کمی آ رہی ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے بر عکس عوام اجتماعی کوششوں سے تبدیلی لانا چاہتے ہیں،جس میں کم وبیش سب طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ سوشلزم حقائق پر مبنی ہے مگر بتدریج تبدیلی انسانی مزاجوں کے عین مطابق ہے۔ لینن اور مارکس کا سخت گیر تبدیلی وانقلاب کا تصور اب ماند پڑ گیا ہے کیونکہ صنعتی وجاگیرداری عہد کے استحصالی مظہریات ختم ہوتی جا رہی ہیں۔جب طبقات کو بنیادی ضروریات زندگی میسر ہوں تو طبقاتی تفریق کی ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انقلاب کی ناگزیریت دم توڑ چکی ہے، ازم سائنس نہیں اخلاقی ونفسیاتی طور پر جو قبول ہے اور جو ہے وہی سائنس ہے، عملیت پسندی۔ عقلیت پسندی۔ اخلاق اور اقداری سماج عوامی مزاج سے مطابقت رکھتا ہے، طبقاتی بالا دستی جمہوریت نہیں ہے۔ اقلیت اور اکثریت کی جارحیت معنی نییں رکھتے،سنجھوطے اور افہام وتفہیم کی سیاست قابل عمل ہے۔ مارکسزم صنعت،پیداوار اور دولت کی تقسیم سے جڑا ہوا ہے، اور ایک طرح کی تخیلاتی یورش کا نمائندہ ہے جبکہ فیبین تجربیت اور عملیت پسند تھے اور شخصی آزادی وجمہوریت کے علمبردار،۰۰۹۱ میں ٹریڈ یونین کا قیام عمل میں آیا جنہوں نے قانون کے اندر رہتے ہوئی اصلاحات کے لئے جدوجہد کی۔ برطانوی سوشل ڈیموکریسی مارکسزم کی ارتقائی شکل ہے، جو بتدریج اصلاحات کے ذریعے سوشلزم کا ہدف حا صل کرنا چاہتی ہے،مگر عقل وتجربہ کے عمل سے گذر کر یہ فیصلہ کرتی ہے،اسمیں انقلابیت نام کی کوئی شے نہیں اور نہ ہی انقلاب کی کوئی ممکنہ صورت یہاں موجود ہے۔ پارلیمنٹ اور عدالت کے ذریعے تبدیلی لانا مقصود ہے۔ عملیت پسندی کے نزدیک آئیڈیالوجی انسان کو غلام بناتی ہے جبکہ ٹیکنالوجی با اختیار،جسے معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔اس بنا پر برٹش سوشلزم مارکس کے سوشلزم سے مختلف ہے۲۹۹۱ میں ٹونی بلئیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈیمو کریٹک سوشلزم کا سلسلہ جاری رہے گا،عملیت پسندی و اخلاقی اقدار قائم رہیں گی۔ معاشیات اخلاقی واقداری بھی ہوتی ہے۔ سوشلزم ریڈیکل لبرل ازم کا ورثہ ہے۔ عدل اجتماعی،یکساں مواقع، غربت، تعصب اور نا انصافی و بیروزگاری کا خاتمہ، برداشت، سمجھوتہ اورا نٹر پرائزنگ سے چھوٹے اور بڑے کاروبار کی ترقی۔علم و تجربہ کیساتھ اخلاقی اقدار کی پاسداری بھی ہمارے ایجنڈے میں شامل ہے چیزیں جس طرح موجود ہیں اسطرح انکو بیان کرنا ہے نہ کہ تخیلات سے ان پر ملمع کاری کرنی ہے۔ اسی طرح ۹۵۹۱ میں جرمن سوشل دیمو کریٹک پارٹی نے بھی آرتھو ڈکس مارکسزم میں اصلاحات کیں۔ مقابلہ اور منڈی کی معیشت کو سویڈیش سوشلزم کی پیروی میں متعارف کرایا گیا۔ یعنی معاملات کی نوعیت وحقیقت ہی انسان کا تصور ہے۔برکی نے کہا جرمنی میں یو ٹوپین سوشلزم ہوگامگر سوشلزم کا یوتوپین آدرش نہیں ہو گا۔ پوسٹ لبرل ازم کے بعد سوشلزم اخلاقی اقدار اور انسانی ضروریات کو کماحقۃٰ پورا کرتی ہے۔انقلاب کی ناگزیریت اور طبقاتی جدوجہد عقل و اخلاق کو چیلنج بھی کرتی ہے۔ احساس بیگانگی کا مسلہ صرف انقلابیوں کے لئے ہے، دوسروں کے لئے نہیں۔ کاروباری طبقہ کو منڈی سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور نہ منڈی کے بغیر معیشت چل سکتی ہے۔ طبقہ اور ہیومین ایجنسی کا مسلہ ہر جگہ ہے، قوانین کی پابندی ضروری ہے۔ اصلاحات اور یکساں مواقع کی فراہمی کے ذریعے چھوٹے طبقات خود بخود ترقی کر کے دوسرے طبقات میں شامل ہو جاتے ہیں۔
اب آئیڈیالوجی کی سیاست کی جگہ دنیا بھر میں لبرل ڈیمو کریسی اور سوشل ڈیموکریسی کا دور دورہ ہے، جو معاشرے عقل وتجربہ کے ذریعے اصلاحات لانے میں کامیاب ہوئے ہیں وہ سوشل ڈیموکریسی کے درجے پر پہنچ چکے ہیں اور جہاں سیاسی نظام عوامی جمہوریت کے بر عکس عسکری اداروں کے زیر اثر ہے یا مداخلت کا شکار ہے، مذہبی آئیڈیالوجی غالب ہے۔ جاگیرداریت و قبائلیت کے اثرات سیاست پر قائم ہیں۔ خاندانی و طبقاتی سیاست کا رواج عام ہے وہاں جمہوریت رینگنے پر مجبور ہے۔ سیاست وجمہوریت میں عقیدہ پرستی اور مذہبی تجریدی پہلوں جہاں شامل ہیں وہاں بھی مسائل کے حل اوراصلاحات کا عمل سست روی کا شکار ہے، سوشل ڈیموکریسی ان ہی ملکوں میں کامیاب ہوئی ہے جہاں ابتدا میں ہی ذرعی اصلاحات کی گئیں، جاگیرداروں کا اسمبلیوں میں براجمان ہونا دور وحشت کی علامت ہے۔ جاگیردار اور اصلاحات اک دیوانے کا خواب ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں جاگیرداری کا قائم رہنا کسی بھی ریاست کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،ذرعی اصلاحات کے بغیر معاشرے کا درست توازن کبھی قائم نہیں رہ سکتا،سرمایہ داری جلدی اصلاحات کی راہ ہموار کرتی ہیں جبکہ جاگیردارانہ اقدار جمود وتعطل کا باعث بنتی ہیں۔ مذہبی جنونیت سیاسی آئیدیالوجی کی ایک منفی شکل ہے۔جاگیرداریت اور عسکریت اسے خراج حاصل کرتے ہیں جو انکی بقا اور مفاد کے لئے لازمی ہے۔جسے حقیقی عوامی جمہوریت پنپ نہیں سکتی اور سماجی ارتقا و ترقی رک جاتی ہے۔ مغرب میں ایک معتدل منصفانہ جمہوری نظام کے قیام کے پیچھے جاگیرداری کا خاتمہ اہم اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔یورپ پر قدرت کا سب سے بڑا کرم مارکسی انقلاب تھا،اگر وہ نہ آتا تو یورپ آج بھی ایک وسیع طبقاتی تفریق میں گل سڑ رہا ہوتا۔ یاد رہے کہ مارکس نے آئیڈیالوجی کی دو قسمیں بتائیں تھیں ایک مثبت اور دوسری منفی،جبکہ وہ سوشلزم کو مکمل طور پر سائنسی سمجھتا تھا۔ازم وآئیڈیالوجی سے نکل کر ہی انسان ایک نئی دنیا بسا سکتا ہے جو حقیقت پر قائم ہو۔یہ ایک ارتقائی عمل ہے مگر سوشلزم انسانی بقا کے لئے ضروری ہے،جس کی معتدل شکل سوشل ڈیموکریسی کی شکل میں کامیاب جا رہی ہے۔