سیاسی اور اجتماعی معاملات میں مذہب کا عمل دخل اور اس کی نوعیت پر ہونے والی بحث پرانی ہے۔ “اسلامی نظام کے نفاذ” کے نعرے کا استعمال سیاسی طور پر کیا جاتا رہا ہے لیکن اس میں نظرانداز کر دینے والی چیز عام طور پر یہ رہی ہے کہ یہ بتایا جائے کہ اس کا آخر مطلب کیا ہے۔ شہرزاد رحمان اور حسین عسکری نے اس کو ڈیفائن کرنے کی کوشش کی اور ایک اسلامی انڈیکس ترتیب دیا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مثالی اسلامی معاشرہ کیا ہے اور اس انڈیکس کے مطابق دنیا میں اسلامی ممالک کونسے ہیں؟
مذہب ممالک کی معاشی، اقتصادی، سماجی، قانونی اور سیاسی نظام پر اثرانداز ہوتا ہے۔ لیکن یہ اثر ہے کیا، اس کے فیکٹر کیا ہیں اور ان کی پیمائش کیسے کی جائے؟ یہ نکالنا آسان نہیں۔ اس میں اسلامی تعلیمات کو پانچ بڑی کیٹگریوں میں تقسیم کیا گیا۔ اللہ اور انسان کا تعلق اور اس حوالے سے انسان کی ذاتی ذمہ داری۔ دوسرا، معاشی نظام اور پالیسیاں اور معاشی انصاف۔ تیسرا نظامِ انصاف اور گورننس۔ چوتھا، انسانی اور سیاسی حقوق، پانچواں، آپسی اور بین الاقوامی تعلقات۔ اس میں پہلی کیٹگری کا تعلق فرد سے ہے، باقی کا اجتماعی نظام سے۔ اس لئے اسلامی معاشرے کے فیکٹرز کے لئے ان چار کو استعمال کیا گیا اور چار الگ انڈیکس بنائے۔ ہر انڈیکس کو بنانے کے لئے فیکٹرز کا انتخاب کیا اور پھر ان کی پیمائش کا۔ اس فہرست میں کل فیکٹر 113 تھے، جو کچھ اس طرح کے تھے۔
معاشی اسلامی انڈیکس میں معاشی آزادی، کاروبار کرنے کی آسانی اور آزادی، معاہدوں پر عملدرآمد کروانے میں آسانی، روزگار کے مساوی مواقع، تعلیم کے برابر مواقع، موٗثر تعلیمی نظام، ٹیکس کا نظام جو معاشی ناہمواری کم کرنے میں مدد کرے، کرپشن اور بدعنوانی کا نہ ہونا، معاشی استحصال نہ کئے جانا، غرباء کے لئے سیفٹی نیٹ، صحت کی سہولیات کی دستیابی وغیرہ تھا۔
قانونی اسلامی انڈیکس میں سیاسی استحکام، عدم تشدد، احتساب کا نظام، قانون کی حکمرانی، حکومتی رِٹ، عدلیہ کی آزادی، غیرجانبدار عدالتیں، سیاسی اور عسکری مداخلت سے آزاد نظامِ انصاف جیسے فیکٹر تھے۔
انسانی اور سیاسی حقوق کے اسلامی انڈیکس میں سیاسی آزادی، سول رائٹس، سیاسی بنیادوں پر قتل و غارت نہ کئے جانا، خواتین اور اقلیتی حقوق شامل تھے۔
تعلقات کے انڈیکس میں وسائل اور ماحول کی حفاظت، پانی یا قدرتی وسائل کا دانشمندانہ استعمال، کمزوروں اور دوسری مخلوقات کی حفاظت، عالمی برادری کا موٗثر شہری ہونا، انفارمیشن کی آزادی اور ملک کے رِسک کا انڈیکس شامل تھے۔
ان فیکٹرز کے مطابق رینک کرنے کے بعد اگلا سوال یہ کہ دنیا کے 208 ممالک میں سے اسلامی ممالک کونسے ہیں؟ دنیا میں کچھ ممالک ایسے ہیں جو قانونی طور پر اپنے آپ کو اسلامی ممالک کہتے ہیں (افغانستان، بحرین، ایران، ماریطانیہ، عمان، پاکستان، سعودی عرب اور یمن)۔ ان کے علاوہ بارہ ممالک ایسے ہیں جن کا سٹیٹ ریلیجن اسلام ہے (الجزائر، بنگلادیش، مصر، عراق، کویت، لبیا، ملیشیا، مالدیپ، مراکش، قطر، تیونس اور متحدہ عرب امارات)۔ اس رپورٹ میں او آئی سی کی رکنیت رکھنے والے ممالک، جن میں مسلمان آبادی اکثریت میں ہو، ان کو اسلامی ممالک کہا گیا ہے اور ان کی تعداد 56 ہے۔
جب ان تمام فیکٹرز کو دنیا کے ممالک پر اپلائی کر کے رینک کیا گیا تو تصویر زیادہ اچھی نہیں نکلی۔ اوسطا، اسلامی ممالک کا رینک اس فہرست میں 139 نمبر پر تھا جبکہ او ای سی ڈی کے ممالک کا اوسط نمبر ان میں 25 نمبر پر تھا۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی اعتراض کرنے کہ یہ والی اقدار بھی بھلا کوئی اسلامی اقدار ہیں۔ ایسا اعتراض ضرور کیا جا سکتا ہے، لیکن کوئی نہ کوئی معیار تو بنانا ہی ہے نا۔ (اس رپورٹ کے فیکٹرز اور ان تک پہنچنے کے طریقے کو ساتھ لگی رپورٹ میں دیکھا جا سکتا ہے)۔
یہ رپورٹ 2010 میں بنائی گئی، تو پھر اس عوامل کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ اسلامی ممالک کونسے ہیں؟ اس فہرست میں دنیا میں سب سے زیادہ “اسلامی ملک” نیوزی لینڈ ہے جبکہ ٹاپ ٹین کے دوسرے ممالک میں نیوزی لینڈ، لگزمبرگ، آئرلینڈ، آئس لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیدرلینڈ شامل ہیں۔ مسلمان آبادی کی اکثریت رکھنے والے ممالک میں اسلامی انڈیکس کے حساب سے سرِفہرست ملیشیا ہے جس کا نمبر 38 ہے، کویت 48ویں نمبر پر آتا ہے۔ مسلمان آبادی کے دوسرے اہم مراکز میں یوگینڈا 73، ترکی 103، سعودی عرب 131، انڈونیشیا 140، پاکستان 147، بنگلہ دیش 152، مصر 153، ایران 163، نائیجیریا 174، سوڈان 202 ویں نمبر پر ہے۔
اسلامی نظام کیا ہے؟ اور کیا یہ محض خواب اور غیرعملی نعرے بازی ہے؟ اس پر ہونے والی بحثیں اہلِ علم کے لئے، لیکن اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے ان 113 فیکٹرز کو بہتر بنانے کی عملی جدوجہد پر عام اتفاق رکھنا مشکل نہیں ہو گا۔