(Last Updated On: )
سیاست یعنی ملکی تدبیر وانتظام۔ اس سادہ سے لفظ کا مفہوم جہاں کچھ افراد کیلئے قابل فہم ہے وہیں کچھ حضرات کیلئے مشکل اور الجھا ہوا ہے۔ وہ چیز جو سیاست کے مفہوم و معنی کو گنجلک بناتی ہے ، اس کا تعلق انسان کے خود اپنے تصورات سے ہے اور یقینا ان تصورات کواقتدار و بادشاہت کے طلبگار افراد نے لوگوں کو فریب دینے کی غرض سے ان میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیںتاکہ ان کی مطلق شہنشاہی برقرار رہے اور لوگ سیاست کی حقیقی صورت سے ناواقف رہیں۔ اس کے مفہوم کو اتنا بگاڑ دیا کہ لوگوں نے لفظ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور دین و سیاست کو ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا۔
شہید مطہری کا کہناہے ھوای وہوس کے خواہاں اورجو اسلام کے سرنگوں ہونے کے منتظر ہیں انکی ہمیشہ سے یہ آرزو رہی ہے کہ دین ،سیاست سے دور ہو جائے جبکہ دین و سیاست کی نسبت ایسی ہے جیسے بدن و روح جسکا علحدہ ہونا ہر ایک کیلئے نقساندہ ثابت ہوگا ۔فہم سیاست کا فقدان ایک مہلک بیماری ہے جو ایک رہبر اور بہتر معاشرتی نظام کے لئے مضر ہے امام علی فرماتے ہیں : آفة الزعماء ضعف السياسة یعنی معاشرہ میں فہم سیاست کی کمزوری حکمران کیلئے ایک آفت ہے ۔تاریخ اسلام میں اس کی بہتری مثالیں ہیں ۔ لوگوں کا در علیؑ کو چھوڑنا ، جنگ جمل میں خوارج کے نام سے ایک گروہ کا(لا حکم الا اللہ) کا نعرہ لگانا ، دور امام حسنؑ میں امام کو ایسے مقام پر تنہا چھوڑ جانا جہاں امام کو باطل سے صلح کی صورت زہریلا گھونٹ پینا پڑا اور سیاست سے انجان افراد نے آپ کے بھائی حسینؑ کو وہاں لا کھڑا کیا جہاں انہیں اپنے چھ مہینے کے بچے اور چار سالہ بچی کی قربانی دینا پڑی ،یہ سب واضح مثالیں ہیں۔
سیاست کے بدلتے رنگ کو سمجھنا نہایت ضروری ہے تاکہ ہم فرق کرسکیں کہ شیطانی اور الٰہی سیاست کا معیار کیا ہے۔ سیاست کی ناواقفیت ہی وجہ بنی کہ کچھ افراد نے امام علیؑ کو معاویہ سے زیادہ سیاست داں کہا۔ امام نے انکے جواب میں فرمایا: ( وَ اللَّهِ ما معاویہ بادهى منّى، و لكنّهُ يَغْدِرُ وَ يَفْجُرُ، وَ لَوْلا كَراهِيَةُ الْغَدْرِ لَكُنْتُ مِنْ أَدْهَی النّاس)
خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست مند نہیں لیکن وہ مکار و فریب دینے والا اور اگر مکروفریب گناہ نہ ہوتا تو میں سب سے زیادہ سیاست مند ہوتا۔
یہ سیاست کی پہلی باطل صورت یعنی شیطانی سیاست ہےجس کا معیارظلم، مکروفریب ، جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ بنی امیہ اور بنی عباس ایسی خلافت تھیں جنہوں نے سب سے پہلے سیاست کو دین سے جدا کیا اور پھر مفہوم سیاست میں تحریف کی ۔
سیاست کی دوسری باطل صورت جس کاحقیقت سیاست سے کوئی تعلق نہیں، شیطانی سیاست ہے۔ فقط معاشرہ کی مادی ضرورتوں کو مکروفریب اور تمام شیطنت کے بروئے کالاکر بخوبی انجام دیا جانا ۔ انسان کی تخلیق فقط کھانے پینے اور مادی خواہشات کی تکمیل کیلئے نہیں ہوئی بلکہ انسان روحانی مراحل بھی رکھتا ہےاور جس عالم کی طرف انسان کا مستقبل ہے، اس میں روحانیت کافی اہمیت کی حامل ہے۔لہٰذامعاشرہ میں فقط مادی سہولیات کا انتظام انسان کیلئے کبھی بھی کمال بخش نہیں ہو سکتا۔سیاست کی وہ حقیقت جس سے بعض افراد نا آشنا ہیں، وہ اسلامی سیاست ہے۔ اگر اس کے اہداف اور ثمرات کے بارے بات کریں تو ہمیں امام خمینی ؒ جیسی شخصیت ملتی ہے جس نے مکتب اہل بیت سے مستفید ہوکر اسلامی سیاست سے لوگوں کو آشنا کرایاجس کے نتیجے میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوا جس کے طاغوتی نظام کی قلعی کھول دی۔امام خمینی نے صحیح سیاسی فکر کو احیاء کیا اوراس پر عمل پیرا بھی ہوئے ۔
