نشہ آور اشیاء دنیا کے ہر معاشرے میں تاریخ میں رہی ہیں۔ ان میں سے ایک اس قدر مقبول ہے کہ دنیا میں ہر جگہ پر مل جائے گی اور ہر نسل، مذہب، طبقے اور جنس کے لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں۔ مقبول ہونے کے باجوجود یہ کسی ملک میں منع نہیں۔ اس کو استعمال کرتے ہمیں ایک ہزار سال سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن ابھی تو بس اس کا آغاز ہی ہوا ہے۔ یہ کہانی کافی کی ہے، جو ایک وقت میں اسلامی مشروب کہلاتا تھا۔
ایک چرواہا کالدی بکریاں چراتے ہوئے جنوبی ایتھیوپیا میں ایک عجیب طرح کی جھاڑی کے قریب سے گزرا۔ اس کی بکریوں نے اس جھاڑی پر منہ مارا۔ کالدی نے دیکھا کہ اس جھاڑی کا پھل کھا کر ان کا رویہ بدل گیا ہے اور وہ مستیاں کرنے لگی ہیں اور چاق و چوبند ہو گئی ہیں۔ کالدی کو تجسس ہوا کہ ان پھلوں کو اگر وہ خود کھائے تو اس پر کیا اثر ہو گا؟ کالدی نے ان کو منہ میں ڈلا اور پھر رقص کرنے لگا۔ یہ کافی کی ابتدا کی لوک کہانی ہے۔ اور نہیں، یہ درست نہیں۔ ہر لوک کہانی کی طرح یہ غلط تو ہے لیکن اس میں سچ کی کچھ رمق بھی ہے۔ چائے کا آغاز چین سے ہوا جبکہ کافی کا ایتھیوپیا سے۔ دماغ کی حالت بدلنے والے یہ نشہ آور پودے آج دنیا بھر میں مقبول ہیں۔
اس کو ابتدا میں مشروب کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کے بیج بھوک دباتے ہیں اور نیند بھگانے میں مدد کرتے ہیں۔ اس سے دل کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ اس کی عادت پڑ جاتی ہے۔ کوئی بھی، جس کو اپنے ریوڑ کی حفاظت کرنا ہو یا رات کو لمبا سفر کرنا ہو، اس کے لئے ان بیجوں کا استعمال کرنے کی واضح وجہ تھی۔ لیکن اس کی دلچسپ ترین کہانی اس کی تاریخ یا اس کے اثر کی نہیں بلکہ اس کے دنیا کے گرد ہونے والے سفر کی ہے، جو انسانی کہانی کا ایک اور مزے دار باب ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارا ایک دوسرے سے رابطہ کرنا اور تعلق بنانا کیا کچھ کر دیتا ہے۔ اور اس کی کہانی پرت دار گلوبلائیزیشن کی کہانی ہے۔
اس کے چھوٹے سے پھل چرواہوں نے دریافت کئے یا کسی اور نے، ان کی اصل اہمیت دریافت کرنے والے یہ چرواہے نہیں تھے۔ انہوں نے اس کو پہلی بار کشید کر کے مشروب نہیں بنایا تھا۔ ایتھیوپیا سے باہر نکلنے والے بیج دنیا بھر میں پھیلے لیکن چار سو سال تک ایتھیوپیا کے کلچر کا حصہ ہی نہیں بنے۔ جب انسان کسی چیز سے متعارف ہوتے ہیں تو تجربے کرتے ہیں۔ جب ہم کسی نئی چیز کا سامنا کرتے ہیں تو اس کو اس طرح اپناتے ہیں جیسا کہ ان لوگوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا جو اس سے بہت عرصے سے واقف ہوتے ہیں۔ پرانے خیالات پر پڑنے والی نئی نگاہیں، پرانی چیز کو نیا روپ دے دیتی ہیں۔ یہ تجارت کی خوبصورتی ہے۔ یہ سفر کی اہمیت ہے اور یہ گلوبلائیزیشن کی طاقت ہے۔
