اسلامی تہذیب کی تاثیر
اسلام کے تنھا ماخذ نبیﷺ ہیں جنہوں نے اپنی تحریک سے 23سال میں عرب بدوؤں کے ہاں موجود جمود کو توڑ کر انکو اسلامی تحریک سے متحرک کردیاجس پر انہوں (صحابہ) نے اس تحریک کی حقانیت دوسری قوموں پر ظاہر کرنے کا بیڑا اُٹھا لیاجہاں جہاں اِن کو فوجی مداخلت کا سامنا کرنا پڑتا تو مقابلہ کرتے تھے جن پر نبیؐ کے اقوال تحریک پیدا کرتے تھے حالانکہ اندرونی خلفشار سے مسلمان جتنے اللہ کو پیارے ہوئے اتنے غیر مسلمانوں سے لڑتے ہوئے نہیں ہوئے تھے خلفاء راشدین کے30 سالہ دور میں لڑائیاں چلتی رہی۔اموی دورنے تحریک کے جمہوری روایات میں 83 سال بڑی مشکل سے مکمل کیے۔ جس میں اسلامی ریاستوں کے باشندوں سے بیعت لینا ضروری ہوتی تھی اس دور میں ایک عظیم واقعہ رونما ہوا یزید نے حسینؓ سے زبردستی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی جس پر ایک فساد برپا ہوگیا لیکن جمہوری روایات قائم تھی ان کی رائے کی شمولیت کا ہونا لازمی امر تھا لیکن جان دے دینے پر بھی یہ حق انہوں نے کسی کو نہیں دیا پھر بعد کی بادشاہوں میں ایسا دیکھائی نہیں دیتا یہانتکہ مسلمان اور عالم اپنا ضمیر پیچ دیتے تھے اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق نہیں کہہ سکتے تھے یہی جمہوری روایات کسی قوم کا اثاثہ ہوتی ہیں۔ اس کے بعد نئی بادشاہی آمریت کا دور شروع ہوا جسے عباسی دور کہتے ہیں اس دور میں احادیث، فقہ، فتاویٰ، قواعدو ضوابط، اختصار، ترجمے، اسلامی فلسفہ، اسلامی صوفی، نفسیاتی سائنس، تفاسیر، صرف و نحو، تاریخ، فارسی تہذیب کی احیاء، تحریک پر تقدس کا لبادہ اُڑھا دیا اور اُسے باقاعدہ الہامی مذہب بنادیا گیاجیسے یہودی، عیسائی، سمیرین اور پارسی مذہب کی ترتیب ہے چونکہ اس سے پہلے تہذیب کو مرتب کرنے کا موقع میسر نہیں آیا تھا۔ اس بات پر ایک واقعہ بیان کرتے جاتے ہیں حضرت عمر نے ایک شخص کو طلب کرنے کیلیے ایک شخص کو بھیجا۔وہ شخص حاضر ہوکر تین مرتبہ دروازہ کھٹکھٹا کر واپس چلا گیا۔ حضرت عمر نے واپس طلب کیا اور سزا دینے کا حکم بھی ساتھ دیا کیونکہ حکمران کا حکم بجا نہیں لایا گیاتو اس شخص نے کہا حضور میں آیا تھا نبیؐ کی تعلیم کے مطابق تین مرتبہ دستک دی جواب نہ ملنے پر واپس چلا گیاتو عمرؓ نے کہا اس حدیث پر گواہ لاسکتے ہوتو اس نے تصدیق کرا دی تو انہوں نے سزا کا حکم معدوم کردیا ایسے ہی کئی معاملات پر مکمل قانون سازی نہیں ہوئی تھی۔
جب کبھی پاکستان کے آئین کی ترتیب دینے کی باری آتی توایوانوں میں پاکستان کی تہذیب کی مباحث چھڑجاتے تھے کوئی اسے عربی تہذیب قرار دیتا، کوئی فارسی تہذیب اور کوئی قدیم ہندی تہذیب قرار دیتا ہے اسی طرح تہذیب کے احیاء میں کئی عوامل شامل ہوتے ہیں جیسے لوگ کس دور میں پیدا ہوئے ہیں، کس جگہ رہ رہے ہیں، شہری اور دیہی رواجوں میں کتنا فرق ہے، زیادہ تر لوگوں کے اعتقاد کیا ہیں، اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے کتنے لوگ مستفید ہیں
