اسلامی ملک میں جماعت اسلامی کیوں ناکام؟
جی جناب جماعت اسلامی سے زیادہ منظم کوئ جماعت نہیں ہے۔ ملک کے چپے چپے میں ان کے ورکرز اور فلاحی ادارے موجود ہیں۔
یہ جماعت الیکشن سے الیکشن تک اپنی استطاعت کے مطابق اپنے ہموطنوں کی خدمت میں ہر تعصب سے بالاتر ہو کر مصروف عمل رہتی ہے. صرف الخدمت فاؤنڈیشن کے کسی ایک شعبے کا جائزہ لے لیں تو اندازہ ہو جائے گا. تو پھر کیا وجہ ہے کہ عوام میں ان کی بھرپور پذیرائ نہیں ہوتی؟
آج ایک فیسبک دوست کی پوسٹ میں لکھا تھا کہ میرے بچپن میں ہمارے والد صاحب جماعت اسلامی کے کارکن تھے۔ محلے کے ایک جیالے انکل جو بھٹو کے شیدائ تھے وہ ہمیشہ فطرہ زکوات کی رقم جماعت اسلامی کو دینے والد صاحب کے پاس آتے تھے لیکن ووٹ ہمیشہ پیپلز پارٹی کو دیتے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے پوچھا کہ انکل یہ کیا بات ہوئ کہ آپ زکوات فطرہ ہمیشہ جماعت اسلامی کو دیتے ہیں اور ووٹ پیپلز پارٹی کو۔۔۔
انکل نے جواب دیا کہ بیٹا مجھے پتہ ہے کہ جماعت اسلامی والے میری رقم ضائع نہیں کریں گے بلکہ درست جگہ لگائیں گے جبکہ ووٹ میں پیپلز پارٹی کو ہی دیتا ہوں کیونکہ وہ میرا ووٹ ضائع نہیں کریں گے۔.
اس سے ان صاحبہ نے اپنے بچکانہ ذہہن سے یہ اندازہ لگایا کہ جماعت اسلامی ایماندار ہے لیکن ان کو سیاست نہیں آتی جبکہ پیپلز پارٹی بیشک بئیمان ہو لیکن ان کو سیاست آتی ہے۔
جہاں تک میری ناقص رائے ہے وہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت میں موثر طور پر گفتگو اور تقریر کا فقدان ہے۔ سراج الحق صاحب کی ایمانداری و پرہیز گاری میں کوئ شک و شبہ نہیں لیکن ان کی گفتگو و تقریر بالکل پھیکی اور غیر موثر ہوتی ہے۔ ان کا لہجہ اور گفتگو ایسی محسوس ہوتی ہے جیسے کہ کوئ پرائمری استاد بمشکل اردو بولتے ہوئے اپنے طلبا کو کچھ سمجھانے کی کوشش کررہا ہے۔ اور تقریبا یہی حال جماعت کی پالیسیز کا؛ شدید کنفیوز قسم کی۔ ۔ غیر ضروری اور دو طرفہ بیانات جنھیں کوئی بھی سنجیدہ نہیں لیتا۔ ۔
اسلامی کا پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال میں عمل دخل اس لئے بھی کم ہوتا جا رہا ہے کہ اس جماعت کو ہر حال میں اپنا اسلامی تشخص و وقار برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ تحریر و تقریر میں زرا سی بھی لغزش پر عوام ان پر چڑھ دوڑتے ہیں کہ کیا ایک جماعت اسلامی کو یہ انداز گفتگو زیب دیتا ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کو متنازعہ قسم کی نام نہاد دینی جماعتوں سے اتحاد کرنے میں بھی انتہائ احتیاط سے کام لینا چاہئے۔
مودودی صاحب کا ذاتی کردار بے لوث و بے داغ تھا
۔
گالیاں نعرے لعن طعن اور مکہ لات و پین دی سری والی جماعتیں راتوں رات مقبول ہوجاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال TLP کی ہے جو چند ماہ میں انتہائ مقبول ہوگئ جبکہ ان کے سربراہ کی انتہائ نازیبا بلکہ گالی گفتار بھری گفتگو پر کوئ انگلی نہی اٹھاتا کہ کیا حرمت رسول ص کے پاسداروں کی زبان ایسی ہونی چاہئے؟ درحقیقت ہم خواہ دینی و مزہبی رحجان رکھتے ہوں یا خود کو لبرل یا اعتدال پسند کہتے ہوں اندر سے ہم سب ایک جیسے ہیں۔ ہماری قوت برداشت اور اخلاقیات تباہ ہوچکی ہیں۔ ہم ہر جگہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہتے ہیں۔ آج کی سیاست میں گولی اور گالی ہی کامیاب ہے ۔ سچ پوچھئے تو پاکستانی سیاست میں سراج الحق جیسے انتہائ شریف اور فرشتہ صفت انسان کی جگہ نہیں ہے۔ قاضی حسین احمد کے بعد سے جماعت اسلامی کو کوئ پرجوش اور متحرک قیادت نصیب نہیں ہوئ۔ قاضی صاحب کو دنیا سے گئے عرصہ بیت گیا لیکن آج تک ظالمو قاضی آرہا ہے کا نعرہ مشہور ہے۔
جماعت اسلامی کو ترکی قیادت کا رول ماڈل اپنانا چاہئے اور عوام میں مقبول ہونے کے لئے ایک موثر و متحرک قیادت کا انتخاب کرنا چاہئے جوصرف اسلام کے نام علاوہ قوم کو ایک ماڈرن
ویژن بھی دے سکے۔
اس سلسلے میں جماعت اسلامی کو اپنے سیٹ اپ میں کچھ ایسی تبدیلیاں لانی چاہئیں کی امیر جماعت کی حیثیت ایک سپریم لیڈر کی ہو جو خود کو عوامی اجتماعات و سیاست سے دور رکھے لیکن سیاست و عوام سے رابطے کے لئے ایک نوجوان اور اعل تعلیم یافتہ متحرک قیادت منتخب کی جائے جو سپریم لیڈر یا امیر جماعت کی رہنمائ میں زیادہ موثر طریقے سے عوام کو اپنی جانب راغب کرسکے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