صوفیوں نے تمام رات عبات میں صرف کرنی تھی۔ یہ بیج ان کے لئے بڑے کام کی چیز تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ اگر ان کو روسٹ کیا جائے اور ابالا جائے تو ان میں کڑواہٹ کم ہو جاتی ہے۔ ان صوفیوں نے اپنے گرد لوگوں کو ان بیجوں کی کہانی بتانا شروع کی۔ ان جادوئی بیجوں کا استعمال روزہ داروں نے شروع کیا کہ یہ بھوک کو دباتے ہیں۔ یمن میں بنائی گئی موکا کافی کی ترکیب آج بھی دنیا بھر میں مقبول ہے۔ کافی رسم بھی اور پھر روایت۔ افریقہ سے نکل کر ان بیجوں سے بنایا گیا مشروب اسلامی مشروب کہلایا۔
اس کا اسلام سے تعلق اس قدر گہرا تھا کہ اس کا تجارتی نام “مکہ” تھا۔ ایک نسل میں ہی یہ اس قدر پھیلا کہ اسلامی سلطنت میں ہزاروں میل دور تک پھیلے شہروں میں داخل ہو گیا۔ اس کے پیالوں کے گرد جمع ہوتے۔ نئے کلچر میں اس کے پہنچنے پر لوگ اس کو اپنے منفرد طریقے سے اپنی زندگیوں میں داخل کرنے لگے۔ پندرہویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کافی کا ایک بہت بڑا صارف تھا۔ اس کو بنانے کے نئے طریقے، استعمال کرنے کے نئے طریقے سامنے آنا شروع ہو گئے۔ یہ مسجدوں سے نکلا، قہوہ خانوں تک پہنچا اور پھر عام لوگوں کے گھروں تک۔ اس چھوٹے سے پھل کے نشے نے سلطنت کو لیپٹ میں لے لیا۔
عام فرد کے گھر میں آ جانے کی وجہ سے اس کا اسلامی سلطنت کی حدوں کو پار کرنا ممکن ہو گیا۔ یورپ کے مذیبی کرسچن مذہبی مسلمانوں کی طرف سے آنے والی کسی بھی روایت کو اپنانے میں مزاحمت کرتے لیکن عام فرد کے گھر سے اس کو چرانا ایک الگ بات تھی۔ اس نے کرسچن یورپ کا رخ کر لیا۔
سترہویں صدی میں کافی کو یورپ میں جا کر نئی شناخت ملی۔ یورپ میں مے خانوں کا رواج تھا۔ لوگوں کے اکٹھا ہونے اور بات چیت کرنے کی جگہ وہ مشروب تھا جو سوچنا بند کروا دیتا ہے۔ نئے کھلنے والے قہوہ خانوں میں اب ان کے پاس وہ مشروب آ گیا جس کا اثر اس کا الٹ ہوتا تھا۔ یہ کسی کو پہلے سے بھی زیادہ ہوشیار کر دیتا تھا اور سوچ کو تحریک دیتا تھا۔ 1665 میں برطانیہ میں پہلی مرتبہ کھلنے والا کافی ہاوؐس لندن کا گریکین کافی ہاوٗس تھا جس میں آئزک نیوٹن، ہیلے، جیمز ڈگلس جیسے سائنسدان مل کر بیٹھا کرتے تھے جنہوں نے رائل سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ سیاست دان، شاعر، سکالر، ادیب یہاں ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کیا کرتے۔ یہ مشروب مذہبی شناخت سے نکل کر ایک بالکل مختلف راستہ نکال بنا چکا تھا۔ (سائنس کے مورخ سٹیون جانسن کے مطابق سائنسی انقلاب میں ایک بڑا کردار مے خانوں کی جگہ قہوہ خانوں کے لینے کا رہا ہے)۔