فارسی تہذیب کو اسلامی لبادے میں ملفوف کرکے پورے اسلام میں پھیلا دیا گیا۔ فقہی اماموں کے پاس فاطمی سلطنت سے لوگ آکر علم حاصل کرنے کی عام روایات ملتی ہیں ایسے ہی دوسرے علوم کی روایات ملتی ہیں۔ حتیٰ کہ عثمانی دور میں سلیمان بادشاہ نے مارٹن لوتھر ایک عیسائی عالم و مبلغ تھا جامعۃ المدینہ و مکیہ میں وظیفہ مقرر کرکے تعلیمی سیر اور تہذیبی ترقی کی جھلکیاں دکھائی جس پر مارٹن لوتھر نے 95نکات پر مشتمل مضمون وٹن برگ کے گرجا گھر پر ٹانگ دیا تھا جہاں سے مسلمان کلیساء میں مذہبی منافرت پھیلانے میں کامیاب ہوگئے ان لڑائیوں کے نقصانات اور قیمتی جانوں کے ضیاع اپنی جگہ لیکن افادیت سے مغربی ممالک ابھی تک استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ یہ اس لیے ممکن ہوا تھا کہ مسلمان تہذیبی طور پر محکم تھے۔عباسی دور کی کتب اِس وقت بھی اور موجودہ دور میں بھی مستند مانی جاتی ہیں کیونکہ وہ تہذیبی طور پر اسلام سے ماخوذ ہوکر رسوخ رہنے میں کافی وقت بھی گزرا تھا۔اس کے بعد اسلام علمی حیثیت سے نا تبلیغ کیا گیا، نا کوئی مسلمان ہوا۔اہل تشیع کے ہاں علمِ نجوم بارہویں صدی میں لکھا گیا اسی دور میں احیاءالعلوم کی تحریکیں چلی جس پر کئی کتب لکھی گئی تھی
اسلام چھوڑنے پرقتل(ارتداد)ایک سلطنت کا عمل ہے جسے مذہب کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے کیونکہ جب وہ اسلام کو قبول کرتا ہے تو دل سے کرتا ہے ایمان لاتا ہے اور اگر وہ چھوڑتا ہے تو دل سے چھوڑتا ہے اس میں کوئی قانونی عملدرآمد نہیں کی جاسکتی اس طرح ذاتی عبادات نماز،روزہ اور حج پر جھوٹی احادیث بیان کرکے وعیدیں سنائی جاتی تھی وہ اقوال کئی نا کئی لوگوں کی زندگیوں اور کتابوں کا حصہ بن کر مستند حیثیت سے کامل مسلمان کی تہذیبی نشانی بن گئے جو نہیں کرے گا اس پر ارتداد کی حد لاگو ہوگی۔ مرتد کو سوچنے کا وقت دیا جائیگا اسکے بعد قتل کردیا جائیگا کیونکہ اس نے اسلام کے ساتھ غداری کی ہے ۔کیا اس کی حرکت سے اسلام کو خطرہ ہے؟ایسے عوامل سے اسلام کی حقانیت خطرے میں ہے نہیں بلکہ وہ تہذیب خطرے میں ہے جسے مسلمانوں نے اپنے عروج پر عباسی دور میں مکمل کیا تھا۔ اسلامی سلطنت میں رہنے والے غیر مسلموں کو پہلے دعوت دی جائیگی، اس کے بعد جزیہ دینے کا حکم، ورنہ تلوار انصاف کرے گی جدید دور میں لوگ ٹیکس دے کر شہریت میں رہتے ہیں اور ملکی سہولیات حاصل کرتے ہیں۔ چونکہ اسلام جدید اور آخری اللہ کا نازل کردا مذہب ہے اس سے پہلے تمام ادیان کی تنسیخ کردی گئی ہے اور اطاعتِ محمدی ہر شخص پر فرض ہے۔ ڈاھڑی،نماز، جبروقدر، الہویت، کپڑے پہننے، کھانا پینا، معاملات، نکاح و طلاق کے مسائل، ورثے کے مسائل پر مباحث کرکے متعین کرنے کی ناکام کوششیں کی گئی۔جس پر راسخ العقیدہ مسلمانوں، عقل پرست مسلمانوں میں تقابلی مباحث ہوتے رہتے تھے کبھی موقع ملتا بادشاہ مخالفین کی زردوکوب کرتا۔