عرب سے نکلنے والی نئی قوت نے صرف پچاس برس میں اس خطے کی ہزاروں سال پرانی تاریخ الٹ دی تھی۔ مصر، شام، عراق، ایران تک ان کا قبضہ تھا۔ جب اموی خلیفہ عبدالمالک ابن مروان نے اقتدار سنبھالا، اس وقت تک یہ نئی طاقت خود انتشار کا شکار تھی۔ اموی فوج کی عراق اور حجاز میں عسکری فتوحات کے بعد یہ تمام علاقہ ایک سیاسی یونٹ میں بدل کیا۔ بازنطینی سلطنت کا فتح کردہ شہر دمشق بنو امیہ کے دور میں دارالحکومت رہا۔ 76 ہجری میں خلیفہ نے پہلی بار اس سیاسی اکائی میں نئی کرنسی جاری کی۔ ساتھ لگی پہلی تصویر وہ پہلا سکہ ہے جو کہ جاری کیا گیا۔ یہ ایک مثقال وزن کا سونے کا سکہ ہے جو ایک دینار کہلاتا تھا۔ عربی لباس میں، ہاتھ میں تلوار پکڑے اور کمر میں کوڑا باندھے خلیفہ کا یہ سراپا کسی بھی مسلمان حکمران کی ہمارے پاس محفوظ سب سے پرانی تصویر ہے۔ یہ سکہ جاری ہونے کے بعد دوسری کرنسیوں کا استعمال خلافت میں ترک کر دیا گیا۔ اسلامی خلافت کی پہلی کرنسی اس پوری علاقے پر کنٹرول کا اعلان تھی۔
دوسرا سکہ خلافت کی طرف سے اس کے بعد جاری ہونے والا سکہ ہے۔ اس میں اہم چیز یہ ہے کہ خلیفہ کی تصویر غائب ہے اور سورہ الاخلاص سکے پر لکھی ہے۔ قرآن کو لکھ کر محفوظ کرنے کیلئے کوفی رسم الخط بنایا گیا جو خطاطی کا پہلا رسم الخط تھا اور گیارہویں صدی تک قرآن لکھنے کیلئے صرف یہی رسم الخط رہا۔ اس سکے پر لکھی گئی یہ عبارت قرآن کی کسی بھی لکھی ہوئی شکل میں سب سے پرانی آیات ہیں جو آج تک محفوظ ہیں۔
اگرچہ ابتدائی سکے پر خلیفہ کی شکل موجود تھی مگر ایک بار ہٹا دئے جانے کے بعد اگلے ایک ہزار برس تک کرنسی پر کسی بھی جگہ پر کسی شکل میں نہیں ملتا۔ بادشاہ کا نام اور آیات لکھنے کی روایت عباسی، صفوی، خوارزمی، عثمانی اور دہلی سلطنت کے دور میں بھی رہی۔ پھر عام استعمال کی چیزوں پر آیات لکھنا ناپسندیدہ قرار دیا گیا کہ یہ ان الفاظ کی بے ادبی ہے اور مغلیہ دور میں بادشاہ کی شکل پہلی بار واپس کرنسی پر واپس آ گئی۔
دنیا کے کئی میوزیم اب ان کی کلکشن رکھتے ہیں۔ عبدالمالک بن مروان کے جاری کردہ اس پہلے سکے کو بی بی سی نے دنیا کی تاریخ کا ایک اہم موڑ قرار دیا۔
برٹش میوزیم کی اس پر رپورٹ یہاں سے