سیاست اشرافیہ اور امراء سے نکل کر عام لوگوں تک پہنچ گئی تھی۔ کافی باتیں کرنے میں مدد کرتی تھی۔ عام لوگوں میں سیاست پر ہونے والی باتیں کافی کے گرد ہوا کرتی تھیں۔ جس طرح یورپ میں اس کا استعمال بڑھا، ویسے ہی اس کی پروڈکشن کو قابو میں کرنے کی خواہش کا بھی۔ سترہویں صدی میں ڈچ تاجروں نے پہلی بار اس کے پلانٹ لگائے۔ اب اس پر اسلامی مشروب کا لیبل نہیں رہا تھا۔ یہ عالمی تجارت کا سمبل بن گیا تھا۔ آج اٹلی ہو، ترکی یا امریکہ، کافی کی دکانوں کے بغیر ادھورا لگتا ہے۔ سٹاربکس کی کافی آج دنیا میں سب سے منافع بخش مشروب ہے۔ ایسپریسو سے فراپاچینو تک اس کی درجنوں شکلیں، کئی طرح کے کلچروں کے آپس میں گڈمڈ ہو جانے کی لمبی تاریخ کا نتیجہ ہیں۔
برِصغیر میں کافی پہلی مرتبہ 1600 کے قریب پہنچی جب حج کرنے کے لئے جانے والے صوفی بابا بڈھن نے اس کا مکہ میں استعمال دیکھا اور خوشبودار قہوے سے متعارف ہوئے۔ ان کے لائے گئے بیج چکماگولار میں بوئے گئے۔ جنوبی انڈیا میں یہ اگائی جاتی رہی لیکن محدود پیمانے پر رہی۔ برصغیر میں اس کا بڑے پیمانے پر داخلہ یورپی کالونیل دور میں ہوا۔ پہلے ڈچ اور پھر برطانوی کالونسٹ اس کو ساتھ لے کر آئے۔ مقامی مشروب سوما بیرونی مشروبات کی آمد سے ختم ہو گیا۔ کافی اس خطے میں یہ ایک اور مشروب “چائے” کا مقابلہ نہ کر سکا لیکن اب گلوبلائزیشن کی اکیسویں صدی میں آنے والی اگلی لہر اس کو ایک مرتبہ پھر اس کو زندگی دے رہی ہے۔
ایک پھل جس نے چرواہوں کو رات کا سفر کروایا تھا، صوفیوں کے رت جگوں میں مدد کی تھی، ترکی کی گھریلو زندگی برطانیہ کی سیاست اور سائنس، یورپ کے امپیریل فارمز سے گزر کر دنیا کو بدلتا رہا اور دنیا نے اس کو بدل دیا۔ اس سیارے میں بکھرے کلچرز اس کو اپناتے گئے، اس کو بدلتے گئے۔ یہ تجارت کی خوبصورتی کا بیج بن گیا، پرت دار گلوبلائیزڈ دنیا کی قدر کا۔
اور ہاں، اس دوران ایتھیوپیا میں کیا ہوا؟ آج کے ایتھیوپیا میں یہ مقبول ہے۔ ہر جگہ سے مل جائے گی۔ ہر کسی کے ہاتھ میں ہو گی۔ یہ ایتھیوپیا کا عوامی مشروب ہے۔ لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ ایتھیوپیا دنیا کے آخری ممالک میں سے تھا جس نے اسے اپنے کلچر میں آنے کی اجازت بھی دی تھی۔ ان کے پاس بیج تو تھے لیکن ایتھیوپیا ایک کرسچن ملک تھا۔ قدامت پرست ایتھیوپین کے لئے یہ اسلامی مشروب تھا۔ جب تمام دنیا نے اسے اپنا لیا تو یہ دنیا کا چکر لگا کر واپس اپنی جائے پیدائش تک واپس پہنچا۔ اس کے بعد ان کو اس بیج کا پتا لگا جو ان کے پاس تو ہمیشہ سے تھا۔
صدیوں تک مزاحمت کرنے کے بعد 1880 میں ایتھیوپیا میں اس پر عائد کردہ پابندی ہٹا لی گئی۔ صوفیوں کا اسلامی مشروب عالمی مشروب بن چکا تھا۔ ذہنی رکاوٹ کے ہٹ جانے کے بعد کافی کے بیجوں کا گھر سے نکل کر ساری دنیا میں پھر کر واپس گھر پہنچنے کا سفر مکمل ہو گیا۔
اس پر ویڈیو