امام غزالی کا صوفیانہ انداز میں ملاجلا رحجان رہاجس پر راسخ العقیدہ لوگوں نے اپنے مقاصد کی باتوں پر امام غزالی کو مہر ثبت کیا جبکہ امام غزالی موسیقی کے حق میں قوی دلائل دیتے ہیں جس پر کوئی مسلمان دلیل نہیں لاسکتا تو سرسری باتیں ،مطلقاً انکار کرکے دوسری طرف ہوکر دوسرے سے ایمان کا تقاضہ کربیٹھتے ہے اور اسے فحاشی کا موجب قرار دیتا ہے۔اسی لیے عورتوں کیلیے پردے کا انتظام اورمردوں کیلیے سر پر ٹوپی لازمی عنصر ہے حالانکہ یہ انتہائی فارسی تہذیب کاحصہ ہے۔ نبیؐ نے لوگوں کو اندھیرے میں شک سے نکالنے کیلیے اپنی بیویوں کا تعارف بھی کرادیتے تھے ورنہ کسی کو کیا پتہ برقعے میں کونسی عورت کس مرد کے ساتھ ہے۔ راسخ العقیدہ لوگوں نے اپنا اثرو رسوخ ایسے بھی قائم رکھا تھا کہ جونہی کوئی مسلمان عقلی بات کرتا تھا تو اس پر مرتد کا الزام اور واجب القتل کی حد لگا دیتے تھے۔ یہانتکہ کئی عام مسلمانوں کو دشمنی کے سبب اور سائنسدانوں و فلاسفہ کواذیت کا نشانہ بنایا گیاجس سے مسلمانوں پر تاریکی چھا گئی لیکن اس عمل سے اسلام کی حقانیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ گاندھی جی کہا تھا کہ مسلمانوں کے عمل سے اسلام کو جانچا جارہا ہے
سات آسمان اور سات زمینوں کا ذکرہر مذہب میں پایا جاتا ہے۔قرآن میں زمین کیلیے واحد عربی (الارض)پائی جاتی ہے پھر بھی علماءِ اسلام سات زمینوں کا ذکر کرتے ہیں جبکہ اس معاملے میں سائنس کو بھی نہیں مانتے۔ وہی پرانے مسائل جن پر عباسی دور میں مباحث ہوتے تھے کتب میں موجود ہونے کی صورت میں صحیح بحثیں ہوتی ہیں بلکہ جمعے کا ممبر اسی کام کیلیے مختص ہوتا ہے۔مسلمان قرآن چھوڑ سکتے ہیں لیکن حدیثوں کی صحت پر بات نہیں کرسکتے۔
اسلام میں جہاد بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ جسے جنگ و جدل کے ساتھ جوڑنا ایک انتہائی خطرناک عمل ہے۔ جب جب انگریزوں نےترقی کی اور اسکو دوسرے ممالک پر اثرانداز کرنے لگے تو زرعی تہذیبیں معدوم ہونے لگی۔ جسے سموئیل پی ہنٹنگٹن اپنی کتاب تہذیبوں کے تصادم میں بتایاہے کہ کیسے گورے اپنی ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنی تہذیب بھی دوسرے ممالک تک پہنچاتے ہیں اسکی ایک کڑی تیسری دنیا کے ممالک کے لوگوں کو عیسائی بنانے کی ناکام کوشش تھی۔ مسلمانوں نے ذرا سا کچھ دیکھا تو اسے سازش سمجھا اور اس کے خلاف جہاد کو اپنا عظم بنا لیا جس سے ایک سنسنی پھیل گئی ہے ایک طرف مسلمان اپنی جماعتوں میں القاعدہ، طالبان، اخوان المسلمین، داعش وغیرہ میں لوگ شامل ہوکر وسعت دے رہے ہیں دوسری طرف مغربی ممالک ان کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ دہشتگردی کی جوابی کاروائی پر گوروں کو کوئی دہشت گرد نہیں کہتا؟ حالانکہ یہودیوں کی اسرائیل ریاست بھی ایک مذہبی تہذیبی احیاء کا ایک قدم ہے۔ لیکن مسلمان جس تہذیبی احیاء کے داعی ہیں وہ خالصتاً عباسی تہذیب کا احیاء کے اُصول اور قوانین تو وہی ہیں لیکن نام اور کردار میں خلیفہ کا استعمال کرتے ہیں