امام خمینی نے اپنی کتاب ’کشف الاسرار‘ میں دین و سیاست کے رابطہ کو بیان کیا ہے ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ سیاست کو دین سے جدا کرنا اور اس کی صورت کو بدنما بنانے کی ابتدا بنی امیہ و بنی عباس کی ۔ ایسا شخص جو دین و سیاست میں جدائی ڈالےگویا وہ ایسا ہے کہ اس نے ان دونوں میں سے کسی کو بھی نہیں سمجھا ۔ دیکھا جائےتودین و سیاست میں جدائی لانے کے سبب ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہم نے ماضی میں ان الٰہی رہنماؤں کو کھو دیا جو انسانیت کو نہایت بلند و بالامقام تک رسائی کی تھی۔
امام خمینی اور اسلامی رو سے اساس زندگی یہ ہے کہ انسان معنویت اور اخلاق الٰہی سے آراستہ ہو ۔وہ تمام مسائل جو انسانیت کے کمال و ہدایت کی راہ میں درپیش آئیں، ان کی آگاہی حاصل کرکے اسے معاشرے کیلئے فراہم کیا جائے۔ معاشرے کو سعادت کی راہ دکھانا ،اسلامی سیاست کی حقیقی شکل و صورت ہے۔
امام خمینی کی نگاہ میںاسلامی سیاست کی بنیادی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں :
اول: تمام قوانین کی بنیاد انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہوگی۔
دوسرے: حقیقی سعادت کا حامل ہونا یعنی دونوں عالم دنیا و آخرت میں سعادت مند ہونا۔
تیسرے :ہر حال میں انسان کی تمام جہتوں(جسم و روح ،مادیت و معنویت)کو کمال تک پہنچنا۔
چوتھے :مکروفریب، دھوکہ، ریا کاری ،اور تمام صفات شیطانی سے پاک ہونا۔
پانچویں :حدود الٰہی کو معاشرے میں نافذ کرنا۔
چھٹے :لوگوں کو مادی و معنوی دونوں طرح کی غلامی سے نجات دلانا تاکہ معاشرہ باطل سیاست کا شکار نہ ہو جائے اور غلامی کا طوق نہ پہن لے ۔
اسلامی سیاست کے اہداف کے بارہ امام خمینی کا صحیفہ امام میں کہنا ہے کہ’ اولاً لوگوں کو عقل و عدل کی راہ پر گامزن کرنا ہے تاکہ وہ کسی بھی صورت ظلم کے خلاف خاموش نہ بیٹھیں اور غلامی کی رسی ہرگز اپنی گردن پر قبول نہ کریں۔
تاریخ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ عاقل کبھی غلامی کی بدنامی اپنے سر نہیں لیتا،اور فساد برپا ہونے پر اس چیز کی ممانعت کرنا کہ کہیں لوگ فطرت انسانی سے خارج نہ ہو جائیں کیونکہ یہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مصیبت کہ وقت انسان ،انسانیت سے عاری ہو جاتا ہے جس کے سبب معاشرہ کی ساٹھ گانٹھ ، زیروزبر ہو جاتی ہے جو کہ اسلامی سیاست کیلئے ضرر رساں ہے۔اسلامی سیاست کی اگر بات چیت کی جائے تو اس کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے اس میں فقط مادیات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا بلکہ معاشرے کو ملکوتی سیر کرانا اسلامی سیاست کی خصوصیات میں شامل ہے ۔
دوسرافائدہ عدالت ہے جو یقیناً ایک بہترین معاشرہ کو تشکیل دینے کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ امام علیؑ فرماتے ہیں:سیاست کا معیار ہی عدالت ہے۔
الغرض! دیکھنا یہ ہے کہ ہم سیاست کو کس صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں :شیطانی یا اسلامی۔ یقیناً جو افراد فطرت انسانی کی حدود تجاوزکرچکے ہیں یا مادیات میں الجھے ہوئے ہیں، وہ شیطانی سیاست کے خواہاں ہیں لیکن جن کے اندر روحانیت ہے اور وہ مادیات کو فقط ضروریات زندگی جانتے ہیں اور صعودی راہ پر گامزن ہے، وہ یقیناً اسلامی سیاست کے طلبگار ہیں ۔ ایسی سیاست جس میں ان کے مقصد تک پہنچنے کے قوانین شامل ہوںاور جو معاشرہ میں عدل و انصاف کے راستہ پر چل کر سب کو ان کے حقوق اداکرے اورمظلوم کا ساتھ ، ظالم کے خلاف برسرپیکار رہے۔