ہندوستان میں جب برطانوی حکومت کے خلاف ہندوستانی مسلمان اور ہندو سرگرم عمل تھے تو جہاد کو اسلام سے جوڑ کرمغلی خلافت کے احیاء کی طرف قدم بڑھا رہے تھے اور اس سے بڑھ کر عثمانی دورکے اختتام کیلیے بھی پریشان تھے تو ان میں مرزا غلام احمد صاحب نے جہاد بالنفس کو افضل قرار دیا جسے انگریزوں نے صحیح استعمال کیا ۔ جنگی جہاد پر پاکستان میں ایک تحریک بنی جس نے اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کی اور جنگی جہاد کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جن کے بنیادی مقاصد اسی خلافت کا احیاء تھا جسے اسلام نے تحفۃ مسلمانوں کو دیا تھا اور اسکے پیچھے شجاعت پسندی(Heroism) کی باتیں تھی جن کے مقابلے میں کئی صوفی تحریکیں بھی بنی تھی
فارسی قوم اپنے رہنماؤں کے مرنے پر مخصوص رسوم ادا کیا کرتے تھے یہانتکہ ویسا رہنما دوبارہ میسر نہ آجائے اس کیلیے کوئی بھی قوم اپنے لیے مسیح ماعود کا ذکر کرتے تھے کہ رہنما کے متعلق نشانیاں بیان کی جاتی تھی تاکہ جامد نہ ہوجائیں۔ اہل سنن اور اہل تشیع میں مسیح ماعود کیلیے بالکل مختلف نظریات بیان کرتے ہیں جسے بڑے علماء کرام الگ الگ بیان کرکے موازنہ کرتے ہیں کہ یہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ۔ اسی طرح پارسیوں میں تین اذانیں اور عرب میں سات اذانیں دی جاتی تھی ان پر مالکیوں اور تشعیوں کے پاس مکمل دلائل موجود ہیں
اسلامی ممالک تیسری دنیا کے لوگ پہلی دنیا کے مڈل مین سے مقامی مڈل مین تاثر لیتے ہیں تو وہ تہذیبی مداخلت ہوتی ہے جس پر اسلامی علماء شدید مخالفت کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اسکے مقابلے میں دوسری دنیا کی مداخلت یا وہاں پردی جانے والی اذیت ویسی اہمیت نہیں رکھتی ۔ کیونکہ وہ اسلامی تہذیب کو ویسے نہیں للکارتے جیسے پہلی دنیا کے لوگ للکارتے ہیں
مندرجہ بالا باتیں بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تہذیبی ارتقاء کئی عوامل سے گزرنے کے بعد لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں لاتے ہیں ان روایات کو مستقل گلے کے ساتھ لگا کررکھنا ممکن نہیں ہوتاچاہے اسے جتنا مرضی تقدس کا لبادہ پہنادیا جائے۔ ہر انسان میں سوچ کے پہلوؤں میں تبدیلی ہوتی ہے یہ تبدیلی معاملات سے ظاہر ہوتے ہیں اور انسان ایک دوسرے کے معاملات سے متاثر ہوتا ہے جب ان معاملات میں زیادہ تبدیلی آنے لگے تو تہذیبی احیاء کے دور میں شامل ہوتے ہیں۔ انسان کائنات کی قدرت کے بعد تہذیب کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انسان اپنی تہذیب کی پہچان ہوتا ہےاور اسکی بنیاد کئی تہذیبوں ، علاقوں، ٹیکنالوجی، وقت کی دین بھی ہوسکتے ہیں جو مسلسل اس پر اسکی تہذیب پر اثرانداز ہورہے ہوتے ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“